گیس انفرااسٹرکچر کیلیے 101 ارب جمع استعمال نہیں کیے گئے

سوئی گیس کمپنیوں کی درخواست پرفنڈزنہیں دیے گئے،دونوںفرمزنے پائپ لائن کیلیے قرض لیا

ایل این جی انفرااسٹرکچرڈیولپمنٹ کیلیے رقم نہ دیناسیس آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے، دستاویز۔ فوٹو: فائل

ملک میں ایل این جی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے حکومت کی جانب سے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی مد میں جمع کیے گئے 101ارب روپے استعمال نہ کیے جا سکے جبکہ گیس کمپنیوں کی جانب سے ملک میں گیس پائپ لائنوں کی تعمیر کے لیے نجی بینکوں سے قرضے لیے گئے۔

دستیاب دستاویز کے مطابق گیس انفرااسٹرکچر سیس آرڈیننس 2014 کے تحت وفاقی حکومت گھریلو صارفین کے علاوہ تمام گیس صارفین سے سیس آرڈیننس کے دوسرے شیڈول کے تحت سیس وصول کرتی ہے اور حکومت نے 5 برس کے دوران ملک بھر کے گیس صارفین سے اس مد میں 101ارب روپے وصول کیے مگر گیس انفرااسٹرکچر کے لیے استعمال نہیں کیے۔

حکومت کی جانب سے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس آرڈیننس کی شقوں پر اس کی اصل روح کے مطابق عمل نہیں کیا جارہا جس کی وجہ سے نہ صرف قرضوں میں اضافہ ہورہاہے بلکہ گیس صارفین پر بھی اضافی بوجھ پڑ رہا ہے۔

دستاویز کے مطابق پائپ لائنوں کی تعمیر اور ایل این جی انفرااسٹرکچر کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کو حکومتی ضمانت دی گئی ہے، سوئی ناردرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیوں کو ایل این جی کی ترسیل کے لیے کراچی سے لاہو ر تک گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے بالترتیب 58 ارب اور 40 ارب روپے درکار تھے۔


کمپنیوں نے وزارت توانائی کے پٹرولیم ڈویژن سے گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کے تحت پائپ لائنوں کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے کی درخواست کی تاہم دونوں کمپنیوں کو سیس سے کوئی رقم فراہم نہیں کی گئی، دونوں گیس کمپنیوں نے ایل این جی پائپ لائن بچھانے کے لیے کمرشل بینکوں سے قرض لیا۔

دستاویز کے مطابق گیس کمپنیوں کو ایل این جی انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کے لیے سیس میں سے رقم فراہم نہ کرنا گیس انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس آرڈیننس کی خلاف ورزی ہے کیونکہ سیس کا مقصد ہی گیس پائپ لائنوں کی تعمیرکے لیے فنڈز فراہم کرنا ہے۔

گیس انفرااسٹرکچر سیس آرڈیننس 2014کی شق (1) 4 کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن، ترکمانستان، افغانستان پاکستان انڈیا پائپ لائن (تاپی) منصوبے اور ایل این جی کے دیگر منصوبوں کے لیے سیس استعمال کرے گی اور یہ رقم ایل پی جی سمیت دیگر درآمدی ایندھنوں کی قیمتوں کو برابر لانے کے لیے بھی استعمال کی جاسکے گی۔

اس حوالے سے پٹرولیم ڈویژن کا موقف لینے کے لیے ترجمان پٹرولیم ڈویژن جوائنٹ سیکریٹری سید توقیر حسین سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کا نمبر مسلسل بند جارہاتھا جبکہ سیکریٹری پٹرولیم ڈویژن سکندرسلطان کی جانب سے فون کالز اور میسج کا کوئی جواب نہیں دیاگیا۔
Load Next Story