کچھ سبق سیکھا جاسکتا ہے…
مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔
ملا فضل اللہ امریکی ڈرون کے میزائل حملے کا نشانہ بن گیا۔ طالبان کے دو سربراہ بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود بھی امریکی ڈرون طیاروں کا شکار ہوئے تھے۔ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور قائم مقام وزیر اعظم جسٹس ریٹائرڈ ناصر الملک کو ٹیلی فون پر اس کامیاب آپریشن کے بارے میں اطلاع دی۔ ملا فضل اللہ کی ہلاکت سے پاکستان کا افغانستان کی حکومت سے یہ شکوہ دور ہوا کہ پاکستان کے منحرفین افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ اب ایک نیا سوال یہ ہے کہ افغانستان کی حکومت کے مطالبے پر حقانی نیٹ ورک کے خلاف حقیقی آپریشن کب ہوگا؟
ملا فضل اللہ کا تعلق سوات سے تھا ۔ 90ء کی دہائی میں سوات میں اچانک شریعت کے نفاذ کی تحریک چلی ۔ صوفی محمد اس تحریک کے قائد تھے۔ ملا فضل اللہ صوفی محمد کے حلقے میں شامل ہوا ۔ جب اتحادی افواج نے کابل سے طالبان کے تخت کے خاتمے کے لیے آپریشن کیا تو ملا عمرکوکابل چھوڑ کر پہاڑوں میں جانا پڑا ، سعودی منحرف اسامہ بن لادن نے پہلے پاکستان اور افغانستان کی سرحدی علاقے سے متصل پہاڑی سلسلہ توڑا بوڑا میں پناہ لی اور پھر اپنے دوستوں کی حفاظت میں ایبٹ آباد میں مقیم ہوئے تو صوفی محمد ایک برہنہ تلوار اٹھائے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملا عمر کی خلافت کو بچانے کے لیے کابل کی طرف روانہ ہوئے تھے، تو ان میں ملا فضل اللہ بھی شامل تھا۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورس نے صوفی محمد اور اس کے لشکر کو ڈیورنڈ لائن عبور کرنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
صوفی محمد واپسی پرگرفتار ہوئے۔ کئی برس تک جیلوں میں رہنے کے بعد گزشتہ سال رہائی پائی ۔ کہا جاتا ہے کہ صوفی محمد نے اپنی ایک بیٹی ملا فضل اللہ کے عقد میں دے دی تھی۔ مگر ملا فضل اللہ نے سوات میں اپنی مرضی کا اسلام نافذ کرنے کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کی مدد حاصل کی۔ ملا فضل اللہ نے ایک ایف ایم ریڈیو کے ذریعے رجعت پسندانہ پیغام معصوم لوگوں کے دماغوں میں گھولنا شروع کیا ۔ ملا فضل اللہ نے مردوں کے علاوہ عورتوں کو بھی جنونیت کا سبق دینا شروع کیا، پھر آہستہ آہستہ مسلح طالبان سوات پر قابض ہوتے چلے گئے۔
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے استاد نے ایم فل کا مقالہ ملا فضل اللہ کے ایف ایم ریڈیوکے موضوع پرکیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تحقیق کے دوران یہ واضح ہوا کہ ملا فضل اللہ نے مردوں اور عورتوں سے خطاب کے لیے علیحدہ علیحدہ وقت طے کیا ہوا تھا ۔ وہ صبح اور شام کے بعد مردوں سے مخاطب ہوتا تھا اور صبح 11:00 بجے عورتوں سے خطاب کرتا تھا۔ اس وقت عمومی طور پر مرد کاموں پر ہوتے تھے۔ اس بناء پر عورتوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کا خوب موقع ملتا تھا۔
ملا فضل اللہ عورتوں کی تعلیم کا شدید مخالف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ عورتوںکو صرف مذہبی تعلیم حاصل کرنی چاہیے اور عورتوں کا اصل مقام ان کا گھر ہے۔ ان کا روزگار کے لیے گھر سے باہر نکلنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ محقق کا کہنا تھاکہ ملا فضل اللہ جو ملا ریڈیو کے نام سے مشہور ہوا تھا عورتوں کو ہدایت دیتا تھا کہ مرد اس کے احکامات پر عمل نہ کریں تو عورتوں کا فرض ہے کہ موبائل فون پر اس کی اطلاع ملا فضل اللہ کو دی جائے۔ ملا فضل اللہ اپنے خطاب میں ان مردوں کو مرکزی چوک پر سر قلم کرنے کا فتویٰ جاری کرتا تھا ۔ اس دور میں سوات کے ہر شہر کے چوک پر طالبان مخالف افراد کو پھانسیاں دی گئیں اور کئی افراد کے سر قلم کیے گئے۔
ملا فضل اللہ کے حکم پر ایک پیر صاحب کو سرعام پھانسی دی گئی تھی اور ان کی میت تمام دن چوک پر لٹکی رہی تھی۔ ملا فضل اللہ کی ہدایت پر ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ ملالہ کا قصور صرف یہ تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم کو ہی ہر مسئلے کا حل سمجھتی تھی۔ ملالہ نے طالبان کے ظلم کے بارے میں بی بی سی کی اردو سروس کی ویب سائٹ پر حقیقت بیان کی تھی۔
ملا فضل اللہ نے اپنے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے سوات کی عورتوں میں اس حد تک مقبولیت حاصل کرلی تھی کہ عورتیں اپنے زیور حتیٰ کہ کان میں لٹکے ہوئے بندے بھی اس کے فنڈز میں عطیہ کردیتی تھیں۔ ملالہ کا جدید تعلیم کی اہمیت کا پیغام ملا فضل اللہ کے بیانیہ کا تدارک تھا۔ یہی ملالہ کا جرم بن گیا مگر ملا فضل اللہ سے ذہنی طور پر متاثر ایک گروہ نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملالہ کے خلاف مذموم مہم چلائی۔ یہ لوگ دراصل ملا فضل اللہ کے بیانیے کو تقویت دے رہے تھے۔
جب پاکستانی فوج نے 2009ء میں سوات آپریشن کیا تو ملا فضل اللہ کو افغانستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں تک پہنچنے کا راستہ مل گیا۔ حقائق کی تلاش میں سرگرداں بعض صحافیوں کے لیے یہ سوال ہمیشہ حل طلب رہا کہ ملا فضل اللہ کو ایف ایم ریڈیو چلانے میں کسی رکاوٹ کا سامنا کیوں نہیں کرنا پڑا اور پھر کس طرح آپریشن کے دوران افغانستان میں موجود پناہ گاہوں تک پہنچنے کا راستہ ملا۔ ملا فضل اللہ نے سوات آپریشن کا بدلہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں پر بزدلانہ خودکش حملوں کے ذریعے لیا۔ ملا فضل اللہ نے آرمی پبلک اسکول کے بچوں کو بھی جدید تعلیم کی بناء پر نشانہ بنایا تھا۔ ملا فضل اللہ کی سوچ کا اظہار سیاسی قائدین کی تقاریر میں بھی ہوتا ہے۔
عمران خان نے زندگی کا ایک بڑا حصہ برطانیہ میں گزارا ان کے انگریزوں اور خاص طور پر برطانیہ کے امراء سے قریبی تعلقات ہیں مگر وہ طالبان کی سوچ و فکر کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ عمران خان نے بی بی سی ٹیلی وژن کو ایک انٹرویو میں طالبان کے نظام عدل کو انصاف کا ایک بہتر ماڈل قرار دیا۔ جمہوری نظام کی پاسداری کا دعویٰ کرنے والے ایک شخص کی سوچ کا یہ انداز سوچنے والوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ طالبان کا نظام جبر اور تشدد پر مبنی تھا۔ اس نظام میں عورت کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ مذہبی امتیاز دو ہزار سال پرانے نظام کی یاد دلارہا تھا۔ ایسا نظام خواہ وہ طالبان نے قائم کیا ہو یا افریقی ریاستوں میں قائم ہوا ہو، یورپ میں بھی دور جاہلیت سے پہلے ایسی ہی صورتحال تھی مگر یہی حقیقت تھی کہ یورپی ممالک نے کئی صدیوں سے اس طرح کے نظام سے چھٹکارا حاصل کرلیا تھا۔
عمران خان نے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کو خیبر پختون خواہ میں ضم کرنے کی تحریک کی حمایت اس بناء پر کی تھی کہ قبائلی علاقے میں انتظامیہ اور عدلیہ کا جدید نظام نافذ کیا جائے اور 1973ء کے آئین کے تحت قبائلی علاقے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ فراہم کیا جائے۔ ملا فضل اللہ یا کسی بھی انسان کی ہلاکت کسی صورت خوشی کی بات نہیں ہے مگر کچھ بنیادی معاملات پہ صورتحال واضح ہونی چاہیے۔
یہ حقیقت پھر واضح ہوگئی کہ مذہبی دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان کا تعاون انتہائی ضروری ہے۔ اگر دونوں ممالک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دیں اور سرحد کے دونوں اطراف متحرک غیر ریاستی کرداروں(Non-state actors) کا خاتمہ کریں اور ان عناصر کے خاتمے میں وقتی مفادات کو اہمیت نہ دیں تو پھردہشت گردی کی جڑیں کٹ سکتی ہیں۔ اس وقت ملک میں انتخابی مہم جاری ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے اپنے منشور میں واضح کرنا چاہیے کہ مذہبی دہشت گردی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا اور مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے ادارہ جاتی اقدامات ہونگے۔
سیاسی رہنما اس بات کا عہد کریں کہ وہ برسر اقتدار آنے کے لیے مذہبی انتہاپسند گروہوں کی مدد حاصل نہیں کریں گے اور انھیں حکومت ملی تو بغیر کسی امتیاز کے تمام دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کریں گے۔ مذہبی دہشت گردی نے ہزاروں پاکستانیوں کی زندگیاں لی ہیں۔ اس عنصریت کے خاتمے کے لیے کئی ہزار فوجی اور پولیس والے شہید ہوئے ہیں ۔ دنیا کے سامنے پاکستان کا روشن خیال چہرہ متاثر ہوا ہے اور ترقی کا عمل رکا ہے۔ اگر سب ملک کی ریاست کے بیانیہ کو تبدیل کرنے کا عزم کریں تو پھر کوئی جوان ملا فضل اللہ نہیں بنے گا اور کوئی جوان ڈرون حملے میں مارا نہیں جائے گا۔ مگر ملا فضل اللہ کے مارے جانے سے کچھ سبق سیکھا جاسکتا ہے۔