غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
انسان بھی عجیب مخلوق ہے کہ وہ دنیا میں ذلت سے بچنے کے اسباب اختیار کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جیسے ہمیں زندگی عطا فرمائی ہے بالکل اسی طرح ہمیں موت بھی ضرور دیں گے۔
اس زندگی کے مختصر ایام اگر اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کے مطابق گزار لیے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ مرتبہ و مقام، عزت و انعام اور اجر و ثواب سے نوازیں گے ورنہ اس ذات کی ناراضی اور عذاب بہت سخت ہے۔
بسا اوقات انسان دنیا اور اس کی رنگینیوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ آخرت کو بالکل بھول جاتا ہے۔ یہ دنیا جہاں انسان نے چند دن گزارنے ہیں یہاں کے لیے ہر وقت اور ہر طرح کی تیاری کرتا ہے، اسباب عیش و عشرت، جاہ و حشمت، حصول عزت، اچھی شہرت، مال و دولت اور رزق روزی کی تیاری میں ہر آن خود کو مصروف رکھتا ہے۔ لیکن صد افسوس! آخرت جہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے وہاں کی تیاری کی اسے کچھ فکر نہیں۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے کہ وہ دنیا میں ذلت سے بچنے کے اسباب اختیار کرتا ہے، چند انسانوں کے سامنے اپنی ذلت کو برداشت نہیں کر سکتا لیکن آخرت میں ساری انسانیت کے سامنے ذلت کا اسے احساس نہیں ہے۔ دنیا میں کسی حاکم کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہے لیکن احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہونے کا خوف اس کے دل میں نہیں ہے۔ یہ دھوکے کے گھر دنیا میں مغرور ہو کر زندگی گزارنے میں مگن ہے لیکن خوشیوں کے گھر، جنت میں مسرور ہونے کی لگن نہیں ہے۔
اس دارِ محنت (دنیا) سے دارِ نعمت (جنت) کی طرف سفر کی تیاری نہیں کرتا۔ بل کہ اس کی حماقت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جس خالق سے اس نے جنت مانگنی ہے، عذاب سے نجات لینی ہے، عزت و انعام اور سرخ روئی حاصل کرنی ہے یہ اسی کی کھلم کھلا نافرمانیوں میں مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں دنیا کی قدر و قیمت ہے آخرت کی نہیں۔ دنیا کی ظاہری، جھوٹی، وقتی، عارضی اور فانی چیزوں پر آخرت کی حقیقی، سچی، ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کو قربان کر رہا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا یہ دنیا کو آخرت پر قربان کرتا۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانیت کو اس حماقت اور غفلت کی دلدل سے نکالنے کے لیے مختلف مواقع پر ایسی پیاری تعلیمات دی ہیں کہ اگر انسان ان پر عمل کرلے تو اس کی دنیا بھی بَن جائے اور آخرت بھی بَن جائے اور اگر وہ اس سے روگردانی اختیار کرے تو بہ روز محشر اس کی جان پر بَن آئے گی۔ اللہ دنیا کی لذتوں میں غافل ہونے والے شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے کیا تعلیم دی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' موت کو کثرت سے یاد کرو جو لذتوں کو مٹانے والی ہے۔''
