جہاں گشت ایک سرد رات کو گھر چھوڑ دیا

وہ مجھے کالی چادر اوڑھے ہوئے ملی، اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا،’’آج سے تم ہمارے ہو، جائو یہی ہے تسلیم کی راہ‘‘

وہ مجھے کالی چادر اوڑھے ہوئے ملی، اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا،’’آج سے تم ہمارے ہو، جائو یہی ہے تسلیم کی راہ‘‘۔ فوٹو : فائل

(عبداللطیف ابوشامل ایک الگ ہی آدمی ہیں۔ ایک ایسا آدمی جس کی زندگی صحافت کے بھیڑبَھڑکے سے تصوف کے گوشۂ تنہائی تک پھیلی ہوئی ہے۔ بہ طور صحافی انھوں نے اپنے ضمیر کا سچ لکھنے کی پاداش میں زنداں کی راتیں جھیلیں تو راہ سلوک پر چلتے ہوئے قبرستانوں اور جنگلوں میں بسیرا کیے رہے۔ صحافت اور عملی زندگی میں آنے سے بہت پہلے وہ زندگی کے بہت قریب آچکے تھے، اتنے قریب کہ زندگی نے ان پر اپنے کتنے ہی روپ اور رنگ آشکار کردیے۔ یہ آگاہی یوں ہی ہاتھ نہیں آئی، اس کے لیے انھوں نے لڑکپن کی نرم ونازک عمر میں آسائش سے بھرا گھر چھوڑا اور سڑکوں گلیوں کے ہوگئے۔ یوں تو ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات ان کی تصانیف ''سو ہے وہ بھی آدمی (سچی آپ بیتیاں) 2002ء''،''ستارے زمین کے (سچی آپ بیتیاں)2005ء''،''دل درگاہ (مضامین) 2011ء'' اور ''تھر عشق کی ہر دم نئی بہار، سفرنامہ 2011ء'' کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے وہ اپنے روزوشب کی دل چسپ کہانی تحریر کریں گے، جس کی پہلی قسط قارئین کے لیے پیش ہے)

بندہ بشر اپنے اندر کائنات ہوتا ہے، ایک پوری دنیا بسائے ہوئے۔ روز و شب گزرتے ہیں ماہ و سال بیت جاتے ہیں اور آپ کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ سکون کی تلاش میں سرگرداں انسان ایسی اشیاء میں بھی پناہ ڈھونڈتا ہے جو اسے مار ڈالتی ہیں۔ آپ فلم کیوں دیکھتے ہیں اس لیے ناں کہ کچھ دیر کے لیے اپنی اداسی کو بھولیں حالاں کہ آپ جانتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے، اداکاری ہے، ناٹک ہے اور نہ جانے کیا کیا۔

جوزف ہیلر کے شاہ کار افسانے ''آشوب شہر'' کی کچھ سطریں ہیں:

'' بڑے شہر میں راستہ گم کر دینا بہت اذیت ناک ہوتا ہے، اور آدمی کا دماغ بھی ایک بڑا شہر ہے، جہاں آدمی بھٹکتا پھرتا ہے۔۔۔۔ ساری زندگی راستہ ڈھونڈتا ہے، ٹھوکریں کھاتا ہے مگر راستہ نہیں ملتا۔ ملتا ہی نہیں۔۔۔۔۔ دنیا ایک بہت بڑا شہر ہے اور ہم سب اس شہر میں بھٹک رہے ہیں، اجنبی ہیں۔''

ہکسلے نے کہا تھا: ''جدید دنیا اس قدر تیزی سے مادیت کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مادی آسائشوں کی مٹی آدمی کا چہرہ بھی ڈھانپ لے گی اور جس دن روحانیت کی آخری رمق بھی ختم ہوگئی اس دن کرۂ ارض کے تمام باسی پاگل ہوجائیں گے۔''

