حسن کرشمہ ساز
سندھ میں حیدرآباد کے علاوہ کئی بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی ایم کیو ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
ماشاء اﷲ عمران خان نے اپنی انتخابی مہم کا باقاعدہ آغاز لاہور سے کردیا ہے، زندہ دلان لاہور نے حسب روایت اس جلسے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ خوب سماں باندھا، تحریک انصاف کے قائد نے اپنے تمام سیاسی جلسوں کا پروگرام پہلے ہی جاری کردیا تھا کہ فلاں تاریخ فلاں جگہ جلسہ عام ہوگا اس پروگرام میں وزیرستان تک میں جلسے کی تاریخ دی گئی ہے، بہر حال لاہور سے سیاسی جدوجہدکے آغاز اور بعد کے جلسہ عام میں وہ بالکل محفوظ اور کامران رہے...ہمارا مطلب ہے کہ ان کو کسی قسم کی مزاحمت یا کسی دھونس دھمکی کا سامنا نہیں کرنا پڑا، کسی نے اشارتاً بھی یہ نہ کہا کہ اگر تم نے فلاں جگہ جلسہ کیا تو خودکش دھماکہ یا فائرنگ کا امکان ہوسکتاہے یا کوئی سانحہ پیش آسکتاہے۔
دوسری جانب (ن)لیگ کے قائد بھی بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم بلا خوف وخطر چلارہے ہیں، وہ بھی ہر دھمکی یا خوف سے محفوظ ہیں، انہیں بھی بظاہر کسی قسم کا خطرہ ان عناصر سے نہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کو ہیں۔صرف تین سیاسی پارٹیاں ہیں جن کو دہشت گرد عناصر کی جانب سے نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے جبکہ دوسری پارٹیاں چھوٹی چھوٹی گلیوں میں کارنرمیٹنگز یا اپنے کارکنان اور عام ورکرز سے لیڈروں کا رابطہ بھی برداشت نہیں کہ وہ عناصر انہیں کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم بھی جو کہہ چکے ہیں وہ کریںگے، بھلا ایسے میں دہشت گرد عناصر کی نظر میں معتوب پارٹیاں اپنے ووٹر سے کیسے رابطہ قائم کریں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں، الیکشن کو پرامن وشفاف بنانے کے تمام ذمے داران کی کارکردگی کا ذکر تو ہم اپنے گزشتہ کالم میں کرچکے ہیں... مگر سوال یہ ہے کہ جب کچھ مخصوص سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹر تک پہنچ ہی نہ پائیںگی ان کے ووٹ ڈالنے کے بارے میں رہنمائی نہیں کریںگی تو موجودہ صورتحال میں وہ کس امید پر گھر سے نکلیں گے... ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پی پی پی کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈہ کرنے کے باوجود اس کو ووٹ ڈالنے والوں کی یا ان کے حمایتیوں کی کوئی تعداد ہی نہیں ہے پیپلزپارٹی کو چاہنے والوں اور حمایت کرنے والے اب بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں، اسی طرح اے این پی کے ووٹرز میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی... کراچی اور سندھ میں تو پہلے ہی اور اب تو تمام ملک میں ایم کیو ایم اپنی نچلے اور کچلے ہوئے استحصال زدہ طبقے کی حمایت کرکے بے حد مقبول اور مستحکم پارٹی بن چکی ہے ۔
سندھ میں حیدرآباد کے علاوہ کئی بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی ایم کیو ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، پنجاب، خیبر پختونخواہ میں بھی کئی امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، غرض یہ کہ اس پارٹی کا اثر ورسوخ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے... اب اگر یہ صورتحال صرف ان پارٹیوں کے لیے جاری رہی اور کسی بھی ذمے دار نے آگے بڑھ کر اس پر قابو نہ پایا اور ان تمام پارٹیوں کو قومی انتخابی دھارے میں شامل ہونے کے مواقعے نہ دیئے تو کیا ایسے انتخابات صاف وشفاف اور غیر جانبدار کہلایں گے؟ ہر گز نہیں اگر ان پارٹیوں نے ''تنگ آمد بجنگ آمد''کے مصداق کسی ایک نے بھی احتجاجاً انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا یا بعد میں نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو ملک کی صورتحال کیا ہوگی؟ یا کسی نے اس زاویے سے سوچنے کی زحمت کی ہے(ماضی میں نتائج تسلیم نہ کرنے کے بارے میں بڑا خوفناک تجربہ موجودہے)۔
تمام بڑے بڑے قرض نادہندہ،چھوٹی بڑی کئی بد عنوانیوں میں ملوث افراد، سپریم کورٹ پر حملے کے ذمے داران، قوم سے ایک دن کی تنخواہ لے کر ہڑپ کرجانے والے،بعض تحریکوں کی درپردہ پشت پناہی کرنے والے سب ہی تو احتسابی چھلنی سے با حفاظت نکل گئے ہیں اور پھر ماشاء اﷲ سوائے وزارت عظمیٰ کے کسی اور نشست کا خیال بھی ان کے دل توانا میں نہیں آتا...ملک میں کم از کم دو لیڈران تو ایسے ہیں جو صرف وزیراعظم ہی بننے لگے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی سیٹ انہیں منظور نہیں، لہٰذا قوم کو قبل از وقت ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اس بار انتخابات کے نتیجے میں ایک کی بجائے دو وزیراعظم ملیں گے۔
دوسری جانب (ن)لیگ کے قائد بھی بھرپور انداز میں اپنی انتخابی مہم بلا خوف وخطر چلارہے ہیں، وہ بھی ہر دھمکی یا خوف سے محفوظ ہیں، انہیں بھی بظاہر کسی قسم کا خطرہ ان عناصر سے نہیں جو دوسری سیاسی پارٹیوں کو ہیں۔صرف تین سیاسی پارٹیاں ہیں جن کو دہشت گرد عناصر کی جانب سے نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے جبکہ دوسری پارٹیاں چھوٹی چھوٹی گلیوں میں کارنرمیٹنگز یا اپنے کارکنان اور عام ورکرز سے لیڈروں کا رابطہ بھی برداشت نہیں کہ وہ عناصر انہیں کھلی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم بھی جو کہہ چکے ہیں وہ کریںگے، بھلا ایسے میں دہشت گرد عناصر کی نظر میں معتوب پارٹیاں اپنے ووٹر سے کیسے رابطہ قائم کریں؟
قانون نافذ کرنے والے اداروں، الیکشن کو پرامن وشفاف بنانے کے تمام ذمے داران کی کارکردگی کا ذکر تو ہم اپنے گزشتہ کالم میں کرچکے ہیں... مگر سوال یہ ہے کہ جب کچھ مخصوص سیاسی پارٹیاں اپنے ووٹر تک پہنچ ہی نہ پائیںگی ان کے ووٹ ڈالنے کے بارے میں رہنمائی نہیں کریںگی تو موجودہ صورتحال میں وہ کس امید پر گھر سے نکلیں گے... ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پی پی پی کے خلاف شدید منفی پروپیگنڈہ کرنے کے باوجود اس کو ووٹ ڈالنے والوں کی یا ان کے حمایتیوں کی کوئی تعداد ہی نہیں ہے پیپلزپارٹی کو چاہنے والوں اور حمایت کرنے والے اب بھی لاکھوں کی تعداد میں ہیں، اسی طرح اے این پی کے ووٹرز میں بھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی... کراچی اور سندھ میں تو پہلے ہی اور اب تو تمام ملک میں ایم کیو ایم اپنی نچلے اور کچلے ہوئے استحصال زدہ طبقے کی حمایت کرکے بے حد مقبول اور مستحکم پارٹی بن چکی ہے ۔
سندھ میں حیدرآباد کے علاوہ کئی بڑے شہروں اور چھوٹے چھوٹے قصبات میں بھی ایم کیو ایم نے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، پنجاب، خیبر پختونخواہ میں بھی کئی امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، غرض یہ کہ اس پارٹی کا اثر ورسوخ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے... اب اگر یہ صورتحال صرف ان پارٹیوں کے لیے جاری رہی اور کسی بھی ذمے دار نے آگے بڑھ کر اس پر قابو نہ پایا اور ان تمام پارٹیوں کو قومی انتخابی دھارے میں شامل ہونے کے مواقعے نہ دیئے تو کیا ایسے انتخابات صاف وشفاف اور غیر جانبدار کہلایں گے؟ ہر گز نہیں اگر ان پارٹیوں نے ''تنگ آمد بجنگ آمد''کے مصداق کسی ایک نے بھی احتجاجاً انتخابات سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا یا بعد میں نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تو ملک کی صورتحال کیا ہوگی؟ یا کسی نے اس زاویے سے سوچنے کی زحمت کی ہے(ماضی میں نتائج تسلیم نہ کرنے کے بارے میں بڑا خوفناک تجربہ موجودہے)۔
تمام بڑے بڑے قرض نادہندہ،چھوٹی بڑی کئی بد عنوانیوں میں ملوث افراد، سپریم کورٹ پر حملے کے ذمے داران، قوم سے ایک دن کی تنخواہ لے کر ہڑپ کرجانے والے،بعض تحریکوں کی درپردہ پشت پناہی کرنے والے سب ہی تو احتسابی چھلنی سے با حفاظت نکل گئے ہیں اور پھر ماشاء اﷲ سوائے وزارت عظمیٰ کے کسی اور نشست کا خیال بھی ان کے دل توانا میں نہیں آتا...ملک میں کم از کم دو لیڈران تو ایسے ہیں جو صرف وزیراعظم ہی بننے لگے ہیں اس کے علاوہ اور کوئی سیٹ انہیں منظور نہیں، لہٰذا قوم کو قبل از وقت ہم مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اس بار انتخابات کے نتیجے میں ایک کی بجائے دو وزیراعظم ملیں گے۔