جنگ عظیم چھڑ چکی ہے

کچھ عرصے سے عالمی مقابلوں میں دفاعی چیمپئنز پر آسیب کا سایہ ہے۔


Iqbal Khursheed June 22, 2018

وہ کروڑوں کی توجہ کا مرکز تھے۔

ایک جانب دنیا کا طاقتور ترین شخص بیٹھا تھا۔ وہ شخص، جو کبھی کے جے بی کا سربراہ تھا۔ جو کم گو، مگر پراعتماد تھا، اور ایک اور طویل جنگ لڑنے کو تیار تھا۔ اور دوسری جانب، عربوں کا ابھرتا ہوا لیڈر۔ وہ جس کے نظریات نے نہ صرف اس کے ملک، بلکہ پورے خطۂ عرب میں کھلبلی مچا دی تھی، جس کی موت کی افواہ گزشتہ چند روز سے گردش میں تھی۔ وہ افواہوں کو شکست دے کر لوٹ آیا تھا۔ اور اس روز دنیا کے طاقتور ترین شخص کے ساتھ موجود تھا۔ اور وہ دونوں کروڑوں کی توجہ کا مرکز تھے۔

ولادی میر پوتن اور محمد بن سلمان، جو شام کے معاملے پر ایک دوسرے کے حریف ہیں، اس روز ایک ہی کمرے میں، قریب قریب بیٹھے تھے، اور بار بار مصافحہ کرتے تھے کہ ایک عظیم واقعہ رونما ہونے کو تھا، جنگ چھڑ نے کو تھی، فیفا ورلڈ کپ کا آغاز ہونے والا تھا۔

اس شام روس اور سعودی عرب کی ٹیمیں مدمقابل تھیں، اور محمد بن سلمان، جو فلسطین سے متعلق سعودی عرب کی عشروں پر محیط پالیسی میں ناپسندیدہ تبدیلیوں کے اشارے دے چکا تھا، اور پوتن، جو آنے والے چند برس تک روسی تخت پر، یعنی ایک چوتھائی دنیا پر پوری شان سے براجمان رہنے والا تھا، اس روز فیفا کے صدر گیانی انفینٹینو کے ساتھ، چہروں پر مسکراہٹ سجائے بیٹھے تھے۔

اسٹیج سج چکا تھا... ریفری سیٹی بجانے والا تھا... دنیا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدلنے والی تھی۔

فٹ بال ایک نشہ ہے، ایک عقیدہ ہے، ایک طرز زیست ہے۔ ایسا سحر، جس کا کوئی توڑ نہیں، فرار نہیں۔

جس پل یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، روسی ٹیم مصر پر غلبہ پاچکی ہے۔ مصر، جسے آج محمد صلاح جیسے بے بدل کھلاڑی کی خدمات حاصل تھیں، روسی حملوں کے سامنے ڈھے گیا۔ محمد صلاح کا ذکر ضروری ہے کہ اس کا عشق لیورپول کے مداحوں کے خون میں رچ بس گیا ہے۔ اسے دیکھ کر وہ گنگناتے ہیں: ''اگر تم یونہی گول کرتے ہی رہے، تو ہم بھی ایک روز مسلمان ہوجائیں گے!'' صلاح کو فرعونوں کے دیس میں دیوتا کا درجہ حاصل ہے۔ وہ صدارتی انتخابات میں السیسی کے بعد سب سے زیادہ ووٹ لینے والا کھلاڑی تھا، گو انتخابات میں حصہ نہیں لے رہا تھا۔ یہ وہی ہے، جو 28 سال بعد اپنی ٹیم کو ورلڈ کپ مقابلوں تک کھینچ لایا، مگر اپنے جنم دن والے روز بینچ پر بیٹھا اور بعد ازاں میدان میں، بے بسی سے اپنی ٹیم کو شکست کا تلخ جام پیتے دیکھتا رہا۔

اب تک ورلڈ کپ ''انڈر ڈاگس'' کے نام رہا ہے۔ میسی کی ارجنٹینا آئس لینڈ جیسی ٹیم کو شکست دینے میں ناکام رہی، جو پہلی بار ورلڈ کپ میں اتری تھی۔ ادھر برازیل کو سوئٹزرلینڈ کے خلاف دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ جاپان کی ٹیم نے جیمس روڈریگس کی کولمبیا کو حیران کن شکست دی، مگر سب سے بڑا اپ سیٹ میکسیکو کے ہاتھوں دفاعی چیمپئن... ملر اوراوزل کی ٹیم... جرمنی کی ہار تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ میکسیکو اگر دباؤ کا شکار نہ ہوتا، تو مزید گول داغ سکتا تھا۔

کچھ عرصے سے عالمی مقابلوں میں دفاعی چیمپئنز پر آسیب کا سایہ ہے۔ جی، 1998ء میں برازیل کو شکست دے کر ٹھسے سے ورلڈ کپ جیتنے والی فرانس کو 2002ء کے گروپ اسٹیج میں، زیڈان کے بغیر، بدترین شکست ہوئی، اور وہ رسوا ہو کر باہر ہوئی۔ 2006ء میں دفاعی چیمپئن اٹلی کیناوارو کی قیادت میں میدان میں اتری، اور آنکھوں میں نمی لیے پہلے راؤنڈ سے وطن لوٹ گئی۔ 2010ء کی ورلڈ چیمپئن اسپین کو نیدرلینڈز نے، وہی ٹیم جسے ہرا کر اسپین نے ورلڈ کپ جیتا تھا، چار سال بعد عبرت ناک شکست دی۔ اور اب ''انڈر ڈاگ'' میکسیکو نے ایک صفر سے دفاعی چیمپئن جرمنی کو ٹھکانے لگادیا۔ یہ فٹ بال ہے، اپنی بہترین شکل میں۔ یہ بھی یاد رہے کہ نیدرلینڈز اور اٹلی کی مضبوط ٹیمیں ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی ہیں۔

