مشتاق احمد یوسفی زندہٴ جاوید مزاح نگار
مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کا اصل لطف انکی تخلیقات کو حرف بہ حرف پڑھنے میں ہے، شانِ یوسفی تبھی سمجھ میں آئے گی
''مشتاق احمد یوسفی کا انتقال ہوگیا،'' گھر میں داخل ہوتے ہی یہ پہلا جملہ تھا جو میری سماعت سے ٹکرایا۔ ایک لمحے کو دل بیٹھتا ہوا محسوس ہونے لگا لیکن اگلے ہی لمحے کچھ سوچ کر چہرے پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب یوسفی کے پاس منکر نکیر آئیں گے اور سوال جواب کریں گے تو وہ چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت اور آبِ گُم اپنے پہلو سے نکال کر فرشتوں کے سامنے کردیں گے اور کہیں گے: ''یہ چھوڑ آئے ہیں!''
(اس جملے کا درست مفہوم صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے واقعتاً یوسفی کا مطالعہ کر رکھا ہو۔)
سوشل میڈیا کھولا تو کم و بیش ہر تیسرا فرد مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر feeling sad والی پوسٹ لگائے بیٹھا تھا؛ اور اکثر و بیشتر ''اُردو مزاح کا عہدِ یوسفی ختم ہوا'' ہی کی گردان کررہے تھے۔ البتہ ایسی زیادہ تر پوسٹوں کا انداز پُکار پُکار کر کہہ رہا تھا کہ ان کے ''تخلیق کاران'' مشتاق احمد یوسفی کو صرف نام کی حد تک، یا پھر سطحی طور پر ہی جانتے ہیں۔
ہماری ''ڈاٹ کام جنریشن'' کا المیہ ہے کہ وہ ''اطلاع'' اور ''علم'' میں فرق نہیں کرسکتی جبکہ چھوٹی چھوٹی، سطحی پوسٹیں ''پڑھنا'' اس کے نزدیک ''مطالعے'' کا ہم معنی ہے۔ اب ایسوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ صرف اُردو ادب ہی نہیں بلکہ دنیا کے مزاحی ادب میں حضرتِ مشتاق احمد یوسفی کا مقام کس قدر نمایاں اور بلند ہے۔
ہوسکتا ہے کہ میرا یہ اظہارِ خیال آپ کو جانبدارانہ محسوس ہو مگر اپنا معاملہ ''ہم تو سخن فہم ہیں، غالب کے طرف دار نہیں'' والا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیے: ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی انتقال کرگئے
لیکن صاحبو! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص ساری زندگی لوگوں کو اپنی تحریروں سے ہنساتا رہا ہو، اسے مُردہ قرار دے دیا جائے؟ ایسی عظیم ہستیاں تب تک زندہ رہتی ہیں جب تک انہیں پڑھ پڑھ کر مسکرانے اور سراہنے والے زندہ ہیں... اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اُردو زبان زندہ ہے، مشتاق احمد یوسفی بھی زندہ رہیں گے۔ وہ بلاشبہ ایک زندہٴ جاوید مزاح نگار ہیں۔
ویسے تو جنابِ یوسفی سے میرا تعارف اسکول ہی کے زمانے میں اُن کی تصنیف ''چراغ تلے'' کے توسط سے ہوگیا تھا لیکن تب میری اردو اور سوچ، دونوں ہی اس قدر پختہ نہ تھیں کہ اس ادبی شہپارے کو درست طور پر سمجھ سکتیں یا اس سے لطف اندوز ہوسکتیں۔ پھر یوں ہوا کہ 1989 میں جناب مشتاق احمد یوسفی کی ''آبِ گم'' شائع ہوگئی۔ اُن دنوں میں ''شاہکار بُک فاؤنڈیشن'' میں نیا نیا ملازم ہوا تھا جہاں استادِ محترم سیّد قاسم محمود نے پہلی فرصت میں یہ کتاب، ادارے کی لائبریری کےلیے منگوا لی۔ وہیں پر دو تین مرتبہ اسے پڑھنے کی کوششیں کیں جو ناکام ثابت ہوئیں... ہر بار صرف چند صفحات کی ورق گردانی کرکے واپس الماری میں رکھ دی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: کچھ ذکر مشتاق احمد یوسفی کا
پھر جامعہ کراچی میں داخلہ ہوگیا اور 1993 میں عطاء بھائی (برادرم عطاء حسین) سے جناب مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کا راز معلوم ہوا: پہلی بار یوسفی کی کتاب کو تیزی تیزی پڑھ جاؤ اور کچھ بھی سمجھنے کی کوشش نہ کرو؛ دوسری بار سہج سہج کر، سمجھ سمجھ کر پڑھو؛ اور پھر جب تیسری بار تم یوسفی کی وہی کتاب پڑھ رہے ہوگے تو وہ صحیح معنوں میں تمہیں لطف دے گی۔
اس راز کی حقیقت جانچنے اور جاننے کےلیے ''آبِ گم'' لے آیا اور ٹھیک اُسی طرح پڑھنا شروع کردی جیسا عطاء بھائی نے مشورہ دیا تھا... اور آج یہ بھی یاد نہیں کہ آبِ گم، کتنی بار پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد جنابِ یوسفی کی پہلی تین کتابیں بھی اسی فارمولے کے تحت پڑھ ڈالیں؛ اور معلوم ہوا کہ عصرِ حاضر کو اُردو مزاحی ادب کا ''عہدِ یوسفی'' کیوں کہا جاتا ہے۔
یہ جناب مشتاق احمد یوسفی کا کمال ہے کہ وہ سنجیدہ تذکرے میں اچانک ہی مزاح کا پہلو نکال لیتے ہیں اور پڑھنے والا بے اختیار مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح وہ کسی پُر مزاح گفتگو میں کوئی سنجیدہ نکتہ کچھ یوں لے آتے ہیں کہ قاری کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہنستے ہنستے کب اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ''چراغ تلے'' سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
''...مفکر کہتا ہے کہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو گے زبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں۔ تاریخی کیلنڈر میں ان کا کہیں ذکر نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سکندر نے کس سن میں کون سا ملک فتح کیا لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکتا کہ بن مانس کون سے سن میں انسان بنا۔ اتنا تو اسکول کے بچے بھی بتا دیں گے کہ سیفو کب پیدا ہوئی اور سقراط نے کب زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا لیکن آج تک کوئی مؤرخ یہ نہیں بتا سکا کہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا، لڑکی کس ساعتِ نایاب میں عورت بنی، جوانی کس رات ڈھلی، ادھیڑ پن کب ختم ہوا اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا۔''
کہنے لگے ''برادر! ان سوالات کا تعلق تاریخِ یونان سے نہیں، طبِ یونانی سے ہے۔''
اسی طرح ''آبِ گم'' کے پہلے باب ''حویلی'' میں اپنے یارِ طرح دار، بشارت فاروقی کے سسر کا تعارف، اُن ہی کی زبانی، کچھ ایسے کراتے ہیں:
''وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویّوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تومیری عمر آدھی اِدھر، آدھی اُدھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہوگی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چُھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہےگی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جنے کیوں؟ گالی ان کا تکیہ کلام تھی۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔
ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا، جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کرلیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کرکے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔''
جب مزاح کی تعریف اور ہنسنے ہنسانے کا معاملہ ہو تو ''خاکم بدہن'' میں کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
''لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں؟ جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلا انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔''
قاضی واجد مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مزاح اور پھکڑ پن کے درمیان ایک باریک سی لکیر حائل ہے جسے عبور کرتے ہی اچھی خاصی مزاح نگاری، پھکڑ پن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ عصرِ حاضر کے بیشتر مزاح نگار اس فرق سے واقف نہیں اور مُصِر ہیں کہ ان کے پھکڑ پن کو بھی مزاح کے درجے پر فائز کیا جائے۔
یوسفی اس فرق سے بخوبی واقف تھے؛ اور اسی لیے وہ حد درجہ ناگفتنی بات بھی ایسی شائستگی سے، شیرینی میں ڈُبو کر پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا پہلے مرحلے پر زبان کی داد دیتا ہے اور مفہوم تک رسائی ہوجانے پر ہنستے مسکراتے ہوئے سر دُھنتا رہتا ہے۔ یہ عین وہی انداز ہے جس کی تقلید جناب انور مقصود نے بہت زیادہ کی ہے؛ اور غالباً اسی بناء پر وہ خود کو مشتاق احمد یوسفی کا شاگرد بھی کہتے ہیں۔
جی تو نہیں چاہ رہا لیکن یہ تحریر اس مشورے پر ختم کرتا ہوں کہ اگر آپ صحیح معنوں میں جناب مشتاق احمد یوسفی کے مقام سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو انہیں سوشل میڈیا پوسٹوں یا ادھورے سدھورے اقتباسات کے ذریعے ہر گز نہ پڑھیے... یوسفی کو پڑھنے کا اصل لطف تو اُن کی تخلیقات کو ورق در ورق، حرف بہ حرف پڑھنے میں ہے۔ شانِ یوسفی تبھی سمجھ میں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
(اس جملے کا درست مفہوم صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے واقعتاً یوسفی کا مطالعہ کر رکھا ہو۔)
سوشل میڈیا کھولا تو کم و بیش ہر تیسرا فرد مشتاق احمد یوسفی کے انتقال پر feeling sad والی پوسٹ لگائے بیٹھا تھا؛ اور اکثر و بیشتر ''اُردو مزاح کا عہدِ یوسفی ختم ہوا'' ہی کی گردان کررہے تھے۔ البتہ ایسی زیادہ تر پوسٹوں کا انداز پُکار پُکار کر کہہ رہا تھا کہ ان کے ''تخلیق کاران'' مشتاق احمد یوسفی کو صرف نام کی حد تک، یا پھر سطحی طور پر ہی جانتے ہیں۔
ہماری ''ڈاٹ کام جنریشن'' کا المیہ ہے کہ وہ ''اطلاع'' اور ''علم'' میں فرق نہیں کرسکتی جبکہ چھوٹی چھوٹی، سطحی پوسٹیں ''پڑھنا'' اس کے نزدیک ''مطالعے'' کا ہم معنی ہے۔ اب ایسوں کو کیسے سمجھایا جائے کہ صرف اُردو ادب ہی نہیں بلکہ دنیا کے مزاحی ادب میں حضرتِ مشتاق احمد یوسفی کا مقام کس قدر نمایاں اور بلند ہے۔
ہوسکتا ہے کہ میرا یہ اظہارِ خیال آپ کو جانبدارانہ محسوس ہو مگر اپنا معاملہ ''ہم تو سخن فہم ہیں، غالب کے طرف دار نہیں'' والا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیے: ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی انتقال کرگئے
لیکن صاحبو! بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ جو شخص ساری زندگی لوگوں کو اپنی تحریروں سے ہنساتا رہا ہو، اسے مُردہ قرار دے دیا جائے؟ ایسی عظیم ہستیاں تب تک زندہ رہتی ہیں جب تک انہیں پڑھ پڑھ کر مسکرانے اور سراہنے والے زندہ ہیں... اور میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جب تک اُردو زبان زندہ ہے، مشتاق احمد یوسفی بھی زندہ رہیں گے۔ وہ بلاشبہ ایک زندہٴ جاوید مزاح نگار ہیں۔
ویسے تو جنابِ یوسفی سے میرا تعارف اسکول ہی کے زمانے میں اُن کی تصنیف ''چراغ تلے'' کے توسط سے ہوگیا تھا لیکن تب میری اردو اور سوچ، دونوں ہی اس قدر پختہ نہ تھیں کہ اس ادبی شہپارے کو درست طور پر سمجھ سکتیں یا اس سے لطف اندوز ہوسکتیں۔ پھر یوں ہوا کہ 1989 میں جناب مشتاق احمد یوسفی کی ''آبِ گم'' شائع ہوگئی۔ اُن دنوں میں ''شاہکار بُک فاؤنڈیشن'' میں نیا نیا ملازم ہوا تھا جہاں استادِ محترم سیّد قاسم محمود نے پہلی فرصت میں یہ کتاب، ادارے کی لائبریری کےلیے منگوا لی۔ وہیں پر دو تین مرتبہ اسے پڑھنے کی کوششیں کیں جو ناکام ثابت ہوئیں... ہر بار صرف چند صفحات کی ورق گردانی کرکے واپس الماری میں رکھ دی۔
یہ بلاگ بھی پڑھیے: کچھ ذکر مشتاق احمد یوسفی کا
پھر جامعہ کراچی میں داخلہ ہوگیا اور 1993 میں عطاء بھائی (برادرم عطاء حسین) سے جناب مشتاق احمد یوسفی کو پڑھنے کا راز معلوم ہوا: پہلی بار یوسفی کی کتاب کو تیزی تیزی پڑھ جاؤ اور کچھ بھی سمجھنے کی کوشش نہ کرو؛ دوسری بار سہج سہج کر، سمجھ سمجھ کر پڑھو؛ اور پھر جب تیسری بار تم یوسفی کی وہی کتاب پڑھ رہے ہوگے تو وہ صحیح معنوں میں تمہیں لطف دے گی۔
اس راز کی حقیقت جانچنے اور جاننے کےلیے ''آبِ گم'' لے آیا اور ٹھیک اُسی طرح پڑھنا شروع کردی جیسا عطاء بھائی نے مشورہ دیا تھا... اور آج یہ بھی یاد نہیں کہ آبِ گم، کتنی بار پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد جنابِ یوسفی کی پہلی تین کتابیں بھی اسی فارمولے کے تحت پڑھ ڈالیں؛ اور معلوم ہوا کہ عصرِ حاضر کو اُردو مزاحی ادب کا ''عہدِ یوسفی'' کیوں کہا جاتا ہے۔
یہ جناب مشتاق احمد یوسفی کا کمال ہے کہ وہ سنجیدہ تذکرے میں اچانک ہی مزاح کا پہلو نکال لیتے ہیں اور پڑھنے والا بے اختیار مسکرانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح وہ کسی پُر مزاح گفتگو میں کوئی سنجیدہ نکتہ کچھ یوں لے آتے ہیں کہ قاری کو اندازہ ہی نہیں ہو پاتا کہ ہنستے ہنستے کب اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ ''چراغ تلے'' سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
''...مفکر کہتا ہے کہ عظیم انقلابات کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو گے زبردست تبدیلیاں ہمیشہ دبے پاؤں آتی ہیں۔ تاریخی کیلنڈر میں ان کا کہیں ذکر نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ سکندر نے کس سن میں کون سا ملک فتح کیا لیکن یہ کوئی نہیں بتاسکتا کہ بن مانس کون سے سن میں انسان بنا۔ اتنا تو اسکول کے بچے بھی بتا دیں گے کہ سیفو کب پیدا ہوئی اور سقراط نے کب زہر کا پیالہ اپنے ہونٹوں سے لگایا لیکن آج تک کوئی مؤرخ یہ نہیں بتا سکا کہ لڑکپن کس دن رخصت ہوا، لڑکی کس ساعتِ نایاب میں عورت بنی، جوانی کس رات ڈھلی، ادھیڑ پن کب ختم ہوا اور بڑھاپا کس گھڑی شروع ہوا۔''
کہنے لگے ''برادر! ان سوالات کا تعلق تاریخِ یونان سے نہیں، طبِ یونانی سے ہے۔''
اسی طرح ''آبِ گم'' کے پہلے باب ''حویلی'' میں اپنے یارِ طرح دار، بشارت فاروقی کے سسر کا تعارف، اُن ہی کی زبانی، کچھ ایسے کراتے ہیں:
