گلوبل وارمنگ جنگلات کو نگلتی صحراوں اور خشک سالی میں اضافہ کر رہی ہے
ماہرین کے مطابق اب ایک بار پھر بلوچستان میں خشک سالی کی آمد کے خطرات مستقبل قریب میں ہیں۔
دنیا کی آبادی تقریباً 130سالوں میں ایک ارب سے بڑھ کر آج تقریباً ساڑھے سات ارب ہو چکی ہے۔ اس دوران انسان نے بظا ہر ترقی کی اور دنیا میں کئی نئے شہروں سمیت شہروں کی آبادیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔
موٹر گاڑیوں کی تعداد میں کارخانوں، فیکٹریوں کی تعداد میں کروڑوں کا اضافہ ہوا، بلند عمارتوں کی تعداد بھی لاکھوں تک بڑھ گئی اور یہ بڑھوتی اب بھی تیزی سے جاری ہے تو دوسری جانب اس ترقی نے ہزاروں سال کے متوازن اور مستحکم ماحول کو عدم توازن کا شکار کردیا ہے۔
جنگلات انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی کلائمیٹ چینج اورگلوبل وارمنگ کے ساتھ پوری دنیا میں مختلف ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ خشک سالی کے واقعا ت میں اضا فہ بھی ہوا ہے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی حدت اور حرارت سرسبز ز مینوں کو بھی کھاتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اب گلو بل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں شعور بیدار کیا جا رہا ہے ، اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر جہاں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کا م کررہے ہیں وہاںاب پوری دنیا میں یونیورسٹیوں کی سطح پر ماحولیات ،گلوبل وارمنگ اورکلائمیٹ چینج کو بطور مضامین پی ایچ ڈی تک کی سطح تک پڑھا یا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اب کئی یونیورسٹیوں میں ان مضامین کو ایم ایس سی، اور ایم ایس تک کی سطح تک تو باقاعد گی کے ساتھ شعبوں کی صورت میں شروع کردیا گیا ہے اور اس کے بعد کچھ اسکالر مزید رسرچ کے لیے پی ایچ ڈی بھی کرنے لگے ہیںکیونکہ آج اس دنیا کو جب گلوبل ویلج کہا جاتا ہے تو واقعی اس کے مسائل بھی اب ایسے ہوچکے ہیں جن سے پوری دنیا کے تمام لوگ یکساں متاثر ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔
یہ مسائل اقتصادی مالیاتی تجارتی اور معاشی بھی ہیں اور سیاسی جغرافیائی ماحولیاتی بھی ہیں اور اس کے لیے اب لازمی ہے کہ پوری دنیا کے تما م لوگ مل کر ان مسائل کو حل کریں اور جو لوگ یہ مسائل پید ا کر رہے ہیں ان کو روکیں اور سب کو یہ بتائیں کہ زمین کی قدر وقیمت حقیقی اور سچی ہے ، اس میں سرمایہ کاری کریں ۔ ہمارے ہاں ہزاروں برسوں سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر سرمایہ لگا ئیں یہ کبھی نقصان نہیں دیتی اگرآج کی دنیا کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات انفرادی سرمایہ کاری کے مقابلے میں اجتماعی اعتبار سے کہیں زیادہ اہم اور درست نظر آتی ہے ۔ چین اور امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یا فتہ اور ترقی پذیرممالک اپنی سرزمینوں کو خشک سالیوں، فرسودگی اور صحرایت سے بچانے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس وقت خشک سالی، زمین کی فرسودگی اور صحرایت کے لحاظ سے دنیا میں صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی کل زمین کا 40 سے41 فیصد رقبہ بارانی یا خشکابہ ہے جس پر دنیا کی کل آبادی میں سے دو ارب انسان آباد ہیں۔ ان بارانی زمینوں کا 10%سے20 فیصد رقبہ اب تک خشک سالی سے متاثر ہو چکا ہے۔ 6 سے12 ملین مربع کلومیٹر زمین صحرایت سے متاثر ہو رہی ہے۔
بارانی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں کا 6% انہی صحرائی علاقوں میں رہتا ہے۔ صحرایت کی پیمائش پہلے آسان نہیں تھی لیکن آج ماہرین بہت آسانی سے سیٹ لائٹ کے ذریعے تمام صورتحال کو لمحہ بہ لمحہ معلوم کرلیتے ہیں اور خشک سالی اور صحرایت جیسی قدرتی آفاقت سے بر وقت آگاہ کردیتے ہیں، یوں تو تمام قدرتی آفات ہمارے لیے عذب ِ الٰہی ہیں جیسے زلزلے، سونامی، طوفان، سیلاب، ٹڈی دل، وبائی امراض، لیکن ان سب میں زیادہ نقصان دہ خشک سالی اور صحرایت کو قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک سیلاب کا تعلق ہے تو اس سے بھی جانی و مالی نقصان ہوتا ہے مگر سیلا ب کے بعد کئی برسوں تک زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سیلاب سے زیر کاشت زمینوں پر نئی زرخیز مٹی کی تہہ جم جاتی ہے، جھیلوں سے پرانے پانی کی نکاسی کے ساتھ نیا تازہ پانی آجاتا ہے۔ جہاں تک تعلق زلزلوں اور دوسری آفات کا ہے تو آج کے دور میں اس سے بچتے ہوئے کم سے کم جانی نقصان ہوتا ہے اب جہاں تک تعلق خشک سال اور صحرایت کا ہے تو اس کا نقصان اکثر نا قابل ِ تلافی ہو تا ہے اور اگر اس نقصا ن کی تلا فی کی کامیاب کو شش کی بھی جائے تو اس میں قومی مستقل مزاجی اور بڑے سرمائے کے ساتھ کئی دہائیوں تک کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس سے زمین کی پیداواری صلاحیت ختم ہو جا تی اور نہ صرف زمین بانجھ ہوجاتی ہے بلکہ اگر علا قہ گر م ،گرم مرطوب ہے تو اس سے پورے علاقے میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
آج دنیا کے مختلف علاقوں میں چونکہ خشک سالی اور صحرایت کا عمل تیز ہو گیا ہے اور یہ دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلو بل وارمنگ کی ایک بڑی اور بنیاد ی وجہ ہے ۔ دنیا میں دو طرح کے صحرا ہیں ایک سرد ترین اور دوسرے گرم ترین ہیں۔ جہاں تک تعلق صحرایت کا ہے تو دنیا میں صحرایت کا پھیلا ؤ صحرائی ریگستانی علاقوں میں ہے اور اس میں پہلے نمبر 1 پر صحارا کا گرم ترین صحرا ہے جس کا مجموعی رقبہ 3300000 مربع کلو میٹر ہے یہ صحرا شمالی افریقہ ،انگولا ،چاڈ،مصر، مراکش،نائجیر،سوڈان ، تیونس، مغربی صحارا تک پھیلا ہوا ہے، صحارا کے صحرا کے بارے میں اعداد وشمار یہ بتاتے ہیںکہ اس علاقے میںصحرا جنوب کی جانب 250 کلو میٹر آگے ہے اور مشرق میں 600 کلومیٹر بڑھا ہے۔
