پنجاب میں انتخابی صف بندی کے خدوخال واضح ہوگئے

سب سے بڑے صوبے میں قومی اسمبلی کیلئے معرکہ آرائی کا حلقہ وار احوال۔


سب سے بڑے صوبے میں قومی اسمبلی کیلئے معرکہ آرائی کا حلقہ وار احوال۔ فوٹو : فائل

دیگر سیاسی قوتوں کی موجودگی کے باوجود پنجاب کا انتخابی معرکہ بنیادی طور پر پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان ہی لڑا جائے گا۔

پاکستان تحریک انصاف لاہور کے 4 قومی حلقوں میں مضبوط پوزیشن میں ہے جبکہ 3حلقوں میں پی ٹی آئی اور ن لیگ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہوگا اور تحریک انصاف کے امیدوار''اپ سیٹ'' کرسکتے ہیں۔

این اے131 میں عمران خان نے الیکشن لڑنا ہے اور وہاں سے ن لیگی امیدوار خواجہ سعدرفیق کا جیتنا مشکل معلوم ہو رہا ہے،این اے129 میں تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کے صدر عبدالعلیم خان کی انتخابی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے جس کی وجہ سے ن لیگی امیدوار اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق مشکلات کا شکار ہیں۔

این اے128 میں تحریک انصاف کے امیدوار چوہدری اعجاز ڈیال کی پوزیشن بہت مضبوط ہے اور ن لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کیلئے الیکشن مشکل ہو گیا ہے کیونکہ اس نئے حلقہ میں اکثریت ان دیہات کی ہے جہاں اعجاز ڈیال کی گرفت بہتر ہے۔ این اے125 میں میاں نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کا مقابلہ تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد سے ہوگا۔

ڈاکٹر یاسمین راشد کے ساتھ ذیلی صوبائی حلقوں میں تحریک انصاف نے کمزور امیدوار دیئے ہیں جس کی وجہ سے یہ حلقہ تحریک انصاف کیلئے کچھ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ این اے126میں ن لیگی امیدوار مہر اشتیاق اور تحریک انصاف کے حماد اظہر کے درمیان سخت مقابلہ متوقع ہے، اس حلقہ کے دو میں سے ایک ذیلی صوبائی حلقہ میں میاں اسلم اقبال اور دوسرے ذیلی حلقہ میں مہر واجد عظیم الیکشن لڑ رہے ہیں اور یہ دونوں امیدوار اپنے حلقوں میں بہت مضبوط پوزیشن کے حامل ہیں لہذا ن لیگ کو یہاں سخت مقابلے کا سامنا ہوگا۔

این اے130 میں ن لیگ کے امیدوار خواجہ احمد حسان کا مقابلہ تحریک انصاف کے شفقت محمود سے ہوگا۔اس حلقہ میں اگر تحریک انصاف ''اپ سیٹ'' کرے گی تو اس کی بنیادی وجہ یہاں سے پی ٹی آئی کے صوبائی امیدوار میاں محمود الرشید اور ڈاکٹر مراد راس کی پانچ برس سے مسلسل حلقہ میں ورکنگ ہو گی۔ این اے135 میں تحریک انصاف کے امیدوار ملک کرامت کھوکھر اور ن لیگ کے سیف کھوکھر کے درمیان سخت مقابلہ ہے اور ن لیگ یہ نشست جیت سکتی ہے۔

این اے136 میں فی الوقت تحریک انصاف کا ٹکٹ ملک اسد کھوکھر کے پاس ہے لیکن سابق قومی امیدوارخالد گجر بھی ٹکٹ واپس حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ این اے127 میں جمشید اقبال چیمہ اور ن لیگ کے پرویز ملک کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے،اور اگر تحریک انصاف پی پی 148 اور پی پی 153 میں مضبوط امیدوار لاتی ہے تو اس حلقہ میں کانٹے کا مقابلہ ہو سکتا ہے۔

این اے134 میںملک ظہیر عباس کھوکھر تحریک انصاف کے امیدوار کی حیثیت سے بھرپور کام کر رہے ہیں اور ان کا مقابلہ ن لیگ کے رانا مبشر سے متوقع ہے این اے124 میں حمزہ شہباز سے مقابلہ کیلئے ولید اقبال کو میدان میں اتارنا عمران خان کی خواہش تھی لیکن ولید اقبال کی معذرت کے بعد اب ایک غیر معروف رہنما نعمان قیصر کو ٹکٹ دیا گیا ہے اور اس حلقہ سے ن لیگ کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

این اے123 میں تحریک انصاف نے مہر واجدعظیم کو ٹکٹ دیا ہے لیکن مہر واجد عظیم کو این اے126 کی ذیلی صوبائی نشست کا ٹکٹ بھی دیا گیا ہے جو کہ ان کا آبائی حلقہ ہے لہذا مہر واجد عظیم کیلئے یہ نہایت مشکل چیلنج ہوگا کہ وہ ایک ہی وقت میں لاہور کے ایک کونے کے ساتھ ساتھ دوسرے کونے کے حلقہ میں انتخابی مہم چلائیں اور نتائج بھی حاصل کریں،این اے123 سے ن لیگ کے امیدوار ملک ریاض کی پوزیشن زیادہ مستحکم ہے۔

تحریک انصاف سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی کر رہی ہے اسی لیئے قومی اسمبلی کی 272 میں سے صرف 240 پر پی ٹی آئی امیدواروں کا اعلان متوقع ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی297 میں سے260 نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدوار لائے جائیں گے۔لاہور، قصور، شیخوپورہ اور ننکانہ کیلئے تحریک انصاف اور ن لیگ نے ابھی مکمل امیدواروں کا اعلان نہیں کیا ہے۔

تحریک انصاف کی ابتدائی لسٹ کے مطابق جنہیں ٹکٹ جاری کیا گیا ہے ان میں قومی حلقوں کیلئے این اے 117 ننکانہ چودھری بلال احمد ورک، این اے 118 اعجاز احمد شاہ، این اے 119 راحت امان اللہ، این اے 120 علی اصغر منڈا، این اے 121 محمد سعید ورک، این اے 122 علی سلمان، این اے 123 لاہور مہر واجد عظیم، این اے 124 نعمان قیصر، این اے 125 ڈاکٹر یاسمین راشد، این اے 126 حماد اظہر، این اے 127 جمشید اقبال چیمہ، این اے 128 اعجاز ڈیال، این اے 129 عبدالعلیم خان، این اے 130 شفقت محمود، این اے 131 عمران خان، این اے 132 منشا سندھو، این اے 133 اعجاز چودھری، این اے 134 ظہیر عباس کھوکھر، این اے 135 ملک کرامت کھوکھر، این اے 136 ملک اسد کھوکھر، این اے 137 قصور راشد طفیل، این اے 138 سردار آصف علی، این اے 139 ڈاکٹر عظیم الدین لکھوی، این اے 140 طالب نکئی، این اے 141 اوکاڑہ صمصام علی بخاری، این اے 142 راؤ حسن سکندر، این اے 146 پاکپتن میاں امجد جوئیہ، این اے 147 ساہیوال چودھری نوریز شکور، این اے 148 ملک محمد یار ڈکھو، این اے 149 رائے مرتضیٰ اقبال شامل ہیں۔

نواز ڈوگر( فیصل آباد)

فیصل آباد ڈویژن میں قومی اسمبلی کی 18 جبکہ صوبائی اسمبلی کی 38 نشستوں پر مقابلے ہونگے۔ این اے 99 چنیوٹ کی سیٹ پر پی ٹی آئی کی طرف سے غلام محمد لالی جبکہ ن لیگ کی طرف سے ریحان قیصرشیخ امیدوار ہونگے۔ ریحان قیصر شیخ این اے 100 سے ن لیگ کے سابق ایم این اے قیصر احمد شیخ کے صاحبزادے ہیں۔

ریحان قیصر شیخ کے بھوانہ کی سیٹ پر تو ایم پی اے ثقلین انور سپرا موجود ہیں لیکن لالیاں کی سیٹ پر ابھی ن لیگ نے کسی کو نامزد نہیں کیا۔ ان کے علاوہ سید اسد حیات اور غلام عباس نسوآنہ بھی اس سیٹ پر قومی اسمبلی کا الیکشن لڑ رہے ہیں۔اس سیٹ پر بظاہر غلام محمد لالی کا پلڑا بھاری ہے۔ این اے 100 میں پی ٹی آئی کی طرف سے سید ذوالفقار علی شاہ کو ٹکٹ جاری کرنے سے سابق ایم این اے سید عنایت علی شاہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔

ان دونوں کے مقابلے میں ن لیگ کے قیصر احمد شیخ کی جیت کے زیادہ امکانات ہیں۔ این اے 101 فیصل آباد میں ساہی فیملی نے قومی اسمبلی کے ساتھ دونوں صوبائی سیٹوں پی پی 97 اور پی پی 98 پر اپنے ہی خاندان کے امیدوار کھڑے کردیے ہیں جس پر حلقہ میں ان کیخلاف فضا بنی ہوئی ہے جس کا ن لیگ جلد کو ئی موثر پینل میدان میں اتار کر فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ ن لیگ اس حلقہ میں نذیر برادران کو ٹکٹ جاری کرنا چاہتی تھی لیکن نذیر برادران نے این اے 101 کے علاوہ این اے 105 پر بھی آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق اگر ن لیگ پی پی 97 میں آزاد علی تبسم، پی پی 98 میں تحسین اعوان اور این اے101 پر کسی جٹ امیدوار کو میدان میں اتارتی ہے تو مقابلے کی پوزیشن میں آجائیگی ۔ این اے 102 میں پی ٹی آئی کے ملک شیر وسیر کے مقابلے میں ن لیگ کے طلال چودھری کی پوزیشن کمزور بتائی جا رہی ہے۔

این اے 103 تاندلیانوالا میں ن لیگ کے علی گوہر بلوچ اور پی ٹی آئی کے سعد اللہ بلوچ میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔ این اے 104 سمندری میں ن لیگ کے چودھری شہباز بابرکا پی ٹی آئی کے دلدار چیمہ کے مقابلے میں پلڑا بھاری ہے۔ این اے 105 میں ن لیگ کے میاں فاروق اور پی ٹی آئی کے آصف توصیف کے مقابلے میں عاصم نذیر امیدوار ہونگے۔اس سیٹ پر میاں فاروق کی پوزیشن مضبوط بتائی جا رہی ہے۔

دوسری طرف پی پی 107 جس کا کچھ علاقہ این اے 105 اور کچھ این اے 109 میں آتا ہے پر میاں عبدالمنان نے شفیق گجر کو ٹکٹ دینے کی سفارش کی ہے۔ این اے 106میں ن لیگ کے رانا ثناء اللہ کی پی ٹی آئی کے ڈاکٹر نثار جٹ کے مقابلے میں پوزیشن بہتر بتائی جا رہی ہے۔ فیصل آباد شہر کی چار سیٹوں میں این اے 107 پر چھے بار ن لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے حاجی اکرم انصاری کے مقابلے میں پی ٹی آئی کے شیخ خرم شہزاد مضبوط امیدوار ہیں۔ ان کے دونوں صوبائی حلقوں میں کمزور امیدوار ہیں۔

این اے 108 میں چودھری عابد شیرعلی آسانی کے ساتھ جیت جائیں گے۔ این اے 109 میں میاں عبدالمنان مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کے حلقہ کی ایک صوبائی سیٹ پی پی 114 پر ن لیگ کے نامزد امیدوار شیخ اعجاز سے ان کے اختلافات ہیں۔ پی پی 115 میں بھی ن لیگ کی طرف سے رانا علی عباس کو امیدوار نامزد کرنے کے بعد باقی سات لیگی امیدواروں سردار مزمل سرور ڈوگر، رانا اسرار، پرویز کموکا، جاوید ظفر، رانا منور، رانا احسان اور رانا اکرم نے میاں عبدالمنان اور علی عباس کی مخالفت کا اعلان کردیا ہے۔ اسی طرح ن لیگ نے این اے 110 میں سابق ایم این اے رانا افضل خاں کو امیدوار نامزد کیا ہے لیکن یہاں کے لیگی ورکر اور بلدیاتی چیئرمین انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔ این اے 111 گوجرہ کی سیٹ پر ن لیگ کے خالد وڑائچ اور پی ٹی آئی کے اسامہ حمزہ کے مابین سخت مقابلے کی توقع ہے۔

اسی طرح این اے 112 ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سیٹ پر پی ٹی آئی کے چودھری اشفاق اور ن لیگ کے چودھری جنید انوار کے مابین بھی سخت مقابلہ متوقع ہے۔این اے 113 کمالیہ کی سیٹ پر پی ٹی آئی کے پاس موثر امیدوار نہیں لہذا یہاں ن لیگ کے چودھری اسدالرحمٰن اور عوام لیگ کے ریاض فتیانہ اصل مدمقابل ہونگے۔ این اے 114 احمد پور سیال کی سیٹ پر سید فیصل صالح حیات اور پی ٹی آئی کے محبوب سلطان میں مقابلہ ہوگا۔ ن لیگ کا یہاں کوئی امیدوار نہیں۔ این اے 115 جھنگ شہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں کالعدم سپاہ صحابہ کے امیدوار مولانا محمد احمد لدھیانوی اور شیخ وقاص اکرم میں مقابلہ متوقع تھا لیکن ریٹرننگ افسروں کی طرف سے دونوں کے کاغذات مسترد کردیئے گئے ہیں۔

دونوں نے اپیلٹ ٹریبونلز میں اپیلیں دائر کردی ہیں جن کے فیصلے تک پی ٹی آئی کی غلام بی بی بھروانہ اس حلقہ میں واحد امیدوار باقی ہیں۔اگر مولانا لدھیانوی اور شیخ وقاص اکرم کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی تو اس حلقہ میں کالعد م سپاہ صحابہ کے امیدوار کی کامیابی کے زیادہ امکانات ہیں۔ اسی طرح این اے 116 شورکوٹ کی سیٹ پر ن لیگ کا کوئی امیدوار نہیں۔ پی ٹی آئی نے سابق ایم این اے نذیر سلطان کے صاحبزادے امیرسلطان کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ ان کے مقابلے میں سابق ایم این اے صائمہ اختر بھروانہ اور کالعدم سپاہ صحابہ کے مولانا آصف معاویہ سیال آزاد امیدوار ہیں۔ اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے مقابلے میں صائمہ اختر بھروانہ کی پوزیشن بہتر بتائی جا رہی ہے۔

حافظ شاہد منیر (گوجرانوالہ )

گوجرانوالہ ریجن میں 20 قومی حلقوں میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں کانٹے کے مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے،گجرات میں مسلم لیگ ق نے ن لیگ کو ٹف ٹائم دینے کی تیاری کر لی ہے اور یہاں دو حلقوں میں تحریک انصاف نے کسی امیدوار کو میدان میں نہیں اتارا۔ گجرات کے حلقہ این اے 68 میں چودھری حسین الٰہی اور این اے 69 میں چودھری پرویز الٰہی نے انتخابی مہم شروع کر دی ہے،چودھری حسین الٰہی کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے نوابزادہ غضنفر گل کو میدان میں اتارا جا رہا ہے۔این اے 69 میں چودھری پرویز الہی کے مد مقابل ان کے کزن چودھری مبشر حسین ہیں۔ حلقہ این اے 70میں مسلم لیگ ن کے چودھری جعفر اقبال، پیپلز پارٹی کے قمر زمان کائرہ اور پی ٹی آئی کے سید فیض الحسن شاہ کے درمیان ٹاکرا ہوگا۔

حلقہ این اے 71 گجرات سے مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے عابد رضا امیدوار ہیں جن کے مد مقابل تحریک انصاف کے راہنما چودھری الیاس ہیں ۔گجرات کے چار حلقوں کے بعد سیالکوٹ کے 5 حلقوں کی بات کی جائے تو یہاں قومی سطح کے اہم سیاسی راہنماؤں میں بھرپو رمقابلہ نظر آرہا ہے،این اے 72سے فردوس عاشق کے مقابلہ میں ن لیگ کے امیدوار چودھری ارمغان سبحانی ہیں ، یہاں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان بھرپور مقابلہ کر رہی ہیں ۔

این اے 73 میں سابق وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف اور تحریک انصاف کے مرکزی راہنما عثمان ڈار مد مقابل ہیں، یہاں ن لیگ کا ووٹ بینک کافی ہے ۔ این اے 74پسرور میں بیرسٹر منصور سرور تحریک انصاف اور سابق وزیر زاہد حامد کے بیٹے علی زاہد میں مقابلہ ہے ، یہاں پر تحریک انصاف کا امیدوار تبدیل ہونے کی افواہیں بھی ہیں،این اے 75 میں مسلم ن کی جانب سے سابق ایم این اے سید افتخار الحسن ظاہرے شاہ میدان میں ہیں جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے ابھی تک امیدوار فائنل نہیں کیا گیا یہاں پر تحریک انصاف کی جانب سے صاحبزادہ عثمان خالد یا چودھری صداقت امیدوار ہوسکتے ہیں ۔ این اے 76میں تحریک انصاف کی جانب سے بریگیڈئیرر(ر)اسلم گھمن امیدوار ہیں جبکہ ان کے مد مقابل ن لیگ کے امیدوار سابق ایم این اے رانا شمیم ہوں گے۔

سیالکوٹ کے بعد نارووال کے دو حلقوں میں ن لیگ اور پی ٹی آئی کا ہی مقابلہ دیکھنے کو ملے گا،این اے 77سے مسلم لیگ ن کے دانیال عزیز کے مقابلہ میں مسلم لیگ ن چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والے میاں رشید ہیں جبکہ این اے 78میں سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کے مد مقابل پی ٹی آئی کے ابرار الحق ہوں گے، احسن اقبال نے نارووال میں اربوں روپے کے ترقیاتی کام کروائے، یونیورسٹیوں کے کیمپس بنوائے، اس لئے ان کی علاقہ میں کافی پذیرائی ہے جبکہ ابرار الحق نوجوان نسل کے پسندیدہ سیاست داں ہیں، نارووال کے بعد ضلع گوجرانوالہ کے 6 قومی حلقوں کی بات کی جائے تو یہاں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا،این اے 79میں ن لیگ کی جانب سے سابق ایم این اے جسٹس (ر)افتخار چیمہ کے بھائی ڈاکٹر نثار چیمہ امیدوار ہوں گے۔

ان کے مد مقابل تحریک انصاف کے احمد چٹھہ ہیں، احمد چٹھہ سینئر سیاستدان حامد ناصر چٹھہ کے بیٹے اور تحریک انصاف کے سابق ضلعی صدر ہیں۔ اس حلقہ میں جماعت اسلامی کا ووٹ بینک بھی اہم ہے جو کسی بھی امیدوار کی جیت میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے،این اے 80 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے سابق وزیر قانون محمود بشیر ورک کو ٹکٹ دیا گیا جبکہ ان کے مدمقابل ن لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں جانے والے میاں طارق محمود ہیں۔این اے 81 میں مسلم لیگ ن کے سابق وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر کے مد مقابل تحریک انصاف کے خواجہ صالح ہیں، یہاں ن لیگ کی پوزیشن بہتر ہے تاہم تحریک لبیک کے امیدوار مفتی اشرف آصف جلالی ن لیگ کیلئے مشکلات پیدا کرسکتے ہیں ۔ انہوں نے اس حلقہ میں الیکشن لڑنے کا اعلان کرکے کاغذات بھی جمع کروادیئے ہیں۔ این اے 82 میں سابق وفاقی وزیر بیرسٹر عثمان ابراہیم کے مد مقابل تحریک انصاف نے علی اشرف مغل کو ٹکٹ دیا ہے۔ بہرحال پی ٹی آئی یہاں پر بھی ن لیگ کو ٹف ٹائم دے گی۔

این اے 83 میں مسلم لیگ ن چھوڑ کر تحریک انصاف میں جانے والے رانا نذیر پی ٹی آئی کے امیدوار ہیں،ان کے مد مقابل ن لیگ نے سابق ایم پی اے ذوالفقار بھنڈر کو ٹکٹ دیا ہے ۔ این اے 84میں پی ٹی آئی نے رانا بلال اعجاز کو نامزد کیا، یہاں پر ن لیگ کے اظہر قیوم ناہرا مد مقابل ہوں گے، نوشہرہ ورکاں کا یہ حلقہ دھڑے بندی کے حوالے سے اہم سمجھاجاتا ہے، پی ٹی آئی کے رانا بلال اعجاز یہاں پر بہترین امیدوار ہیں جبکہ ن لیگ کے اظہر قیوم ناہرا کو ان کے بھائی سابق ایم این اے مدثر قیوم ناہرا کی سپورٹ حاصل ہے جو کافی سیاسی تجربہ رکھتے ہیں۔ یہاں پر پی ٹی آئی نے پہلے ڈاکٹر عامر حسین کو ٹکٹ دیا تھا بعد ازاں کارکنوں کے احتجاج پر ٹکٹ رانا بلال اعجاز کو دیا گیا۔گوجرانوالہ کے بعد منڈی بہاؤالدین کے دو قومی حلقوں کی بات کی جائے تو این اے 85 میں ن لیگ نے چودھری مشاہداللہ رضا کو ٹکٹ دیا ہے ۔

اب یہاں سے مقامی امیدوار امتیاز چودھری مضبوط امیدوار ہیں جو سابق تحصیل ناظم رہ چکے ہیں ۔این اے 86 میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ناصر اقبال بوسال اور تحریک انصاف کے نووارد امیدوار سابق وفاقی وزیر نذر گوندل مد مقابل ہیں، یہاں بھی سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا، ریجن کے آخری اہم حلقہ این اے 87 کا تعلق حافظ آباد سے ہے، یہاں ن لیگ کی سابق وفاقی وزیر سائرہ افضل تارڑ کا مقابلہ روایتی گروپ بھٹی خاندان سے ہوگا، بھٹی خاندان کے اہم راہنما شوکت حسین بھٹی کو پی ٹی آئی نے اس حلقہ سے ٹکٹ دیا ہے ۔ ریجن کی مجموعی صورتحال دیکھی جائے تو ن لیگ اور پی ٹی آئی میں 20 سیٹوں پر سخت مقابلے کی توقع ہے،اندازہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی اس الیکشن میں ن لیگ سے زیادہ سیٹیں گوجرانوالہ ریجن سے حاصل کر لے گی۔

طاہر ندیم، ممتاز نیازی
احمد رضوان(ملتان)

جنوبی پنجاب کے 9 اضلاع سے قومی اسمبلی کی 35 اور صوبائی اسمبلی کی 64 نشستوں پر مسلم لیگ (ن)، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لینے والے سیکڑوں امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔ موجودہ صورتحال کے تحت الیکشن 2018ء کے لیے ضلع ملتان کے قومی حلقہ 154 سے (ن) لیگ کے شہزاد مقبول بھٹہ پی ٹی آئی کے سکندر حیات بوسن پی پی پی سے عبدالقادرگیلانی متوقع امیدوار ہونگے۔

قومی حلقہ 155 میں (ن) لیگ سے طارق رشید، پی ٹی آئی سے عامر ڈوگر پی پی سے ارشد بھٹی، قومی حلقہ 156 سے پی ٹی آئی کے شاہ محمود ، (ن) لیگ عامر سعید انصاری، پی پی پی نفیس انصاری، قومی حلقہ 157 سے (ن) لیگ عبدالغفار ڈوگر پی ٹی آئی زین قریشی پی پی پی موسیٰ گیلانی، قومی حلقہ 158 سے پی پی پی سید یوسف رضا گیلانی، (ن) لیگ سید جاوید علی شاہ، پی ٹی آئی ابراہیم خان، قومی حلقہ 159 سے (ن) لیگ ذوالقرنین بخاری، پی ٹی آئی رانا قاسم نون، صوبائی حلقہ 211 سے (ن) راناطاہر رزاق، پی ٹی آئی سے شوکت بوسن، پی پی پی علی حیدر گیلانی، 212 (ن) لیگ سے شہزاد مقبول بھٹہ، پی ٹی آئی سکندر بوسن، پی پی پی سے سید ناظم حسین، 213 (ن) لیگ سے شیخ صادق، پی ٹی آئی سے ظہیر الدین علیزئی، پی پی پی سے عثمان بھٹی،

215 سے (ن) لیگ ملک انور علی، پی ٹی آئی جاوید اختر انصاری، 216 سے (ن) لیگ احسان الدین قریشی، پی ٹی آئی خالد خاکوانی، 217 سے پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، (ن) لیگ بیگم وحید ارائیں، پی پی پی رافیہ رفیق، 218 (ن) لیگ نسیم راں، پی ٹی آئی مظہر راں، پی پی پی عباس راں، 219 سے (ن) لیگ محمد اقبال، پی ٹی آئی محمد اختر، 220 سے رانا طاہر شبیر (ن) لیگ، طارق عبداللہ، پی ٹی آئی 221 (ن) لیگ رانا اعجاز نون، پی ٹی آئی رانا سہیل نون، پی پی پی آصف رسول اعوان، 222 سے (ن) لیگ مہدی عباس لنگاہ، پی ٹی آئی غلام عباس کھاکھی، 223 سے نغمہ مشتاق لانگ، (ن) لیگ ، پی ٹی آئی کافیصلہ ہونا باقی ہے۔

ضلع لودھراں سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 160 سے مسلم لیگ (ن) کے عبدالرحمن کانجو اور پی ٹی آئی کے اختر کانجو کے مابین مقابلہ ہو گا۔ این اے 161 سے مسلم لیگ (ن) کے صدیق خان بلوچ، پی ٹی آئی سے میاں شفیق ارائیں حصہ لے رہے ہیں جبکہ دیگر امیدواروں میں نواب امان اللہ خان، سید اظہر بخاری، سلیم عباس نون، عائشہ گلالئی شامل ہیں۔ صوبائی اسمبلی کی پی پی 224 سے پی پی 228 تک پانچ نشستیں ہیں جن پر 224 سے عامر اقبال شاہ، زوار حسین وڑائچ، عبدالرحمن کانجو، 225 سے طاہر خان ، سہیل کانجو، 226 سے سجاد جوئیہ، رانا اعجاز نون، محمود نواز جوئیہ، 227 سے وحید احمد، محمد صدیق، اللہ دتہ، آصف لطیف سومرو، ارسلان خان، راؤ محمد سلیم، محمد عمیر خان، سید اصغر شاہ گیلانی، نواب امان اللہ، شیر محمد اعوان سمیت 18 امیدوار میدان میں ہیں جبکہ 228 سے سید رفیع الدین شاہ، سید مطیع الحسن شاہ سمیت 10 امیدوار میدان میں ہیں۔

ضلع خانیوال کے قومی حلقہ 159 سے پی ٹی آئی کے رضا حیات ہراج، (ن) لیگ سے رانا عرفان محمود، سید فخر امام آزاد، ایم ایم اے مولانا عبدالخالق، قومی حلقہ 151 سے (ن) لیگ محمد خان ڈاہا، پی ٹی آئی سردار احمد یار ہراج، قومی حلقہ 152 سے (ن) لیگ پیر اسلم بودلہ، پی ٹی آئی ظہیر حسین قریشی، پی پی پی بیرسٹر حیدر زمان قریشی، قومی حلقہ 153 سے (ن) لیگ کے چوہدری افتخار نذیر، پی ٹی آئی کے غلام مرتضیٰ میتلا، صوبائی حلقہ 203 سے 209 تک (ن)، پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، آزاد اور دیگر جماعتوں کے 45 سے زائد امیدواران حصہ لے رہے ہیں۔ضلع وہاڑی کے قومی حلقہ 162 (ن) لیگ کے ارشاد احمد ارائیں، پی ٹی آئی سے عائشہ نذیر جٹ، پی پی پی کامران یوسف، این اے 163 (ن) لیگ سید ساجد مہدی، پی ٹی آئی سے اسحاق خاکوانی، پی پی پی سے نتاشہ دولتانہ، آزاد امیدوار عارفہ نذیر جٹ، این اے 164 (ن) لیگ سے تہمینہ دولتانہ، پی ٹی آئی سے طاہر اقبال چوہدری، آفتاب کھچی اور رانا صغیر گڈو آزاد امیدوار ہیں۔ این اے 165 سے (ن) لیگ سعید احمدمنیس، پی ٹی آئی سے اورنگزیب کھچی، میاں ماجد نواز آزاد امیدوار کے طور پر مقابلہ کریں گے۔

ثاقب الماس(سرگودھا)

ماضی میں ضلع سرگودھا کو مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم اب سیاسی صورتحال کافی بدل چکی ہے۔ اندرون شہر کے حلقہ این اے 90 مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں کے لئے درد سر بن چکا ہے۔ تحریک انصاف میں نئے آنے والوں میں مسلم لیگ ن کی ایم پی اے ڈاکٹر نادیہ عزیز بھی شامل ہیں۔ جنہیں تحریک انصاف کی طرف سے این اے 90 کی ٹکٹ کے لئے گرین سگنل دیا گیا تھا۔ تاہم پارٹی کے لئے کئی سال سے خدمات انجام دینے والے تحریک انصاف شمالی پنجاب کے صدر ممتاز اختر کاہلوں نے پارٹی کے فیصلہ کے خلاف احتجاج کیا تو تحریک انصاف کی مقامی قیادت نے بھی احتجاج شروع کر دیا۔ یہی صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے مسلم لیگ ن کی طرف سے ڈاکٹر لیاقت کو ٹکٹ دینے کا عندیہ دیا گیا تو چوہدری حامد حمید نے پارٹی فیصلہ کے خلاف احتجاج شروع دیا۔

حلقہ کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں ہوگا۔ تاہم ٹکٹوں کی تقسیم کی موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں دھڑے بندیاں سامنے آنے پر اس کا فائدہ پیپلزپارٹی کے امیدوار تسنیم قریشی کو بھی ہو سکتا ہے۔ سرگودھا کا پہلا حلقہ این اے 88 بھی مرکز نگاہ ہے جہاں سے پیپلزپارٹی کے سابق جنرل سیکرٹری ندیم افضل چن تحریک انصاف کی ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے۔ اس حلقہ سے ن لیگ نے سابق ایم پی اے ڈاکٹر مختار احمد بھرتھ کو میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جبکہ پیپلزپارٹی نے ندیم افضل چن کے قریبی عزیز بریگیڈیئر اظہار الحق کو ٹکٹ دیا ہے۔

89 سرگودھا 2 سے سابق وزیر مملکت محسن شاہنواز رانجھا ن لیگ، جبکہ اسامہ غیاث میلہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے۔ این اے 91 سے جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ محمد سعید کے بیٹے حافظ طلحہ سعید انتخابی میدان میں اتر چکے ہیں اور وہ تحریک اللہ اکبر کے پلیٹ فارم سے انتخابی نشان کرسی پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔ اسی حلقہ سے عامر سلطان چیمہ تحریک انصاف جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار بھٹی مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں اتریں گے۔ این اے 92 سے بھی مسلم لیگ ن پھوٹ کا شکار ہے۔ ن لیگ کی طرف سے ٹکٹ جاوید حسنین شاہ کو دینے کے فیصلہ کے بعد سابق ایم این اے شفقت بلوچ آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ اس حلقہ سے تحریک انصاف کا ٹکٹ ظفراحمد قریشی کو ملنے پر سابق امیدوار نور حیات کلیار بھی احتجاج کر چکے ہیں۔

این اے 95 میانوالی سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی نامکمل ہونے کے باعث مسترد ہو چکے ہیں جبکہ ٹکٹ نہ ملنے پر پی ٹی آئی سے راستے جدا کرکے آزاد حیثیت سے کاغذات جمع کرانے والے نواب آف کالاباغ ملک وحید خان نادہندہ نکلے اور ان کے کاغذات بھی مسترد کردیے گئے۔ تاہم کاغذات منظور ہونے پر عمران خان کے جیتنے کے امکانات ہیں۔ حلقہ این اے 96 میانوالی تحریک انصاف نے ٹکٹ اپنے سابقہ ایم این اے امجدعلی خان کو دیا ہے دوسری طرف مدمقابل موجودہ ضلع چیئرمین گل حمید خان روکھڑی کے فرزند بیرسٹر حمیر حیات روکھڑی ہیں۔

حلقہ این اے 93میں مسلم لیگ ن کی سمیرا ملک، ملک مظہر اعوان ،چوہدری شجاع الرحمن ٹیپو ، پی ٹی آئی کی طرف سے ملک عمر اسلم اعوان مد مقابل ہیں۔ حلقہ این اے 94 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے ملک شاکر بشیر اعوان، پی ٹی آئی کے انجینئر گل اصغر بگھور اور آزاد اُمیدوار ملک احسان اﷲ ٹوانہ کے درمیان مقابلہ ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 94میں ملک شاکر بشیر اعوان مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں لیکن اس نشست پر سمیرا ملک، ان کے بیٹے اسفند یار خان ،ضلعی صدر ڈاکٹر غوث نیازی، اور بلدیہ جوہرآباد کے چیئرمین ملک اشرف اعوان کے بیٹے عزیر اشرف کے بھی کاغذات منظور ہوئے ہیں۔ دوسری جانب پی ٹی آئی نے حلقہ این اے 94کیلئے انجینئر گل اصغر بگھور کو پارٹی ٹکٹ جاری کیا ہے۔ این اے 98 نعیم اللہ شہانی مسلم لیگ ن، ڈاکٹر محمد افضل خان ڈھانڈلہ تحریک انصاف اور اعجاز شہانی پیپلز پارٹی کے امیدوار ہوں گے۔

فاروق احمد سندھو (رحیم یارخان)

رحیم یار خان کے 6 قومی حلقوں پر تگڑے امیدوار میدان میں اتارنے کے لیے سیاسی جماعتوں کی قیادت نے سر جوڑ لیے ہیں۔ جنرل الیکشن 2018ء سے قبل ضلع رحیم یار خان کی دو بڑی شخصیات محسن آباد سے مخدوم احمد عالم انور اور میانوالی قریشیاں سے مخدوم خسرو بختیار کی طرف سے وفاداریاں تبدیل ہونے کی وجہ سے دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو مضبوط امیدوار میدان میں لانے کے لیے مشکلات کا سامنا ہے۔ این اے 175 اور اس کے ذیلی حلقوں پی پی 255 اور 256 پر حال ہی میں مسلم لیگ ن سے پی ٹی آئی میں شامل ہونے والے مخدوم احمد عالم انور کا اثر رسوخ ہے' قومی حلقہ 192 اور نئی مردم شماری کے لحاظ سے این اے 175 رحیم یار خان کا پہلا قومی حلقہ ہے' اس حلقے سے پیپلز پارٹی کے خواجہ قطب فرید کوریجہ ایم این اے ہیں' جنرل الیکشن 2013 کے دوران اس حلقے کا رزلٹ متنازع ہو گیا تھا' الیکشن کمیشن نے دوبارہ گنتی میں مسلم لیگ ن کے امیدوار مخدوم احمد عالم انور کو کامیاب قرار دیا جبکہ الیکشن کمیشن ٹربیونل نے قطب فرید کوریجہ کو کامیاب قرار دیا۔

