سندھ حکومت نے بھی سیکرٹ فنڈ کا استعمال کیا ٹرانسپیرنسی

میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کو ایک ہفتے کی تشہیری مہم کے لیے 3 کروڑ جاری کیے گئے


Numainda Express April 30, 2013
میڈاس پرائیویٹ لمیٹڈ کو ایک ہفتے کی تشہیری مہم کے لیے 3 کروڑ جاری کیے گئے فوٹو: فائل

HAMBANTOTA: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان نے انکشاف کیا ہے کہ وزارت اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ سندھ حکومت نے بھی میڈیا کوخریدنے کیلیے استعمال کیا ہے ۔

چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری کے نام ایک خط میں ٹرانسپیرنسی کے ایڈوائزر سید عادل گیلانی نے کہا کہ قبل ازیں2اپریل کو عدالت عظمیٰ میں انسانی حقوق کیس نمبر23957/s/2012 کی سماعت میں ٹرانسپیرنسی نے درخواست کی تھی کہ 2008سے 2013 کے دوران وفاقی وزیراطلاعات کے مشورے پر سابق وزیراعلیٰ سندھ نے مبینہ طور پر صحافیوں کیلیے رقوم کی منظوری دی۔ الزام یہ ہے کہ محکمہ اطلاعات سندھ صوبائی حکومت کا امیج بہتر بنانے کیلیے نام نہاد 'میڈیا ہینڈلنگ' میں ملوث رہا۔

سیکریٹری اطلاعات سندھ نے اپریل2011میں وزیراعلیٰ سندھ کو جو سمری ارسال کی اس کا عنوان تھا 'میڈیا مینجمنٹ اور موثرمیڈیا ہینڈلنگ'' ۔ سمری میں لکھا تھا کہ 'ٹی وی چینلوں اور ایف ایم اسٹیشنوں کی شکل میں میڈیا میں بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کے بعد محکمہ اطلاعات سندھ حکومت کیلیے یہ بات انتہائی ضروری ہے کہ وہ ہر سطح پر میڈیا کوہینڈل کرنے کیلیے اپنا کردار ادا کرے۔ مثلاً رپورٹروں اور کیمرہ مینوں سے بیوروچیفس تک۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ٹی وی چینلوں کے ڈائریکٹر نیوز اور اخبارات کے ڈائریکٹروں سے بھی قریبی رابطہ رکھا جائے۔

اس کے علاوہ مالکان کے ساتھ براہ راست رابطہ بھی حکومت کے تعلقات عامہ میں معاون ثابت ہوگا، حکومت سندھ کا تاثر بہتر بنانے کیلیے یہ تمام اقدامات ضروری ہیں۔ اس مقصدکیلیے کافی مقدار میں فنڈ کی ضرورت ہوگی''۔ ٹرانسپیرنسی نے خط میں لکھا کہ اسے مختلف تاریخوں میں کی گئی چند ادائیگیوں کی فہرستیں موصول ہوئی ہیں جن میں کئی صحافیوں، پریس کلبوں اور دیگرکو دیے گئے چیکوں اور تاریخوں کا ذکر ہے۔ میسرز میڈاس پرائیویٹ لیمیٹڈاورایک نجی ٹی وی چینل کو حکومت کی ایک ہفتے کی تشہیری مہم چلانے کیلیے3، 3کروڑ جاری کیے گئے۔

وفاقی وزارت اطلاعات نے سپریم کورٹ میں ان ادائیگیوں کی جو فہرست پیش کی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شکایت کنندہ نے جو الزامات عائد کیے اور جو ٹرانسپیرنسی نے فاضل عدالت کو6جولائی2012 اور 28جولائی 2012کو ارسال کیے تھے وہ درست ہیں۔ 6جولائی2012 کو کہا گیا تھا کہ ٹی وی چینلوں پر کنٹرول کا 'گرینڈ پلان' انکی اشتہارات کی آمدن پر کنٹرول سے قابل عمل ہے کیونکہ تمام ٹی وی چینل نشریات میں آزاد ہیں اور اشتہارات ان کا واحد ذریعہ آمدن ہے۔ حکومت اربوں روپے مالیت کے اشتہارات دیتی ہے جو میڈیا سے سازباز کرنے کیلیے استعمال کیے گئے اور کیے جارہے ہیں۔



بڑی مقدار میں رقم اس نیت سے مختص کی جارہی ہے کہ اسے عام انتخابات میں زیراستعمال لایا جائیگا۔ اسی طرح 28جولائی 2012کو ٹرانسپیرنسی نے فاضل عدالت سے استدعا کی کہ ایک خودمختار کمیشن قائم کیا جائے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ملک کا الیکٹرانک میڈیا بدعنوان اور حکومت کی رشوت کا محتاج نہیں بلکہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہے۔ سپریم کورٹ کو فوری طور پر کارروائی کرتے ہوئے حکومت کو قومی پیسہ فوج اور عدلیہ کے خلاف پروپیگنڈے کیلیے میڈیا کا استعمال روکنا چاہیے۔

ایک اخباری اطلاع کے مطابق حکومت اس وقت حکومتی معاملات چلانے کیلیے یومیہ ساڑھے 8ارب روپے کا قرضہ لے رہی ہے۔ ایسی حکومت کو ادھار کی رقم پر میڈیا کو اس لیے خریدنے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے تاکہ وہ سپریم کورٹ کو محض اس بنا پر نشانہ بنائے کہ وہ حکومتی خامیوں کو بے نقاب کرتی ہے اور کرپشن سے روکتی ہے۔ خط میں لکھا ہے کہ وزارت اطلاعات نے خفیہ فنڈ کے استعمال کی جو تفصیل ظاہر کی ہے اس میں میڈیا کمیشن کے طور پر40لاکھ روپے جاری کرنے کا بھی ذکر موجود ہے جو قومی خزانے کا غلط استعمال ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل سمجھتی ہے کہ یہ وزارت اطلاعات کی فاضل عدالت کو گمراہ کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہے کیونکہ اس نے اپنے ماضی کے اخراجات کو میڈیا کمیشن کے طور پر جائز قرار دیا ہے۔

کوئی فنڈ سیکرٹ فنڈ سے جاری نہیں ہونا چاہیے اور آڈیٹرجنرل کے آڈٹ سے مشروط ہونا چاہیے۔ اسی طرح وزیراعظم کے غیرملکی دورے میں اسائنمنٹ پر ساتھ جانے والے صحافیوں کے اخراجات ظاہر کرنا وزارت اطلاعات کی ایک اور گمراہ کن کوشش ہے۔ دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ سامنے لائے گئے وزارت اطلاعات کے یہ اقدامات انتہائی سنگین ہیں۔ ٹرانسپیرنسی نے چیف جسٹس سے استدعا کی کہ عدالت کے روبرو زیرسماعت کیس کا فیصلہ جلد سنایا جائے کیونکہ تاخیر ملک کیلیے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ عدالت سے صوبہ سندھ اور دیگر تینوں صوبوں کے معاملات کا بھی نوٹس لینے کی درخواست کی گئی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں