متحدہ کی منزل
متحدہ کے دونوں گروپ اپنے ارکان اسمبلی کی اکثریت سے محروم ہوکر بھی جھوٹی انا کو اپنی منزل بنائے ہوئے ہیں۔
ایم کیو ایم بہادر آباد کے سربراہ خالد مقبول صدیقی نے کہاہے کہ ایم کیو ایم انتخابات میں کامیاب ہو کر ملک کے تمام قرضے اتارے گی اور قوم کو منزل تک پہنچائے گی اور اگر قوم کو منزل تک نہ پہنچا سکیں تو ایسی ایم کیو ایم کی ہمیں ضرورت نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ عوام آیندہ انتخابات میں ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ووٹ متحدہ کے لیے بھرپور طور پر استعمال کریں اور ہونے والی سازشوں کو ناکام بنا دیں۔
اس سے قبل خالد مقبول نے کہا تھا کہ اب ہماری منزل کوئی رہنما نہیں ہم سب کارکن ہیں اور ہماری منزل باہمی اتحاد ہے اور ہم موجودہ حالات میں ضرور سرخرو ہوں گے۔ چالیس سال بعد اپنے قائد سے راہیں جدا کر کے متحدہ کے رہنماؤں کو خیال آ گیا کہ منزل منزل ہوتی ہے، کوئی رہنما منزل نہیں ہوتا۔ چالیس سال مہاجروں کو کہا جاتا رہا کہ ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے۔
دنیا جانتی ہے کہ کوئی بھی تحریک یا پارٹی کسی منزل کے حصول کے لیے بنتی ہے، جس کی کوئی رہنما منزل کے حصول کے لیے رہنمائی کرتا ہے مگر وہ اپنی ذات کو منزل نہیں بناتا، مگر چالیس سال تک ایک شخص خود کو منزل بنائے بیٹھا رہا اور اپنے ماننے والوں کو مرضی کے سبق پڑھا کر اپنا سیاسی قدر بڑھاتا اور برقرار رکھتا رہا، مگر کسی نے نہ سوچا کہ اس رہنما نے قوم کو دیا کیا۔
چھبیس ستائیس سال سے ازخود جلاوطن اس رہنما نے اپنی قوم کو منزل سے دور رکھا اور جس مقصد کے لیے چالیس سال قبل ایم کیو ایم بنائی گئی تھی وہ مقصد سب نے بھلا دیا اور ایک شخص اپنی ذات کو منزل قرار دے کر من مانی کرتا رہا اور اکثر رہنما جی بھائی جی بھائی کہتے رہے اور اپنی اپنی ذاتی منزلوں پر منزلیں تعمیر کر کے خود کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ان کی قوم نہ صرف وہیں کی وہیں رہی بلکہ برباد اور بدنام ہو کر رہ گئی کہ یہ بھی کیا قوم ہے جسے منزل نہیں رہنما چاہیے تھا۔ جسے صرف اپنی ذاتی تشہیر کی ضرورت تھی وہ پوری ہوتی رہی۔ مال پہ مال بنایا جاتا رہا، خاندان اپنوں سے محروم ہوتے رہے، رسوائیاں ملتی رہیں مگر رہنما کے گن گائے جاتے رہے، رہنما کے بیانات کی مقامی رہنما صفائیاں دیتے رہے، مگر رہنما کو ہوش میں لانے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔
ایم کیو ایم برسوں نہیں عشروں اقتدار میں رہی مگر اسے مسلسل ووٹ دینے والوں کو 11 بار بھی منتخب کر کے کچھ حاصل نہ ہوا۔ جب مقصد ختم ہو جائے اور صرف ذاتی مفادات منزل و مقصد بن جائیں تو عروج کو زوال تو آنا ہوتا ہے جو 22 اگست 2016ء کو آیا، بلکہ لایا گیا تو بھی آنکھیں نہ کھلیں اور اس سال فروری میں جب ذاتی مفاد کے لیے آپس میں پھوٹ پڑی تو بہادر آباد کو یاد آ گیا کہ ایک رہنما سے راہیں جدا کر کے سب ہی رہنما بن گئے تھے اور رہنمائی کے چکر میں پی آئی بی اور بہادر آباد انا اور مفادات کے لیے الگ ہو گئے تو بہادر آباد کو یاد آیا کہ اب ہم رہنما نہیں بلکہ منزل کا حصول چاہیے جس کے بغیر ایم کیو ایم کی کوئی ضرورت نہیں۔
بہادر آباد اور پی آئی بی کے دونوں گروپ سینیٹ انتخابات میں شرمناک شکست کے بعد بھی ہوش میں نہیں آئے اور سربراہی کے لیے لڑتے آ رہے ہیں۔ دونوں ہی نے ایم کیو ایم میں تقسیم در تقسیم جاری رکھی اور دونوں ہی کہتے آ رہے ہیں کہ ایم کیو ایم کو تقسیم اور منتشر کرنے کی سازشیں ناکام بنا دیںگے۔ ایم کیو ایم کو تقسیم در تقسیم کے بعد بھی حالات سے سبق نہ سیکھنے والے اس خوش فہمی میں نہ جانے کیوں مبتلا ہیں کہ 2018ء کے انتخابات مہاجروں کے لیے ایک اور موقع ہیں۔ جس کو وہ بھرپور طریقے سے استعمال کریں گے۔
دونوں گروپ یہ نہیں سوچ رہے کہ اب 2013ء والے حالات ہیں اور نہ ہی وہ مضبوط ایم کیو ایم ہے تو یہ کیسے انتخابات میں کامیاب ہو کر ملک کے قرضے اتاریں گے اور قوم کو منزل تک پہنچائیںگے۔ منزل چالیس سال بعد کیوں یاد آئی، پہلے یہ منزل کے بجائے رہنما چاہیے کیوں بولتے رہے۔ شاید اس لیے کہ چالیس سال تک انھوں نے مہاجروں کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے اقتدار کو یاد رکھا۔
مہاجروں کو تنہا کر کے ان سے ووٹ لیتے رہے اور پی ایس پی بنوائے جانے اور اپنے رہنما کی طرف سے جھوٹی صفائیاں دے دے کر تنگ آنے کے بعد اب انھیں قوم کو منزل پر پہنچانے کی فکر لاحق ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم سے متحدہ قومی موومنٹ بنا کر ڈاکٹر فاروق ستار کے بقول ہم چالیس سال سے مہاجروں کی سیاست کرتے رہے مگر کچھ حاصل حصول نہ ہوا۔ متحدہ مہاجروں کے علاوہ مظلوموں کی بھی ترجمان بنی رہی مگر اس نے مظلوموں کو کچھ دیا، نہ ان کے لیے کچھ کیا۔
دونوں گروپ ضد پر اڑے ہوئے ہیں۔ ذاتی مفاد پرستی دونوں کے درمیان حائل ہے، فاروق ستار کو مکمل اختیارات کے حصول کی پڑی ہے اور بہادر آباد گروپ ان کی من مانیاں نہیں چاہتا۔ فاروق ستار بھی جھوٹے دعوے کرتے رہے، دونوں کے درمیان نوبت یہاں تک آگئی کہ بہادر آباد نے افطار پارٹی میں دوسروں کو بلا لیا مگر فاروق ستار کو نہ بلایا اور پھر جھوٹ بھی بولا کہ فاروق ستار کو بلایا وہ نہ آئے، جس کی فاروق ستار نے تردید کی تو خالد مقبول جواب نہ دے سکے۔
متحدہ کے دونوں گروپ اپنے ارکان اسمبلی کی اکثریت سے محروم ہوکر بھی جھوٹی انا کو اپنی منزل بنائے ہوئے ہیں اور اقتدار کے خواب دیکھ رہے ہیں، جو اب کبھی پورا نہیں ہو گا۔ متحدہ کے ووٹر بھی مایوس و پریشان ہیں کیونکہ انھیں اب متحدہ کی سابقہ طاقت نظر آ رہی ہے اور نہ منزل۔