(جامع الترمذی ، باب ماجاء فی ذکر الموت )
اس حدیث مبارک کی روشنی میں ہماری غفلت کا علاج موجود ہے، موت اور مرنے کے بعد کے حالات کا تصور کیجیے، روزانہ کچھ وقت نکال کر اپنا محاسبہ کریں، خصوصاً جب بستر پر سونے کے لیے لیٹیں تو آنکھیں بند کر کے یوں خیال فرمائیں۔ میری ابھی روح نکلنے والی ہے، فرشتہ روح نکالنے کے لیے آئیں گے تو جسم کے ایک ایک عضو سے روح کو کھینچیں گے، اس وقت کی تکلیف کا تصور کریں، پھر سوچیں کہ اب مجھے قبر میں اتارا جا رہا ہے، خاندان والے، دوست احباب، عزیز رشتے دار سب اپنے ہاتھوں قبر میں اتار کر اوپر سے بند کر دیں گے، قبر میں اندھیرا ہی اندھیرا ، کوئی روشنی نہیں، تاریکی ظلمت کچھ دکھائی نہیں دے رہا، سوال و جواب ہوں گے، اپنے بدعملیوں کی سزا ملے گی ۔
قبر اتنے زور سے دبائی گی کہ اِدھر کی پسلیاں اْدھر کی پسلیوں میں گھس جائیں گی، خوف ناک شکل و صورت والے زہریلے سانپ اور بچھو ڈسیں گے، میری چیخ و پکار کو سن کر مدد کو آنے والا کوئی نہیں ہوگا، میری ہائے فریاد کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوگا، یہ سانپ بچھو بار بار ڈسیں گے بھاگ بھی نہیں سکوں گا، والدین، اولاد، بیوی بچے، عزیز واقارب اور دوست احباب کوئی مجھے ان سے بچانے کے لیے نہیں آئے گا، دنیا میں بسنے والے انسان اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے انہیں تو میرا نام لینے کی بھی فرصت نہیں ہوگی۔ یہ صرف ایک دن یا ایک رات کا معاملہ نہیں بل کہ قیامت تک کے لیے میرے ساتھ یونہی ہوتا رہے گا۔ پھر قبر کہے گی: میں تنہائی کا گھر ہوں، میں تاریکی کا گھر ہوں، میں کیڑوں کا گھر ہوں، میں وحشت اور ڈر کا گھر ہوں۔ دنیا والی عزت، شہرت، دولت میرے کام نہیں آئیں گے، اگر کام آئیں گے تو وہ نیک عمل اور وہ اولاد جن کی تربیت اسلامی طرز پر کی ہوگی۔
اپنا محاسبہ روزانہ کریں، دوسرا گاہے بہ گاہے قبرستان جایا کریں، وہاں جاکر اپنے انجام کو سوچیں، قبروں کو دیکھ کر غور کریں کہ ان میں حسن و جمال، مال و دولت، علم و عمل اور شہرت و عزت والے پڑے ہوئے ہیں۔ خدا کی ماننے والے بھی سو رہے ہیں اور خدا کی نہ ماننے والے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ اتنی بے بسی ہے کہ باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ ان کا حسن و جمال آج خاک آلود ہو رہا ہے جو کبھی اپنی اوپر مٹی کے ذرات کو برادشت نہیں کرتے تھے، آج منوں مٹی تلے دبے پڑے ہیں۔ مال و دولت والے خالی ہاتھ پڑے ہیں۔ ایک دن مجھے بھی ایسے ہی آ کر لوگ دفنا جائیں گے، پھر برسوں خبر بھی نہ لیں گے، کچھ دن میرا تذکرہ ہوگا پھر تو لوگ نام لینا بھی چھوڑ دیں گے۔
یہ دو کام کرتے رہیں، پہلا روزانہ موت، قبر اور آخرت کو یاد کرتے رہیں۔ دوسرا کبھی کبھار قبرستان جاتے رہیں اور عبرت حاصل کرتے رہیں۔ دل سے غفلت دور ہونا شروع ہوجائے گی، پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ کو ہر وقت اللہ رب العزت کی ذات کا استحضار رہنے لگے گا۔ گناہوں والی عادت سے اللہ کے فضل سے جان چھوٹ جائے گی، نیکیوں کی توفیق ملنا شروع ہوگی، دل کا اطمینان حاصل ہوگا۔
