ایک کتاب اور سیاسی ہنگامہ
سیاسی مخالفین کی شخصیت کو منہدم کرنے کا کام تو ہمارے یہاں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا۔
اس سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا، حتیٰ کہ پی ٹی آئی کے وہ ہم درد کارکن بھی نہیں جو بردبار، پختہ کار، سنجیدہ اور عمر رسیدہ ہیں، زندگی کے حقائق کو سمجھتے اور حالات کے رُخ پر نظر رکھتے ہیں، اس پارٹی کے غیر مشروط مددگار ہیں اور عمران خان سے بہت توقعات اور امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ اُن کے قائد کی سابقہ بیوی ریحام خان کی مبینہ کتاب نے اُن کی پارٹی اور قائد دونوں کے لیے صورتِ حال کو خراب کیا اور انھیں نقصان پہنچایا ہے۔
ان دنوں میں کہ جب انتخابات کی تیاری کا موسم آچکا ہے اس نوع کا واقعہ عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف کے لیے برے شگون کا درجہ رکھتا ہے۔ انتخابات میں ابھی ڈیڑھ ماہ کا وقت ہے، کیا اس واقعے کے اثرات اتنے عرصے تک قائم رہیں گے اور الیکشن میں ان کے کچھ نتائج بھی سامنے آئیں گے؟ یہ ہے وہ سوال جو اُن سب لوگوں کے ذہن میں گونج رہا ہے جو 2018ء کے انتخابات میں بہتر عوامی شعور کے اظہار کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
اصل میں اس بہتر شعور کے اظہار کا نعرہ لگانے، بلکہ اس کے لیے عوامی حلقوں میں ماحول بنانے میں سب سے زیادہ حصہ بھی پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے قائد نے ہی لیا ہے۔ اُن کی طرف سے بار بار اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ تبدیلی ضروری ہے، تبدیلی کے بغیر اس ملک کے حالات اور عوام کی تقدیر کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں رفتہ رفتہ اس خیال کو عام کیا گیا ہے کہ تبدیلی کے لیے فضا بن چکی ہے، اس لیے اب اُسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں تک باور کرایا گیا کہ تبدیلی اُنہیں رہی، بلکہ آچکی ہے۔
اس نعرے یا خیال کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سادہ دل عوام میں ایک طبقے نے تو واقعی اس کو حقیقت کے طور پر قبول بھی کیا ہے اور اب اس تبدیلی کا عملاً بچشم خود جائزہ لینے کے لیے وہ آئندہ انتخابات پر نگاہ لگائے بیٹھا ہے۔ خیر، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں، اور سچ پوچھیے تو اس ماحول کو بنانے میں پی ٹی آئی نے جو دوڑ دھوپ کی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اسے اب اپنی محنت کا پھل ملے اور یہ ماحول اس کے حق میں پوری طرح مفید ثابت ہو- لیکن اب ریحام خان کا کیا کیجیے جو بیٹھے بٹھائے ادیبہ بن گئیں اور اپنی مبینہ کتاب کو ڈرون بناکر اس موسم میں عمران خان اور اُن کی پارٹی کے سر پر منڈلانے لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈرون کوئی گائیڈڈ میزائل بھی لیے ہوئے یا محض کھیل تماشا دکھا کر ختم ہوجائے گا؟ یہ سوال قبل ازوقت ہے اور اس کا حتمی جواب فوری طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ اس ضمن میں کئی ایک پہلو ہیں جو کام کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پہلی بات تو یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی اور یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، وہ شائع ہوگی بھی یا نہیں، دوسری بات یہ کہ اگر ہوگی تو کیا اُس سارے مواد کے ساتھ ہوگی جس کی ایک جھلک نے ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایسی ہلچل مچادی ہے یا پھر اس میں کچھ ضروری قسم کا رد و بدل کرلیا جائے گا؟ تیسری بات، اگر ردّوبدل کیا گیا تو کیا وہ اس کی دھار بڑھائے گا یا اسے بے اثر کردے گا؟ چوتھی بات، کتاب کب تک منظرِعام پر آئے گی اور جب آئے گی تو کیا صرف اہلِ سیاست کے مطلب کی ہوگی یا عوام خصوصاً ذہن سازی کرنے والے لوگ بھی اس میں دل چسپی لیں گے؟ پانچویں بات، مسلم لیگ (ن) سے تو خیر عمران خان اور اُن کی پارٹی کا براہِ راست تصادم ہے۔