میرا جیون بھی بہت سارے رنگوں سے سجی رنگولی ہے، جیسے سندھ کی رلی۔ ساتویں جماعت سے گھر سے بھاگ کر فٹ پاتھ اور سڑکوں کو اپنا مسکن بنانے والے کی زندگی، رات کو قبرستان میں سونے اور دن کو مزدوری کرنے والے کی زندگی، جوانی میں خون تھوک تھوک کر رت جگے اور پھر دل کی دنیا نشتر کی زد میں رہی۔ میں نے بھی رنگا رنگ لوگ دیکھے۔ چور اچکے، عالم فاضل، سفاک قاتل اور ان سفاک قاتلوں میں ولی، ولیوں کے روپ میں لٹیرے، جوگی، جھوٹے نگوں سے سجی انگشتری کی طرح رشتے اور مجبوری کے ناتے۔ اور پھر بہت سارے بابے، میں ان سب میں رہا ہوں، مجھ کمی کمین کو رب نے نجانے کیا کیا سکھایا، نہ جانے کیا کیا عنایت کیا، میں قطعاً اس کے لطف و کرم کا حق دار نہیں تھا۔ بس کرم ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا میرے اس کام کا انجام کیا ہوگا۔ دنیا مجھے کیا کہے گی جب ایک دن مقرر ہے جہاں ہر اک حاضر ہوگا اپنے رب کے حضور، تو پھر کیا اندیشۂ ہائے سود و زیاں اور کیسا رسوائی کا ڈر!

ہمارے ایک بابے نے مجھے ایک دن کہا تھا: دیکھو! انسان نے ایک کام بہت اخلاص سے کیا، اپنے رب کو حاضر جانتے ہوئے اور وہ بگڑ گیا تو غم نہیں ہوتا، کہ میں نے تو یہ سوچ کر نہیں کیا تھا اور کوئی کام بدنیتی سے کیا اور وہ اچھے پھل پھول لے آیا تو بندہ سدا پریشان رہتا ہے کہ میں نے تو بہت بدنیتی سے کیا تھا۔ بس یہ ہے اصول زندگی کا، اسی سے چمٹے رہنا چاہے کچھ ہوجائے۔

ٹالسٹائی نے کہا تھا: ''میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کائنات دائمی اور لامحدود ہے، میں یہاں لمحے بھر کو چمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں۔۔۔۔ اور اب میں کچھ کرلوں۔ اِس طرف سے زمین کھود کر اُدھر نکل جاؤں۔۔۔۔ اُس طرف سے کھود کر واپس اِس طرف نکل آؤں، اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ آغاز اور انجام کہاں، کیوں اور کس کی مرضی سے طے کردیا گیا ہے۔''

سُچّے جوگی، سادھو اور بابے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے، وہ صرف خواہش دریافت کرتے ہیں کسی کو محل بنانے کی خواہش ہو تو کہتے ہیں ''بنالو'' پھر وہ دوسرا پھیرا لگاتے اور خواہش جاننا چاہتے ہیں، ان کے سامنے کسی بھی خواہش کا اظہار کیا جائے وہ کام یابی اور خوش رہنے کی دعا دیتے اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان کا دامن تھام لے اور خود ہی چیخ چیخ کر کہے ، میری ساری خواہشیں پوری ہوگئیں مگر میں اب بھی بے چین ہوں تو وہ اسے سُکون کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔

میں نہ جانے آپ سے کیا کہنا چاہتا ہوں، شاید یہ کہ ہم سب صرف خود جینا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی کو جینے کا حق دینا نہیں چاہتے، یہی ہے میری زندگی بھر کا تجربہ۔ عزیز ترین رشتے، بدترین استحصالی ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی ہدایات پر عمل کریں آپ بہت اچھے ہوتے ہیں، وہ آپ کے گُن گاتے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنا حق، وہ حق جو انھیں ان کا رب دیتا ہے استعمال کرنا چاہیں آپ اُن کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ آپ صرف خود کو دیکھتے ہیں، آپ کے پاس ہر ایک کے لیے اپنے معیارات ہیں۔

آپ کا ہر پل نئی عینک لگا لیتا ہے، کچھ دیر پہلے وہ جو عزیز ترین تھا بدترین بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ انسان کٹھ پتلی نہیں ہوتا۔ وہ ایک جیتا جاگتا وجود ہوتا ہے۔ اس کی کچھ خواہشات ہوتی ہیں، جسے آپ ناز نخرے سے پالتے ہیں اسے خود اپنے ہاتھوں دفن کردیتے ہیں۔ زیادہ سفاک یہ رویہ ہوتا ہے کہ آپ خود انھیں مار ڈالتے ہیں اور کوئی ان کی زندگی میں آکر تھوڑے سے رنگ بھر دے اور ان کے اداس چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرے، اور وہ کام یاب بھی ہوجائے تو آپ اسے دوبارہ مار ڈالتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اس لیے یہ کیا ہم نے۔

میں اپنے جرم کو تسلیم کرتا اور اقرار کرتا ہوں میں نے کسی کی بھی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ جو ٹھیک سمجھا وہ کیا، کسی کی پروا نہیں کی۔ پہلے اپنے قصیدے سنے اور پھر گالیاں، لیکن میں باز نہیں آیا، میں باز آ بھی نہیں سکتا، انسانوں کو رب نے جو حقوق دیے ہیں وہ کیسے چھین سکتے ہیں آپ۔ میں انسانوں کے حق میں نغمہ سرا ہوں اور گالیاں کھاتا اور مسکراتا ہوں۔ شاید یہی ہے میرا سب سے بڑا جرم۔ لیکن یہ میں کرتا رہوں گا، چاہے آپ کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ آپ ضرور جییں، سدا جییں، لیکن اوروں کو بھی جینے دیں۔

کسی کو بھی اپنی خواہشات کی سولی پر مت چڑھائیں۔ آپ نے کسی کی خوشیاں چھینیں تو آپ بھی خوش نہیں رہیں گے۔ یہ دنیا اسی طرح غموں کے سمندر میں غوطے کھاتی رہے گی اور آخر ڈوب جائے گی۔ اپنے دل کے چراغ کو روشن رکھیے۔ کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ ریت پر قلعے تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔ سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا، وہ اپنا راستہ خود نکالتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے وہ پسپا ہوجائے لیکن وہ ہمیشہ سرخ رو رہتا ہے۔ آپ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے۔

یاد رکھیے یہاں کوئی دائم آباد تھا نہیں رہے گا۔ سب چلے جائیں گے، پھر اک دن جمع کیے جائیں گے۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا یہاں، کچھ بھی تو نہیں، بس نام رہے گا اﷲ کا:


باہر ہیں حدِ فہم سے رندوں کے مقامات

کیا تجھ کو خبر، کون کہاں جُھوم رہا ہے

٭٭٭

ابھی تو شب کا پہلا پہر ہی تھا اور میں سونے کے لباس میں ملبوس کہ انھوں نے پھر مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ اس سے پہلے وہ چھے مرتبہ مجھے نکال چکے تھے اور میں کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم پھر کو واپس آجایا کرتا تھا۔ مگر اب مجھے کوئی طاقت اُکسا رہی تھی کہ مجھے واقعی یہ جگہ چھوڑ دینا چاہیے۔ میرے چاروں طرف سے چھوڑ دو، چھوڑ دو کے نعرے بلند ہورہے تھے، میں نے اپنی پوری طاقت جمع کی اور پھر سر اٹھا کر کہا، میں واقعی چلا جاؤں گا۔ انھوں نے قہر آلود نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور پھر حکم صادر کیا جاؤ ابھی جاؤ، پھر واپس مت آنا، زندگی بہت تلخ ہے اور تم نے ابھی اس کا مزا ہی چکھا ہے درد نہیں۔ جاؤ۔

بہت بڑا مکان تھا، مکان ہی تھا وہ گھر نہیں تھا۔ مکان اور گھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مکان میں تنہائی اور گھر میں اپنائیت ہوتی ہے۔ گھر میں تو سب کی سنی جاتی ہے اور مکان میں صرف ایک کی۔ بس اس نے جو کہا حکم ہوتا ہے جس کی تعمیل سب پر فرض ہوتی ہے۔ سرمو انحراف بغاوت کہلاتی ہے اور منحرف باغی۔

میں نے بھی ایک مکان میں آنکھ کھولی تھی جس میں بہت سے ملازم تھے۔ پیسے ہی پیسے، دولت ہی دولت، بندوقیں اور کارتوس، زمینوں کی باتیں، فصلوں کے قصے اور قتل و غارت گری کے منصوبے، اپنی انا کو چہرے پر سجائے ہوئے خان اور ان کے دوست چوہدری، ملک اور سیٹھ۔ مجھے شروع ہی سے بتایا گیا تھا میں خان ہوں اور میرے ارد گرد سب کیڑے مکوڑے جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بس یہ کمّی ہیں اور کمین تو ہیں ہی۔ ان سے ہر طرح کے کام لیے جاسکتے ہیں، ہر طرح کے اور کسی وقت بھی، وہ شب و روز حکم کے غلام ہیں، ایسے غلام جو انکار نہیں جانتے۔ مجھے سب سے پہلی مار اس لیے پڑی تھی کہ میں نے سڑک پر جھاڑو دینے والی شانتی سے آخر بات ہی کیوں کی۔

مجھے اب تک اسکول جانے کا پہلا دن یاد ہے، ایسا اسکول جو صرف شرفاء کے بچوں کے لیے مخصوص تھا۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے ۔جب میں جیپ میں بیٹھا تو ہمارا کمدار مہر میرے ساتھ تھا، جس کے کاندھے پر تھری ناٹ تھری رائفل لٹک رہی تھی اور اس کی کمر سے گولیوں سے سجا ہوا پٹّا لپٹا ہوا تھا۔ اس نے اسکول سے معلوم کیا کہ میری چھٹی کب ہوگی اور پھر وہ یہ کہتے ہوئے کہ چھوٹے خان میں آپ کو لینے آؤںگا اور ہاں اسکول کی عمارت سے باہر مت جانا، کہہ کر چلا گیا۔

کلاس روم میں پہلی بینچ پر مجھے بٹھایا گیا اور پھر ایک ٹیچر اندر داخل ہوئے، نام تھا ان کا اصغر علی، سر پر ٹوپی، سفید کرتا اور کھلا پاجامہ، مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ پھر تعارف اور کچھ نہیں، لیکن کتاب زندگی کا پہلا سبق شروع ہوگیا تھا۔

میرے اندر بہت سارے سوالات تھے، جو اب بھی ہیں۔ خدا کیا ہے، کیوں ہے، ہم کیوں ہیں، کیوں آئے ہیں، کیا ضرورت تھی، کچھ لوگ ہی امیر ہیں، سب کیوں نہیں، آسمان کیا ہے، زمین کیا ہے، اس کے اندر کیا ہے، وہ جس نے ہمیں پیدا کیا وہ کہاں ہے، نظر کیوں نہیں آتا اور پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے سوالات شدت اختیار کرتے چلے گئے اور گہرے اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ اور ہر پل ان سوالات میں نیا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ چہرے اچھے کیوں لگتے ہیں، ان سے بات کرنے کو کیوں جی چاہتا ہے، لمس کیا ہے، محبت کیا ہے، عشق کیا ہوتا ہے، ہم سب انسان ہیں تو ہمیں الگ کیوں کیا گیا، جس نے مجھے سجدہ کیا تھا اسے ہی مجھ پر مسلط کیوں کردیا گیا۔ میں خلیفہ ہوں تو پھر میرا حکم کیوں نہیں چلتا، میں اتنا بے دست و پا کیوں ہوں اور نہ جانے کیا کیا۔ ہجر کیا ہے، فراق کیا، وصال کیا اور میں سوالات کی گہری دلدل میں اب تک اترتا چلا جارہا ہوں۔

یوں تو محلے میں بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن مجھے رضیہ بہت اچھی لگتی تھی۔ عمر میں مجھ سے بڑی۔ وہ بہت مغرور مشہور تھی اس کے ابو بہت بڑے زمیں دار تھے، وہ اکلوتی تھی اور لڑکے اسے دیکھنے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ وہ شام کو گھر سے اجرک اوڑھ کر نکلتی۔ نہ جانے کہاں جاتی تھی وہ۔ میں نے اسے کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ سر اٹھائے سب کے سامنے سے گزر جاتی تھی بس اور امیر زادے دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ایک دن وہ اچانک رکی اور میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ کیا سوچتے رہتے ہو تم؟ میں نے کہا تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی۔ میں نے سنا ہے تم گھر میں بہت پٹتے ہو۔ تو پھر؟ میں نے کہا۔ باز آجاؤ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی تھی۔

وہ خوب صورت سی ایک مسجد تھی جہاں میں نماز پڑھنے جاتا تھا، اس لیے نہیں کہ مجھے خدا سے بہت محبت تھی اس لیے کہ اسکول والوں نے ایک چھوٹی سی ڈائری دی تھی جس میں نمازوں کے خانے بنے ہوئے تھے اور نماز پڑھنے کے بعد امام صاحب اس پر دست خط کرتے تھے اور وہ روزانہ چیک کی جاتی تھی۔ جس نے نماز نہ پڑھی ہو اسے سزا ملتی تھی۔ میں نے جعلی دست خط کرنا وہیں سے سیکھا۔ امام صاحب کے دست خطوں کی خوب مشق کرلی تھی اور خود ہی دست خط کردیتا تھا۔

ایک دن مسجد گیا تو پتا چلا کہ امام صاحب بدل گئے ہیں اور نئے امام صاحب آگئے ہیں۔ میں نے نماز ادا کی اور ڈائری ان کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور مسکرا کر ہنسنے لگے۔ اچھا تو نمازوں کا بھی حساب کتاب رکھتے ہو۔ میں نے کہا میں نہیں اسکول والے۔ ان کا نام حافظ محمد طاہر درویش تھا اور پھر میری ان کی دوستی ہوگئی۔ میں نے ان سے پوچھا حافظ صاحب، یہ اﷲ جی کون ہے؟ مجھے کیا معلوم اﷲ جی سے پوچھو کہ وہ کون ہے مجھ سے تو میرے متعلق پوچھو۔ وہ کہاں ملتے ہیں کہ میں جاکر اس سے پوچھوں کہ جی آپ اپنا تعارف کرائیں آپ کون ہیں ؟ تب انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مخلوق میں رہتے ہیں کسی نہ کسی دن تمہیں ضرور مل جائیں گے۔ تب سے آج تک میں اسی کی تلاش میں ہوں۔

میری زندگی کا سب سے بڑا دن وہ تھا جب میں نے امی اور ابو کی باتیں سن لی تھیں۔ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا تھا اس لڑکے کو مت گود لو، لیکن تم باز نہیں آئیں۔ اب نتیجہ دیکھا تم نے، جس سے منع کرو وہ وہی کرتا ہے۔ میں یہ سنتے ہی کمرے میں داخل ہوا میں کون ہوں؟ مجھے بتائیے۔ جواب تو نہیں ملا بس پٹائی ضرور ہوگئی۔ میں رات بھر جاگتا رہا کہ میں کون ہوں۔ میں نے سات ماؤں کا دودھ پیا ہے، کیوں۔ سب مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں، لیکن حقیقت کوئی نہیں بتاتا، آخر کیوں۔ پھر ریلوے اسٹیشن تھا اور میں بینچ پر بیٹھا مسافروں کو تکتا رہتا۔ گھر واپس آتا تو پٹتا، آخر تم کس کو تلاش کرتے ہو؟ میرے سوالات کا جواب اﷲ جی کے پاس ہے بس میں اسے ہی تلاش کرتا ہوں۔

آخر وہ رات بھی آگئی جب ان کا حکم تھا میں چلا جاؤں۔ زندگی کا درد چکھوں۔ دسمبر کی سرد رات کو میں نے حکم کی تعمیل میں باہر قدم رکھنے سے پہلے امی ابو کو دیکھا اور اپنے رب کا نام لے کر باہر قدم رکھ دیا۔ امی کی آواز آئی رکو اور پھر میں نے سنا، جانے دو پہلے بھی تو آگیا تھا، خود آجائے گا۔ بہت تلخ ہے زندگی۔

لیکن اب میں واپس آنے کے لیے نہیں بس جانے کے لیے نکلا تھا۔ سڑک پر سناٹا تھا اور ہوا اپنے نیزے بھالے لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑی تھی۔ چند قدم چلنے کے بعد میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، میری جیب میں پچاس پیسے کا ایک سکہ تھا۔ میں بچے سے ایک دم بوڑھا ہوگیا تھا۔ سڑک کے اختتام پر وہ مجھے کالی چادر اوڑھے ہوئے ملی۔ تم جارہے ہو ناں، یہی انجام ہونا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، آج سے تم ہمارے ہو، جاؤ یہی ہے تسلیم کی راہ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا وہ مجھ سے بہت دور جاچکی تھی۔
Load Next Story