اللہ کریم ہمیں غفلت والی زندگی سے بچائے اور موت سے پہلے وہ کام کرنے کی توفیق دے جو موت کے بعد کام آئیں گے۔ آمین
اس زندگی کے مختصر ایام اگر اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک طریقوں کے مطابق گزار لیے تو آخرت میں اللہ تعالیٰ مرتبہ و مقام، عزت و انعام اور اجر و ثواب سے نوازیں گے ورنہ اس ذات کی ناراضی اور عذاب بہت سخت ہے۔
بسا اوقات انسان دنیا اور اس کی رنگینیوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ آخرت کو بالکل بھول جاتا ہے۔ یہ دنیا جہاں انسان نے چند دن گزارنے ہیں یہاں کے لیے ہر وقت اور ہر طرح کی تیاری کرتا ہے، اسباب عیش و عشرت، جاہ و حشمت، حصول عزت، اچھی شہرت، مال و دولت اور رزق روزی کی تیاری میں ہر آن خود کو مصروف رکھتا ہے۔ لیکن صد افسوس! آخرت جہاں اس نے ہمیشہ رہنا ہے وہاں کی تیاری کی اسے کچھ فکر نہیں۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے کہ وہ دنیا میں ذلت سے بچنے کے اسباب اختیار کرتا ہے، چند انسانوں کے سامنے اپنی ذلت کو برداشت نہیں کر سکتا لیکن آخرت میں ساری انسانیت کے سامنے ذلت کا اسے احساس نہیں ہے۔ دنیا میں کسی حاکم کے سامنے پیش ہونے سے ڈرتا ہے لیکن احکم الحاکمین کی عدالت میں پیش ہونے کا خوف اس کے دل میں نہیں ہے۔ یہ دھوکے کے گھر دنیا میں مغرور ہو کر زندگی گزارنے میں مگن ہے لیکن خوشیوں کے گھر، جنت میں مسرور ہونے کی لگن نہیں ہے۔
اس دارِ محنت (دنیا) سے دارِ نعمت (جنت) کی طرف سفر کی تیاری نہیں کرتا۔ بل کہ اس کی حماقت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ جس خالق سے اس نے جنت مانگنی ہے، عذاب سے نجات لینی ہے، عزت و انعام اور سرخ روئی حاصل کرنی ہے یہ اسی کی کھلم کھلا نافرمانیوں میں مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کے دل میں دنیا کی قدر و قیمت ہے آخرت کی نہیں۔ دنیا کی ظاہری، جھوٹی، وقتی، عارضی اور فانی چیزوں پر آخرت کی حقیقی، سچی، ابدی اور ہمیشہ باقی رہنے والی نعمتوں کو قربان کر رہا ہے۔ عقل مندی کا تقاضا یہ تھا کہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا یہ دنیا کو آخرت پر قربان کرتا۔
محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے نوع انسانیت کو اس حماقت اور غفلت کی دلدل سے نکالنے کے لیے مختلف مواقع پر ایسی پیاری تعلیمات دی ہیں کہ اگر انسان ان پر عمل کرلے تو اس کی دنیا بھی بَن جائے اور آخرت بھی بَن جائے اور اگر وہ اس سے روگردانی اختیار کرے تو بہ روز محشر اس کی جان پر بَن آئے گی۔ اللہ دنیا کی لذتوں میں غافل ہونے والے شخص کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے کیا تعلیم دی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' موت کو کثرت سے یاد کرو جو لذتوں کو مٹانے والی ہے۔''
(جامع الترمذی ، باب ماجاء فی ذکر الموت )
