ایثار سخاوت و فیاضی
خود تکلیف اُٹھا کر دوسروں کے لیے راحت و آرام کا سامان مہیا کرنا ایثار کہلاتا ہے۔
ایثار، حقیقت میں سخاوت و فیاضی اور غم خواری و ہم دردی کا سب سے آخری درجہ ہے۔
اپنی ضرورت کو موخر کرکے دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو شکم سیر کرنا اور خود تکلیف و مشقت اُٹھا کر دوسروں کے لیے راحت و آرام کا سامان مہیا کرنا ایثار کہلاتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں انصار کا سب سے بڑا اخلاقی وصف یہی تھا کہ جب اُن کے پاس مہاجر صحابہ مکہ مکرمہ چھوڑ کر بے سر و سامانی کے عالم میں آئے تو انصارِ مدینہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُن کو گھر بار، کھیت، باغ اور کام کاج میں اپنا شریک بنالیا۔ خود ہر طرح کی تکلیفیں اُٹھائیں، مصیبتیں جھیلیں، لیکن اُن کو راحت و آرام پہنچایا، خود بھوکے رہے اور اُن کو کھلایا، خود پیاسے رہے اور اُن کو پلایا۔ یہاں تک کہ جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی اللہ عنہ (جو انصارِ مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار اور فیاض تھے) اُن سے اِن کا بھائی چارہ کرا دیا۔ حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا : ''میں اپنا نصف مال و منال تمہیں بانٹ دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں، ان کو دیکھو جو پسند آئے اس کا نام بتاؤ میں طلاق دے دیتا ہوں، عدت گزارنے کے بعد تم اُس سے نکاح کر لینا۔''
لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی غیرت نے گوارا نہ کیا، انہوں نے جواب دیا: '' اللہ تعالیٰ تمہارے مال و منال اور اہل و عیال میں برکت عطا فرمائے، مجھے صرف بازار کا راستہ دکھا دو۔''
اسی طرح بنو نضیر کی زمین جب مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور رسول اللہ ﷺ نے دو انصاریوں کے علاوہ باقی ساری زمین مہاجرین مکہ کو دے دی۔ تو انصارِ مدینہ نے خوشی اور کشادہ دلی سے آپؐ کے اِس فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کو انصارِ مدینہ کی یہ ادا اِس قدر پسند آئی کہ اُن کی مدح و ستائش میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اُتا دیں ، مفہوم:
'' (اور یہ مالِ) اُن لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اِس جگہ (یعنی مدینہ میں) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں، جو کوئی اِن کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے یہ اُس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اُس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے ، اور اُن کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے اُن پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو، اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔'' (الحشر)
اسی طرح حضرت ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں، اتفاق سے وہ ایک جگہ اِس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دَم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی، میں نے پوچھا پانی کا گھونٹ دوں؟ اُنہوں نے اشارے سے ہاں کی، اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے آہ کی، میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے اُن کے پاس جانے کا اشارہ کیا، میں اُن کے پاس پانی لے کر گیا وہ ہشام بن ابی العاص رضی اللہ عنہ تھے، اُن کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اُن کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حال میں پڑے دَم توڑ رہے تھے، اُنہوں نے آہ کی، ہشامؓ نے مجھے اُن کے پاس جانے کا اشارہ کردیا، میں اُن کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اُن کا دَم نکل چکا تھا، ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جاں بہ حق ہوچکے تھے، اُن کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی، اُنہوں نے خیال فرمایا کہ میرے فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہیں، کنبے والے ہیں اور اُن کے گھر والے زیادہ محتاج ہیں اس لیے اُن کے پاس بھیج دی، اُن کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہی خیال پیدا ہوا، اور اُن کے پاس بھیج دی، غرض اس طرح سات گھروں میں پھر کر وہ سری سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی۔
