کنفیوژن
در اصل انگریزی کا لفظ کنفیوژن ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔
عام طور پر میں پرہیزکرتا ہوں کہ انگریزی کے الفاظ استعمال کروں ، لیکن پرنٹ میڈیا نے انگریزی الفاظ کو واحد اور جمع کے صیغوں میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے ، اس لیے مجھے بھی ہمت ہوئی کہ انگریزی کے اس عام فہم اور لفظ کو سرخی میں استعمال کروں۔
در اصل انگریزی کا لفظ کنفیوژن ایک وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ کہیں یہ کچھ سمجھ میں نہ آنے کی سمت میں دماغ کو لے جاتا ہے تو کہیں گومگو کی صورت، کہیں اصل راہ سے بھٹک جانے کے معنی میں تو کبھی کچھ سمجھ میں جب یہ نہ آتا ہو کہ حق پہ کون اور باطل کون، کس کو ملک کا حکمران ہونا چاہیے؟ کس کی راہ اور قیادت بہتر ہے،کون سی پارٹی ملک کو صراط مستقیم پر لے جائے گی اورکون سی پارٹی اپنی تجوری کی طرف، تو یہ سب معاملہ ایسا ہے کہ جس کو پہچاننا مشکل ہے، مرزا غالب نے اس مفہوم اور کیفیت کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
چلتاہوں تھوڑی دور ہر اک راہ کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
مگر یہاں تو راہرو کی غلطی محسوس ہوتی ہے مگر ہمارے ملک میں تو کوئی رہبر نظر نہیں آتا کہ جس کی ہمہ گیر قیادت پر ملک کے ہر کونے سے آواز بلند ہورہی ہوکہ یہ ہمارا رہنما ہے۔ ملک کے رہبروں کا حال یہ ہے کہ الیکشن کا بگل کب کا بج چکا مگر منشور ابھی طباعت کے مرحلے میں ہے۔ ایسا محض اس لیے کہ عوام کو کچھ دینا ہی نہیں ہے تو پھر منشور کیوں؟ جب کہ ان کے مابین فرق بھی نہیں ہے، اس لیے آزاد ممبران کی اس الیکشن میں تعداد نمایاں ہے۔کراچی جو ایک زمانے میں سیاسی کردار میں نمایاں مقام رکھتا تھا یہاں اب کوئی روشن چراغ کی لو نظر نہیں آرہی ہے۔ ایم کیو ایم جو ایک زمانے میں یہاں کی نمایاں قیادت تھی وہ اپنا وہ مقام کھوچکی اس کی وجوہات نمایاں ہیں انھیں کراچی والے بھگت چکے ہیں ۔
اب یہ آپس میں ہی الفاظ کی جنگ میں مصروف ہیں، بائیں بازو کی پارٹیاں جوکبھی ذوالفقار علی بھٹو کا ہراول دستہ تھیں ۔ اب خاموش ہیں ایک تو عمر نے ان کے گرد گھیرا ڈال دیا اور اب ان کے سامنے کوئی بھی ایسا نہیں جو عوامی حقوق کا علم بردار ہو، جتنے بھی بظاہر مرد میداں ہیں یہ سب تجوری کے سپوت ہیں۔ اپنی پرانی پارٹیاں چھوڑ کر نئی پارٹیاں جو ان کے مفادات کو پوری طرح تحفظ دے سکیں اس کی طرف ایسے دوڑ رہے ہیں جیسے کہ کھلاڑی کیچ پکڑنے دوڑتے ہیں ۔ آج بھی گوکہ ظاہری طور پر سندھ میں کوئی لسانی نفرتیں موجود نہیں پھر بھی بعض مفاد پرست لسانی تصادم کی فضا پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ کوئی وجہ تو پیدا ہو کہ وہ مقبول ہوسکیں ۔
