یہ کھانا پینا
کہیں ہمیں اینٹیں ملی مرچیں کھلائی جارہی ہیں تو کہیں گوشت کے نام پر حرام اور مردہ جانورو ں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے۔
بچپن میں گھر کے دودھ، گھی اور خالص گندم کے آٹے کی روٹی کے علاوہ کبھی یہ تصور بھی نہیں کیا تھا کہ ایک وقت وہ بھی آئے گا جب یہ چند بنیادی غذائی اشیا بھی خالص نہیں ملیں گی اور ان کا اصل اور خالص ہونا ان کی سب سے بڑی خوبی بن جائے گی۔
میرے جیسے دیہات کے رہنے والے اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ دودھ میں پانی ملایا جائے اور پھر اسے فروخت کیا جائے، اسی طرح خالص گندم کا آٹا بھی ہماری نشو ونما میں شامل ہے اور گاؤں میں یہ طریقہ کار کسی کو معلوم نہیں کہ خالص آٹے کو ناخالص بنانے کے لیے اس میں سے چوکر کس طرح نکالا جاتا ہے ۔
دودھ سے مکھن نکال کر اس کو گھی میں تبدیل کرنا گاؤں کی بزرگ خواتین کے ذمے ہوتا تھا، گھی نکلنے کے عمل میں آٹا استعمال ہوتا ہے جو کہ گھی نکلنے کے بعد خالص دیسی گھی کے حلوے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو کہ کم مقدار کی وجہ سے گھر کے لاڈلے افراد کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔ اب جب کبھی گاؤں جانا ہوتا ہے تو وہاں کی اصل سوغاتیں مشکل سے ہی ملتی ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے اور ہاتھ سے چلنے والی گھر میں آٹے کی چکی ختم ہو چکی ہے اور آٹے کو پیسنے کے لیے مشینی چکی پر بجھوایا جاتا ہے، گھر میں پالتو اور دودھ دینے والے جانوروں کی جگہ اب ڈبے کے دودھ نے لے لی ہے اور جس گھر میں دودھ دینے والی بھینس یا گائے موجود ہے اس کو خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے کہ وہ خالص دودھ پیتے ہیں اور گرمیوں میں اصلی مٹی والی چاٹی کی لسی سے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
شہر میں برسوں گزارنے کے بعد بھی میں شہری نہیں بن سکا گو کہ شہری زندگی کی سہولتوں کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن جب سے ہم نے غذا میںملاوٹ کا عمل شروع کیا ہے تب سے خاص طور پر اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے۔ صبح سویرے مدھانی کی آواز سے آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ والدہ صاحبہ چاٹی میں رڑکا رڑک رہی ہیں سب سے پہلے مکھن ملی لسی پینے کا اپنا ہی لطف ہوتا اور شام کو جب ملازم بھینسوں کا دودھ دوہ رہے ہوتے تو میں اپنا چینی کا مگ لے کر ان کے پاس چلا جاتا اور بھینس کے دودھ کی دھاروں سے مگ بھر کر ایک ہی سانس میں پی جاتا ۔
اب جب شہر میں آئے دن دودھ میں مختلف قسم کے مواد کی ملاوٹ اور بعض صورتوں میں تو دودھ کے بجائے مختلف اشیا کو ملا کر اسے دودھ بنا کر فروخت کرنے کی خبریں عام ہیں تو مجھے اپنے بچوں کی قسمت پر رونا آتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو نشو ونما کے لیے بنیادی غذائی اشیا بھی خالص نہیں مل رہیں جس کی وجہ سے بچوں کو بچپن میں ہی بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔یہ سب ناقص غذا کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ میں جب کسی بڑے اسٹور پر خریداری کے لیے جاؤں تو وہاں پر خالص اشیا کے علیحدہ کاؤنٹر دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں معمول کے مطابق کیوں نہیں مل رہا اور دکانداروں کو اب خالص اشیا کے لیے علیحدہ کاؤنٹر مختص کرنے پڑ گئے ہیں جہاں پر خالص اشیا کی قیمتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
