فیل پراجیکٹس ’’دہائی خدا کی‘‘

کسی نے بھی ان معاہدوں کو پڑھا ہی نہیں جو بیرون ملک کی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے۔


[email protected]

ہمارا یہ المیہ ہے کہ قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس ارض وطن کو شیرمادر سمجھ کر چوسنے کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ سب سے پہلے جعلی کلیموں کے ذریعے اس ملک کی سرکاری قیمتی اراضی، عمارات اور ہندووں ، سکھوں کی متروکہ املاک الاٹ کرانے کے عمل میں لوٹ مچائی گئی اور اس عمل کو ''ہذا من فضل ربیّ '' کا سہارا دے کر ''پدرم سلطان بود'' کے نعرے لگائے گئے۔

بانی پاکستان قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد ان کی جیب کے کھوٹے سکوں نے ملک کی معیشت، معاشرت، اقتصادیات اور سیاسیات سمیت ہر چیز کا حشرنشر کردیا۔ اسی عمل میں جعلی کلیموں کے ذریعے بڑی بڑی جائیدادوں پر قابض ہونے والے افراد نے اس پوری ارض وطن کو اپنی جاگیر سمجھ لیا اور اس کے وسائل پر اپنا تسلط جمانا شروع کردیا، نتیجتاً ملک کا اقتصادی نظام کبھی مستحکم نہ ہوسکا۔

رہی سہی کسر بعد میں آنے والوں نے پوری کر دی جنہوں نے بینکوں سے قرضے لے کر اپنی جائیدادیں اور کاروبار بڑھانے کی روش اختیار کی۔ بینکوں سے بھاری قرضے لے کر پھر خود کو دیوالیہ قرار دیا اور اپنے واجب الادا قرضے معاف کرانے کے کلچر کو بھی فروغ دیتے رہے۔ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق مشرف دور میں 6ہزار افراد نے 60ارب روپے کے قرضے معاف کرائے جو آج کی رقم کے حساب سے کم و بیش چھ ہزار ارب روپے بنتے ہیں۔

پڑھتا جا شرماتا جاکے مصداق اگر بات نیلم جہلم ہائیڈرو پراجیکٹ کی، کی جائے تو اس پراجیکٹ کی منظوری 1989 میں دی گئی تھی جب اس کا تخمینہ محض 2ارب روپے لگایا گیا تھا،بعد میں سیاست آڑے آگئی اور پراجیکٹ کا 2002میں آغاز ہوا ہی چاہتا تھا کہ نئی حکومت آگئی، جس نے شروع میں تو اس پراجیکٹ پر کوئی خاص توجہ نہ دی مگر جاتے جاتے سیاسی اسٹنٹ کے طور پر 7 جولائی 2007 میں اس کی تعمیر کا ٹھیکہ چین کی کمپنیوں کے ایک کنسورشیم کو دے دیا گیاجو بڑھ کر 60ارب روپے ہو چکا تھا۔ لیکن پراجیکٹ میں تبدیلیاں متوقع ہوئیں یا کی گئیں ۔

جس کے بعد 2011میں یہ پراجیکٹ 3ارب ڈالر کے قریب پہنچ گیا۔ 2013ء میں اسے مکمل ہونا تھا ۔مگر نہ ہوسکا، حکومت تبدیل ہوئی نئی نویلی انتظامیہ نے سوچا کہ انھیں بھی حصہ ملنا چاہیے خیر انھوں نے اسے مزید التواء کا شکار کروادیا کہ اگلے الیکشن کے قریب قریب اس پراجیکٹ کو مکمل کیا جائے گا تاکہ ''ثمر'' بھی مل سکے اور کریڈٹ بھی۔ اللہ اللہ کرکے جب اپریل 2018ء میں یہ پراجیکٹ 600ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا تو علم ہوا کہ بھارت نے دریائے نیلم پر کشن گنگا ڈیم بنا لیا ہے۔