لیکن اس ضمن میں یہ مسئلہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کتاب میں پیش کیے گئے مواد کو پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی خاص طور پر کسی حد تک اپنے حق میں استعمال کرپائیں گے؟ چھٹی بات، کیا اس کتاب میں ایسے کچھ حقائق بھی ہوں گے جن کا الیکشن کمیشن یا عدالتِ عالیہ کو نوٹس لینا پڑے اور یہ عمل پی ٹی آئی کے حق میں مضر ثابت ہو؟ ساتویں بات، کیا اس کتاب کا سارا ملبہ عمران خان پر گرے گا یا اُن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت بھی خمیازہ بھگتے گی؟
آٹھویں بات، کیا اس کتاب میں بیان کیے گئے مسائل اور واقعات کا تعلق محض شخصی، ذاتی، جذباتی اور جنسی معاملات سے ہے جیسا کہ اس وقت تک کی خبروں میں بتایا گیا ہے، یا اس کے ساتھ اجتماعی، انتظامی اور مالیاتی امور بھی معرضِ سوال میں آتے ہیں۔ یہ اور ایسی ہی بعض اور دوسری باتیں بھی دراصل اس کتاب کے عمران خان، ان کی پارٹی اور انتخابات پر اثرات کا تعین کرسکتی ہیں جن کے بارے میں اس وقت تک بات کرنا بے کار ہے، جب تک کتاب شائع نہیں ہوتی۔
سچی بات یہ ہے کہ ریحام خان کی مبینہ کتاب ابھی صرف ایک خیال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب ابھی چھپ کر سامنے نہیں آئی ہے۔ اسے حقیقت یا واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پھر اس نے پاکستان تحریکِ انصاف کو اس بری طرح کیوں ہلا کر رکھ دیا؟ کیا واقعی اس کے ذریعے کچھ ایسا مواد، حقائق، شواہد اور دستاویزات منظرِعام پر آنے کا امکان ہے جو عمران خان اور ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اسے پی ٹی آئی کی اور اس کے قائد کی قسمت کے پھیر کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
ظاہر ہے، ہونی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تحریکِ انصاف کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے لے کر عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید تک، بلکہ اداکاروں اور کھلاڑیوں تک اتنے لوگوں پر ایسی کیا افتاد آپڑی کہ انھیں اس کتاب کے خلاف یوں محاذ آرا ہونا پڑا اور ریحام خان کی کردار کشی کے لیے اس سطح پر اترنا پڑا اور وہ زبان استعمال کرنی پڑی کہ شرفا جس کو دہرانا تک گوارا نہیں کرسکتے۔ ایسی دھماچوکڑی اور گرد اڑانے کی آخر کیا وجہ ہے؟
ماننا چاہیے کہ عمران خان میں شخصی سطح پر بعض ایسی خوبیاں ہیں جو ہمارے یہاں سیاسی شخصیات میں اگلے وقتوں میں تو ملتی تھیں، لیکن اب تو مشکل ہی سے نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک چیز ہی دیکھ لیجیے، جیسا کہ عمران خان خود بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا سب کچھ پاکستان میں ہے اور انھوں نے ملک سے باہر نہ تو کوئی اثاثے رکھے ہیں اور نہ ہی کوئی انویسٹ منٹ یا کاروبار کیا ہوا ہے، تو واقعی فی زماننا یہ ایک بڑی بات ہے۔ اس لیے کہ ہماری حالیہ سیاست کا شاید ہی کوئی اہم کردار ایسا ہو جو یہ دعویٰ کرسکے۔
