وقت کے قدردان

’’ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسان لایعنی مشاغل ترک کردے۔‘‘

’’ آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسان لایعنی مشاغل ترک کردے۔‘‘ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ کی انسان پر بے شمار نعمتیں ہیں جن میں سے ایک نعمت وقت بھی ہے، وقت ان نعمتوں میں سے ہے جو انمول ہیں یعنی جو انسان کو ایک ہی بار ملتی ہیں۔ اس لیے وقت کی قدر کرنے اور اسے قیمتی بنانے کا احساس پیدا کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کی احادیث میں بھی مختلف اسالیب سے توجہ دلائی گئی ہے۔

حدیث کے مشہور امام ''ابوداؤد''جن کی ''سنن'' صحاح ستہ میں شمار ہوتی ہیں، فرماتے تھے: میں نے اپنی سنن پانچ لاکھ احادیث سے منتخب کی ہے (ان کی سنن چار ہزار آٹھ سو احادیث پر مشتمل ہے ) پھر انہوں نے اپنی سنن سے اسلامی نظام زندگی کے دستور کی جامعیت پر نمونے کے طور پر چار احادیث کا انتخاب پیش کیا، ان چار میں سے ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے: '' آدمی کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ انسان لایعنی مشاغل ترک کردے''

''وقت بھی ایک سونا ہے '' یہ مثال ان لوگوں کے لیے صحیح ہے جو موجودات کی قدر و قیمت محض قیاس و تصور کے ذریعے ہی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ پاکیزہ خیالات و نظریات کے حامل ہوتے ہیں، ان کے ہاں تو وقت بہت گراں ہے ان کے نزدیک وقت کا مقام بہت بلند اور ارفع ہے۔ وہ کہتے ہیں : '' وقت ہی زندگی ہے۔'' لیکن یاد رہے کہ وقت سے کام لینے والے اس تھوڑی سی زندگی میں مجتہد، مفسر، محدّث، فقیہ، فلاسفر، منصف اور اولیاء بن گئے۔ اس کے برخلاف جتنے لوگ تم دیکھ رہے ہو انہوں نے بچپن میں اپنا وقت رائیگاں کھویا ہے۔

بے کار گزارا ہوا ایک لمحہ ننھے سے پودے کی کئی شاخوں کو کاٹ ڈالتا ہے۔

تاریخ کا مطالعہ کیجیے! آپ کو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جتنے کام یاب لوگ گزرے ان کی ترقی کا اہم راز وقت کی قدر اور اس کا صحیح استعمال تھا اور جن لوگوں نے وقت کی قدر کی اور اپنے آپ کو لغویات سے بچایا انہوں نے اپنی آخرت کے لیے بھی بہت کچھ کیا اور پیچھے امت کے لیے بھی بہت کچھ چھوڑا۔

سلف صالحین کے واقعات اس بات پر شاہد ہیں کہ انہوں نے کس کمال احتیاط کے ساتھ وقت کا استعمال کیا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بارے میں حضرت عبدالحئی عارفیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت کی نظر میں وقت کی بڑی قدر تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے وقت کی اہمیت کو آپ کی فطرت میں پیوست کر دیا ہے۔ ہر ایک لمحے کو صحیح جگہ پر خرچ کرنے کا اہتمام فرماتے۔ ہر وقت نظر گھڑی پر رہتی تھی اور ہر کام نظام الاوقات کے تحت کرتے تھے، اسی اہتمام کی برکت سے دین کی اشاعت اور رشد و ہدایت کا ایک بہت بڑا ذخیرہ امت کے لیے تیار کرکے چھوڑا۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ کی تصانیف کی تعداد11ہے، جن کی علامہ کوثریؒ نے بلوغ الامانی کے حاشیہ میں تصریح کی ہے۔ امام شافعیؒ نے کتاب الام لکھی جو پندرہ جلدوں میں ہیں اس کے علاوہ 113کتابیں مزید لکھیں۔ امام محمدؒ نے علومِ دینیہ میں 990 کتابیں تصنیف کیں۔ امام حزمؒ کے 400 مجلّدات ہیں جو اسّی ہزار اوراق پر مشتمل ہیں۔ امام یحیٰ بن معینؒ نے دس لاکھ احادیث لکھی ہیں۔ ابن عساکرؒ نے 50 سے زاید کتب تصنیف کیں، ان کی ایک کتاب'' تاریخ مدینہ و دمشق'' 80 جلدوں میں ہے۔