امام واقدی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقوں تک نوبت پہنچی۔ گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد ہے اور گھر میں کچھ بھی نہیں۔ بڑے تو صبر کرلیں گے لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟ یہ سن کر میں اپنے ایک تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیا اور بارہ سو درہم کی سر بہ مہر تھیلی میرے ہاتھ تھما دی۔ میں گھر آیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا۔ اس کے گھر بھی افلاس و غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرض رقم چاہتا تھا۔ میں نے گھر جاکر اہلیہ کو قصہ سنایا۔ وہ کہنے لگیں: '' کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے؟۔''
میں نے کہا: ''تھیلی کی رقم نصف تقسیم کرلیں گے۔ اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا'' کہنے لگیں : ''بڑی عجیب بات ہے۔ آپ ایک عام آدمی کے پاس گئے، اس نے آپ کو بارہ سو درہم دیے اور آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے خاندان کا ایک شخص اپنی حاجت لے کر آیا ہے اور آپ اسے ایک عام آدمی کے عطیے کا نصف دے رہے ہیں۔ آپ اسے پوری تھیلی دے دیں۔'' چناں چہ میں نے وہ تھیلی کھولے بغیر سر بہ مہر اس کے حوالے کردی۔ وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اس کے پاس گیا۔ کہا ''عید کی آمد ہے۔ گھر میں کچھ نہیں، کچھ رقم قرض چاہیے۔''
ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سر بہ مہر اس کے حوالے کردی۔ اپنی ہی تھیلی اسی طرح سر بہ مہر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑ کر میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا قصہ سنایا۔ درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا، و ہ سارا مجھے دے گیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی دوست کے پاس چلا گیا تھا۔ ہاشمی دوست نے جب وہ حوالے کرنا چاہا تو راز کھل گیا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ جنگل میں تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک باغ پر گزر ہوا، وہاں ایک حبشی غلام باغ میں کام کر رہا تھا ، اس کی روٹی آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک کتا بھی باغ میں چلا آیا، اور اس غلام کے پاس آکر کھڑا ہوگیا، اس غلام نے کام کرتے کرتے ایک روٹی اس کے سامنے ڈال دی، اس کتے نے اس کو کھا لیا اور پھر کھڑا رہا اس نے دوسری اور پھر تیسری روٹی بھی ڈال دی ، کل تین ہی روٹیاں تھیں، وہ تینوں کتے کو کھلا دیں۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ غور سے کھڑے دیکھتے رہے، جب وہ تینوں ختم ہوگئیں تو حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے پوچھا: تمہاری کتنی روٹیاں روزانہ آتی ہیں ؟ اس نے عرض کیا : آپ نے تو ملاحظہ فرمالیا، تین ہی آیا کرتی ہیں۔
حضرت نے فرمایا: پھر تینوں کا ایثار کیوں کردیا ؟ غلام نے کہا : حضرت یہاں کتّے رہتے نہیں ہیں، غریب بھوکا کہیں دور سے مسافت طے کرکے آیا ہے، اس لیے مجھے اچھا نہ لگا کہ اس کو ویسے ہی واپس کردوں۔ حضرت نے فرمایا : پھر تم آج کیا کھاؤ گے ؟ غلام نے کہا : ایک دن فاقہ کرلوں گا، یہ تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں سوچا کہ لوگ مجھے ملامت کرتے ہیں کہ تُو بہت سخاوت کرتا ہے، یہ غلام تو مجھ سے بہت زیادہ سخی ہے، یہ سوچ کر شہر میں واپس تشریف لے گئے اور اس باغ کو اور غلام کو اور جو کچھ سامان باغ میں تھا سب کو اس کے مالک سے خریدا اور خرید کر غلام کو آزاد کردیا اور وہ باغ اس غلام کی نذر کردیا۔