ایک زمانہ تھا کہ ماضی میں کراچی شہرکو سندھی مہاجر فساد کا مرکز اور حیدرآباد کو ذیلی مرکز بنایا جا رہا تھا، مگر ترقی پسند سندھی بھائیوں اور اردو بولنے والوں کی مضبوط اور مقبول قوتوں نے یہ فضا ختم کی۔ حیدرآباد میں نواب مظفر اور کراچی میں مرزا جواد بیگ اور ان کے ہمنوا 1967 اور اس کے بعد کوشش کرکے تھک گئے مگر فساد نہ ہوا، مجھے یاد پڑتاہے کہ بات 1969کی ہے جب محمود ہارون سندھ کے وزیراعلیٰ بنے تھے۔ یہ یحییٰ خان کی حکومت تھی کہ ایک روز علی محمود جو ہارون فیملی کے سیاسی رکن تھے این ایس ایف کے چند لوگوں سے آکر ملے اور انھیں کراچی صوبے کا خیال پیش کیا۔
ظاہر ہے اگر ان دنوں یہ تحریک چلائی جاتی تو تھوڑی سی شورش پہ یہ صوبہ بن جاتا۔ این ایس ایف کی ورکنگ کمیٹی کے 12 افراد میں اس پر بحث شروع ہوئی دن بھر بحث کے بعد 12 لوگوں کی ووٹنگ کی گئی اس میں کراچی صوبے کے مخالف گروپ کو ایک ووٹ سے شکست ہوئی۔ راقم ان دنوں جنرل سیکریٹری تھا شکست کے باوجود تحریک چلانے پر تیار نہ ہوا کیونکہ تاریخی اعتبار سے ان دونوں اکائیوں کو جلد یا بدیر ایک ہونا ہے پھر میرے لحاظ سے ہم گاؤں کے مکینوں کو وڈیروں کے رحم و کرم پر کیوں اورکیسے چھوڑدیں۔
جب کہ دیر یا سویر وڈیرہ سسٹم کو ختم ہونا ہے لہٰذا کراچی صوبہ تحریک نہ چلائی گئی ۔ جب ایم کیو ایم نے کراچی اور سندھ کی حکومت کے روح رواں تھے ایسا کیا تو لوگ مجھ پر طعنہ زن ہوتے کہ اگر ہم پہل کرتے تو آج آپ کہاں ہوتے، میں جواب دیتا کہ وقت گزرنے دو اور پھر سب نے دیکھ لیا کیا ہوا؟ لہٰذا کراچی صوبہ تحریک ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی کیونکہ اردو زبان اور بھارت سے آئے ہوئے لوگ گاؤں گوٹھ میں آباد ہیں ہمیں ان کا بھی خیال رکھنا ہے اور ان کا بھی جو پڑوسی ہیں یہی وقت کا فیصلہ ہے۔ تصادم دیرپا نتائج کو کبھی بھی امن کی راہ پر گامزن نہیں کرتا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے کوٹا سسٹم ایک قلیل عرصے کے لیے رائج کیا تھا، تاکہ گاؤں کے پسماندہ پڑھے لکھے لوگوں کو ایک بار تو موقع دیں مگر موقع پرستوں نے اس کو اپنی سیاسی تقدیر کا فیصلہ بنا کر تاحیات کے لیے رائج کردیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کو این ایس ایف لائی پہلا جلسہ اس نے ڈاؤ میڈیکل میں کرایا لہٰذا ان کے افکار اور خیالات کو ہم سے زیادہ کون جانتا ہے؟ اسی لیے اس تذبذب کے دور میں پیپلزپارٹی بھٹو کی زبان استعمال کرنے سے گریزاں ہیں گو کہ وہ بھٹو شہید کے وارث ہیں مگر پھر بھی چاروناچار عوام دشمن کارروائیوں میں مصروف نہیں۔ ایک لیڈر جو ملک کے ہونہار لیڈرکہلاتے ہیں جو پارٹی میں جمہوریت کے قائل نہیں اور ٹکٹ صرف ان کو دینے پر آمادہ ہیں جن کا سرمایہ ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، اسی لیے غریب کارکنوں نے ان کے گھر پر دھرنا طلب کرلیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انھیں اپنے گھر جانے کے لیے کارکنوں سے بچ کر نکلنا ہوگا۔ سنا ہے اب انھوں نے رینجرز طلب کرلیے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوسکیں، یہ ہیں قوم کے لیڈر یہ الیکشن لڑرہے ہیں۔ یہ بھی غریبوں پر احسان کررہے ہیں اگر آپ پروگرام کی بنیاد پر ووٹ دینا چاہیں تو کسی بھی پارٹی کو دے دیں، تفاوت مشکل ہے بس ایک بھیڑ ہے جو اسمبلی میں جانے کو ہے، ایک ایسا ملک جس کا خزانہ مستقل دباؤکا شکار ہے جو ہر روز ڈالرکے آگے شرمسار ہے، یہاں کے وزرا کے بینک بیلنس کروڑوں سے بھی زیادہ۔
