اسلام اور ٹیکنالوجی
اہل ِ اسلام نے شاید یہیں سے غلطی کھائی اور وہ علم کو دینی اور دنیاوی کے خانوں میں بانٹ بیٹھی۔
علم کی تعریف کی الجھن نے ہمیں تکنیکی مہارتوں کے حصول میں تساہل اور تجاہل میں مبتلا رکھا ہے۔
کوئی بھی علم اللہ کی مادی یا غیر مادی آیات کا علم ہے، جسے ہماری نیّت دینی یا دنیاوی بناتی ہیں۔ یہاں کچھ اشیاء کے حوالے سے استثناء کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی لازم ہوگا، جو اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ نے اپنے احکامات میں واضح کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر شراب اور سُور وغیرہ جیسی ممنوعہ اشیاء کے متعلق ہماری نیّت جیسی بھی ہو، ان کے حوالے سے کسی بھی مہارت کا حصول ممنوع ہی رہے گا۔
مستزاد یہ کہ اگر کسی نے قرآن مجید کی خوش الحانی کی مہارت اللہ کی خوش نودی کے حصول کو چھوڑ کر، محض اس لیے حاصل کی تھی کہ وہ اس کی مدد سے کسی مسجد کی مراعات یافتہ نوکری حاصل کرلے گا تو اس شخص کی قرآن کی خوش الحانی کی مہارت، دینی کیسے ہوسکتی ہے ؟ دوسری طرف ایک ایسا طالبِ علم ہے جس نے اللہ کی خوش نودی کی خاطر اللہ کی مادی آیت، سورج کا مطالعہ اس لیے کیا کہ جان پائے کہ کس طرح اس کی حرارت اور شعاعوں کو انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو اس طالبِ علم کا علم دنیاوی علم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟
اہل ِ اسلام نے شاید یہیں سے غلطی کھائی اور وہ علم کو دینی اور دنیاوی کے خانوں میں بانٹ بیٹھی۔ دنیائے اسلام کی ایک بڑی اکائی، اسی بٹوارے تک ہی محدود نہ رہی، ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اپنے تئیں طے شدہ دنیاوی علم سے مکمل اجتناب کو، عین زھد اور تقویٰ قرار دے دیا گیا اور اس طرزِ عمل کو باعث ثواب بھی گردان دیا گیا۔ اسی روش کا شاخسانہ تھا کہ چاند پر پہلے انسانی قدم کو تسلیم کرنے کے بہ جائے علم گریز افراد نے اللہ کی مادی آیات کے علم کو بھی سیکھنے اور سکھانے کے بہ جائے کفر کا فتوی جاری کردیا۔
آئیے قران ِ مجید کے چند حوالوں سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مادی آیات کی مدد سے انسانی بہتری کے لیے کوششیں نہ صرف اللہ کو پسند ہیں بل کہ اس طرح کی انسانی فلاح کے لیے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ کی مہارتیں تو اللہ تبارک و تعالی نے خود پیغمبروں کو عطا کی تھیں۔ یوں انسانی فلاح کے لیے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ پیغمبرانہ ورثہ ہے۔ اور مسلمانوں کو تو بہ طورِ خاص اس حوالے سے بڑھ چڑھ کر اپنی کوششوں کو بہ روئے کار لانا چاہیے۔ صرف قرآن مجید ہی نہیں اسوۂ حسنہ ﷺ بھی ہمیں یہی درس دے رہا ہے۔
سورہ کہف آیت 94 تا 99 کا مفہوم : '' ان لوگوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں، بھلا اگر ہم آپ کے لیے خرچ کا انتظام کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں۔ ذولقرنین نے جواب دیا کہ خرچ کا جو مقدور اللہ نے مجھے بخشا ہے، وہ بہت اچھا ہے، تم مجھے ( افرادی ) قوت سے مدد دو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
تو تم لوہے کی چادریں لاؤ، یہاں تک کہ جب انہوں نے پہاڑوں کے درمیان کا حصہ برابر کردیا اور کہا کہ اب اسے دھونکو، جب اسے خوب گرم آگ کر دیا گیا تو کہا کہ اب تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔ پھر ان ( یاجوج ماجوج ) میں یہ قوت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ کہ اس میں نقب ہی لگا سکیں۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ یہ میرے رب کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کا وعدہ آن پہنچے گا تو وہ اس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے اس روز ہم ان ( یاجوج ماجوج ) کو چھوڑ دیں گے کہ زمین میں پھیل کر ایک دوسرے میں گھس جائیں اور صور پھونک دیا جائے گا اور ہم سب کو اکٹھا کر لیں گے۔''