اپنی ضرورت کو موخر کرکے دوسرے کی ضرورت کو مقدم رکھنا، خود بھوکا رہ کر دوسروں کو شکم سیر کرنا اور خود تکلیف و مشقت اُٹھا کر دوسروں کے لیے راحت و آرام کا سامان مہیا کرنا ایثار کہلاتا ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں انصار کا سب سے بڑا اخلاقی وصف یہی تھا کہ جب اُن کے پاس مہاجر صحابہ مکہ مکرمہ چھوڑ کر بے سر و سامانی کے عالم میں آئے تو انصارِ مدینہ نے ان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اُن کو گھر بار، کھیت، باغ اور کام کاج میں اپنا شریک بنالیا۔ خود ہر طرح کی تکلیفیں اُٹھائیں، مصیبتیں جھیلیں، لیکن اُن کو راحت و آرام پہنچایا، خود بھوکے رہے اور اُن کو کھلایا، خود پیاسے رہے اور اُن کو پلایا۔ یہاں تک کہ جب حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ ہجرت کرکے مدینہ منورہ پہنچے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی اللہ عنہ (جو انصارِ مدینہ میں سب سے زیادہ مال دار اور فیاض تھے) اُن سے اِن کا بھائی چارہ کرا دیا۔ حضرت سعد بن الربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا : ''میں اپنا نصف مال و منال تمہیں بانٹ دیتا ہوں اور میری دو بیویاں ہیں، ان کو دیکھو جو پسند آئے اس کا نام بتاؤ میں طلاق دے دیتا ہوں، عدت گزارنے کے بعد تم اُس سے نکاح کر لینا۔''
لیکن حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی غیرت نے گوارا نہ کیا، انہوں نے جواب دیا: '' اللہ تعالیٰ تمہارے مال و منال اور اہل و عیال میں برکت عطا فرمائے، مجھے صرف بازار کا راستہ دکھا دو۔''
اسی طرح بنو نضیر کی زمین جب مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور رسول اللہ ﷺ نے دو انصاریوں کے علاوہ باقی ساری زمین مہاجرین مکہ کو دے دی۔ تو انصارِ مدینہ نے خوشی اور کشادہ دلی سے آپؐ کے اِس فیصلے کو تسلیم کرلیا۔ اللہ تعالیٰ کو انصارِ مدینہ کی یہ ادا اِس قدر پسند آئی کہ اُن کی مدح و ستائش میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیات اُتا دیں ، مفہوم:
'' (اور یہ مالِ) اُن لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اِس جگہ (یعنی مدینہ میں) ایمان کے ساتھ مقیم ہیں، جو کوئی اِن کے پاس ہجرت کرکے آتا ہے یہ اُس سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ اُن (مہاجرین) کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اُس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے ، اور اُن کو اپنے آپ پر ترجیح دیتے ہیں، چاہے اُن پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ہو، اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں وہی ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔'' (الحشر)
اسی طرح حضرت ابوجہم بن حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یرموک کی لڑائی میں میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا کہ وہ لڑائی میں شریک تھے اور ایک مشکیزہ پانی کا میں نے اپنے ساتھ لیا کہ ممکن ہے وہ پیاسے ہوں تو پانی پلاؤں، اتفاق سے وہ ایک جگہ اِس حالت میں پڑے ہوئے ملے کہ دَم توڑ رہے تھے اور جان کنی شروع تھی، میں نے پوچھا پانی کا گھونٹ دوں؟ اُنہوں نے اشارے سے ہاں کی، اتنے میں دوسرے صاحب نے جو قریب ہی پڑے تھے اور وہ بھی مرنے کے قریب تھے آہ کی، میرے چچا زاد بھائی نے آواز سنی تو مجھے اُن کے پاس جانے کا اشارہ کیا، میں اُن کے پاس پانی لے کر گیا وہ ہشام بن ابی العاص رضی اللہ عنہ تھے، اُن کے پاس پہنچا ہی تھا کہ اُن کے قریب ایک تیسرے صاحب اسی حال میں پڑے دَم توڑ رہے تھے، اُنہوں نے آہ کی، ہشامؓ نے مجھے اُن کے پاس جانے کا اشارہ کردیا، میں اُن کے پاس پانی لے کر پہنچا تو اُن کا دَم نکل چکا تھا، ہشامؓ کے پاس واپس آیا تو وہ بھی جاں بہ حق ہوچکے تھے، اُن کے پاس سے اپنے بھائی کے پاس لوٹا تو اتنے میں وہ بھی ختم ہوچکے تھے۔
اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کو کسی شخص نے بکرے کی سری ہدیہ کے طور پر دی، اُنہوں نے خیال فرمایا کہ میرے فلاں ساتھی زیادہ ضرورت مند ہیں، کنبے والے ہیں اور اُن کے گھر والے زیادہ محتاج ہیں اس لیے اُن کے پاس بھیج دی، اُن کو ایک تیسرے صاحب کے متعلق یہی خیال پیدا ہوا، اور اُن کے پاس بھیج دی، غرض اس طرح سات گھروں میں پھر کر وہ سری سب سے پہلے صحابی کے گھر لوٹ آئی۔
امام واقدی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ مجھے بڑی مالی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ فاقوں تک نوبت پہنچی۔ گھر سے اطلاع آئی کہ عید کی آمد ہے اور گھر میں کچھ بھی نہیں۔ بڑے تو صبر کرلیں گے لیکن بچے مفلسی کی عید کیسے گزاریں گے؟ یہ سن کر میں اپنے ایک تاجر دوست کے پاس قرض لینے گیا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی سمجھ گیا اور بارہ سو درہم کی سر بہ مہر تھیلی میرے ہاتھ تھما دی۔ میں گھر آیا۔ ابھی بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک ہاشمی دوست آیا۔ اس کے گھر بھی افلاس و غربت نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ قرض رقم چاہتا تھا۔ میں نے گھر جاکر اہلیہ کو قصہ سنایا۔ وہ کہنے لگیں: '' کتنی رقم دینے کا ارادہ ہے؟۔''
میں نے کہا: ''تھیلی کی رقم نصف تقسیم کرلیں گے۔ اس طرح دونوں کا کام چل جائے گا'' کہنے لگیں : ''بڑی عجیب بات ہے۔ آپ ایک عام آدمی کے پاس گئے، اس نے آپ کو بارہ سو درہم دیے اور آپ کے پاس رسول اللہ ﷺ کے خاندان کا ایک شخص اپنی حاجت لے کر آیا ہے اور آپ اسے ایک عام آدمی کے عطیے کا نصف دے رہے ہیں۔ آپ اسے پوری تھیلی دے دیں۔'' چناں چہ میں نے وہ تھیلی کھولے بغیر سر بہ مہر اس کے حوالے کردی۔ وہ تھیلی لے کر گھر پہنچا تو میرا تاجر دوست اس کے پاس گیا۔ کہا ''عید کی آمد ہے۔ گھر میں کچھ نہیں، کچھ رقم قرض چاہیے۔''
ہاشمی دوست نے وہی تھیلی سر بہ مہر اس کے حوالے کردی۔ اپنی ہی تھیلی اسی طرح سر بہ مہر دیکھ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ وہ تھیلی ہاشمی دوست کے ہاں چھوڑ کر میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا قصہ سنایا۔ درحقیقت تاجر دوست کے پاس بھی اس تھیلی کے علاوہ کچھ نہیں تھا، و ہ سارا مجھے دے گیا تھا اور خود قرض لینے ہاشمی دوست کے پاس چلا گیا تھا۔ ہاشمی دوست نے جب وہ حوالے کرنا چاہا تو راز کھل گیا۔
اسی طرح حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ جنگل میں تشریف لے جارہے تھے، راستے میں ایک باغ پر گزر ہوا، وہاں ایک حبشی غلام باغ میں کام کر رہا تھا ، اس کی روٹی آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک کتا بھی باغ میں چلا آیا، اور اس غلام کے پاس آکر کھڑا ہوگیا، اس غلام نے کام کرتے کرتے ایک روٹی اس کے سامنے ڈال دی، اس کتے نے اس کو کھا لیا اور پھر کھڑا رہا اس نے دوسری اور پھر تیسری روٹی بھی ڈال دی ، کل تین ہی روٹیاں تھیں، وہ تینوں کتے کو کھلا دیں۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ غور سے کھڑے دیکھتے رہے، جب وہ تینوں ختم ہوگئیں تو حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اس غلام سے پوچھا: تمہاری کتنی روٹیاں روزانہ آتی ہیں ؟ اس نے عرض کیا : آپ نے تو ملاحظہ فرمالیا، تین ہی آیا کرتی ہیں۔
حضرت نے فرمایا: پھر تینوں کا ایثار کیوں کردیا ؟ غلام نے کہا : حضرت یہاں کتّے رہتے نہیں ہیں، غریب بھوکا کہیں دور سے مسافت طے کرکے آیا ہے، اس لیے مجھے اچھا نہ لگا کہ اس کو ویسے ہی واپس کردوں۔ حضرت نے فرمایا : پھر تم آج کیا کھاؤ گے ؟ غلام نے کہا : ایک دن فاقہ کرلوں گا، یہ تو کوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے دل میں سوچا کہ لوگ مجھے ملامت کرتے ہیں کہ تُو بہت سخاوت کرتا ہے، یہ غلام تو مجھ سے بہت زیادہ سخی ہے، یہ سوچ کر شہر میں واپس تشریف لے گئے اور اس باغ کو اور غلام کو اور جو کچھ سامان باغ میں تھا سب کو اس کے مالک سے خریدا اور خرید کر غلام کو آزاد کردیا اور وہ باغ اس غلام کی نذر کردیا۔