شیخ عبدالرحمٰن ابن ِ جوزیؒ کی ایک ہزار سے زاید تصانیف ہیں۔ ابن جریرؒ نے اپنی زندگی میں تین لاکھ اٹھاون ہزار اوراق لکھے۔ امام ابوالحسن اشعریؒ کی تصانیف 250 سے300 تک ہیں۔ علامہ احمد بن علی الخطیب بغدادیؒ کی تالیفات60 سے زاید ہیں۔ علامہ جاحظؒ کی 200 تصانیف ہیں۔ ابن تیمیہؒ کی تصانیف کی گنتی مشکل ہے۔ حافظ ابن حجرؒ کے بعد علامہ عینیؒ سے زیادہ کثیر التصانیف کوئی نہیں، آپ کی ایک تالیف ''عمدۃ القاری''21 جلدوں پر مشتمل ہے۔


حافظ ابن ِ حجرؒ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ '' نظام الاوقات کے پابند تھے، ہر کام کا وقت مقرر تھا اور ہر ایک لمحہ تول کر خرچ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ لکھنے کے دوران قلم پر قط رکھنے کی ضرورت پیش آتی تو اتنی دیر بے کار نہ گزارتے بل کہ اس وقفے میں زبان سے ذکر اللہ میں مشغول ہوجاتے تھے۔''

حافظ ابوعلیؒ فرماتے ہیں: محمد بن مسیّبؒ جب مصر گئے تو ان کے بستے میں ایک لاکھ تحریر شدہ حدیثیں تھیں۔ حضرت سعید بن السیّب ؒ فرماتے ہیں کہ چالیس سال سے میری نماز باجماعت فوت نہیں ہوئی۔ ایک آدمی نے حضرت عامر بن قیسؒ سے کیا کہ ٹھہریے میں آپ سے بات کرنا چاہتا ہوں، تو آپ نے فرمایا: ''سورج کو روک لو پھر میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں''

حضرت عاصم بن علی ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت یزید بن ہارونؒ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد ساری رات قیام اللیل میں گزارتے تھے۔ یہاں تک کہ صبح کی نماز اسی وضو سے ادا کرتے، آپ نے عشاء کے وضو سے چالیس سال تک صبح کی نماز پڑھی۔ حضرت اصبغ بن زیدؒ فرماتے ہیں کہ حضرت اویس قرنی کا یہ حال تھا کہ جب شام ہوتی تو کہتے کہ یہ رکوع کی رات ہے، چناں چہ رکوع کرتے یہاں تک کہ صبح ہوجاتی۔ حضرت ابوبکر ال نہشلیؒ کی وفات کے وقت لوگ حاضر ہوئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ اشارے سے عبادت کر رہے ہیں، آپ سے عرض کی گئی کہ اس جان کنی کی حالت میں بھی آپ مصروفِ عمل ہیں ؟ آپ نے فرمایا: '' میں چاہتا ہوں کہ اعمال نامہ لپیٹے جانے سے پہلے کچھ کرلوں۔ ''

حضرت سعید بن عبدالعزیزؒ کہتے ہیں: ''میں نے حضرت عمیر بن ہانیؒ سے کہا : میں دیکھتا ہوں کہ آپ کی زبان اللہ کے ذکر سے غافل نہیں رہتی، آپ ہر روز کتنی بار تسبیح کرتے ہیں ؟ فرمایا کہ ایک لاکھ بار، ہاں اگر انگلیاں (شمار کرنے سے) چُوک جائیں تو اور بات ہے۔

مذکورہ اکابر کی پُرافادہ زندگی کی محیرالعقول جھلکیاں آج ہمارے لیے ناقابلِ یقین معلوم ہوتی ہیں ، کیوں کہ ہمارے نزدیک وقت کی قدر و منزلت کسی بھی درجے میں نہیں ہے، وقت کا ضیاع ہمارے لیے اتنا آسان ہوچکا ہے کہ اس پر افسوس کا احساس ہی نہیں ہوتا، اس لیے ضروری ہے کہ ہم آیندہ کی ندامت سے بچنے کے لیے حتی الامکان عمرِ عزیز کے قیمتی اوقات مفید کام میں لگائیں۔

حواشی

تاریخ المشاہیر، ترجمان السنہ، دعوت و عزیمت، بستان المحدثین، تذکرۃ الحفاظ، متاع وقت اور کاروان علم، طلبہ کے لیے قیمتی واقعات، وقت کی قدر اور علم سے پیار، راہِ علم کے مسافر

محمدطلحہ ارشاد
Load Next Story