حالانکہ ان حکمرانوں کو کشن گنگا ڈیم کے بارے میں 8سال پہلے کا علم ہے لیکن بھارت سمیت ہمارے سیاستدانوں نے ہماری عوام کو اس بات پر اُلجھائے رکھا کہ دریائے نیلم کا پانی محض دس فیصد استعمال کیا جائے گا، بھارت بے وقوف بنا تاگیا اور ہم بنتے گئے۔ ریکوڈک منصوبے کی سن لیں،یہ پاکستان کی سب سے بڑی اور دنیا کی پانچویں بڑی سونے کی کان ہے، جس کا رقبہ سیکڑوں مربع کلومیٹر ہے، یہاں موجود سونے کے ذخائر کا اندازہ تقریباً 54 ملین ٹن لگایا گیا ہے، اس سونے کی مالیت تقریباً دو سوارب ڈالر (تقریباً دوسو کھرب پاکستانی روپے ) ہے۔

کسی نے بھی ان معاہدوں کو پڑھا ہی نہیں جو بیرون ملک کی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے۔ ایک غیرملکی کمپنی نے اربوں روپے کا سونانکالا، یقیناً اس منصوبے میں متعلقہ لوگوں نے کروڑوں روپے رشوتیں وصول کی ہوں گی، جب اگلی حکومتوں کو ہوش آیا تو کمپنی سے جان چھڑانے کے لالے پڑ گئے،معاملہ عالمی عدالت میں گیا تو عالمی عدالت نے پاکستان کے کمزور کیس کی بنا پر اربوں ڈالر جرمانہ کر دیا۔

ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی کسی کو یاد ہوگا؟ یہ وہی منصوبہ ہے جو زرداری حکومت نے جاتے جاتے الیکشن اسٹنٹ کے طور پر کھیلا جس کے بعد ایران نے اربوں روپے کی لاگت سے اپنی طرف کی گیس پائپ لائن مکمل کرلی مگر پاکستان امریکی دباؤ کے تحت اپنے معاہدے سے ہٹ گیا۔ بین الاقوامی قوانین کے تحت پاکستان کو جتنی لاگت ایران نے اس پراجیکٹ پر لگائی اُس کا دگنا ادا کرنا تھا مگر ایران کا بڑا پن کہ وہ خاموش ہوگیا ۔

ان تمام پراجیکٹس کے بعد اب باری ہے رینٹل پاور پراجیکٹس کی جو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق عالمی بینک کے ادارے برائے سرمایہ کاری کے تنازعات نمٹانے کے بین الاقوامی ادارے کی جانب سے عائد کردہ ایک ارب ڈالرسے زائد کے جرمانے کی ادائیگی پاکستان نہیں کر پائے گا۔

اب صورتحال یہ ہے کہ نگراں حکومت واقعتاً آگے کھائی پیچھے کنواں کی صورتحال میں پھنس گئی ہے، اگر حکومت نے یہ رقم ادا کی تو یہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی کیونکہ عدالت عظمیٰ رینٹل پاور پروجیکٹ کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

اور اگر یہ ادائیگی نہ کی گئی تو رواں ہفتے میں نیا معاملہ سامنے آ جائے گا۔ اور ترک کمپنی دنیا کے کسی بھی ایسے ملک میںپاکستان کے خلاف اثاثوں کی ضبطی کا مقدمہ دائر کرنے کی اہل ہوجائے گی جہاں پاکستان کے اثاثے موجود ہیں۔ جب کہ حکومت یہ مان چکی ہے کہ وہ آئی سی ایس آئی ڈی میں اپنا مقدمہ ہار چکے ہیں اور اب اسی ہفتے ڈیفالٹ قرار دیے جانے کا امکان ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ قانونی معاونت کی مدمیں قومی خزانے سے چار ارب روپے کی ادائیگی کی جا چکی ہے لیکن اسی عالمی ادارے میں دائر کردہ دونوں کیسز میں پاکستان کو شکست ہوئی۔

کیا ایسا نہیں لگتا کہ ''دہائی خدا کی'' اس ملک میں '' ات '' مچی ہوئی ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ جو ملک زر مبادلہ کے ذخائر کے حوالے سے پہلے ہی شکستہ حالت میں ہے ، وہ کس طرح ان پراجیکٹس کا جرمانہ بھرنے کی پوزیشن میں ہوگا اور اگر خدانخواستہ پاکستان ادائیگیاں نہ کی گئیں تو ایک بار پھر پاکستان پر پابندیاں لگ جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں