اسلام میں ہجرت کا مقام پہلا حصہ

اللہ تعالیٰ کی راہ کے علاوہ کسی اور کی راہ یا رِیا کی خاطر نقل مقام و مکان ہجرت نہیں کہلاتی۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

(1) ایمان: ایمان کی وسعت کو اگر ہم تین لفظوں میں سمیٹنا چاہیں تو وہ ہیں اخوت، ہجرت اور نصرت۔ اسلام میں ہجرت کا مقام سمجھنے میں عقل اس وقت تک ناکام رہتی ہے جب تک کہ اس کے سامنے ایمان سے محبت کا مفہوم ناتمام رہتا ہے۔ ہجرت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ایمان کی کیفیت اور نیت کی نوعیت کا بیان ناگزیر ہے۔

ہجرت ایمان کی چاہت اور لذت کا نتیجہ ہے کہ مادہ سے نہیں روح سے عشق ہی عشق حقیقی ہے۔ لیکن اپنے عشق میں وہی حسن سچا ہے جس کا مرکز و محور خدا کی رضا ہے۔ مومن کے لیے اللہ سب سے زیادہ محبت کا حق رکھتا ہے۔

آپؐ کا یہ قول کہ ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کے دل و نگاہ میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی محبت تمام چیزوں اور انسانوں سے زیادہ رچ بس اور سما نہ جائے۔''ایک مسلمان کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اگر کوئی چیز ہے تو وہ دین و ایمان ہے اللہ کو یہ آزمانا اور دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ اس ذہنی کشمکش میں کس کی محبت کی طرف کھنچا جاتا ہے ادھر جاتا ہے یا ادھر آتا ہے اپنے ایمان کے حلفیہ بیان میں وہی سچا ہے جو عشق بتاں (مادی محبت) کو عشق خدا (روحانی محبت) پر نثار کرنے کے لیے ہر لمحہ، ہر گھڑی تیار رہتا ہے۔ ایمان شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنے کا نام ہے۔ بڑے ہی دل گردے کا کام ہے۔ اس راہ میں تپتی ریت اور دہکتے ہوئے انگاروں کا بستر ہے۔ گھر سے بے گھر، دربدر کا سفر ہے۔ کفر کا خطر، جبر اور قہر ہے۔ جان کے لیے دار و تلوار ہے۔ اور پھر بھی اللہ کی رضا پر اگر نظر ہے ہر بات پر صبر، شکر اور فخر ہے تو ایمان پر ثابت قدمی کا اللہ کے ہاں بے انتہا اجر ہے۔

(2) نیت: نیت ایک فطری امر ہے جس سے کسی انسان کو مفر نہیں۔ انسان پر اگر کوئی چیز حکومت کرتی ہے تو وہ اس کی نیت کی قوت ہے۔ اس کا ہر عمل اس کی نیت کے زیر فرمان ہوتا ہے۔ اسلام نیت پر نہیں کیونکہ وہ تو ایک فطری حالت ہے بلکہ نیک نیتی پر زور دیتا ہے۔ اللہ کی رضا کو نیت کی سمت حرکت قرار دیتا ہے۔ اور تقاضا اور مطالبہ کرتا ہے کہ اس سمت نیت میں تغیر نہ ہو ثبات ہو۔ نیت کی مضبوطی اور جماؤ، اسلام کی نظر میں خیر اور نیکی ہے باعث ثواب ہے۔ کمزوری اور بہاؤ شر اور بدی ہے۔ باعث عذاب ہے۔

نیت میں تغیر و تبدل واقع ہونے سے دینی عمل کی نوعیت یکسر بدل کر دنیوی فعل کی ہوجاتی ہے۔ جس طرح سورج کی حرارت سے برف پگھل کر پانی میں بدل جاتی ہے پانی بھاپ بن کر اڑ جاتا ہے یا جس طرح آگ لکڑی کو کھا جاتی ہے اور وہ راکھ ہوجاتی ہے اسی طرح نیت میں اللہ اور اس کی رضا کی جگہ غیر اللہ اور رِیا آجانے سے اعمال صالحہ کے روحانی فیوض و برکات اور اثرات فنا ہوجاتے ہیں۔

کیونکہ وہ اعمال بظاہر نیک نظر آتے ہیں مگر نفسانی خواہشات اور دنیاوی مفادات میں گرفتار ہوتے ہیں۔ وہ عمل جس میں رضائے الٰہی کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے اللہ کی نظر میں وہ بے اثر، بے اجر اور مانند خاک ہے۔ اخلاص نیت، عمل کے شرف قبولیت کے لیے شرط اول ہے۔ آپؐ نے فرمایا ''جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے نماز پڑھی اس نے شرک کیا، جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے روزہ رکھا اس نے شرک کیا اور جس نے لوگوں کو دکھانے کے لیے خیرات کی اس نے شرک کیا۔''