سورہ ہود آیات 36 تا 38 کا مفہوم : '' اور نوحؑ کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، ان کے سوا اب اور کوئی ایمان نہیں لائے گا تو یہ لوگ جو کر رہے ہیں ان پر غم نہ کھاؤ اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کے بارے میں ہم سے کچھ مت کہنا، کیوں کہ وہ ضرور ڈبو دیے جائیں گے، لہذا نوح ؑ نے کشتی کو بنانا شروع کر دیا۔''
اللہ کی ذات خود بھی زبردست انجینیرنگ کی ماہر ذات ہے اور اس حوالے سے اللہ تعالی انسانوں کو چیلنج بھی کیا ہے۔
سورہ الملک ، آیات 3 اور 4 کا مفہوم : '' جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے۔ تُو رحمٰن کی تخلیق میں کوئی نقص نہ دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی شگاف ہی نظر آتا ہے۔ پھر نظر ڈال تیری نظر ناکام واپس لوٹ آئے گی۔'' موجودہ دور میں جدید ترین Hubble Telescope کے باوجود انسان نے اللہ تعالی کا یہ چیلینج قبول نہیں کیا ہے۔ اللہ تعالی رفتہ رفتہ جس قدر چاہتے ہیں اپنی خاص حکمت عملی کے تحت مختلف چیزوں پر یہ دست رس انسان کو عطا کر تے رہے ہیں۔ سورہ البقرہ آیت نمبر 255 کا مفہوم : '' اور وہ اس کے علم میں کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔''
مفہوم سورہ مائدہ آیت 31 : '' اب اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیوں کر چھپائے، پھر وہ کہنے لگا اوہ! مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میں اس کوّے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش ہی ٹھکانے لگا دیتا، پھر وہ پشیمان ہوا۔''ان سب حوالوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالی ہی کی ذات کی وجہ سے آج انسان کے پاس اتنی زبردست ٹیکنالوجیز کا علم موجود ہے کہ وہ کلوننگ کے ذریعے اپنے جیسے انسان بھی تخلیق کرسکتا ہے۔
اللہ کے علم کی گہرائی و گیرائی یہ ہے کہ اللہ نے انسان اور اس کے متعلقات کو عدم سے وجود بخشا ہے جب کہ انسان کے علم و عقل کی محدودیت یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں سے کچھ نہیں کر سکتا، اسے ہر حال میں اللہ کی مادی اور علمی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔سورہ الزخرف، آیت 13 کا مفہوم : '' جب اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا، حالاں کہ ہم میں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔''
کسی بھی مرض کے پس ِ منظر میں، آپ ﷺ کا دعا کے ساتھ دوا کا تجویز کرنا، دراصل طبّی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ترغیب ہی تو ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں امراض سے شفا یابی کے لیے علاج کرنے کی واضح ہدایت فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے جنگ ِ خندق میں حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر اپنے علاقے کے لیے خندق کی شکل میں ڈیفینس سسٹم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس حوالے سے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ اور اختراع کی ضرورت اور اہمیت کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔
سورہ انفال آیت 60 کا مفہوم : '' اور جہاں تک ممکن ہوسکے ( فوج کی جمیعت ) کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو۔''