یہاں ساحلی ممالک میں صحرایت 70% تیز ہے United Nation Convention کے مطابق صحارا کے علاقے میں ساحلین کی شہری آبادی کی منتقلی 1997 ء سے2020 ء تک 60 لاکھ ہو جائے گی ۔ دوسرا صحرائی علاقہ صحرائے گوبی کا ہے جو عرصہ دراز سے چین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا صحرا ہے جو سالانہ 3370 مربع کلو میٹر زمینی رقبے کو نگل رہا ہے اس رقبے پر پھیلے دیہات اورگھاس کے میدان ختم ہو رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ریت کے ٹیلے بیجنگ سے صرف 70 کلو میٹر دور رہ گئے ہیں، لیکن چین نے اس کو ایک چیلینج تسلیم کرتے ہوئے 1978 ء سے گرین گریٹ چائینا وال یعنی چین کی عظیم سبز دیوار بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا ہے، یہ پروجیکٹ 2050 ء تک مکمل کیا جائے گا۔ یہ دیوار بھی چین کی تاریخی دیوارکی طرح اہم ہے۔
دیوار چین جو دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہے اس کی لمبائی 21196 کلومیٹر بتائی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار چین کے حکمرانوں نے 220 برسوں میں مرحلہ وار تعمیر کی اور اس کی بنیادی وجہ منگو لوں سے چین کا دفاع تھا۔ اب یہ عظیم سر سبز دیوار اینٹوں اور پتھروں کی سلوں کی بجائے 66 ارب درختوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ درخت 4500 کلو میٹر طویل دیوار کی صورت لگائے جا رہے ہیں۔ اس وقت صحرائے گوبی سے ریت کے طوفان اٹھتے ہیں اور چین کی زمین کے اوپر پھیل جاتے ہیں۔ دیوار کے مکمل ہونے سے نہ صرف چین کو بلکہ جاپان، شمالی اور جنو بی کوریا کو بھی فائد ہوگا۔ چین کے اس منصوبے سے شمالی چین میںصحرایت کو روکنے کے لیے جنگلات کے رقبے میں 5 سے 15فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے کی کامیابی کے لیے 2003 ء میں چین نے عوامی شمولیت کے لیے 1.2 ارب ڈالر کے فنڈز جاری کئے۔ 2009 ء میں چین نے 500000 مربع کلو میٹر رقبے پر درخت لگائے۔ یہاں درختوں کی تعداد میں 12%سے18% اضافے کے ساتھ یہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہاں چینی عوام صحرایت کا مقابلہ کر رہے ہیں، مثلا چینیوں نے 2008 ء میں یہاں جب درخت لگائے تو ریت کے طوفان نے یہا ںدس فیصد درختوں کو تباہ کردیا۔ ویسے یہاں یہ قدرتی آفت ہر سال 33% درخت تباہ کر دیتی ہے لیکن یہ چینی قوم کی فتح ہے کہ یہاں 67% درخت بچ جاتے ہیں۔ یہ قوم یہاں اس سے مسلسل مقابلہ کر رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آخر کار یہ کامیاب ہوں گے۔ اگر چہ چین نے اس کا ہدف 2050ء کا سال رکھا ہے جو بظاہر دور معلوم ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ مصنوعی جنگل چین کی عظیم سبز دیوار چین کے مستقبل کو محفو ظ کردے گی۔
گرین گریٹ وال کا یہ تصور چین نے امریکہ سے لیا جہاں 1930 ء کی دہائی میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان مسلسل ریت کے مٹی کے شدید طوفان آتے رہے جن کی وجہ سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے کہ یہ تمام علاقہ صحرا میں بدل جائے گا۔ اس زمانے میں یہاں سے لاکھوں افراد نے دوسرے مقامات پر ہجرت کی اس کو امریکیوں نے The Green Midwest dust bowl نامی منصوبے سے کامیابی سے روکا لیکن یہاں یہ مسئلہ عارضی نوعیت کا تھا کہ اس عرصے میں دنیا میں بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی کی وجہ سے ہوا تھا۔
اس لیے ایک جانب تو لاکھوں درخت لگائے گئے تو دوسری جانب آٹھ دس برسوں میں یہاں خشک سالی کا دورانیہ بھی مکمل ہو گیا ۔ اس کے بعد افریقہ کے صحارا کے علاقے میں صحرایت کو روکنے کے لیے 1952 ء میں ماحولیات کے ماہر رچرڈ سینٹ بار بی باکر، نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ یہاں صحرایت کو روکنے کے لیے تیس میل فرنٹ پر گہرائی پر درختوںکی دیوار یعنی جنگلات لگائے جائیں اس آ ئیڈیا کو 2002 ء چاڈ میں خصوصی اجلاس میں رکھا گیا اور اس پر سن دو ہزار سات، آٹھ، بارہ اور پندرہ میں کسی حد تک عمل کیا گیا لیکن حقیقت میں جو گریٹ گرین وال ہے وہ چین ہی کی ہے جس پر 1978 ء میں جب عمل شروع کیا گیا تو اس کو نا ممکن سمجھا گیا تھا ۔
اگر چہ ابھی اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 32 سال باقی ہیں مگر یہ بھی خوشگوار حقیقت ہے کہ اس منصوبے کو چالیس سال کامیابی سے گزر گئے ہیں اور اس کی کامیابی کی سطح کو دیکھتے ہوئے اب دنیا کو یقین آگیا ہے کہ آج کے دور میں جب قدرتی آفات شدت اختیار کرگئی ہیں اور ان آفات میں نہا یت خطر ناک آفت خشک سالی اور صحرایت ہے اس کو چین روک دے گا، وہ صحرائے گوبی کو عظیم سبز دیوار سے روک دے گا ،لیکن یہ بات صحرائے اعظم صحارا کے اعتبار سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ وہاں اب بھی اس طرح کام نہیں ہو رہا جیسا چین میں ہوا ۔
اب جہاں تک دنیا کے دوسرے خطوں اور ہمارے جیسے ممالک کا تعلق ہے تو بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے شعور بیدار نہیں ہے۔ ہمیں اب تک درختوں کی اہمیت کا حساس نہیں ہے جبکہ درختوں کا ختم ہونا جنگلات کے رقبے میں کمی کا واقع ہو نا ایک بہت بڑا المیہ ہے دنیا پر دو اقسام کے جنگالات ہیں۔ ایک ٹروپیکل جنگلات اور دوسرے ٹیمپیرٹ جنگلات کہلاتے ہیں جن کی تفصیلات 1700 ء سے ہمارے سامنے ہیں۔ 1700 ء سے 1849 ء تک ٹروپیکل جنگلات کا رقبہ 110 ملین مربع ہیکٹر تھا۔