اس ورلڈ کپ میں عہد حاضر کے دو بہترین کھلاڑی، جنھیں کچھ تجزیہ کار ان کی متعارف کردہ جدت اور تکنیکس کے باعث فٹ بال کی تاریخ کے بہترین کھلاڑی کہتے ہیں، ایکشن میں ہیں۔ ایک کرسٹیانو رونالڈو، دوسرا لائنل میسی۔ دونوں میں عظیم ترین کون ہے؟ اس کا فیصلہ اب لیگ فٹ بال کے ٹائٹلز نہیں، بلکہ بین الاقوامی اعزازات کریں گے۔ گو میسی نے اپنی ٹیم کو کوپا امریکا اور ورلڈ کپ کے فائنلز تک پہنچایا، مگر وہ ارجنٹینا کو فتح نہیں دلوا سکا۔ اگر ایسا کر جاتا، تو اس کی عظمت پر تصدیق کی مہر ثبت ہوجاتی۔ دوسری جانب رونالڈو پرتگال کو یورو کپ جتوا کر اپنے لیے زمین تیار کرچکا ہے۔ جب تک یہ تحریر قارئین تک پہنچے گی، جانے کیا کچھ رونما ہوچکا ہو۔ البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے، یہ ورلڈ کپ ماضی کے ہر مقابلے سے زیادہ اثر انگیز، سنسنی خیز اور دل پذیر ثابت ہوگا۔

''بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ'': سماجی رابطے کی ویب سائٹس نے دنیا بدل دی۔ اب آپ فیس بک اور ٹویٹر کے وسیلے جہاں اپنے خیالات دھڑلے سے براڈ کاسٹ کرسکتے ہیں، وہیں اپنے ہم خیال افراد سے بھی سہولت سے جڑ سکتے ہیں۔ ادھر جب ہم جیسے فٹ بال کے عقیدت مند اِس کھیل سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں، تو کچھ احباب طنزاً بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی مثال داغ دیتے ہیں۔ ہمارے مانند فٹ بال اور فلموں کے شایق ذوالفقار علی زلفی کو، جو برازیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، یاروں نے طعنے دیے، تو انھوں ایک طویل پوسٹ میں اِس کھیل سے وابستگی پر کچھ روشنی ڈالی۔ لکھتے ہیں:

''پاکستان کے دیگر علاقوں کا مجھے درست علم نہیں، مگر جس حرماں نصیب خطے، یعنی لیاری سے میرا تعلق ہے، وہاں کرکٹ اجنبی اور فٹ بال کلچر کا حصہ ہے۔ لیاری میں بچہ ہوش سنبھالتے ہی دو چیزیں سیکھتا ہے، ایک 'جئے بھٹو' اور دوسرا 'فٹ بال'۔ فٹ بال ہمارے کلچر کا قابل فخر حصہ ہے۔ گئے دنوں میں لیاری کی فٹ بال کو ایشیا میں قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، پاکستانی حکومت کی بے حسی اور عدم دلچسپی کے باعث آج ایران، سعودی عرب، کوریا اور جاپان، جو گئے دنوں میں لیاری کی فٹ بال کے سامنے ہیچ تھے، بہترین ایشین ٹیموں میں گنے جاتے ہیں۔'' مزید لکھتے ہیں: ''ورلڈ کپ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہو، لیاری کی سڑکوں پر مختلف ممالک کے پرچموں، بڑی بڑی ٹی وی اسکرینوں اور دمکتے چہروں کی بہار ایسا سماں باندھ دیتے ہیں، جیسے ورلڈ کپ گبول پارک اور ککری گراؤنڈ میں کھیلا جارہا ہو!''

فٹ بال لیاری کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ اچھا، مشترکہ ہندوستان میں فٹ بال کا گڑھ بنگال تھا۔ تقسیم کے بعد مشرقی پاکستان میں فٹ بال کا چلن رہا۔ البتہ بعد میں کرکٹ کی مقبولیت نے ہاکی، فٹ بال، اسکواش سب کو نگل لیا۔ وہ بازو بھی کٹ گیا۔

ناممکن کچھ نہیں۔ اگر پاکستان فٹ بال فیڈریشن ملک بھر سے پچاس باصلاحیت بچے چن کر انھیں دنیا کے بہترین کلبوں میں گروم کرے، تو فقط دو عشروں بعد آپ ایسے کھلاڑی دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں، جو بین الاقوامی مقابلوں میں اترنے کا خواب دیکھ سکیں۔ یاد رکھیں، اگر لائنل میسی کو بارسلونا اور رونالڈو کو، کو سپورٹنگ لزبن جیسے کلبس کا زرخیز میدان نہ ملتا، تو اِن لازوال کھلاڑیوںکو بھی کئی دشوار گزار گھاٹیاں عبور کرنی پڑتیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