جب سے ہم عالمی ساہوکاروں کے نرغوں میں پھنسے ہیں انھوں نے ہمیں اصل سے نقل کی جانب راغب کیا اور آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم جانتے بوجھتے بھی اپنی خوراک پر سمجھوتا کر رہے ہیں، کہیں ہمیں اینٹیں ملی مرچیں کھلائی جارہی ہیں تو کہیں گوشت کے نام پر حرام اور مردہ جانورو ں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ۔ اس ملاوٹ زدہ معاشرے میں اگر کسی نے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے تو وہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے پنجاب میں چھپن کمپنیاں بنائیں ان کے سربراہوں اور ملازمین کو لاکھوں روپے تنخواہوںکی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قومی خزانے کے امانت دار کے طور پر شہباز شریف کی یہ ذمے داری بنتی تھی کہ وہ ان کمپنیوں کی کڑی نگرانی کرتے اور ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ان کے متعلق فیصلے کرتے۔ ان کا دور حکومت اب ختم ہو چکا مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا اس کیس میں کیااحتساب ہو گا مگر میں یہ بات جانتا ہوںکہ انھوں نے ایک اتھارٹی ایسی بھی بنائی جس کا کام عوام کو خالص خوراک کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا ۔ میں اکثر اخبارات میں اس اتھارٹی کی ایک خاتون افسر کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں جو کہ دو نمبر غذائی اجناس فراہم کرنے والوں کی دشمن تھیں اور ہر روز ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں جہاں عوام الناس کو صاف ستھری غذا کی فراہمی ممکن ہوئی وہیں پر عوام میں یہ شعور بھی آیا کہ ان کو کس قسم کی غذائی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔
مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ نیک خاتون آج کل کہاں نوکری کر رہی ہے کیونکہ آج کل ان کی جانب سے کوئی خبر نہیںآرہی لیکن پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایک معیار مقرر کر دیا ہے اور اس کی ٹیمیں پنجاب بھر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس اتھارٹی کے قیام سے پہلے فوڈ کا صوبائی محکمہ بھی موجود تھا مگر وہ اپنی افادیت کھو چکا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق دوسرے صوبوں کے علاوہ فوڈ اتھارٹی کے ماڈل کی دوسرے ملکوں میں بھی تقلید کی جا رہی ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جواں سال سربراہ نور الامین مینگل جن سے میری ملاقات نہیں ہمارے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں وہ صوبہ پنجاب کے عوام کو خالص خوراک کی فراہمی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف کا فوڈ اتھارٹی کا قیام اس قوم اور خاص طور پر پنجاب کے عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جس کے لیے ان کو سات خون معاف کیے جا سکتے ہیں اوران کی بنائی گئی کمپنیوں میں سے اس اتھارٹی کی افادیت سے پوری قوم آگاہ ہے اس لیے میاں شہباز شریف کو اس ایک کمپنی کے معاملے میں بری الذمہ قرار دے دینا چاہیے۔
اس سے پہلے ان کے ایک پیشرو چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور حکومت میں ایمرجنسی ریسکیو سروس ڈبل ون ڈبل ٹو بنا کر اس قوم پر عظیم احسان کیا تھا ۔ دونو ں وزیر اعلیٰ اپنا اپنا وقت گزار کر چلے گئے لیکن عوام کی فلاح کے چند کاموں کو پنجاب کے لوگ آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور ان کو دعائیں دیتے ہیں ۔ حکمران کا کام نیکی کے کام کا آغاز کرنا ہے اس کو آگے بڑھانا متعلقہ حکام کی ذمے داری ہوتی ہے اور مجھے امید ہے کہ شہباز شریف کے جانے کے بعد مینگل صاحب اپنے پنجابی بھائیوں کے لیے خالص خوراک کی فراہمی کے اس نیک کام کو مزید آگے بڑھائیں گے۔
میرے جیسے دیہات کے رہنے والے اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتے کہ دودھ میں پانی ملایا جائے اور پھر اسے فروخت کیا جائے، اسی طرح خالص گندم کا آٹا بھی ہماری نشو ونما میں شامل ہے اور گاؤں میں یہ طریقہ کار کسی کو معلوم نہیں کہ خالص آٹے کو ناخالص بنانے کے لیے اس میں سے چوکر کس طرح نکالا جاتا ہے ۔
دودھ سے مکھن نکال کر اس کو گھی میں تبدیل کرنا گاؤں کی بزرگ خواتین کے ذمے ہوتا تھا، گھی نکلنے کے عمل میں آٹا استعمال ہوتا ہے جو کہ گھی نکلنے کے بعد خالص دیسی گھی کے حلوے میں تبدیل ہوجاتا ہے جو کہ کم مقدار کی وجہ سے گھر کے لاڈلے افراد کو ہی نصیب ہوتا ہے ۔ اب جب کبھی گاؤں جانا ہوتا ہے تو وہاں کی اصل سوغاتیں مشکل سے ہی ملتی ہیں کیونکہ وقت بدل چکا ہے اور ہاتھ سے چلنے والی گھر میں آٹے کی چکی ختم ہو چکی ہے اور آٹے کو پیسنے کے لیے مشینی چکی پر بجھوایا جاتا ہے، گھر میں پالتو اور دودھ دینے والے جانوروں کی جگہ اب ڈبے کے دودھ نے لے لی ہے اور جس گھر میں دودھ دینے والی بھینس یا گائے موجود ہے اس کو خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے کہ وہ خالص دودھ پیتے ہیں اور گرمیوں میں اصلی مٹی والی چاٹی کی لسی سے اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
شہر میں برسوں گزارنے کے بعد بھی میں شہری نہیں بن سکا گو کہ شہری زندگی کی سہولتوں کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن جب سے ہم نے غذا میںملاوٹ کا عمل شروع کیا ہے تب سے خاص طور پر اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے۔ صبح سویرے مدھانی کی آواز سے آنکھ کھلتی تو دیکھتا کہ والدہ صاحبہ چاٹی میں رڑکا رڑک رہی ہیں سب سے پہلے مکھن ملی لسی پینے کا اپنا ہی لطف ہوتا اور شام کو جب ملازم بھینسوں کا دودھ دوہ رہے ہوتے تو میں اپنا چینی کا مگ لے کر ان کے پاس چلا جاتا اور بھینس کے دودھ کی دھاروں سے مگ بھر کر ایک ہی سانس میں پی جاتا ۔
اب جب شہر میں آئے دن دودھ میں مختلف قسم کے مواد کی ملاوٹ اور بعض صورتوں میں تو دودھ کے بجائے مختلف اشیا کو ملا کر اسے دودھ بنا کر فروخت کرنے کی خبریں عام ہیں تو مجھے اپنے بچوں کی قسمت پر رونا آتا ہے کہ ہماری نئی نسل کو نشو ونما کے لیے بنیادی غذائی اشیا بھی خالص نہیں مل رہیں جس کی وجہ سے بچوں کو بچپن میں ہی بیماریاں گھیر لیتی ہیں ۔یہ سب ناقص غذا کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ میں جب کسی بڑے اسٹور پر خریداری کے لیے جاؤں تو وہاں پر خالص اشیا کے علیحدہ کاؤنٹر دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں معمول کے مطابق کیوں نہیں مل رہا اور دکانداروں کو اب خالص اشیا کے لیے علیحدہ کاؤنٹر مختص کرنے پڑ گئے ہیں جہاں پر خالص اشیا کی قیمتیں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
جب سے ہم عالمی ساہوکاروں کے نرغوں میں پھنسے ہیں انھوں نے ہمیں اصل سے نقل کی جانب راغب کیا اور آج وہ وقت آگیا ہے کہ ہم جانتے بوجھتے بھی اپنی خوراک پر سمجھوتا کر رہے ہیں، کہیں ہمیں اینٹیں ملی مرچیں کھلائی جارہی ہیں تو کہیں گوشت کے نام پر حرام اور مردہ جانورو ں کا گوشت کھلایا جا رہا ہے ۔ اس ملاوٹ زدہ معاشرے میں اگر کسی نے کوئی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی ہے تو وہ پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہیں جن پر الزام ہے کہ انھوں نے پنجاب میں چھپن کمپنیاں بنائیں ان کے سربراہوں اور ملازمین کو لاکھوں روپے تنخواہوںکی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قومی خزانے کے امانت دار کے طور پر شہباز شریف کی یہ ذمے داری بنتی تھی کہ وہ ان کمپنیوں کی کڑی نگرانی کرتے اور ان کی افادیت کو دیکھتے ہوئے ان کے متعلق فیصلے کرتے۔ ان کا دور حکومت اب ختم ہو چکا مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ان کا اس کیس میں کیااحتساب ہو گا مگر میں یہ بات جانتا ہوںکہ انھوں نے ایک اتھارٹی ایسی بھی بنائی جس کا کام عوام کو خالص خوراک کی فراہمی کو ممکن بنانا تھا ۔ میں اکثر اخبارات میں اس اتھارٹی کی ایک خاتون افسر کے بارے میں پڑھتا رہا ہوں جو کہ دو نمبر غذائی اجناس فراہم کرنے والوں کی دشمن تھیں اور ہر روز ان کی کارروائیوں کے نتیجے میں جہاں عوام الناس کو صاف ستھری غذا کی فراہمی ممکن ہوئی وہیں پر عوام میں یہ شعور بھی آیا کہ ان کو کس قسم کی غذائی اشیا فراہم کی جا رہی ہیں۔
مجھے یہ معلوم نہیں کہ یہ نیک خاتون آج کل کہاں نوکری کر رہی ہے کیونکہ آج کل ان کی جانب سے کوئی خبر نہیںآرہی لیکن پنجاب فوڈ اتھارٹی نے ایک معیار مقرر کر دیا ہے اور اس کی ٹیمیں پنجاب بھر میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس اتھارٹی کے قیام سے پہلے فوڈ کا صوبائی محکمہ بھی موجود تھا مگر وہ اپنی افادیت کھو چکا تھا اور اب یہ عالم ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق دوسرے صوبوں کے علاوہ فوڈ اتھارٹی کے ماڈل کی دوسرے ملکوں میں بھی تقلید کی جا رہی ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے جواں سال سربراہ نور الامین مینگل جن سے میری ملاقات نہیں ہمارے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھتے ہیں وہ صوبہ پنجاب کے عوام کو خالص خوراک کی فراہمی کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں ۔ شہباز شریف کا فوڈ اتھارٹی کا قیام اس قوم اور خاص طور پر پنجاب کے عوام کے لیے ایک تحفہ ہے جس کے لیے ان کو سات خون معاف کیے جا سکتے ہیں اوران کی بنائی گئی کمپنیوں میں سے اس اتھارٹی کی افادیت سے پوری قوم آگاہ ہے اس لیے میاں شہباز شریف کو اس ایک کمپنی کے معاملے میں بری الذمہ قرار دے دینا چاہیے۔
اس سے پہلے ان کے ایک پیشرو چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے دور حکومت میں ایمرجنسی ریسکیو سروس ڈبل ون ڈبل ٹو بنا کر اس قوم پر عظیم احسان کیا تھا ۔ دونو ں وزیر اعلیٰ اپنا اپنا وقت گزار کر چلے گئے لیکن عوام کی فلاح کے چند کاموں کو پنجاب کے لوگ آج بھی اچھے الفاظ میں یاد کرتے ہیں اور ان کو دعائیں دیتے ہیں ۔ حکمران کا کام نیکی کے کام کا آغاز کرنا ہے اس کو آگے بڑھانا متعلقہ حکام کی ذمے داری ہوتی ہے اور مجھے امید ہے کہ شہباز شریف کے جانے کے بعد مینگل صاحب اپنے پنجابی بھائیوں کے لیے خالص خوراک کی فراہمی کے اس نیک کام کو مزید آگے بڑھائیں گے۔