علاوہ ازیں عمران خان کے نام سے کچھ ایسے کام یا کارنامے بھی منسوب ہیں جن کا انکار ان کے بدترین مخالف بھی نہیں کرسکتے اور جو واقعی ان کی اولوالعزم شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اپنی انفرادی یا شخصی زندگی میں اُن کے ماضی کے اوراق کچھ داغ بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ مزید برآں اپنی بیس سالہ سیاسی زندگی میں انھوں نے اب تک ایک پختہ کار، تجربہ کار اور جہاں دیدہ شخصیت کا درجہ بوجوہ حاصل نہیں کیا ہے۔ آج بھی اُن سے بعض ایسے جذباتی اقدامات سرزد ہوتے رہتے ہیں جو ایک بڑے قومی رہنما کی بردباری اور متانت کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہی وہ رخ ہے جو صرف اُن کی ذاتی زندگی ہی میں نہیں، بلکہ پوری جماعت میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
چناںچہ آپ میڈیا میں اور عوامی سطح پر پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی شخص کی گفتگو سن لیجیے، آپ کو پہلا تأثر یہی ملے گا کہ یہ شخص ردِعمل اور غصے کا اظہار کررہا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ وہ معاملہ شخصی ہے یا قومی اور اخلاقی ہے یا سیاسی اس لیے کہ اس جماعت کے لوگوں کی وجہ سے ہر معاملے میں بس ایک دھواں دھار ردِعمل سامنے آتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے مؤقف کا اظہار کرنے والے سب لوگ جس لب و لہجے میں بات کرتے ہیں، اس میں عدم برداشت کا مزاج بہت نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ایک بات بہرحال سمجھ آتی ہے کہ اس جماعت کے لوگوں کی سیاسی تربیت جس طرح ہونی چاہیے تھی، اس طرح نہیں ہوئی ہے۔ غصے، ردِعمل اور عدم برداشت کا یہ رویہ میڈیا کے بیانات اور سیاسی جلسوں سے لے کر سوشل میڈیا پر جاری عمل تک مسلسل دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس جماعت میں پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ موجود نہیں ہیں۔ یقینا ہیں، لیکن انھیں بھی وہی ماجرا پیش آیا ہے، یعنی:
در کانِ نمک رفت نمک بود
چناںچہ ریحام خان کی کتاب کے چھپنے اور واقعہ بننے سے بہت پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کے وابستگان اور ہم دردوں نے جس انداز سے اُس کا اثر لیا اور جس ردِعمل کا اظہار کیا ہے، اس نے خود ان کی پارٹی کو سنجیدہ نوعیت کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں عوامی رائے کو مکمل طور پر تو بے شک ابھی نہیں بدلا ہوگا، لیکن متأثر ضرور کیا ہے۔ ظاہر ہے، مشتعل رویہ سنجیدگی اور متانت کی نفی کرتا ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے، تحریکِ انصاف کے بہی خواہوں نے یہ حقیقت مکمل طور پر فراموش کردی کہ جو گرد وہ اڑا رہے ہیں، اُس کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ بہت بڑا اور براہِ راست فائدہ ریحام خان اور ان کی کتاب کو پہنچے گا۔ اس لیے کہ اس طرح کی گفتگو سننے کے بعد اور اتنا تماشا دیکھنے کے بعد اب وہ لوگ بھی اس کتاب کے چھپنے کا انتظار کریں گے جو سیاسی چٹخارے کی کتابیں پڑھنا تو دور کی بات ہے، اُن کا نام تک جاننے سے دل چسپی نہیں رکھتے۔ تحریکِ انصاف نے چھپ کر آنے سے پہلے ہی اس کتاب کی وہ مارکیٹ بنا دی ہے کہ جو ریحام خان ساری زندگی کبھی خود نہیں بناسکتی تھیں۔
یہ تو ہوا اس معاملے کا ایک رخ۔ اب ذرا دوسرے پہلو کو بھی دیکھتے چلیے۔ اگر یہ کتاب شائع ہوتی اور عوام تک پہنچتی ہے تو یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا اتنا ہی ناگوار اور ناشائستہ واقعہ ہوگا جتنا ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے پہلے الیکشن کے موقعے پر ایک واقعہ ہوا تھا، یعنی جب 1988ء میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے اور اس کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی نامناسب تصاویر کے پوسٹر چھاپ کر دیواروں پر آویزاں کیے گئے تھے۔ بلاشبہ یہ کردارکشی کا عمل تھا۔