مومن کی نیت اور ارادے پر اللہ کی رضا کی حکمرانی ہوتی ہے۔ نیت کی آزمائش میں تار عنکبوت سے زیادہ لطیف اور نازک مقام بھی آتے ہیں۔ شیر خدا علی مرتضیٰؓ اٹھی ہوئی ذوالفقار کے ساتھ ایک دشمن خدا کے سینہ پر سواری سے فوراً اتر گئے جب اس بدبخت نے آپؓ کے چہرہ مبارک پر تھوک دیا۔ کیونکہ طبیعت میں للہیت کے بجائے انانیت اور نیت میں خدا کے بجائے خود کا خیال آگیا تھا۔ بے شک وہی لوگ سچے مومن ہوتے ہیں جو خودی نہیں خدائی میں نام پیدا کرنے کے کام سرانجام دیتے ہیں۔ رضائے الٰہی کے سچے موتیوں سے اپنے دامن حیات کو بھر کر، خوف و امید کی ملی جلی کیفیت دل میں لیے ہوئے اللہ کی شان رحمت سے اپنی مخلصانہ محنت کی اجرت لینے کے لیے اس کے حضور حاضر ہوجاتے ہیں۔

بہترین ایمانی حالت بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا کہ ''تیری دوستی اور دشمنی کی نیت اللہ کی رضا بن جائے۔'' نیز آپؐ نے فرمایا:


اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے پس جس کی ہجرت دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کی نیت سے ہوگی تو یہ انھی چیزوں کے لیے ہوگی (یعنی اس کا اجر و ثواب حاصل نہ ہوگا) اور جو ہجرت اللہ اور اس کے رسولؐ کے لیے ہوگی اس کا اللہ اور رسولؐ کی خوشنودی میں شمار ہوگا (یعنی اس کا اجر و ثواب ملے گا۔) (بخاری)

''کوزے میں دریا بند کرنا'' آپؐ کے اس حکیمانہ نیت سے متعلق قول پر پوری طرح صادق آتا ہے۔

(3) ہجرت: ہجرت کا لفظ ہجر سے نکلا ہے جس کے معنی فرقت یعنی کسی چیز کو چھوڑ دینے، کسی کام کو ترک کردینے اور کسی معاملے سے بے تعلق ہوجانے کے ہیں۔ رسولؐ خدا نے مہاجر کی تعریف یوں بیان کی ہے:

''اصل مہاجر وہ ہے جو ان تمام چیزوں اور کاموں کو چھوڑ دے جن سے اللہ نے منع کیا ہے۔'' گویا شرعی ممنوعات کو چھوڑ دینے والا یعنی بدی سے بد دل صدق دل سے ہوجانے والا اصل مہاجر ہے۔ ''ہجرت'' اسلام کی ایک مستقل اصطلاح ہے جس سے مراد یہ ہے کہ دین کے قیام، بقا اور استحکام اور ملت کی اصلاح و فلاح کے لیے گھر بار، کاروبار، رشتہ دار، مال و متاع، اہل و عیال جاہ و جلال غرض یہ کہ تمام دنیاوی مفادات کو محض اللہ کی رضا کی خاطر چھوڑ کر کسی ایسی جگہ مستقل طور پر منتقل ہوجانا جہاں آزادی اور امن و سکون کے ساتھ دل کی دنیا سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر گوشے اور شعبے کو ہدایت الٰہی کے نور سے منور کیا جاسکے۔ زندگی کے تمام مظاہر اور ہر طرح کی سرگرمیوں میں خالق حقیقی کی مرضی کی ترجمانی کا حتی الوسیع حق ادا کیا جاسکے۔ بقول اقبال:

جہاں میں اہل ایمان مثل خورشید جیتے ہیں

ادھر ڈوبے اُدھر نکلے' اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

اللہ تعالیٰ کی راہ کے علاوہ کسی اور کی راہ یا رِیا کی خاطر نقل مقام و مکان ہجرت نہیں کہلاتی۔

اسلام میں ہجرت کا وہی شجر با ثمر ہے جو ایمان کی زمین میں اخلاص نیت اور رضائے الٰہی کے بیج کے بطن سے اگ کر پودا اور پودے سے تناور درخت بنا ہو۔

(جاری ہے)
Load Next Story