1850 ء سے 1919 تک 75 ملین ہیکٹر 1920ء سے 1949 تک 280 میلن ہیکٹر 1950 سے 1970 تک 320 ملین ہیکٹر 1996 تا 2010 ء 105 ملین ہیکٹر رہا ہے، جب کہ ٹیمپیریٹ جنگلات کی صورتحال اسی عرصے میں یوں رہی، 1700 ء سے 1849 ء تک ان جنگلات کا دنیا میں رقبہ 175 ملین ہیکٹر تھا، 1850 ء سے 1919 ء تک رقبہ 140 ملین ہیکٹر ہو گیا، اس کے بعد 1920 سے 1949 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ سو ملین ہیکٹر رہ گیا، پھر 1950 سے 1970 کے درمیان یہ رقبہ 20 ملین ہیکٹر رہ گیا اور اب یعنی 1996 سے 2010 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ دنیا میں صرف پانچ ملین ہیکٹر رہ گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں ان عظیم صحرا ئے اعظم صحارا اور صحرائے گوبی کے علاوہ بھی دوسرے چھوٹے بڑے صحرا بڑھ رہے ہیں ، اور ساتھ ہی مو سمیاتی تبدیلیاں منفی رخ اختیار کر رہی ہیں جن کو کلائمیٹ چینج کا نام دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں موسموں کا مزاج اور انداز بدل رہا ہے یعنی جب فصلوں، دوسرے پودوں ، جنگلات کو بارشوں کے موسم کے مطابق بارشوں کی ضرورت ہوتی ہے تو بارشیں نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے جیسے ہماری مون سون کی بارشیں معمول سے ہٹ رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ایک طرف زرعی پیداوار متا ثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب ہر پانچ دس سال بعد شدید نوعت کے بے موسم سیلاب تباہیاں مچا دیتے ہیں۔
پاکستان میں اگر چہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے لیکن رقبے کے اعتبار سے اس کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جو ملک کے کل رقبے کا 43% سے زیادہ ہے اور اس کے علاوہ جنوبی پنجا ب اور سندھ میں بھی بڑا رقبہ بارانی ہے، جہاں وقفے وقفے سے خشک سالی آتی رہی ہے مگر اب گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے خشک سالیوں کے درمیانی وقفے بھی مختصر ہو رہے ہیں اور جب خشک سالی رونما ہوتی ہے تو اس کی شدت اور دورانیہ بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ خشک سالی دنیا میں مو سمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے ہزاروں سال سے رونما ہوتی رہی ہے، اس کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام اور اُ ن کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے حوالے سے بھی ملتا ہے اور اس کے بعد ایک بڑی خشک سالی کا تاریخی ذکر حضر ت عمر بن خطاب ؓ کے عہد میں بھی ملتا ہے یہاں ان دونوں واقعات کا حوالہ اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی اور دوسری مرتبہ اس زمانے میں جب منصوبہ بندی اور سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی یہ خشک سالی قحط میں تبدیل نہیں ہو ئی۔
حضرت یوسفؑ نے راشن بندی کے نظام کو متعارف کروایا تھا اور بادشاہ کو اس کے خواب کی تعبیر بتا کر مستقبل کی پیش بندی کر لی تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعے کی بنیاد پر اور اپنی کھری سچی اور سخت ایڈمنسٹریشن کی بنیاد پر اپنے عہد کی بڑی خشک سالی کو قحط میں بدلنے سے روک دیا اور اس وقت فرمایا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرا تو اس کا جوابدہ قیامت میں خلیفہ وقت عمر ؓ ہوگا۔
یہ دور ہے جب حضر ت عمرؓ بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے اور جب معلوم ہوتا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود اپنی پیٹھ پر غلہ رکھ کر اس کے گھر پہنچاتے تھے اور آج بھی جب کبھی کسی ملک میں خشک سالی رونما ہو اور غلہ کہیں یا کسی اور ملک سے لا کر بھوکے لو گوں کو دے دیا جائے تو خشک سالی تو رہتی ہے مگر قحط کی صورت پیدا نہیں ہوتی یعنی خشک سالی اس موسمی حالت کو کہتے ہی جب ایک خاص عرصے تک یا تو بارشیں نہ ہوں یا اگر ہوں تو برسوں کے بارانی ریکارڈ سے بہت کم ہوں اور اس کے اثرات زرعی پیداوار مال مویشی اور انسانی صحت پر مرتب ہونے لگیں۔
یوں بعض علا قوں میں جہاں دریائے سندھ کی طرح بڑے دریا سارا سال بہتے ہیں مگر بارشیں یہاں نہ ہوں تو فضا میں نمی کے تناسب کے خطر ناک حد تک کم ہوجانے سے بھی خشک سالی نمودار ہو جا تی ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ ہم ماضی قریب میں دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہو نے والی خشک سالیوں کا ایک جائزہ لیں۔ چین کی عظیم خشک سالی اور قحط جو 1941 ء میں رونما ہوئی ، چونکہ اس خشک سالی میں چین میں متاثرین کو بر وقت خوراک نہیں پہنچائی گئی اس لیے یہاں 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس مضمون میں 1930 ء کی دہائی کے حوالے سے امریکہ کینیڈا Midwest dust bowl کا ذکر ہوا ہے جہاں خشک سالی اور صحرایت کی وجہ سے 1930 سے 1939 تک لاکھوں افراد نے ریت کے طوفانوں اور خشک سالی کی وجہ سے امریکہ کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کی اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ چو نکہ وسائل سے مالا مال ملک ہے۔
اس لیے یہاںخشک سالی سے اموات نہیں ہوئیں، اگر اُس وقت ایسی خشک سالی اور صحرایت کسی اور ملک میں رونما ہو تی تو یہ صورت قحط میں بدل جاتی اور یہاں بھی چین کی طرح لاکھو ں افراد ہلاک ہو جاتے ۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جو 1982-83 ء میں رونما ہوئی تھی ۔ اسی طرح ایتھوپیا کی خشک سالی اور یہاں خوراک کی کمی کی وجہ سے قحط بھی رونما ہوا، یوں 1983-85 ء کے دوران یہاں چارلاکھ افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے ۔ ساحلی خشک سالی جو صحارا کے علاقے میں رونما ہوئی تھی جس میں 1997 ء سے ابتک ایک کروڑ سے زیادہ افراد یورپ اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جس میں 1993 سے 2012 ء تک وفاقی حکومت نے ساڑھے چار ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس خشک سالی میں لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے۔ صحارا ساحلی علاقوں کی خشک سالی 2010 ء جس میں ایک بار پھر صحرایت کا عمل تیز رفتار ہوگیا۔