سیاسی مخالفین کی شخصیت کو منہدم کرنے کا کام تو ہمارے یہاں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا، لیکن وہ ایسی کردار کشی کا معاملہ تو خیر نہیں تھا۔ ہمارے یہاں سیاست کے میدان میں گراوٹ کا یہ بدترین عمل سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کے خلاف سب سے پہلے آغاز ہوا تھا، حالاںکہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا تھا، یعنی بینظیر بھٹو کو بالکل کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ الیکشن جیت کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گئی تھیں، لیکن سیاسی میدان میں بدترین گندگی کا راستہ بہرحال اس دور میں کھل گیا تھا جو آج تک اسی طرح کھلا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے الزام لگایا ہے کہ یہ کتاب مسلم لیگ (ن) کے ایما پر لکھی گئی ہے اور اس کے لیے میاں شہباز شریف نے ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم ادا کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت آسان الزام ہے۔ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کا ٹکراؤ اس وقت اندھے کو بھی نظر آرہا ہے۔ اس لیے ایسی کسی بھی بات کی گنجائش یا امکان کا پیدا ہونا قرینِ قیاس معلوم ہوسکتا ہے۔
عوام کو ایسی کسی بات کا یقین دلانے کے لیے کسی کاوش کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ صرف یہ شوشہ چھوڑ دینا اور اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ کام مسلم لیگ (ن) نے کرایا ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر بھی اس رائے یا تأثر کو باآسانی دور تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے ردِعمل کا اظہار کرنے سے پہلے حالات کا جائزہ لینے اور حقائق پر غور کرنے کی ضرورت بالکل محسوس نہیں کی، ورنہ وہ اس مسئلے کو قدرے بہتر انداز سے سنبھالنے کی کوشش کرسکتی تھی۔
بہرحال، اس الزام کی تصدیق یا تردید ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ طے ہے کہ اصل بات بہت دیر تک ہرگز چھپی نہیں رہے گی۔ اس لیے کہ پانی اگر کہیں مرتا ہے تو پھر مرتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں دو باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک عمر سیاست میں گزارنے کے بعد کیا شہباز شریف اتنی کچی گولیاں کھیلتے ہیں کہ اس طرح کے کام کے لیے وہ براہِ راست ڈول ڈالیں گے، اور وہ بھی احسن اقبال جیسے معروف سیاست داں کے ذریعے کہ جن کی تمام حرکات کہیں نہ کہیں بہرحال ریکارڈ ہوتی ہیں۔
دوسری بات، اس کام کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جس معاوضے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، وہ بھی قطعی غیر اطمینان بخش ہے اور اس الزام کو مضبوطی سے پیش نہیں کرتا۔ دیکھیے صاف بات ہے، اگر واقعی صرف اتنے سے معاوضے پر ریحام خان نے یہ کام کردیا ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ انھیں مارکیٹ کے بھاؤ کا اندازہ ہے نہ اس کام کی قدر و قیمت کا اور نہ ہی اس صورتِ حال میں اپنی حیثیت کا۔ حالاںکہ ان کا تو خود بھی میڈیا سے تعلق رہا ہے، حیرت ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی وقعت اور اہمیت سے اتنی بے خبر ہیں۔