اللہ تعالی سے استدعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کی درست سمجھ عطاء فرمائے، ورنہ بہ طور نظریاتی اساس کے ہمارے دین میں کس چیز کی کمی ہے۔ اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا دین، ہر دور میں تمام مسلمانوں کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کاش ہم مسلمان بھی، یومِ محشر، اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ کے سامنے یہ دعوی کرسکیں کہ ہم بھی جہالت کی رات میں چراغ سحر بننے کی سعی میں شامل تھے۔
کوئی بھی علم اللہ کی مادی یا غیر مادی آیات کا علم ہے، جسے ہماری نیّت دینی یا دنیاوی بناتی ہیں۔ یہاں کچھ اشیاء کے حوالے سے استثناء کو ملحوظِ خاطر رکھنا بھی لازم ہوگا، جو اللہ اور اس کے آخری رسول ﷺ نے اپنے احکامات میں واضح کر دی ہیں۔ مثال کے طور پر شراب اور سُور وغیرہ جیسی ممنوعہ اشیاء کے متعلق ہماری نیّت جیسی بھی ہو، ان کے حوالے سے کسی بھی مہارت کا حصول ممنوع ہی رہے گا۔
مستزاد یہ کہ اگر کسی نے قرآن مجید کی خوش الحانی کی مہارت اللہ کی خوش نودی کے حصول کو چھوڑ کر، محض اس لیے حاصل کی تھی کہ وہ اس کی مدد سے کسی مسجد کی مراعات یافتہ نوکری حاصل کرلے گا تو اس شخص کی قرآن کی خوش الحانی کی مہارت، دینی کیسے ہوسکتی ہے ؟ دوسری طرف ایک ایسا طالبِ علم ہے جس نے اللہ کی خوش نودی کی خاطر اللہ کی مادی آیت، سورج کا مطالعہ اس لیے کیا کہ جان پائے کہ کس طرح اس کی حرارت اور شعاعوں کو انسانوں کی فلاح کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے تو اس طالبِ علم کا علم دنیاوی علم کیسے قرار دیا جاسکتا ہے۔۔۔۔ ؟
اہل ِ اسلام نے شاید یہیں سے غلطی کھائی اور وہ علم کو دینی اور دنیاوی کے خانوں میں بانٹ بیٹھی۔ دنیائے اسلام کی ایک بڑی اکائی، اسی بٹوارے تک ہی محدود نہ رہی، ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ اپنے تئیں طے شدہ دنیاوی علم سے مکمل اجتناب کو، عین زھد اور تقویٰ قرار دے دیا گیا اور اس طرزِ عمل کو باعث ثواب بھی گردان دیا گیا۔ اسی روش کا شاخسانہ تھا کہ چاند پر پہلے انسانی قدم کو تسلیم کرنے کے بہ جائے علم گریز افراد نے اللہ کی مادی آیات کے علم کو بھی سیکھنے اور سکھانے کے بہ جائے کفر کا فتوی جاری کردیا۔
آئیے قران ِ مجید کے چند حوالوں سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کی مادی آیات کی مدد سے انسانی بہتری کے لیے کوششیں نہ صرف اللہ کو پسند ہیں بل کہ اس طرح کی انسانی فلاح کے لیے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ کی مہارتیں تو اللہ تبارک و تعالی نے خود پیغمبروں کو عطا کی تھیں۔ یوں انسانی فلاح کے لیے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ پیغمبرانہ ورثہ ہے۔ اور مسلمانوں کو تو بہ طورِ خاص اس حوالے سے بڑھ چڑھ کر اپنی کوششوں کو بہ روئے کار لانا چاہیے۔ صرف قرآن مجید ہی نہیں اسوۂ حسنہ ﷺ بھی ہمیں یہی درس دے رہا ہے۔
سورہ کہف آیت 94 تا 99 کا مفہوم : '' ان لوگوں نے کہا: اے ذوالقرنین! یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں، بھلا اگر ہم آپ کے لیے خرچ کا انتظام کردیں کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں۔ ذولقرنین نے جواب دیا کہ خرچ کا جو مقدور اللہ نے مجھے بخشا ہے، وہ بہت اچھا ہے، تم مجھے ( افرادی ) قوت سے مدد دو، میں تمہارے اور ان کے درمیان ایک مضبوط دیوار بنا دوں گا۔
تو تم لوہے کی چادریں لاؤ، یہاں تک کہ جب انہوں نے پہاڑوں کے درمیان کا حصہ برابر کردیا اور کہا کہ اب اسے دھونکو، جب اسے خوب گرم آگ کر دیا گیا تو کہا کہ اب تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں۔ پھر ان ( یاجوج ماجوج ) میں یہ قوت نہ رہی کہ اس پر چڑھ سکیں اور نہ یہ کہ اس میں نقب ہی لگا سکیں۔ پھر آپؑ نے فرمایا کہ یہ میرے رب کی مہربانی ہے جب میرے پروردگار کا وعدہ آن پہنچے گا تو وہ اس کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے اس روز ہم ان ( یاجوج ماجوج ) کو چھوڑ دیں گے کہ زمین میں پھیل کر ایک دوسرے میں گھس جائیں اور صور پھونک دیا جائے گا اور ہم سب کو اکٹھا کر لیں گے۔''