ہائے افسوس کہ اس وقت ملک کے اول وزیراعظم لیاقت علی خان یاد آئے جو نواب زادہ تھے جب سعید اکبر کی گولی ان کے سینے پر پنڈی میں لگی تو ان کا آخری جملہ یہ تھا کہ ''اﷲ پاکستان کی حفاظت کرے'' جب غسل دینے والے سے پوچھا گیا تو اس نے خود آکے کہاکہ جیب میں پانچ روپیہ کا نوٹ اور بنیان میں کئی جگہ سے سوراخ تھے گو کہ کپڑے صاف ستھرے تھے مگر دیکھیے مقروض ملک کے کھیل اور غریبوں کی خستہ حالی۔ درحقیقت عوام کا کنفیوژن زیادہ عرصہ نہیں رہے گا جگانے والے تو خود گورستان میں محوِ خواب ہیں مگر ان کے افکار اور جد وجہد سے زیادہ عرصہ عوام کنفیوژن کا شکار نہیں رہیںگے۔
غیر ملکی آقاؤں کے یہ کارندے اور ان کے ملک کے لیے ہمارے لوگوں کو لوٹنے والے زیادہ عرصہ تک لوٹ مار نہیں کرسکیںگے۔ یہ ایک منظم کھیل ہے جو جاری ہے یہ حکمران ٹولہ مسلسل پاکستان کی زبوں حالی میں مصروف ہے اور یہ ملک کو ایسی راہ پر لے جانے میں سرگرداں ہے کہ ملک کو معاشی طور پر ڈی فالٹ (Defalt) یعنی پاکستان کے ایکسپورٹر کو مفلوج کردے۔ یہ سارا سال اسمبلی میں صرف چند دن بیٹھتے ہیں اور وظیفے کے علاوہ ترقیاتی فنڈ سے کھیلتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سو فی صد لوگ ایسے ہیں مگر جو کشتیوں کے اصلی ملاح ہیں وہ اسی راستے پر ہیں۔
الیکٹرانک میڈیا ان کے ہی پاس ہے، دو کھلاڑی ہیں جو ایک دوسرے پر گندے الفاظ کی بوچھاڑ میں مصروف ہیں جس سے عوام میں مزید گو مگو کی حالت پیدا ہورہی ہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ لوگ گھر پر بیٹھے رہنا پسند کریںگے اور ووٹنگ کی شرح 30 فی صد تک ہونے کے خطرات ہیں۔ ایسے موقعے پر الیکٹرانک میڈیا بجائے غیر معیاری مفسرین کے جمع کرنے کے ٹی وی پر الیکشن میں حصہ لینے والوں سے مقابلہ کرائیں اور ان سے سوال جواب بھی کریں تاکہ عوام میں حرارت پیدا ہو اور کچھ عوام دوست اسمبلیوں تک پہنچ سکیں۔
موجودہ الیکشن بھی ضیا دور کی باقیات ہیں، اس کے دستور میں تبدیلی کی ضرورت ہے کیونکہ اگر تینوں صوبوں میں تمام ممبران بھی متحد ہوجائیں تو بھی وزیراعظم پنجاب سے ہی آئے گا لہٰذا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد دستور تبدیلی مانگتا ہے کم از کم وزیراعظم کو جیتنے کے بعد دو صوبوں کے وزیراعلیٰ سے ووٹ لینا ضروری قرار دیا جائے تاکہ پاکستان میں رخنہ فروغ نہ پائے کہ کچھ بھی کرلو وزیراعظم پنجاب کا ہی ہوگا اور ملک میں پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کو ہے لہٰذا کالاباغ ڈیم پر از سر نو رائے عامہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے یہ مسئلہ بھی کنفیوژن کی نذر ہوگیا لہٰذا ملکی معاملات کو کنفیوژن کی دلدل سے نکالنے کی اشد ضرورت ہے۔