امریکا میں قیدیوں کی کامیاب صنعت

مجرموں کو معاشرے کا ناسور سمجھ کر ہمیشہ سے قید خانوں کی زینت بنایا جاتا رہا ہے۔

اپنے مالی حالات کا ذکرکرتے ہوئے ایک صاحب کہنے لگے کہ اب تو دل چاہتا ہے کسی جرم میں جیل ہی چلا جاؤں جہاں کم ازکم دو وقت کی روٹی تو مل جائے گی۔ موضوع تو ذرا دیر میں ادھر ادھر ہوگیا لیکن بات میرے ذہن میں اٹک گئی اور میں سوچنے لگی کیا واقعی ملک کا معاشی ڈھانچہ اس قدر بگڑچکا ہے کہ حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کو جیل ہی روٹی کا واحد آسرا نظر آنے لگا۔ اسی موضوع پر مطالعے میں مصروف تھی کہ گلوبل ریسرچ کی ایک رپورٹ نے چونکا کر رکھ دیا۔

یہ رپورٹ رواں سال مئی کے مہینے میں جاری کی گئی، جس کے مطابق دنیا میں کتنے ہی ممالک ایسے ہیں جہاں قیدی دو وقت کی روٹی آرام سے بیٹھ کر نہیں کھاتے بلکہ وہ جیلوں میں، سرمایہ دارانہ نظام کو پروان چڑھانے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، دورِجدید کی غلامی کی بیڑیوں میں جکڑ چکے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ انسانی حقوق کا سب سے بڑا علم بردار امریکا ان ممالک میں سرِفہرست ہے۔ جی ہاں ! وہی امریکا جہاں حکومتی دعوؤں کے مطابق جرائم توگھٹ رہے ہیں مگر حیرت انگیز طور پر جیل آباد ہو رہے ہیں ۔

رپورٹ میں دیے گئے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ قیدی امریکی جیلوں میں موجود ہیں۔ چین کی آبادی امریکا سے پانچ گنا زیادہ ہونے کے باوجود وہاں قیدیوں کی اتنی تعداد نہیں جتنی امریکا میں ہے ۔ امریکا کو یہ شرف حاصل ہے کہ دنیا بھر کے قیدیوں کا پچیس فی صد اس کی جیلوں میں موجود ہے۔

مجرموں کو معاشرے کا ناسور سمجھ کر ہمیشہ سے قید خانوں کی زینت بنایا جاتا رہا ہے۔ کون جانتا تھا کہ ایسا وقت بھی آئے گا جب یہ ناسور معاشروں کی صنعتی ترقی میں جزولانیفک کا درجہ حاصل کرلے گا ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے مجرموں کو غلام بنانے کے غیر انسانی طریقوں پر چیخ چلا کر خوب توانائیاں صرف کیں لیکن نتیجہ ڈھاک کے تین پات! آج بھی یہ قیدی صنعتی ترقی کے جنون میں ایندھن کی طرح جلائے جا رہے ہیں ۔ یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے وہ غلام ہیں جو نہ چھٹی کرتے ہیں، نہ کام پر دیر سے آتے اور نہ ہی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کوئی احتجاج کرتے ہیں۔

امریکا کی جیلوں میں ان قیدیوں کو جو معاوضہ دیا جاتا ہے وہ انتہائی شرم ناک ہے۔ پچیس سینٹ فی گھنٹہ کی مشقت سے اگرکوئی قیدی انکارکر دے تو اس کو سخت سزاؤں کے عمل سے گزارکر تائب کروایا جاتا ہے اور وہ پھر بھی نہ مانے تو اندھیری کوٹھریوں کی جانب دھکیل دیا جاتا ہے۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ مثالی قرار دیے جانے والے امریکی معاشرے میں تو جیل ویران ہونے چاہییں، لیکن یہاں الٹی گنگا کیوں بہہ رہی ہے؟ نیز امریکا اپنے ہی شہریوں کے حقوق کیوں پامال کررہا ہے؟ وجہ صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کا تحفظ ہے۔ مالی فوائدکے حصول کے لیے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت معمولی خطاؤں کے مجرموں کو طویل قید کی سزا سنائی جاتی ہے اور جیلوں کو بھرا جاتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر ان مجرموں سے بیگار لے کر دولت کے ویسے ہی مینار قائم کرتا ہے جیسے چنگیزخان نے انسانی سروں سے بنائے تھے۔ یوں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ اپنے ہی عوام کا خون نچوڑ کر اس نظام کو تحفظ دینے کا سہرا بلاشبہہ امریکا کے ہی سر جاتا ہے۔


امریکی قیدخانے آج بلین ڈالر انڈسٹری بن چکے ہیں۔1861ء سے1865ء کی خانہ جنگی کے بعد قیدیوں کو اس نظام کی غلامی میں دینے کا باقاعدہ نظام مرتب کیا گیا۔ اس نظام کی چکی میں پسنے والوں کی اکثریت سیاہ فام قیدیوں کی ہے۔ جن کی چمڑی کالی ہو امریکا میں بھلا ان کا نصیب کیسے چمک سکتا ہے! عدم تعصب اور مساوات کا ڈھول پیٹنے کے لیے اوباما کو صدر تو بنوایا جاسکتا ہے لیکن عام سیاہ فام امریکی کا نصیب سیاہ ہی رہتا ہے۔ دنیا بھر کے سامنے نہیں تو کم از کم قید خانوں میں تو ان کو اوقات جتائی جاسکتی ہے اور امریکا میں یہ کام بہ خوبی کیا جا رہا ہے۔

اس وقت امریکا کی 37 ریاستوں میں نجی کمپنیوں کی غلامی میں قیدیوں کو دینے کے باقاعدہ معاہدے کیے جاتے ہیں۔ ریاست کی سرپرستی میں ظلم اور ناانصافی کا بازار گرم ہے۔ ان میں امریکا کی مایہ ناز کمپنیاں شامل ہیں جن میں آئی بی ایم، بوئنگ، موٹورولا، مائیکروسافٹ، وائرلیس، ریولون، ڈیل، ان ٹیل، ناردرن سلی کام، کامپیک اور تھری کام سمیت بے شمار ناموں کی لمبی فہرست موجود ہے جنہوں نے قیدیوں سے مفت کی مشقت لے کر اپنی ترقی میں چار چاند لگائے اور دنیا میں اپنا لوہا منوایا ہے۔

صرف1980ء سے 1994ء کے درمیانی عرصے میں ان کمپنیوں کا منافع 392 ملین ڈالر سے تجاوز کرکے دو بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا اور اب تو نہ ظلم کی کوئی انتہا ہے نہ ترقی کی۔ سب سے برا حال تو امریکا کی ان جیلوں کا ہے جن کا انتظام نجی اداروں کے سپرد ہے۔ مقامی اور وفاقی سطح پر ان جیلوں کا نظام چلانے کے لیے بولی طلب کی جاتی ہے، جس کے حصول کے لیے یہ ادارے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں اور اختیار ملتے ہی یہ قیدیوں کے تمام بنیادی حقوق کی پامالی میں جت جاتے ہیں۔ یہاں قیدیوں کو فی گھنٹہ مشقت کے عوض صرف سترہ سینٹ دیے جاتے ہیں اور کم ازکم چھے گھنٹے کام کرنا لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے ہنرمند قیدیوں کو پچاس سینٹ فی گھنٹہ کی ادائیگی بھی کردی جاتی ہے۔ البتہ حکومتی انتظام میں چلنے والے جیلوں میں سخاوت کی آخری حد ایک ڈالر فی گھنٹہ ہے۔

یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ امریکا کی معاشی ترقی ان قیدیوں ہی کی مرہونِ منت ہے۔ جیلوں میں قیدیوں سے کام لینا اور ان کو معاوضے دینے کا رواج تو پوری دنیا میں موجود ہے لیکن صرف اس مقصد کے لیے جیلوں کو آباد رکھنا اور معمولی خطاؤں پر پندرہ پندرہ سال تک کی سزائیں سنانا تاکہ زیادہ سے زیادہ غلام حاصل کیے جا سکیں، یہ گھناؤنا عمل امریکا ہی کا طرۂ امتیاز ہے۔

معاشی برتری کی ہوس میں مبتلا امریکی سرمایہ دار زیادہ سے زیادہ غلام حاصل کرنے کے لیے نئی جیلوں کی تعمیرکے لیے بڑی بڑی رقوم فراہم کرتے ہیں۔ گلوبل ریسرچ رپورٹ بتاتی ہے کہ ان تمام قیدیوں میں 97فی صد تو وہ ہیں جنہوں نے کسی پُر تشدد جرم کا ارتکاب نہیں کیا ہوتا، پھر بھی وہ اس عذاب کو جھیلنے پر مجبور ہیں ۔ میونسپل اورکاؤنٹی جیلوں میں موجود نصف کے قریب قیدی سرے سے بے قصور ہیں ۔اکثریت کا تو سالوں گزرنے کے باوجود کوئی ٹرائل ہی نہیں ہوا۔ غلامی کی یہ بھیانک زندگی گزارنے والے16فی صد قیدی ذہنی امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ خود کو باشعور سمجھنے والے امریکی عوام نے ظلم اور ناانصافی کا یہ نظام کیسے قبول کیا ہوا ہے؟ یہ آج کا بہت بڑا سوال ہے۔

اب تو دنیا گلوبل ولیج بن ہی چکی ہے۔ سات سمندر پار ہونے والی ترقی سے بھی دنیا فیضیاب ہوگی تو ظلم، جبر اور غلامی اور دھوکے کے نت نئے طریقے بھی ایک جگہ تک محدود نہیں رہیں گے۔ رواں سال فروری میں جب یہ خبر آئی کہ سی پیک پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے چینی جیلوں سے قیدی غلام بنا کر پاکستان لائے گئے ہیں، تو اس معاملے کو تمام حلقوں نے نظر انداز کر دیا۔ چینی مجرموں کی پاکستان میں موجودگی اور ان پر کڑی نگرانی کے باوجود بھی اے ٹی ایم فراڈ کیس سامنے آئے لیکن اس کو بھی کمال راز داری سے دفنا دیا گیا۔ یہاں معاملہ صرف قیدیوں کا ہی نہیں بلکہ بگڑتی انسانی اقدار بھی کا ہے، اگر دنیا بھر میں معاشی ترقی کی قیمت انسانی اقدار ہیں تو ایسی ترقی کو خداحافظ کہہ دینا ہی عین انسانیت ہے۔
Load Next Story