سورہ ہود آیات 36 تا 38 کا مفہوم : '' اور نوحؑ کی طرف وحی کی گئی کہ تمہاری قوم میں جو لوگ ایمان لا چکے ہیں، ان کے سوا اب اور کوئی ایمان نہیں لائے گا تو یہ لوگ جو کر رہے ہیں ان پر غم نہ کھاؤ اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے سامنے بناؤ اور جو لوگ ظالم ہیں، ان کے بارے میں ہم سے کچھ مت کہنا، کیوں کہ وہ ضرور ڈبو دیے جائیں گے، لہذا نوح ؑ نے کشتی کو بنانا شروع کر دیا۔''
اللہ کی ذات خود بھی زبردست انجینیرنگ کی ماہر ذات ہے اور اس حوالے سے اللہ تعالی انسانوں کو چیلنج بھی کیا ہے۔
سورہ الملک ، آیات 3 اور 4 کا مفہوم : '' جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے۔ تُو رحمٰن کی تخلیق میں کوئی نقص نہ دیکھے گا۔ دوبارہ نظر ڈال کیا کوئی شگاف ہی نظر آتا ہے۔ پھر نظر ڈال تیری نظر ناکام واپس لوٹ آئے گی۔'' موجودہ دور میں جدید ترین Hubble Telescope کے باوجود انسان نے اللہ تعالی کا یہ چیلینج قبول نہیں کیا ہے۔ اللہ تعالی رفتہ رفتہ جس قدر چاہتے ہیں اپنی خاص حکمت عملی کے تحت مختلف چیزوں پر یہ دست رس انسان کو عطا کر تے رہے ہیں۔ سورہ البقرہ آیت نمبر 255 کا مفہوم : '' اور وہ اس کے علم میں کسی چیز کا احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔''
مفہوم سورہ مائدہ آیت 31 : '' اب اللہ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کیوں کر چھپائے، پھر وہ کہنے لگا اوہ! مجھ سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ میں اس کوّے کے برابر ہوتا کہ اپنے بھائی کی لاش ہی ٹھکانے لگا دیتا، پھر وہ پشیمان ہوا۔''ان سب حوالوں سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالی ہی کی ذات کی وجہ سے آج انسان کے پاس اتنی زبردست ٹیکنالوجیز کا علم موجود ہے کہ وہ کلوننگ کے ذریعے اپنے جیسے انسان بھی تخلیق کرسکتا ہے۔
اللہ کے علم کی گہرائی و گیرائی یہ ہے کہ اللہ نے انسان اور اس کے متعلقات کو عدم سے وجود بخشا ہے جب کہ انسان کے علم و عقل کی محدودیت یہ ہے کہ وہ کچھ نہیں سے کچھ نہیں کر سکتا، اسے ہر حال میں اللہ کی مادی اور علمی مدد کی ضرورت رہتی ہے۔سورہ الزخرف، آیت 13 کا مفہوم : '' جب اس پر ٹھیک طرح بیٹھ جاؤ تو کہو کہ پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے بس میں کردیا، حالاں کہ ہم میں اسے قابو کرنے کی طاقت نہ تھی۔''
کسی بھی مرض کے پس ِ منظر میں، آپ ﷺ کا دعا کے ساتھ دوا کا تجویز کرنا، دراصل طبّی ٹیکنالوجی کے استعمال کی ترغیب ہی تو ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیں امراض سے شفا یابی کے لیے علاج کرنے کی واضح ہدایت فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے جنگ ِ خندق میں حضرت سلمان فارسی ؓ کے مشورے پر اپنے علاقے کے لیے خندق کی شکل میں ڈیفینس سسٹم کو اپنے ہاتھوں سے بنایا اور اس حوالے سے ٹیکنالوجی ڈیویلیپمنٹ اور اختراع کی ضرورت اور اہمیت کو ہمیشہ کے لیے امر کردیا۔
سورہ انفال آیت 60 کا مفہوم : '' اور جہاں تک ممکن ہوسکے ( فوج کی جمیعت ) کے زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے مقابلے کے لیے مستعد رہو۔''
اللہ تعالی سے استدعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کی درست سمجھ عطاء فرمائے، ورنہ بہ طور نظریاتی اساس کے ہمارے دین میں کس چیز کی کمی ہے۔ اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا دین، ہر دور میں تمام مسلمانوں کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ کاش ہم مسلمان بھی، یومِ محشر، اللہ اور اس کے آخری نبی ﷺ کے سامنے یہ دعوی کرسکیں کہ ہم بھی جہالت کی رات میں چراغ سحر بننے کی سعی میں شامل تھے۔