قوم سے معافی مانگنی بہت ضروری ہے
کشمیر کے حکومتی اتحاد سے زیادہ تر اپوزیشن لیڈروں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
قوم کی تاریخ میں بعض تاریخیں اتنی اہم ہوتی ہیں کہ انھیں فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ ان میں سے ایک تاریخ 25 جون کی ہے جب اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے جمہوریت کی شمع بجھا دی۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ نے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات میں اسے مستعفی ہونے کا حکم دیا تھا مگر اندرا نے یہ عدالتی حکم ماننے کے بجائے الٹا ملک کا آئین ہی معطل کر دیا اور اس کے بعد بدترین قسم کی زیادتیاں کرنا شروع کر دیں۔
ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کو مقدمہ چلائے بغیر قید کر لیا اور اپنے بہت سے مخالفین کو ہلاک بھی کر دیا۔ کافی دیر کے بعد کانگریس پارٹی نے جس کی اندرا گاندھی سربراہ تھیں ایمرجنسی کے نفاذ پر افسوس کا اظہار کیا جس میں شخصی آزادیاں چھین لی گئی تھیں جب کہ پریس پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ لیکن اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی قوم سے معافی نہیں مانگی گئی۔
کانگریس کے صدر راہول گاندھی اب اس کا کوئی مداوا نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سب 43 برس قبل ہوا۔ لیکن اس کے باوجود وہ قوم کو یہ تو بتا سکتے ہیں کہ ان کی دادی (اندرا) اور ان کی پارٹی (کانگریس) دونوں غلط تھے۔ بھارت کے سابق چیف جسٹس جے سی شاہ جنہوں نے مرار جی ڈیسائی کی جنتا پارٹی کی حکومت کے دوران ایمرجنسی میں عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کا جائزہ لیا جن میں اندرا گاندھی کے سیاسی مخالفین بطور خاص شامل تھے۔
اس حوالے سے شاہ کمیشن کی رپورٹ ایک نہایت قیمتی دستاویز ہے جس سے بہت سے سبق حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ 21 مہینے کی اس ایمرجنسی کے دوران قوم پر جو افتاد پڑی اس کو اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانیوالی نصابی کتابوں میں شامل کیا جانا چاہیے لیکن اس وقت زیادہ تر کتابیں جو چھاپی جا رہی ہیں وہ مسلمانوں اور بھارت کے مسلمان حکمرانوں کے خلاف تعصب سے بھری ہوئی ہیں حالانکہ غیر جانبدار تاریخ دانوں نے ان کتابوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نکتہ چینی بھی کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوتوا کا جنون ملک کی بیشتر ریاستوں میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ملک کی بیورو کریسی بھی گیروے رنگ میں رنگی گئی ہے۔ ملک کا آئین اب بھی ایک متبرک دستاویز ہے۔ 2019ء کے عام انتخابات میں اگر بی جے پی دو تہائی اکثریت حاصل کر لیتی ہے تو یہ پارٹی آئین میں ترمیم کی کوشش کرے گی۔
آئین کے آرٹیکل 370 کو نشانہ بنایا جائے گا جو جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی حیثیت دیتا ہے اور آئین سے اجتماعیت کی روح نکالنے کی کوشش کی جائے گی جو اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ بی جے پی، آر ایس ایس کا سیاسی ونگ ہے جو سیکولر ازم کو آئین سے خارج کرنے کی کوشش کرے گا۔ ایمرجنسی کے دوران جو ہوا وہ بھارتی آئین کے صریحاً منافی تھا اور آئین سازوں کی مساعی کو رد کرنے کی کوشش تھی۔ اس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی حالانکہ بنیادی ڈھانچے کو کسی صورت تبدیل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ لیکن مسز گاندھی کو صدارتی اختیار بھی حاصل تھا جس کے تحت نہ صرف انتخابات بلکہ شہری حقوق بھی معطل کر دیے گئے۔
اس عرصے کے دوران اندرا کے تمام سیاسی مخالفین کو پابند سلاسل کر دیا گیا اور جیل میں ہزاروں افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ کئی ایک کو تو نابود ہی کر دیا گیا۔ علاوہ ازیں کئی دوسری اذیتوں کا شکار بھی بنایا گیا۔ ان میں جبری نس بندی بھی شامل تھی۔ ان اذیتوں کا موجد اندرا کا چھوٹا بیٹا سنجے گاندھی تھا جو فطری طور پر تشدد پسند تھا۔ شاہ کمیشن جو ایمرجنسی کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر تحقیقات کے لیے بنایا گیا تھا، اس نے اپنی رپورٹ تین اقساط میں جمع کرائی جس کا آخری حصہ 6 اگست 1978ء میں جمع کرایا گیا۔
