ابراج اور واپسی کی جنگ
ابراج کے چند شراکت داروں کی جانب سے گروپ پر اُن کے فنڈز کے نامناسب استعمال کے الزامات سے یہ ساراتنازع کھڑا ہوا۔
ابراج گروپ ترقی پذیر دنیا میں نجی سرمایہ کاری کا قابل اعتبار نام تصور کیا جاتا تھا۔ ایسے معتبر ادارے کے خلاف اپنے شراکت داروں کے فنڈز کے غلط استعمال کی بازگشت مالیاتی اداروں اور سرمایہ کاروں کے لیے پریشان کن ثابت ہوئی۔
ابراج کے چند شراکت داروں کی جانب سے گروپ پر اُن کے فنڈز کے نامناسب استعمال کے الزامات سے یہ ساراتنازع کھڑا ہوا۔ان الزامات نے ادارے کو کیمین جزائر کی عدالت میں رضاکارانہ طور پرہنگامی تصفیہ (provisional liquidation) یا کاروبار کے خاتمے کی درخواست دائر کرنے پر مجبور کیا، اس امید پر کہ عدالتی نگرانی ابراج کو تنظیم نو، سرمایہ کاروں سے مذاکرات اور ضرورت پڑنے پر اثاثوں کی فروخت میں معاون ہوگی۔ ساتھ ہی یہ کمپنی کے خلاف دائر دعویٰ سے متعلق ادارے کو مہلت فراہم کرے گی۔
اس درخواست کے وسیلے ابراج کو اپنے ممکنہ ایکویٹی پارٹنرز کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے، فنڈز مینجمنٹ آپریشنز پر موزوں ڈیل کرنے اور ہیلتھ کیئر کے لیے مختص اس ایک بلین ڈالر کے معاملے کو نمٹانے کا بھی موقع میسر آتا، جو الزامات کا اصل محور ہے۔ اس درخواست کو کمپنی کے اہم لین داروں کو مکمل حمایت حاصل رہی،جنھوں نے provisional liquidators کی تعیناتی کی خواہش کا اعادہ کیا ،تاکہ کمپنی کی ذمے داریوں کی تشکیل نو موزوں اور موثر انداز میں کی جائے، جو تمام متعلقہ افراد اور اداروں کے حق میں ہو۔
یہ بات اہم ہے کہ الزامات کے فوری بعد ابراج نے معروف بین الاقوامی آڈیٹر KPMG کی، ہیلتھ کیئر فنڈز کے شعبے میں کی جانے والی ادائیگیوں کی جانچ پڑتال اور توثیق کے لیے، خدمات حاصل کی تھیں۔ابراج کا موقف ہے کہ KPMG کو اپنے آڈٹ میں کسی نوع کی مالی بے ضابطگی نہیں ملی اور فنڈز سے حاصل شدہ تمام کیپٹل منظور شدہ سرمایہ کاری تھی، نیز صحت کے فنڈز کا غیر استعمال شدہ حصہ سرمایہ کاروں کو لوٹا دیا گیا تھا۔
ابراج کی جانب سے کیمین جزائر کے کورٹ میں یہ اہم ترین درخواست دائر کیے جانے سے متعلق ابراج کے بورڈ کے چیئرمین سین ایم کلیرے نے کہا:''یہ ابراج سے منسلک تمام افراد کے لیے انتہائی اہم لمحہ ہے۔میں ان تمام افراد کا ممنون ہوں، جنھوں نے اس شان دار فرم کی تشکیل میں کردار ادا کیا، بالخصوص وہ ٹیم، جو گذشتہ پانچ ماہ سے انتہائی کٹھن چیلنجز سے نبردآزما ہے۔ عدالت کی معاونت کے بعد صورت حال اب خاصی بہتر ہے اور ہم مستقبل کی سمت پیش قدمی کرتے ہوئے اعتماد کی بحالی کا عمل شروع کرسکتے ہیں۔''
18جون 2018 کو کورٹ نے پی ڈبلیو سی فنانس اینڈ ریکوری لمیٹڈ کے سیمن کون وے اور پرائس واٹر ہاؤس کاپرز کے مائیکل جیروس اور محمد فرزادی کو دیوالیہ پن اور تنظیم نو کی غرض سے ابراج کے شراکت داروں کامشترکہ تصفیہ کار(JPLs) مقرر کیا۔کورٹ کا آرڈر اِس بات کو لازم ٹھہراتا ہے کہ جب تک ادارہ اور یہ صاحبان معاملات کی تنظیم نو نہیں کر لیتے، اسٹیک ہولڈرز کے مفادات کا تحفظ کیا جائے گا۔
اس نقطۂ نگاہ سے ابراج گروپ کا کیمین کی عدالت میں رضاکارانہ provisional liquidation کی درخواست کرنا ایک معقول اقدام رہا، جس سے شراکت داروں کے سرمایہ کے تحفظ کی صورت پیدا ہوئی۔
ابراج انسویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کی جانب سے Deloitte سے وابستہ ڈیوڈ سوڈن اور اسٹورٹ سیبرے کو JPLs کے طور پر مقرر کرنے کی درخواست بھی بعد ازاں کورٹ کی جانب سے منظور کر لی گئی۔اس فیصلے کے بعد ابراج ہولڈنگز لمیٹڈ اور ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ لمیٹڈ کو یہ موقع میسر ہے کہ کورٹ کی نگرانی میں اپنے لین داروں کے مفاد کے لیے ادارے کی تشکیل نو کا مرحلہ شروع کر سکیں۔ اہم ترین نکتہ ہے کہ یہ عمل یومیہ بنیادوں پر جاری آپریشنز پر معمولی اثرات مرتب کرے گا۔
ابراج ہولڈنگز کے مالیاتی اورتنظیمی مشیر Houlihan Lokey کے مینیجنگ ڈائریکٹر ارون ریڈی کا اس ضمن میں کہنا تھا:''مجھے خوشی ہے کہ اپنے اہم اسٹیک ہولڈز کے تعاون کی بدولت ہم اس نتیجے کے حصول میں کامیاب رہے۔ کورٹ کی نگرانی میں تشکیل نو کا عمل کمپنی کو اپنی ذمے داری موثر انداز میں نبھانے اور ابراج انویسٹمنٹ لمیٹڈ سمیت تمام سرمایہ کاروں کے لیے اطمینان بخش سہولت کاری کو ممکن بنانے کا باعث ہوگا۔ کمپنی کی ترجیح ماضی کی طرح آج بھی اپنے شراکت داروں کے استحکام کو یقینی بنانااور ان کے سرمایہ کی قدرمیں اضافہ ہے۔''
کورٹ نے JPLsکو ابراج ہولڈنگز لمیٹڈ اور اس کے مشیروں کی مشاورت سے کمپنی کی مالیاتی ذمے داریاں کی تنظیم نو کا اختیار دیا ہے۔ کورٹ کے احکامات تصفیہ کاروں کو ابراج ہولڈنگز کی حفاظت اور انتظامات کے لیے وسیع اختیارات دیتے ہیں۔کورٹ احکامات ان صاحبان کو بااختیار بناتے ہیں، بورڈ اور انتظامی سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے، تاکہ اِس بات کو ممکن بنایا جاسکے کہ متعلقین کے ریٹرن زیادہ سے زیادہ رہیں۔یاد رہے کہ ابراج ہولڈنگز لمیٹڈ کے مستندو مستقل لین داروں نے اس ضمن میں اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا ہے، تاکہ مشترکہ تصفیہ کارکمپنی کی انتظامیہ کے ساتھ ادارے کی تنظیم و تشکیل نو کا مرحلہ موثر انداز میں طے کر سکے، کیوں کہ یہی تمام متعلقین کے مفاد میں ہے۔
مائیکل جروِس، جو پرائس واٹر ہاؤس کوپرز (PwC) میں تنظیمِ نو اور دیوالیہ پن کے معاملات میں پارٹنر ہیں، اور جو ابراج ہولڈنگز کے لیے JPLs کے طور پر تعینات کیے گئے ہیں، ان کا اپنی تقرری کے حوالے سے کہنا ہے: '' ہمارا کام ابراج ہولڈنگز کی منظم انداز میں تشکیل نو، کمپنی کے اثاثوں حفاظت اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ قرض دہندگان، ملازمین اور اسٹیک ہولڈرز کے مفادات بھرپور طریقے سے پورے ہوں۔ یہ عدالتی حکم کمپنی کوموثرانداز میں ایک مستحکم صورت حال کی طرف لے جائے گا، جہاں منصوبوں کی تشکیلِ نو اور اثاثوں کی فروخت ایک محفوظ شدہ اور منضبط ماحول میں عمل میں لائی جاسکے گی۔ مالیاتی اور کارپوریٹ اداروں کے لیے عالمی سطح پر تشکیلِ نو کے ہمارے تجربے کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ PwC کا انتخاب کمپنی کے شرکاء کے لیے تسلی بخش نتیجہ فراہم کرنے کے سلسلے میں موزوں ہے، اور اس کے لیے فوری طور پر موثر شروعات کی جارہی ہے۔''
عارف نقوی عدالت میں اپنی رضاکارانہ درخواست کی منظوری پر مطمئن تھے۔ انھوں نے کہا :''ہم اس نتیجے پر بہت خوش ہیں اور عدالت کے شکرگزار ہیں کہ اس نے اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور اور مثبت فیصلہ کیا۔ یہ عدالتی حکم ابراج کی اس پوزیشن کی تصدیق ہے جو وہ تسلسل کے ساتھ قائم رکھتی آرہی ہے۔ مشترکہ تصفیہ کاروں کی انتہائی تجربہ کار ٹیم کی رہنمائی میں ایک منظم تشکیلِ نو کمپنی اور اس کے شرکت داروں کے لیے وہ نتائج یقینی بناسکتی ہے، جس کے لیے ہم کوشاں ہیں۔ ہم اس عمل کے ذریعے JPLs کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں اور تمام شراکت داروں کے لیے ان کے منافع کی قدر میں زیادہ سے زیادہ اضافے اور اس کے استحکام کو یقینی بنا رہے ہیں۔''
تشکیل نو کے عدالتی عمل میں چند مہینے لگیں گے۔ عارف نقوی نے تمام اسٹیک ہولڈرز کے لیے ممکنہ حد تک بہترین نتیجے کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے اس منظم عمل کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا وعدہ کیا ہے۔ ابراج گروپ کو حقیقت کا روپ دھارے سولہ سال ہوچکے ہیں، یہ سفر فخریہ طور پراس مثبت اثر کا عکاس ہے جو اس نے مارکیٹوں اور مالیاتی اداروں پر اپنی خدمات کے ذریعے مرتب کیا ،یہ قابل اطمینان امر ہے کہ BCCI کے برعکس، جو زوال کا شکار ہوا، ابراج گروپ اپنے پیروں پر کھڑا ہو رہا ہے۔ اگر آغا حسن عابدی بھی اس سانحے کے وقت عارف نقوی کی طرح جوان ہوتے، تو شاید BCCI آج بھی ماضی کی مانند شان دار بینک ہوتا۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی تجزیہ کار ہیں)