''وہ ہمیشہ سے میرے کچھ نہ کچھ لگتے تھے۔ جس زمانے میں میرے خُسر نہیں بنے تھے تو پھوپا ہوا کرتے تھے اور پھوپا بننے سے پہلے میں انہیں چچا حضور کہا کرتا تھا۔ اس سے پہلے بھی یقیناً وہ کچھ اور لگتے ہوں گے، مگر اس وقت میں نے بولنا شروع نہیں کیا تھا۔ ہمارے ہاں مراد آباد اور کانپور میں رشتے ناتے ابلی ہوئی سویّوں کی طرح الجھے اور پیچ در پیچ گتھے ہوتے ہیں۔ ایسا جلالی، ایسا مغلوب الغضب آدمی زندگی میں نہیں دیکھا۔ بارے ان کا انتقال ہوا تومیری عمر آدھی اِدھر، آدھی اُدھر، چالیس کے لگ بھگ تو ہوگی۔ لیکن صاحب! جیسی دہشت ان کی آنکھیں دیکھ کر چُھٹ پن میں ہوئی تھی، ویسے ہی نہ صرف ان کے آخری دم تک رہی، بلکہ میرے آخری دم تک بھی رہےگی۔ بڑی بڑی آنکھیں اپنے ساکٹ سے نکلی پڑتی تھیں۔ لال سرخ۔ ایسی ویسی؟ بالکل خونِ کبوتر! لگتا تھا بڑی بڑی پتلیوں کے گرد لال ڈوروں سے ابھی خون کے فوارے چھوٹنے لگیں گے اور میرا منہ خونم خون ہو جائے گا۔ ہر وقت غصے میں بھرے رہتے تھے۔ جنے کیوں؟ گالی ان کا تکیہ کلام تھی۔ اور جو رنگ تقریر کا تھا وہی تحریر کا۔
رکھ ہاتھ نکلتا ہے دھواں مغزِ قلم سے
ظاہر ہے کچھ ایسے لوگوں سے بھی پالا پڑتا تھا، جنہیں بوجوہ گالی نہیں دے سکتے۔ ایسے موقعوں پر زبان سے تو کچھ نہ کہتے لیکن چہرے پر ایسا ایکسپریشن لاتے کہ قد آدم گالی نظر آتے۔ کس کی شامت آئی تھی کہ ان کی کسی بھی رائے سے اختلاف کرتا۔ اختلاف تو درکنار، اگر کوئی شخص محض ڈر کے مارے ان کی رائے سے اتفاق کرلیتا تو فوراً اپنی رائے تبدیل کرکے الٹے اس کے سر ہوجاتے۔''
جب مزاح کی تعریف اور ہنسنے ہنسانے کا معاملہ ہو تو ''خاکم بدہن'' میں کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
''لوگ کیوں، کب اور کیسے ہنستے ہیں؟ جس دن ان سوالوں کا صحیح صحیح جواب معلوم ہوجائے گا، انسان ہنسنا چھوڑ دے گا۔ رہا یہ سوال کہ کس پر ہنستے ہیں؟ تو اس کا انحصار حکومت کی تاب و رواداری پر ہے۔ انگریز صرف ان چیزوں پر ہنستے ہیں جو ان کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ پنچ کے لطیفے، موسم، عورت، تجریدی آرٹ۔ اس کے برعکس ہم لوگ ان چیزوں پر ہنستے ہیں جو اب ہماری سمجھ میں آگئی ہیں۔ مثلا انگریز، عشقیہ شاعری، روپیہ کمانے کی ترکیبیں، بنیادی جمہوریت۔''
قاضی واجد مرحوم نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مزاح اور پھکڑ پن کے درمیان ایک باریک سی لکیر حائل ہے جسے عبور کرتے ہی اچھی خاصی مزاح نگاری، پھکڑ پن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ عصرِ حاضر کے بیشتر مزاح نگار اس فرق سے واقف نہیں اور مُصِر ہیں کہ ان کے پھکڑ پن کو بھی مزاح کے درجے پر فائز کیا جائے۔
یوسفی اس فرق سے بخوبی واقف تھے؛ اور اسی لیے وہ حد درجہ ناگفتنی بات بھی ایسی شائستگی سے، شیرینی میں ڈُبو کر پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا پہلے مرحلے پر زبان کی داد دیتا ہے اور مفہوم تک رسائی ہوجانے پر ہنستے مسکراتے ہوئے سر دُھنتا رہتا ہے۔ یہ عین وہی انداز ہے جس کی تقلید جناب انور مقصود نے بہت زیادہ کی ہے؛ اور غالباً اسی بناء پر وہ خود کو مشتاق احمد یوسفی کا شاگرد بھی کہتے ہیں۔
جی تو نہیں چاہ رہا لیکن یہ تحریر اس مشورے پر ختم کرتا ہوں کہ اگر آپ صحیح معنوں میں جناب مشتاق احمد یوسفی کے مقام سے واقف ہونا چاہتے ہیں تو انہیں سوشل میڈیا پوسٹوں یا ادھورے سدھورے اقتباسات کے ذریعے ہر گز نہ پڑھیے... یوسفی کو پڑھنے کا اصل لطف تو اُن کی تخلیقات کو ورق در ورق، حرف بہ حرف پڑھنے میں ہے۔ شانِ یوسفی تبھی سمجھ میں آئے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