اس رپورٹ کے 26 باب تھے اور تین ضمنیاں تھیں جن میں ہر ایک کے 530 سے زیادہ صفحات تھے جن میں جمہوری اداروں اور اخلاقیات کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ ایمرجنسی کے دوران کیے جانے والے اقدامات سے ملک کے نظام کو کس قدر نقصان ہوا ہے۔ جسٹس شاہ نے پولیس کی کارروائیوں اور ترکمان گیٹ کے واقعے میں ہونے والی احتجاجی جلوس پر پولیس کی فائرنگ کا تفصیلی ذکر کیا جو لوگ اپنے گھروں کے انہدام کے خلاف احتجاج کر رہے تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب 1980ء میں مسز گاندھی دوبارہ اقتدار میں آئیں تو انھوں نے اس رپورٹ کی تمام نقول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہ رپورٹ اس قدر ضرر رساں تھی کہ مسز گاندھی نے اس کو تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر یہ اس کے بس سے باہر تھا۔
چنانچہ انھوں نے پوری رپورٹ پر ہی پابندی لگا دی۔ بہرحال ڈی ایم کے، کے بنیادی رکن ایرا سیزھیان ''Era Sezhian''نے جو اس وقت ممبر پارلیمنٹ تھے اپنی رپورٹ کی کاپی شاہ کمیشن رپورٹ کے نام سے شایع کر دی جس میں انھوں نے درست کہا ہے کہ یہ محض تحقیقاتی رپورٹ ہی نہیں بلکہ ایک نہایت قیمتی اور اعلیٰ پائے کی تاریخی دستاویز ہے جو اقتدار میں آنیوالے تمام لوگوں کی رہنمائی کرے گی اور جمہوریت کے لیے جدوجہد کرنیوالوں کو روشنی دکھلائے گی لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) جس کو ایمرجنسی میں سب سے زیادہ نقصان ہوا لیکن لگتا ہے کہ اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ حالانکہ انھیں سبق سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
مسز گاندھی کے سر میں شخصی حکمرانی کا سودا سمایا ہوا تھا۔ آج وزیراعظم نریندر مودی بھی اسی گھوڑے پر سوار ہیں اور وہ راشٹریہ سویم سواک سنگھ Rastriya Swyamsewak Sangh کی انگلی پکڑ کر چل رہے ہیں اور اجتماعیت پر مبنی معاشرے کو فرقہ پرستی میں بدلنا چاہتے ہیں تاکہ پورے ملک میں ہندو راشٹرا قائم ہوجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام نے مسز گاندھی کی شخصی حکمرانی کا نریندر مودی سے موازنہ شروع کردیا ہے۔ یہاں تک کہ متعدد اخبارات اور ٹی وی چینلز نے اس مقصد کے لیے باقاعدہ کوشش شروع کردی ہے اور یہی حرکت انھوں نے مسز گاندھی کی حکمرانی کے دوران بھی کی تھی۔
بی جے پی کے اہم ترین لیڈر ایل کے ایڈوانی نے کچھ عرصہ پہلے ریمارکس دیا تھا کہ ایمرجنسی کا دوبارہ سے نفاذ خارج از امکان نہیں۔ انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ لیڈروں کا تکبر اور غرور انھیں شخصی حکمرانی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر وزیراعظم مودی کے اسٹائل کو دیکھیں تو ان کا رخ بھی شخصی حکمرانی کی طرف ہے۔ یہاں یہ بات بطور خاص قابل ذکر ہے کہ ایل کے ایڈوانی نے ایمرجنسی کے نفاذ کی مخالفت کی تھی جس پر انھیں 18 مہینے جیل میں قید رہنا پڑا۔ ایڈوانی کی پیش گوئی کو دھتکارتے ہوئے ایمرجنسی کے دوران قید کی سزا بھگتنے والوں کے اعزاز میں مودی نے جو دعوت دی اس میں ایڈوانی کو مدعو نہیں کیا گیا۔
بی جے پی نے جس توہین آمیز انداز میں مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کو معزول کیا اور پارٹی کی صوبائی حکومت سے اپنی حمایت واپس لے لی جس کی محبوبہ کو اطلاع بھی نہیں دی گئی اور مقبوضہ ریاست پر گورنر راج نافذ کر دیا۔ سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے بی جے پی اور پی ڈی پی پر موجودہ صورتحال کا الزام لگایا۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کے حکومتی اتحاد سے زیادہ تر اپوزیشن لیڈروں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔
اس حوالے سے توقع کی جارہی ہے کہ 2019ء کے لوک سبھا کے انتخابات میں اکلوتی پارٹی کو مکمل برتری حاصل ہوجائے گی لیکن اس کے باوجود سیاسی صورتحال بہت ناگفتہ بہ ہے۔ لہٰذا امید ہی کی جاسکتی ہے کہ اس صورتحال سے نمٹنے کی کوشش کی جائے۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)