اگر اتنے تھوڑے سے پیسے لینے تھے تو اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ وہ پھر ایک روپیا نہ لیتیں، اور کل دھڑلے سے اور یقین کی پوری قوت اور گھن گرج کے ساتھ کہہ سکتی تھیں کہ انھوں نے یہ کام صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آواز پر کیا ہے، روپے پیسے کے لالچ یا کسی اور مفاد کی خاطر ہرگز نہیں۔ ان کے عوامی امیج کو اس یقین اور کردار کی قوت سے جو فائدہ پہنچتا، اُس کی قیمت کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ اب جہاں تک بات ہے مالی فائدے کی تو ایسی کتاب لکھنے پر اس سے کہیں زیادہ بڑی رقم تو اُن کا پبلشر رائلٹی کی مد میں انھیں ادا کرسکتا تھا۔
ان دنوں میں کہ جب انتخابات کی تیاری کا موسم آچکا ہے اس نوع کا واقعہ عمران خان اور ان کی تحریکِ انصاف کے لیے برے شگون کا درجہ رکھتا ہے۔ انتخابات میں ابھی ڈیڑھ ماہ کا وقت ہے، کیا اس واقعے کے اثرات اتنے عرصے تک قائم رہیں گے اور الیکشن میں ان کے کچھ نتائج بھی سامنے آئیں گے؟ یہ ہے وہ سوال جو اُن سب لوگوں کے ذہن میں گونج رہا ہے جو 2018ء کے انتخابات میں بہتر عوامی شعور کے اظہار کی توقع لگائے بیٹھے ہیں۔
اصل میں اس بہتر شعور کے اظہار کا نعرہ لگانے، بلکہ اس کے لیے عوامی حلقوں میں ماحول بنانے میں سب سے زیادہ حصہ بھی پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے قائد نے ہی لیا ہے۔ اُن کی طرف سے بار بار اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ تبدیلی ضروری ہے، تبدیلی کے بغیر اس ملک کے حالات اور عوام کی تقدیر کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں رفتہ رفتہ اس خیال کو عام کیا گیا ہے کہ تبدیلی کے لیے فضا بن چکی ہے، اس لیے اب اُسے آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہاں تک باور کرایا گیا کہ تبدیلی اُنہیں رہی، بلکہ آچکی ہے۔
اس نعرے یا خیال کی پسندیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سادہ دل عوام میں ایک طبقے نے تو واقعی اس کو حقیقت کے طور پر قبول بھی کیا ہے اور اب اس تبدیلی کا عملاً بچشم خود جائزہ لینے کے لیے وہ آئندہ انتخابات پر نگاہ لگائے بیٹھا ہے۔ خیر، اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں، اور سچ پوچھیے تو اس ماحول کو بنانے میں پی ٹی آئی نے جو دوڑ دھوپ کی ہے۔
وقت آگیا ہے کہ اسے اب اپنی محنت کا پھل ملے اور یہ ماحول اس کے حق میں پوری طرح مفید ثابت ہو- لیکن اب ریحام خان کا کیا کیجیے جو بیٹھے بٹھائے ادیبہ بن گئیں اور اپنی مبینہ کتاب کو ڈرون بناکر اس موسم میں عمران خان اور اُن کی پارٹی کے سر پر منڈلانے لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ ڈرون کوئی گائیڈڈ میزائل بھی لیے ہوئے یا محض کھیل تماشا دکھا کر ختم ہوجائے گا؟ یہ سوال قبل ازوقت ہے اور اس کا حتمی جواب فوری طور پر نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے کہ اس ضمن میں کئی ایک پہلو ہیں جو کام کرسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر پہلی بات تو یہ ہے کہ ریحام خان کی کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی اور یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا، وہ شائع ہوگی بھی یا نہیں، دوسری بات یہ کہ اگر ہوگی تو کیا اُس سارے مواد کے ساتھ ہوگی جس کی ایک جھلک نے ہمارے سیاسی منظرنامے میں ایسی ہلچل مچادی ہے یا پھر اس میں کچھ ضروری قسم کا رد و بدل کرلیا جائے گا؟ تیسری بات، اگر ردّوبدل کیا گیا تو کیا وہ اس کی دھار بڑھائے گا یا اسے بے اثر کردے گا؟ چوتھی بات، کتاب کب تک منظرِعام پر آئے گی اور جب آئے گی تو کیا صرف اہلِ سیاست کے مطلب کی ہوگی یا عوام خصوصاً ذہن سازی کرنے والے لوگ بھی اس میں دل چسپی لیں گے؟ پانچویں بات، مسلم لیگ (ن) سے تو خیر عمران خان اور اُن کی پارٹی کا براہِ راست تصادم ہے۔
لیکن اس ضمن میں یہ مسئلہ بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس کتاب میں پیش کیے گئے مواد کو پیپلزپارٹی، جمعیت علمائے اسلام (ف) اور جماعتِ اسلامی خاص طور پر کسی حد تک اپنے حق میں استعمال کرپائیں گے؟ چھٹی بات، کیا اس کتاب میں ایسے کچھ حقائق بھی ہوں گے جن کا الیکشن کمیشن یا عدالتِ عالیہ کو نوٹس لینا پڑے اور یہ عمل پی ٹی آئی کے حق میں مضر ثابت ہو؟ ساتویں بات، کیا اس کتاب کا سارا ملبہ عمران خان پر گرے گا یا اُن کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت بھی خمیازہ بھگتے گی؟
آٹھویں بات، کیا اس کتاب میں بیان کیے گئے مسائل اور واقعات کا تعلق محض شخصی، ذاتی، جذباتی اور جنسی معاملات سے ہے جیسا کہ اس وقت تک کی خبروں میں بتایا گیا ہے، یا اس کے ساتھ اجتماعی، انتظامی اور مالیاتی امور بھی معرضِ سوال میں آتے ہیں۔ یہ اور ایسی ہی بعض اور دوسری باتیں بھی دراصل اس کتاب کے عمران خان، ان کی پارٹی اور انتخابات پر اثرات کا تعین کرسکتی ہیں جن کے بارے میں اس وقت تک بات کرنا بے کار ہے، جب تک کتاب شائع نہیں ہوتی۔
سچی بات یہ ہے کہ ریحام خان کی مبینہ کتاب ابھی صرف ایک خیال کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے کہ یہ کتاب ابھی چھپ کر سامنے نہیں آئی ہے۔ اسے حقیقت یا واقعہ نہیں کہا جاسکتا۔ سوال یہ ہے کہ آخر پھر اس نے پاکستان تحریکِ انصاف کو اس بری طرح کیوں ہلا کر رکھ دیا؟ کیا واقعی اس کے ذریعے کچھ ایسا مواد، حقائق، شواہد اور دستاویزات منظرِعام پر آنے کا امکان ہے جو عمران خان اور ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکیں؟ اگر واقعی ایسا ہے تو پھر اسے پی ٹی آئی کی اور اس کے قائد کی قسمت کے پھیر کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے۔
ظاہر ہے، ہونی کو تو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر تحریکِ انصاف کے سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں سے لے کر عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید تک، بلکہ اداکاروں اور کھلاڑیوں تک اتنے لوگوں پر ایسی کیا افتاد آپڑی کہ انھیں اس کتاب کے خلاف یوں محاذ آرا ہونا پڑا اور ریحام خان کی کردار کشی کے لیے اس سطح پر اترنا پڑا اور وہ زبان استعمال کرنی پڑی کہ شرفا جس کو دہرانا تک گوارا نہیں کرسکتے۔ ایسی دھماچوکڑی اور گرد اڑانے کی آخر کیا وجہ ہے؟
ماننا چاہیے کہ عمران خان میں شخصی سطح پر بعض ایسی خوبیاں ہیں جو ہمارے یہاں سیاسی شخصیات میں اگلے وقتوں میں تو ملتی تھیں، لیکن اب تو مشکل ہی سے نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر صرف ایک چیز ہی دیکھ لیجیے، جیسا کہ عمران خان خود بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا سب کچھ پاکستان میں ہے اور انھوں نے ملک سے باہر نہ تو کوئی اثاثے رکھے ہیں اور نہ ہی کوئی انویسٹ منٹ یا کاروبار کیا ہوا ہے، تو واقعی فی زماننا یہ ایک بڑی بات ہے۔ اس لیے کہ ہماری حالیہ سیاست کا شاید ہی کوئی اہم کردار ایسا ہو جو یہ دعویٰ کرسکے۔
علاوہ ازیں عمران خان کے نام سے کچھ ایسے کام یا کارنامے بھی منسوب ہیں جن کا انکار ان کے بدترین مخالف بھی نہیں کرسکتے اور جو واقعی ان کی اولوالعزم شخصیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ تاہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جاسکتا کہ اپنی انفرادی یا شخصی زندگی میں اُن کے ماضی کے اوراق کچھ داغ بھی سمیٹے ہوئے ہیں۔ مزید برآں اپنی بیس سالہ سیاسی زندگی میں انھوں نے اب تک ایک پختہ کار، تجربہ کار اور جہاں دیدہ شخصیت کا درجہ بوجوہ حاصل نہیں کیا ہے۔ آج بھی اُن سے بعض ایسے جذباتی اقدامات سرزد ہوتے رہتے ہیں جو ایک بڑے قومی رہنما کی بردباری اور متانت کے خلاف نظر آتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا یہی وہ رخ ہے جو صرف اُن کی ذاتی زندگی ہی میں نہیں، بلکہ پوری جماعت میں سب سے زیادہ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
چناںچہ آپ میڈیا میں اور عوامی سطح پر پی ٹی آئی کی نمائندگی کرنے والے کسی بھی شخص کی گفتگو سن لیجیے، آپ کو پہلا تأثر یہی ملے گا کہ یہ شخص ردِعمل اور غصے کا اظہار کررہا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ وہ معاملہ شخصی ہے یا قومی اور اخلاقی ہے یا سیاسی اس لیے کہ اس جماعت کے لوگوں کی وجہ سے ہر معاملے میں بس ایک دھواں دھار ردِعمل سامنے آتا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے مؤقف کا اظہار کرنے والے سب لوگ جس لب و لہجے میں بات کرتے ہیں، اس میں عدم برداشت کا مزاج بہت نمایاں محسوس ہوتا ہے۔ اس سے ایک بات بہرحال سمجھ آتی ہے کہ اس جماعت کے لوگوں کی سیاسی تربیت جس طرح ہونی چاہیے تھی، اس طرح نہیں ہوئی ہے۔ غصے، ردِعمل اور عدم برداشت کا یہ رویہ میڈیا کے بیانات اور سیاسی جلسوں سے لے کر سوشل میڈیا پر جاری عمل تک مسلسل دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس جماعت میں پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ موجود نہیں ہیں۔ یقینا ہیں، لیکن انھیں بھی وہی ماجرا پیش آیا ہے، یعنی:
در کانِ نمک رفت نمک بود
چناںچہ ریحام خان کی کتاب کے چھپنے اور واقعہ بننے سے بہت پہلے پاکستان تحریکِ انصاف کے وابستگان اور ہم دردوں نے جس انداز سے اُس کا اثر لیا اور جس ردِعمل کا اظہار کیا ہے، اس نے خود ان کی پارٹی کو سنجیدہ نوعیت کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس صورتِ حال نے پاکستان تحریکِ انصاف کے بارے میں عوامی رائے کو مکمل طور پر تو بے شک ابھی نہیں بدلا ہوگا، لیکن متأثر ضرور کیا ہے۔ ظاہر ہے، مشتعل رویہ سنجیدگی اور متانت کی نفی کرتا ہے۔
لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا کرتے ہوئے، تحریکِ انصاف کے بہی خواہوں نے یہ حقیقت مکمل طور پر فراموش کردی کہ جو گرد وہ اڑا رہے ہیں، اُس کا کوئی نقصان نہیں، بلکہ بہت بڑا اور براہِ راست فائدہ ریحام خان اور ان کی کتاب کو پہنچے گا۔ اس لیے کہ اس طرح کی گفتگو سننے کے بعد اور اتنا تماشا دیکھنے کے بعد اب وہ لوگ بھی اس کتاب کے چھپنے کا انتظار کریں گے جو سیاسی چٹخارے کی کتابیں پڑھنا تو دور کی بات ہے، اُن کا نام تک جاننے سے دل چسپی نہیں رکھتے۔ تحریکِ انصاف نے چھپ کر آنے سے پہلے ہی اس کتاب کی وہ مارکیٹ بنا دی ہے کہ جو ریحام خان ساری زندگی کبھی خود نہیں بناسکتی تھیں۔
یہ تو ہوا اس معاملے کا ایک رخ۔ اب ذرا دوسرے پہلو کو بھی دیکھتے چلیے۔ اگر یہ کتاب شائع ہوتی اور عوام تک پہنچتی ہے تو یہ بھی ہماری سیاسی تاریخ کا اتنا ہی ناگوار اور ناشائستہ واقعہ ہوگا جتنا ضیاء الحق کی موت کے بعد ہونے والے پہلے الیکشن کے موقعے پر ایک واقعہ ہوا تھا، یعنی جب 1988ء میں پیپلزپارٹی کی مقبولیت کو کم کرنے اور اس کا ووٹ بینک توڑنے کے لیے محترمہ نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کی نامناسب تصاویر کے پوسٹر چھاپ کر دیواروں پر آویزاں کیے گئے تھے۔ بلاشبہ یہ کردارکشی کا عمل تھا۔