چین کی خشک سالی اور قحط 1958 سے 1961 تک اس میں ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مشرقی افریقہ کی خشک سالی 2011 ء سے 2017 ء تک صومالیہ ،ڈجیبوتی،ایتھوپیا اور کینیا میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہاں پر دنیا کے بڑے صحراوں کا ایک ٹیبل اس مضمون کے ساتھ ہے لیکن یہاں ذکر پاکستان کے صحراوں اورصحرایت اور خشک سالی کا اس لیے ضروری ہے کہ ویسے تو ہمارے ہاں سرکاری سطح پر ماحولیات اور قدرتی آفات کے مسائل کی جانب عرصے سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے،تاہم اس بار صوبہ خیبر پختو نخوا میں 2014-18 شجر کاری اور جنگلاتی رقبے میں اضافے پر تھوڑی توجہ دی گئی۔
ویسے ہمارے ہاں عوام اور حکومت قدرتی آ فات پر اسی وقت پریشان ہوتے ہیں جب اکتوبر 2005 کی طرح کا تباہ کن زلزلہ آتا ہے یا پھر 2010 کی طرح کا سیلاب آتا ہے جب کہ خشک سالی بڑھتی ہوئی صحرایت جیسی قدرتی آفات پر سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی جاتی ، اس کی واضح مثال بلوچستان میں رونما ہو نے والی 1997 ء سے 2003 -2004 ء تک کی شدید اور طویل ترین خشک سالی تھی جس پر قومی سطح کے اعتبار سے کوئی توجہ نہیں اور حال ہی میں تھر پارکر کے علاقے میں جہاں بچوںکی اموات پر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بجائے اسے ایک قومی المیہ سمجھیں اور اسے مل کر سلجھانے کی کو ششیں کریں، اب تک ٹی وی چینلوں پر اسکور گیمز کھیل ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر الیکشن کے قریب اس لیے الزامات عائد کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں ۔
جبکہ ہمارے ہاں یہ خشک سالی اور بڑھتی ہوئی صحرایت ایک ایسا خطرناک مسئلہ ہے کہ جس پر بر وقت توجہ نہیں دی گئی تو آئندہ 30 برسوں میں ہمارے گرم صحرا اور دشت کے علاقوں میں انسانی زندگی گرمی کی وجہ سے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گی۔ ہمارے پانچ بڑے اور اہم صحرا ہیں۔ پہلے نمبر پر وادی ِ سندھ کا صحرا اس کا رقبہ 20500 مربع کلو میٹر ہے، یہ دریائے چناب اور سندھ کے درمیان واقع ہے۔ دوسرے نمبر پر صحرائے خاران جس کا رقبہ 19000 مربع کلو میٹر ہے۔ تیسرے نمبر پر تھل کا صحرا یہ ضلع بھکر میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اور جہلم سے ایک بڑے نہری پروجیکٹ کے ذریعے یہاں کا م ہو رہا ہے اس کا ایک حصہ کوہستان نمک ضلع جہلم سے ملتا ہے۔
پھرصحرائے تھر ہے یہ صحرا بھارت اور پاکستان کے علاقوں میںپھیلا ہوا ہے یہ دنیا کا نواں وسیع اور گرم ترین صحرا ہے۔ صحرائے تھر کا 85% حصہ بھارت میں واقع ہے اس صحرا کا مجموعی رقبہ 320000 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا زیادہ حصہ بھارتی علاقے راجسھتان میں واقع ہے۔ صحرائے چولستان مقامی زبان میںاسے روحی بھی کہتے ہیں، یہ بہا ولپور میں واقع ہے اور اس کا کچھ حصہ بھارت میں بھی ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب میںواقع خاران و چاغی کا صحرا ہے جس سے آگے ایران اور افغانستا ن کے صحرا نزدیک واقع ہیں۔ دوسری جانب صحرائے تھر یعنی تھر پارکر کا علاقہ ہے اور ہمارا چولستان کا صحرا ہے اس کے پار بھی بھارت کے وسیع صحرا ہیں۔
پھر عجیب بات ہے کہ مئی 1998 ء میں ایک جانب ہم نے خاران اور چاغی میں بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے اور دوسری جانب بھارت نے بھی ہماری سرحد کے قریب راجستھان کے علاقے پوکرن میں پانچ دھماکے کئے جبکہ انڈیا نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ اسی مقام پر 1974 ء میں کیا تھا۔ یوں ایک بڑی عجیب سی بات ہے کہ پاکستان کا بیشتر علاقہ راجستھان سے صحرائے خاران اور چاغٰی کے درمیان واقع پہاڑ راس کوہ تک ڈھا ئی ہزار کلو میٹر کے درمیان واقع ہے۔ چاغی سے نزدیک سرحد پار ایرانی علاقے میں دشت لوط واقع ہے جو دنیا کے بڑے صحراؤں میں27 ویں نمبر پر ہے، اس کا رقبہ 20100 مربع کلومیٹر ہے ۔
یہ غالباً دنیا کا گرم ترین صحرا ہے جہاں جون،جولائی اور اگست کے مہینوں میں درجہ حرارت 60 سینٹی گریڈ تک چلا جا تا ہے، اس صحرا کے حوالے سے گذشتہ چند برسوں سے کلائمیٹ چینج کے اعتبار سے کوئٹہ سمیت بلو چستان کے وسیع رقبے پر ایک نئی اور منفی ماحولیاتی تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے ،کہ موسم گرما میں دشت لوط میں گرمی کی وجہ سے بہت باریک پوڈر کی مانند مٹی بگولوں کی صورت کئی کئی ہزار فٹ بلندی تک فضا میں اڑتی ہے اور پھر یہ پاکستان میں بلوچستان کے علاقے میں کو ئٹہ بلکہ اس سے بھی آگے آتی ہے اور پھر دو دو، تین، تین دن تک فضا میں ہزاروں فٹ بلندی سے یہ باریک پوڈر جیسی مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے، جب یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کوئٹہ میں پروازیں معطل یا بند ہو جاتی ہیں جب کہ یہ مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گر تی ہے تودرختوں کے پتوں اور ہری بھری فصلوں پر جم کر ا ن کو نقصان پہنچاتی ہے۔
پاکستان میں اب ایک بار پھر خصوصا بلوچستان کے اعتبار سے خشک سالی کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں اور28-29 مئی کو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس خشک سالی کے پیش نظر روس سے یہاں بلوچستان میں مصنوعی بارشیں کرانے کا معاہدہ کیا کیونکہ ماہرین کے مطابق اب ایک بار پھر بلوچستان میں خشک سالی کی آمد کے خطرات مستقبل قریب میں ہیں۔ واضح رہے کہ 1997ء سے2002 ء کے دوران بلوچستان میں جو خشک سالی آئی تھی اس سے صوبے کے لاکھوں افراد متا ثر ہوئے تھے۔
لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا تھا اور تقریباً دوکروڑ مال مویشی ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس خشک سالی میں خوراک کی امداد آگئی تھی اس لیے یہاں قحط کی صورتحال پیدا نہیں ہو ئی مگر یہاں زمین کی زرخیزیت کو اتنا نقصان پہنچا کہ اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا، اس لیے اب جب کہ دوبارہ خشک سالی کے اندیشے پیدا ہو رہے ہیں تو ہم قومی سطح پر ابھی سے خشک سالی اور ساتھ ہی ساتھ پھیلتی ہوئی بڑھتی ہوئی صحرایت کو روکنے کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی کرلیں بلکہ موثر انداز میں ایسی منصوبہ بندی پر فوراً عمل درآمد بھی کرنا شروع کردیں۔ آج جب 17 جون 2018 کو ہم صحرایت اور خشک سالی سے مقابلے کا عالمی دن منا رہے ہیں تو ہم بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کا ہی اعلان کردیں۔
موٹر گاڑیوں کی تعداد میں کارخانوں، فیکٹریوں کی تعداد میں کروڑوں کا اضافہ ہوا، بلند عمارتوں کی تعداد بھی لاکھوں تک بڑھ گئی اور یہ بڑھوتی اب بھی تیزی سے جاری ہے تو دوسری جانب اس ترقی نے ہزاروں سال کے متوازن اور مستحکم ماحول کو عدم توازن کا شکار کردیا ہے۔
جنگلات انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی کلائمیٹ چینج اورگلوبل وارمنگ کے ساتھ پوری دنیا میں مختلف ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ خشک سالی کے واقعا ت میں اضا فہ بھی ہوا ہے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی حدت اور حرارت سرسبز ز مینوں کو بھی کھاتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اب گلو بل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں شعور بیدار کیا جا رہا ہے ، اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر جہاں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کا م کررہے ہیں وہاںاب پوری دنیا میں یونیورسٹیوں کی سطح پر ماحولیات ،گلوبل وارمنگ اورکلائمیٹ چینج کو بطور مضامین پی ایچ ڈی تک کی سطح تک پڑھا یا جا رہا ہے۔
ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اب کئی یونیورسٹیوں میں ان مضامین کو ایم ایس سی، اور ایم ایس تک کی سطح تک تو باقاعد گی کے ساتھ شعبوں کی صورت میں شروع کردیا گیا ہے اور اس کے بعد کچھ اسکالر مزید رسرچ کے لیے پی ایچ ڈی بھی کرنے لگے ہیںکیونکہ آج اس دنیا کو جب گلوبل ویلج کہا جاتا ہے تو واقعی اس کے مسائل بھی اب ایسے ہوچکے ہیں جن سے پوری دنیا کے تمام لوگ یکساں متاثر ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔
یہ مسائل اقتصادی مالیاتی تجارتی اور معاشی بھی ہیں اور سیاسی جغرافیائی ماحولیاتی بھی ہیں اور اس کے لیے اب لازمی ہے کہ پوری دنیا کے تما م لوگ مل کر ان مسائل کو حل کریں اور جو لوگ یہ مسائل پید ا کر رہے ہیں ان کو روکیں اور سب کو یہ بتائیں کہ زمین کی قدر وقیمت حقیقی اور سچی ہے ، اس میں سرمایہ کاری کریں ۔ ہمارے ہاں ہزاروں برسوں سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر سرمایہ لگا ئیں یہ کبھی نقصان نہیں دیتی اگرآج کی دنیا کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات انفرادی سرمایہ کاری کے مقابلے میں اجتماعی اعتبار سے کہیں زیادہ اہم اور درست نظر آتی ہے ۔ چین اور امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یا فتہ اور ترقی پذیرممالک اپنی سرزمینوں کو خشک سالیوں، فرسودگی اور صحرایت سے بچانے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
اس وقت خشک سالی، زمین کی فرسودگی اور صحرایت کے لحاظ سے دنیا میں صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی کل زمین کا 40 سے41 فیصد رقبہ بارانی یا خشکابہ ہے جس پر دنیا کی کل آبادی میں سے دو ارب انسان آباد ہیں۔ ان بارانی زمینوں کا 10%سے20 فیصد رقبہ اب تک خشک سالی سے متاثر ہو چکا ہے۔ 6 سے12 ملین مربع کلومیٹر زمین صحرایت سے متاثر ہو رہی ہے۔
بارانی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں کا 6% انہی صحرائی علاقوں میں رہتا ہے۔ صحرایت کی پیمائش پہلے آسان نہیں تھی لیکن آج ماہرین بہت آسانی سے سیٹ لائٹ کے ذریعے تمام صورتحال کو لمحہ بہ لمحہ معلوم کرلیتے ہیں اور خشک سالی اور صحرایت جیسی قدرتی آفاقت سے بر وقت آگاہ کردیتے ہیں، یوں تو تمام قدرتی آفات ہمارے لیے عذب ِ الٰہی ہیں جیسے زلزلے، سونامی، طوفان، سیلاب، ٹڈی دل، وبائی امراض، لیکن ان سب میں زیادہ نقصان دہ خشک سالی اور صحرایت کو قرار دیا جاتا ہے۔
جہاں تک سیلاب کا تعلق ہے تو اس سے بھی جانی و مالی نقصان ہوتا ہے مگر سیلا ب کے بعد کئی برسوں تک زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سیلاب سے زیر کاشت زمینوں پر نئی زرخیز مٹی کی تہہ جم جاتی ہے، جھیلوں سے پرانے پانی کی نکاسی کے ساتھ نیا تازہ پانی آجاتا ہے۔ جہاں تک تعلق زلزلوں اور دوسری آفات کا ہے تو آج کے دور میں اس سے بچتے ہوئے کم سے کم جانی نقصان ہوتا ہے اب جہاں تک تعلق خشک سال اور صحرایت کا ہے تو اس کا نقصان اکثر نا قابل ِ تلافی ہو تا ہے اور اگر اس نقصا ن کی تلا فی کی کامیاب کو شش کی بھی جائے تو اس میں قومی مستقل مزاجی اور بڑے سرمائے کے ساتھ کئی دہائیوں تک کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس سے زمین کی پیداواری صلاحیت ختم ہو جا تی اور نہ صرف زمین بانجھ ہوجاتی ہے بلکہ اگر علا قہ گر م ،گرم مرطوب ہے تو اس سے پورے علاقے میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
آج دنیا کے مختلف علاقوں میں چونکہ خشک سالی اور صحرایت کا عمل تیز ہو گیا ہے اور یہ دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلو بل وارمنگ کی ایک بڑی اور بنیاد ی وجہ ہے ۔ دنیا میں دو طرح کے صحرا ہیں ایک سرد ترین اور دوسرے گرم ترین ہیں۔ جہاں تک تعلق صحرایت کا ہے تو دنیا میں صحرایت کا پھیلا ؤ صحرائی ریگستانی علاقوں میں ہے اور اس میں پہلے نمبر 1 پر صحارا کا گرم ترین صحرا ہے جس کا مجموعی رقبہ 3300000 مربع کلو میٹر ہے یہ صحرا شمالی افریقہ ،انگولا ،چاڈ،مصر، مراکش،نائجیر،سوڈان ، تیونس، مغربی صحارا تک پھیلا ہوا ہے، صحارا کے صحرا کے بارے میں اعداد وشمار یہ بتاتے ہیںکہ اس علاقے میںصحرا جنوب کی جانب 250 کلو میٹر آگے ہے اور مشرق میں 600 کلومیٹر بڑھا ہے۔
یہاں ساحلی ممالک میں صحرایت 70% تیز ہے United Nation Convention کے مطابق صحارا کے علاقے میں ساحلین کی شہری آبادی کی منتقلی 1997 ء سے2020 ء تک 60 لاکھ ہو جائے گی ۔ دوسرا صحرائی علاقہ صحرائے گوبی کا ہے جو عرصہ دراز سے چین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا صحرا ہے جو سالانہ 3370 مربع کلو میٹر زمینی رقبے کو نگل رہا ہے اس رقبے پر پھیلے دیہات اورگھاس کے میدان ختم ہو رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ریت کے ٹیلے بیجنگ سے صرف 70 کلو میٹر دور رہ گئے ہیں، لیکن چین نے اس کو ایک چیلینج تسلیم کرتے ہوئے 1978 ء سے گرین گریٹ چائینا وال یعنی چین کی عظیم سبز دیوار بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا ہے، یہ پروجیکٹ 2050 ء تک مکمل کیا جائے گا۔ یہ دیوار بھی چین کی تاریخی دیوارکی طرح اہم ہے۔
دیوار چین جو دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہے اس کی لمبائی 21196 کلومیٹر بتائی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار چین کے حکمرانوں نے 220 برسوں میں مرحلہ وار تعمیر کی اور اس کی بنیادی وجہ منگو لوں سے چین کا دفاع تھا۔ اب یہ عظیم سر سبز دیوار اینٹوں اور پتھروں کی سلوں کی بجائے 66 ارب درختوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ درخت 4500 کلو میٹر طویل دیوار کی صورت لگائے جا رہے ہیں۔ اس وقت صحرائے گوبی سے ریت کے طوفان اٹھتے ہیں اور چین کی زمین کے اوپر پھیل جاتے ہیں۔ دیوار کے مکمل ہونے سے نہ صرف چین کو بلکہ جاپان، شمالی اور جنو بی کوریا کو بھی فائد ہوگا۔ چین کے اس منصوبے سے شمالی چین میںصحرایت کو روکنے کے لیے جنگلات کے رقبے میں 5 سے 15فیصد اضافہ کیا جائے گا۔
اس منصوبے کی کامیابی کے لیے 2003 ء میں چین نے عوامی شمولیت کے لیے 1.2 ارب ڈالر کے فنڈز جاری کئے۔ 2009 ء میں چین نے 500000 مربع کلو میٹر رقبے پر درخت لگائے۔ یہاں درختوں کی تعداد میں 12%سے18% اضافے کے ساتھ یہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہاں چینی عوام صحرایت کا مقابلہ کر رہے ہیں، مثلا چینیوں نے 2008 ء میں یہاں جب درخت لگائے تو ریت کے طوفان نے یہا ںدس فیصد درختوں کو تباہ کردیا۔ ویسے یہاں یہ قدرتی آفت ہر سال 33% درخت تباہ کر دیتی ہے لیکن یہ چینی قوم کی فتح ہے کہ یہاں 67% درخت بچ جاتے ہیں۔ یہ قوم یہاں اس سے مسلسل مقابلہ کر رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آخر کار یہ کامیاب ہوں گے۔ اگر چہ چین نے اس کا ہدف 2050ء کا سال رکھا ہے جو بظاہر دور معلوم ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ مصنوعی جنگل چین کی عظیم سبز دیوار چین کے مستقبل کو محفو ظ کردے گی۔
گرین گریٹ وال کا یہ تصور چین نے امریکہ سے لیا جہاں 1930 ء کی دہائی میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان مسلسل ریت کے مٹی کے شدید طوفان آتے رہے جن کی وجہ سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے کہ یہ تمام علاقہ صحرا میں بدل جائے گا۔ اس زمانے میں یہاں سے لاکھوں افراد نے دوسرے مقامات پر ہجرت کی اس کو امریکیوں نے The Green Midwest dust bowl نامی منصوبے سے کامیابی سے روکا لیکن یہاں یہ مسئلہ عارضی نوعیت کا تھا کہ اس عرصے میں دنیا میں بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی کی وجہ سے ہوا تھا۔
اس لیے ایک جانب تو لاکھوں درخت لگائے گئے تو دوسری جانب آٹھ دس برسوں میں یہاں خشک سالی کا دورانیہ بھی مکمل ہو گیا ۔ اس کے بعد افریقہ کے صحارا کے علاقے میں صحرایت کو روکنے کے لیے 1952 ء میں ماحولیات کے ماہر رچرڈ سینٹ بار بی باکر، نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ یہاں صحرایت کو روکنے کے لیے تیس میل فرنٹ پر گہرائی پر درختوںکی دیوار یعنی جنگلات لگائے جائیں اس آ ئیڈیا کو 2002 ء چاڈ میں خصوصی اجلاس میں رکھا گیا اور اس پر سن دو ہزار سات، آٹھ، بارہ اور پندرہ میں کسی حد تک عمل کیا گیا لیکن حقیقت میں جو گریٹ گرین وال ہے وہ چین ہی کی ہے جس پر 1978 ء میں جب عمل شروع کیا گیا تو اس کو نا ممکن سمجھا گیا تھا ۔
اگر چہ ابھی اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 32 سال باقی ہیں مگر یہ بھی خوشگوار حقیقت ہے کہ اس منصوبے کو چالیس سال کامیابی سے گزر گئے ہیں اور اس کی کامیابی کی سطح کو دیکھتے ہوئے اب دنیا کو یقین آگیا ہے کہ آج کے دور میں جب قدرتی آفات شدت اختیار کرگئی ہیں اور ان آفات میں نہا یت خطر ناک آفت خشک سالی اور صحرایت ہے اس کو چین روک دے گا، وہ صحرائے گوبی کو عظیم سبز دیوار سے روک دے گا ،لیکن یہ بات صحرائے اعظم صحارا کے اعتبار سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ وہاں اب بھی اس طرح کام نہیں ہو رہا جیسا چین میں ہوا ۔
اب جہاں تک دنیا کے دوسرے خطوں اور ہمارے جیسے ممالک کا تعلق ہے تو بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے شعور بیدار نہیں ہے۔ ہمیں اب تک درختوں کی اہمیت کا حساس نہیں ہے جبکہ درختوں کا ختم ہونا جنگلات کے رقبے میں کمی کا واقع ہو نا ایک بہت بڑا المیہ ہے دنیا پر دو اقسام کے جنگالات ہیں۔ ایک ٹروپیکل جنگلات اور دوسرے ٹیمپیرٹ جنگلات کہلاتے ہیں جن کی تفصیلات 1700 ء سے ہمارے سامنے ہیں۔ 1700 ء سے 1849 ء تک ٹروپیکل جنگلات کا رقبہ 110 ملین مربع ہیکٹر تھا۔
1850 ء سے 1919 تک 75 ملین ہیکٹر 1920ء سے 1949 تک 280 میلن ہیکٹر 1950 سے 1970 تک 320 ملین ہیکٹر 1996 تا 2010 ء 105 ملین ہیکٹر رہا ہے، جب کہ ٹیمپیریٹ جنگلات کی صورتحال اسی عرصے میں یوں رہی، 1700 ء سے 1849 ء تک ان جنگلات کا دنیا میں رقبہ 175 ملین ہیکٹر تھا، 1850 ء سے 1919 ء تک رقبہ 140 ملین ہیکٹر ہو گیا، اس کے بعد 1920 سے 1949 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ سو ملین ہیکٹر رہ گیا، پھر 1950 سے 1970 کے درمیان یہ رقبہ 20 ملین ہیکٹر رہ گیا اور اب یعنی 1996 سے 2010 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ دنیا میں صرف پانچ ملین ہیکٹر رہ گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں ان عظیم صحرا ئے اعظم صحارا اور صحرائے گوبی کے علاوہ بھی دوسرے چھوٹے بڑے صحرا بڑھ رہے ہیں ، اور ساتھ ہی مو سمیاتی تبدیلیاں منفی رخ اختیار کر رہی ہیں جن کو کلائمیٹ چینج کا نام دیا گیا ہے۔
اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں موسموں کا مزاج اور انداز بدل رہا ہے یعنی جب فصلوں، دوسرے پودوں ، جنگلات کو بارشوں کے موسم کے مطابق بارشوں کی ضرورت ہوتی ہے تو بارشیں نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے جیسے ہماری مون سون کی بارشیں معمول سے ہٹ رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ایک طرف زرعی پیداوار متا ثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب ہر پانچ دس سال بعد شدید نوعت کے بے موسم سیلاب تباہیاں مچا دیتے ہیں۔
پاکستان میں اگر چہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے لیکن رقبے کے اعتبار سے اس کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جو ملک کے کل رقبے کا 43% سے زیادہ ہے اور اس کے علاوہ جنوبی پنجا ب اور سندھ میں بھی بڑا رقبہ بارانی ہے، جہاں وقفے وقفے سے خشک سالی آتی رہی ہے مگر اب گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے خشک سالیوں کے درمیانی وقفے بھی مختصر ہو رہے ہیں اور جب خشک سالی رونما ہوتی ہے تو اس کی شدت اور دورانیہ بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ خشک سالی دنیا میں مو سمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے ہزاروں سال سے رونما ہوتی رہی ہے، اس کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام اور اُ ن کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے حوالے سے بھی ملتا ہے اور اس کے بعد ایک بڑی خشک سالی کا تاریخی ذکر حضر ت عمر بن خطاب ؓ کے عہد میں بھی ملتا ہے یہاں ان دونوں واقعات کا حوالہ اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی اور دوسری مرتبہ اس زمانے میں جب منصوبہ بندی اور سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی یہ خشک سالی قحط میں تبدیل نہیں ہو ئی۔
حضرت یوسفؑ نے راشن بندی کے نظام کو متعارف کروایا تھا اور بادشاہ کو اس کے خواب کی تعبیر بتا کر مستقبل کی پیش بندی کر لی تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعے کی بنیاد پر اور اپنی کھری سچی اور سخت ایڈمنسٹریشن کی بنیاد پر اپنے عہد کی بڑی خشک سالی کو قحط میں بدلنے سے روک دیا اور اس وقت فرمایا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرا تو اس کا جوابدہ قیامت میں خلیفہ وقت عمر ؓ ہوگا۔
یہ دور ہے جب حضر ت عمرؓ بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے اور جب معلوم ہوتا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود اپنی پیٹھ پر غلہ رکھ کر اس کے گھر پہنچاتے تھے اور آج بھی جب کبھی کسی ملک میں خشک سالی رونما ہو اور غلہ کہیں یا کسی اور ملک سے لا کر بھوکے لو گوں کو دے دیا جائے تو خشک سالی تو رہتی ہے مگر قحط کی صورت پیدا نہیں ہوتی یعنی خشک سالی اس موسمی حالت کو کہتے ہی جب ایک خاص عرصے تک یا تو بارشیں نہ ہوں یا اگر ہوں تو برسوں کے بارانی ریکارڈ سے بہت کم ہوں اور اس کے اثرات زرعی پیداوار مال مویشی اور انسانی صحت پر مرتب ہونے لگیں۔
یوں بعض علا قوں میں جہاں دریائے سندھ کی طرح بڑے دریا سارا سال بہتے ہیں مگر بارشیں یہاں نہ ہوں تو فضا میں نمی کے تناسب کے خطر ناک حد تک کم ہوجانے سے بھی خشک سالی نمودار ہو جا تی ہے۔
یہاں ضروری ہے کہ ہم ماضی قریب میں دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہو نے والی خشک سالیوں کا ایک جائزہ لیں۔ چین کی عظیم خشک سالی اور قحط جو 1941 ء میں رونما ہوئی ، چونکہ اس خشک سالی میں چین میں متاثرین کو بر وقت خوراک نہیں پہنچائی گئی اس لیے یہاں 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس مضمون میں 1930 ء کی دہائی کے حوالے سے امریکہ کینیڈا Midwest dust bowl کا ذکر ہوا ہے جہاں خشک سالی اور صحرایت کی وجہ سے 1930 سے 1939 تک لاکھوں افراد نے ریت کے طوفانوں اور خشک سالی کی وجہ سے امریکہ کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کی اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ چو نکہ وسائل سے مالا مال ملک ہے۔
اس لیے یہاںخشک سالی سے اموات نہیں ہوئیں، اگر اُس وقت ایسی خشک سالی اور صحرایت کسی اور ملک میں رونما ہو تی تو یہ صورت قحط میں بدل جاتی اور یہاں بھی چین کی طرح لاکھو ں افراد ہلاک ہو جاتے ۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جو 1982-83 ء میں رونما ہوئی تھی ۔ اسی طرح ایتھوپیا کی خشک سالی اور یہاں خوراک کی کمی کی وجہ سے قحط بھی رونما ہوا، یوں 1983-85 ء کے دوران یہاں چارلاکھ افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے ۔ ساحلی خشک سالی جو صحارا کے علاقے میں رونما ہوئی تھی جس میں 1997 ء سے ابتک ایک کروڑ سے زیادہ افراد یورپ اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جس میں 1993 سے 2012 ء تک وفاقی حکومت نے ساڑھے چار ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس خشک سالی میں لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے۔ صحارا ساحلی علاقوں کی خشک سالی 2010 ء جس میں ایک بار پھر صحرایت کا عمل تیز رفتار ہوگیا۔
چین کی خشک سالی اور قحط 1958 سے 1961 تک اس میں ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مشرقی افریقہ کی خشک سالی 2011 ء سے 2017 ء تک صومالیہ ،ڈجیبوتی،ایتھوپیا اور کینیا میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہاں پر دنیا کے بڑے صحراوں کا ایک ٹیبل اس مضمون کے ساتھ ہے لیکن یہاں ذکر پاکستان کے صحراوں اورصحرایت اور خشک سالی کا اس لیے ضروری ہے کہ ویسے تو ہمارے ہاں سرکاری سطح پر ماحولیات اور قدرتی آفات کے مسائل کی جانب عرصے سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے،تاہم اس بار صوبہ خیبر پختو نخوا میں 2014-18 شجر کاری اور جنگلاتی رقبے میں اضافے پر تھوڑی توجہ دی گئی۔