اس حدیث مبارک کی روشنی میں ہماری غفلت کا علاج موجود ہے، موت اور مرنے کے بعد کے حالات کا تصور کیجیے، روزانہ کچھ وقت نکال کر اپنا محاسبہ کریں، خصوصاً جب بستر پر سونے کے لیے لیٹیں تو آنکھیں بند کر کے یوں خیال فرمائیں۔ میری ابھی روح نکلنے والی ہے، فرشتہ روح نکالنے کے لیے آئیں گے تو جسم کے ایک ایک عضو سے روح کو کھینچیں گے، اس وقت کی تکلیف کا تصور کریں، پھر سوچیں کہ اب مجھے قبر میں اتارا جا رہا ہے، خاندان والے، دوست احباب، عزیز رشتے دار سب اپنے ہاتھوں قبر میں اتار کر اوپر سے بند کر دیں گے، قبر میں اندھیرا ہی اندھیرا ، کوئی روشنی نہیں، تاریکی ظلمت کچھ دکھائی نہیں دے رہا، سوال و جواب ہوں گے، اپنے بدعملیوں کی سزا ملے گی ۔
قبر اتنے زور سے دبائی گی کہ اِدھر کی پسلیاں اْدھر کی پسلیوں میں گھس جائیں گی، خوف ناک شکل و صورت والے زہریلے سانپ اور بچھو ڈسیں گے، میری چیخ و پکار کو سن کر مدد کو آنے والا کوئی نہیں ہوگا، میری ہائے فریاد کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوگا، یہ سانپ بچھو بار بار ڈسیں گے بھاگ بھی نہیں سکوں گا، والدین، اولاد، بیوی بچے، عزیز واقارب اور دوست احباب کوئی مجھے ان سے بچانے کے لیے نہیں آئے گا، دنیا میں بسنے والے انسان اپنے کاموں میں مصروف ہوں گے انہیں تو میرا نام لینے کی بھی فرصت نہیں ہوگی۔ یہ صرف ایک دن یا ایک رات کا معاملہ نہیں بل کہ قیامت تک کے لیے میرے ساتھ یونہی ہوتا رہے گا۔ پھر قبر کہے گی: میں تنہائی کا گھر ہوں، میں تاریکی کا گھر ہوں، میں کیڑوں کا گھر ہوں، میں وحشت اور ڈر کا گھر ہوں۔ دنیا والی عزت، شہرت، دولت میرے کام نہیں آئیں گے، اگر کام آئیں گے تو وہ نیک عمل اور وہ اولاد جن کی تربیت اسلامی طرز پر کی ہوگی۔
اپنا محاسبہ روزانہ کریں، دوسرا گاہے بہ گاہے قبرستان جایا کریں، وہاں جاکر اپنے انجام کو سوچیں، قبروں کو دیکھ کر غور کریں کہ ان میں حسن و جمال، مال و دولت، علم و عمل اور شہرت و عزت والے پڑے ہوئے ہیں۔ خدا کی ماننے والے بھی سو رہے ہیں اور خدا کی نہ ماننے والے بھی پڑے ہوئے ہیں۔ اتنی بے بسی ہے کہ باہر بھی نہیں نکل سکتے۔ ان کا حسن و جمال آج خاک آلود ہو رہا ہے جو کبھی اپنی اوپر مٹی کے ذرات کو برادشت نہیں کرتے تھے، آج منوں مٹی تلے دبے پڑے ہیں۔ مال و دولت والے خالی ہاتھ پڑے ہیں۔ ایک دن مجھے بھی ایسے ہی آ کر لوگ دفنا جائیں گے، پھر برسوں خبر بھی نہ لیں گے، کچھ دن میرا تذکرہ ہوگا پھر تو لوگ نام لینا بھی چھوڑ دیں گے۔
یہ دو کام کرتے رہیں، پہلا روزانہ موت، قبر اور آخرت کو یاد کرتے رہیں۔ دوسرا کبھی کبھار قبرستان جاتے رہیں اور عبرت حاصل کرتے رہیں۔ دل سے غفلت دور ہونا شروع ہوجائے گی، پھر ایک وقت آئے گا کہ آپ کو ہر وقت اللہ رب العزت کی ذات کا استحضار رہنے لگے گا۔ گناہوں والی عادت سے اللہ کے فضل سے جان چھوٹ جائے گی، نیکیوں کی توفیق ملنا شروع ہوگی، دل کا اطمینان حاصل ہوگا۔
اللہ کریم ہمیں غفلت والی زندگی سے بچائے اور موت سے پہلے وہ کام کرنے کی توفیق دے جو موت کے بعد کام آئیں گے۔ آمین