سیاسی مخالفین کی شخصیت کو منہدم کرنے کا کام تو ہمارے یہاں ایوب خان کی بنیادی جمہوریت کے دور سے ہی شروع ہوگیا تھا، لیکن وہ ایسی کردار کشی کا معاملہ تو خیر نہیں تھا۔ ہمارے یہاں سیاست کے میدان میں گراوٹ کا یہ بدترین عمل سابق وزیرِاعظم بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کے خلاف سب سے پہلے آغاز ہوا تھا، حالاںکہ اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلا تھا، یعنی بینظیر بھٹو کو بالکل کوئی نقصان نہیں پہنچا اور وہ الیکشن جیت کر وزارتِ عظمیٰ کے منصب تک پہنچ گئی تھیں، لیکن سیاسی میدان میں بدترین گندگی کا راستہ بہرحال اس دور میں کھل گیا تھا جو آج تک اسی طرح کھلا ہوا نظر آرہا ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف نے الزام لگایا ہے کہ یہ کتاب مسلم لیگ (ن) کے ایما پر لکھی گئی ہے اور اس کے لیے میاں شہباز شریف نے ایک لاکھ پاؤنڈ کی رقم ادا کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت آسان الزام ہے۔ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کا ٹکراؤ اس وقت اندھے کو بھی نظر آرہا ہے۔ اس لیے ایسی کسی بھی بات کی گنجائش یا امکان کا پیدا ہونا قرینِ قیاس معلوم ہوسکتا ہے۔
عوام کو ایسی کسی بات کا یقین دلانے کے لیے کسی کاوش کی ضرورت نہیں ہوسکتی۔ صرف یہ شوشہ چھوڑ دینا اور اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ یہ کام مسلم لیگ (ن) نے کرایا ہے۔ کسی ثبوت کے بغیر بھی اس رائے یا تأثر کو باآسانی دور تک پھیلایا جاسکتا ہے۔ تاہم معلوم ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے اس حوالے سے ردِعمل کا اظہار کرنے سے پہلے حالات کا جائزہ لینے اور حقائق پر غور کرنے کی ضرورت بالکل محسوس نہیں کی، ورنہ وہ اس مسئلے کو قدرے بہتر انداز سے سنبھالنے کی کوشش کرسکتی تھی۔
بہرحال، اس الزام کی تصدیق یا تردید ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ طے ہے کہ اصل بات بہت دیر تک ہرگز چھپی نہیں رہے گی۔ اس لیے کہ پانی اگر کہیں مرتا ہے تو پھر مرتا ہوا نظر بھی آتا ہے۔ تاہم اس ضمن میں دو باتیں غور طلب ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک عمر سیاست میں گزارنے کے بعد کیا شہباز شریف اتنی کچی گولیاں کھیلتے ہیں کہ اس طرح کے کام کے لیے وہ براہِ راست ڈول ڈالیں گے، اور وہ بھی احسن اقبال جیسے معروف سیاست داں کے ذریعے کہ جن کی تمام حرکات کہیں نہ کہیں بہرحال ریکارڈ ہوتی ہیں۔
دوسری بات، اس کام کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے جس معاوضے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، وہ بھی قطعی غیر اطمینان بخش ہے اور اس الزام کو مضبوطی سے پیش نہیں کرتا۔ دیکھیے صاف بات ہے، اگر واقعی صرف اتنے سے معاوضے پر ریحام خان نے یہ کام کردیا ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ انھیں مارکیٹ کے بھاؤ کا اندازہ ہے نہ اس کام کی قدر و قیمت کا اور نہ ہی اس صورتِ حال میں اپنی حیثیت کا۔ حالاںکہ ان کا تو خود بھی میڈیا سے تعلق رہا ہے، حیرت ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی وقعت اور اہمیت سے اتنی بے خبر ہیں۔
اگر اتنے تھوڑے سے پیسے لینے تھے تو اس سے کہیں بہتر ہوتا کہ وہ پھر ایک روپیا نہ لیتیں، اور کل دھڑلے سے اور یقین کی پوری قوت اور گھن گرج کے ساتھ کہہ سکتی تھیں کہ انھوں نے یہ کام صرف اور صرف اپنے ضمیر کی آواز پر کیا ہے، روپے پیسے کے لالچ یا کسی اور مفاد کی خاطر ہرگز نہیں۔ ان کے عوامی امیج کو اس یقین اور کردار کی قوت سے جو فائدہ پہنچتا، اُس کی قیمت کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ اب جہاں تک بات ہے مالی فائدے کی تو ایسی کتاب لکھنے پر اس سے کہیں زیادہ بڑی رقم تو اُن کا پبلشر رائلٹی کی مد میں انھیں ادا کرسکتا تھا۔