ویسے ہمارے ہاں عوام اور حکومت قدرتی آ فات پر اسی وقت پریشان ہوتے ہیں جب اکتوبر 2005 کی طرح کا تباہ کن زلزلہ آتا ہے یا پھر 2010 کی طرح کا سیلاب آتا ہے جب کہ خشک سالی بڑھتی ہوئی صحرایت جیسی قدرتی آفات پر سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی جاتی ، اس کی واضح مثال بلوچستان میں رونما ہو نے والی 1997 ء سے 2003 -2004 ء تک کی شدید اور طویل ترین خشک سالی تھی جس پر قومی سطح کے اعتبار سے کوئی توجہ نہیں اور حال ہی میں تھر پارکر کے علاقے میں جہاں بچوںکی اموات پر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بجائے اسے ایک قومی المیہ سمجھیں اور اسے مل کر سلجھانے کی کو ششیں کریں، اب تک ٹی وی چینلوں پر اسکور گیمز کھیل ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر الیکشن کے قریب اس لیے الزامات عائد کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں ۔
جبکہ ہمارے ہاں یہ خشک سالی اور بڑھتی ہوئی صحرایت ایک ایسا خطرناک مسئلہ ہے کہ جس پر بر وقت توجہ نہیں دی گئی تو آئندہ 30 برسوں میں ہمارے گرم صحرا اور دشت کے علاقوں میں انسانی زندگی گرمی کی وجہ سے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گی۔ ہمارے پانچ بڑے اور اہم صحرا ہیں۔ پہلے نمبر پر وادی ِ سندھ کا صحرا اس کا رقبہ 20500 مربع کلو میٹر ہے، یہ دریائے چناب اور سندھ کے درمیان واقع ہے۔ دوسرے نمبر پر صحرائے خاران جس کا رقبہ 19000 مربع کلو میٹر ہے۔ تیسرے نمبر پر تھل کا صحرا یہ ضلع بھکر میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اور جہلم سے ایک بڑے نہری پروجیکٹ کے ذریعے یہاں کا م ہو رہا ہے اس کا ایک حصہ کوہستان نمک ضلع جہلم سے ملتا ہے۔
پھرصحرائے تھر ہے یہ صحرا بھارت اور پاکستان کے علاقوں میںپھیلا ہوا ہے یہ دنیا کا نواں وسیع اور گرم ترین صحرا ہے۔ صحرائے تھر کا 85% حصہ بھارت میں واقع ہے اس صحرا کا مجموعی رقبہ 320000 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا زیادہ حصہ بھارتی علاقے راجسھتان میں واقع ہے۔ صحرائے چولستان مقامی زبان میںاسے روحی بھی کہتے ہیں، یہ بہا ولپور میں واقع ہے اور اس کا کچھ حصہ بھارت میں بھی ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب میںواقع خاران و چاغی کا صحرا ہے جس سے آگے ایران اور افغانستا ن کے صحرا نزدیک واقع ہیں۔ دوسری جانب صحرائے تھر یعنی تھر پارکر کا علاقہ ہے اور ہمارا چولستان کا صحرا ہے اس کے پار بھی بھارت کے وسیع صحرا ہیں۔
پھر عجیب بات ہے کہ مئی 1998 ء میں ایک جانب ہم نے خاران اور چاغی میں بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے اور دوسری جانب بھارت نے بھی ہماری سرحد کے قریب راجستھان کے علاقے پوکرن میں پانچ دھماکے کئے جبکہ انڈیا نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ اسی مقام پر 1974 ء میں کیا تھا۔ یوں ایک بڑی عجیب سی بات ہے کہ پاکستان کا بیشتر علاقہ راجستھان سے صحرائے خاران اور چاغٰی کے درمیان واقع پہاڑ راس کوہ تک ڈھا ئی ہزار کلو میٹر کے درمیان واقع ہے۔ چاغی سے نزدیک سرحد پار ایرانی علاقے میں دشت لوط واقع ہے جو دنیا کے بڑے صحراؤں میں27 ویں نمبر پر ہے، اس کا رقبہ 20100 مربع کلومیٹر ہے ۔
یہ غالباً دنیا کا گرم ترین صحرا ہے جہاں جون،جولائی اور اگست کے مہینوں میں درجہ حرارت 60 سینٹی گریڈ تک چلا جا تا ہے، اس صحرا کے حوالے سے گذشتہ چند برسوں سے کلائمیٹ چینج کے اعتبار سے کوئٹہ سمیت بلو چستان کے وسیع رقبے پر ایک نئی اور منفی ماحولیاتی تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے ،کہ موسم گرما میں دشت لوط میں گرمی کی وجہ سے بہت باریک پوڈر کی مانند مٹی بگولوں کی صورت کئی کئی ہزار فٹ بلندی تک فضا میں اڑتی ہے اور پھر یہ پاکستان میں بلوچستان کے علاقے میں کو ئٹہ بلکہ اس سے بھی آگے آتی ہے اور پھر دو دو، تین، تین دن تک فضا میں ہزاروں فٹ بلندی سے یہ باریک پوڈر جیسی مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے، جب یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کوئٹہ میں پروازیں معطل یا بند ہو جاتی ہیں جب کہ یہ مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گر تی ہے تودرختوں کے پتوں اور ہری بھری فصلوں پر جم کر ا ن کو نقصان پہنچاتی ہے۔
پاکستان میں اب ایک بار پھر خصوصا بلوچستان کے اعتبار سے خشک سالی کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں اور28-29 مئی کو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس خشک سالی کے پیش نظر روس سے یہاں بلوچستان میں مصنوعی بارشیں کرانے کا معاہدہ کیا کیونکہ ماہرین کے مطابق اب ایک بار پھر بلوچستان میں خشک سالی کی آمد کے خطرات مستقبل قریب میں ہیں۔ واضح رہے کہ 1997ء سے2002 ء کے دوران بلوچستان میں جو خشک سالی آئی تھی اس سے صوبے کے لاکھوں افراد متا ثر ہوئے تھے۔
لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا تھا اور تقریباً دوکروڑ مال مویشی ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس خشک سالی میں خوراک کی امداد آگئی تھی اس لیے یہاں قحط کی صورتحال پیدا نہیں ہو ئی مگر یہاں زمین کی زرخیزیت کو اتنا نقصان پہنچا کہ اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا، اس لیے اب جب کہ دوبارہ خشک سالی کے اندیشے پیدا ہو رہے ہیں تو ہم قومی سطح پر ابھی سے خشک سالی اور ساتھ ہی ساتھ پھیلتی ہوئی بڑھتی ہوئی صحرایت کو روکنے کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی کرلیں بلکہ موثر انداز میں ایسی منصوبہ بندی پر فوراً عمل درآمد بھی کرنا شروع کردیں۔ آج جب 17 جون 2018 کو ہم صحرایت اور خشک سالی سے مقابلے کا عالمی دن منا رہے ہیں تو ہم بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کا ہی اعلان کردیں۔