جنرل الیکشن 2018ء قریب آ گئے ہیں، لیکن عدالت میں زیرسماعت اس کیس کا فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ این اے 176 سے 2008ء میں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہونیوالے حامد سعید کاظمی نے بغاوت کرتے ہوئے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کردیا ہے اور انہوں نے اس قومی حلقہ صوبائی ونگز پر بھی مضبوط امیدوار دے دیے ہیں' جنرل الیکشن میں اس حلقہ میں حامد سعید کاظمی اور مخدوم احمد عالم انور کے درمیان مقابلہ ہوگا جبکہ قومی حلقہ 177 اور اس کے ذیلی حلقوں پی پی پر میانوالی قریشیاں کے مخدوم خسرو بختیار کی گرفت رہی ہے۔ ادھر قومی حلقہ 178 اور صوبائی حلقہ پی پی 264 اور 265 صدر پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب مخدوم سید احمد محمود کے زیر اثر ہیں۔

ضلع رحیم یار خان میںقومی حلقہ 179 اور اس کے ذیلی صوبائی حلقے پی پی 262 اور 263 واحد حلقے ہیں جہاں سے مسلم لیگ نے جنرل الیکشن 2018 کے حتمی امیدواروں کا اعلان کیا ہے' قومی حلقہ 179 سے میاں امتیاز احمد نامزد ہوئے ہیں جبکہ باقی پانچ قومی اور 11 صوبائی حلقوں کے امیدواروں کے آپسی اختلافات کو دور کرنے اور درست امیدواروں کے چناؤ کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے' مذکورہ کمیٹی پارٹی چیئرمین میاں شہباز شریف کی وطن واپسی پر قومی حلقہ 175' 176' 177' 178' 180 اور ان کے ذیلی صوبائی حلقوں کے فیصلے کرے گی۔

۔۔۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کی سیاست کافی ہنگامہ خیز ہے، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف، دونوں بڑی جماعتوں کو شدیدداخلی خلفشار کا سامنا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی دو نشستیں تھیں، تاہم اب ان کی تعداد تین ہے ۔ پہلے این اے 48اور این اے 49 کے حلقے اب تین حلقوں کی صورت میں این اے 52,53,54 کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

تادم تحریر اسلام آباد اور راولپنڈی کی انتخابی صورت حال کچھ یوں ہے کہ این اے 52 میں تحریک انصاف کے راجہ خرم نواز ، مسلم لیگ ن کے ڈاکٹر طارق فضل چودھری اور پیپلز پارٹی کے محمد افضل کھوکھر مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل نے اس حلقے کی بابت ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ این اے53 سے مسلم لیگ ن کے رہنما، سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی، پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف (گلالئی گروپ) کی سربراہ عائشہ گلالئی کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے سے تینوں پارٹیاں مایوس نظرآرہی ہیں۔این اے 53 سے عمران خان کے سامنے آنے کے بعد مسلم لیگ ن شاہدخاقان عباسی کو سامنے لائی تھی کیونکہ پارٹی اس حلقے سے عمران خان کو ہرانے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ شاہدخاقان عباسی کاآبائی حلقہ مری کے علاقے میں ہے، وہ وہاں سے بھی امیدوار ہیں۔ این اے53 سے مسلم لیگ ن کے رہنما سردارمہتاب عباسی نے بھی کاغذات نامزدگی داخل کرا رکھے تھے، وہ بھی مسترد کردئیے گئے۔ بیرسٹرظفراللہ خان بھی مسلم لیگ ن کی طرف سے امیدوار ہیں، تاحال مسلم لیگ ن نے اپنے امیدواران کی فہرست جاری نہیں کی۔

اگرچہ این اے 53 سے عمران خان نے کاغذات مستردکئے جانے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے،اسی حلقہ سے پی ٹی آئی کے ایک اور مضبوط امیدوار الیاس مہربان بھی ہیں، عمران خان کے امیدوار نہ ہونے کی صورت میں ان کے پارٹی امیدوار بننے کے امکانات بھی بڑھ گئے ہیں۔حلقہ53 اسلام آباد سے پیپلز پارٹی نے سید سبط الحیدر بخاری کو ٹکٹ دیاہے۔ اس حلقہ سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں محمد اسلم ہیں۔

این اے54 سے مسلم لیگ ن کے انجم عقیل خان ، ملک حفیظ الرحمان ٹیپو، پیپلز پارٹی کے راجہ عمران اشرف، متحدہ مجلس عمل کے میاں اسلم اور جماعت اسلامی کے منحرف زبیر فاروق خان بھی امیدوار ہیں۔تحریک انصاف نے اس حلقہ سے سابق ایم این اے اسد عمر کو پھر سے ٹکٹ دیدیاہے۔ اس حلقہ میں اصل مقابلہ تحریک انصاف کے اسد عمر اور ن لیگ کے انجم عقیل خان کے درمیان ہی سمجھا جاتا ہے۔ ن لیگ کے رہنما حفیظ الرحمان ٹیپو نے ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں این اے54 سے آزاد الیکشن لڑنے کا اعلان کر رکھاہے۔ 2002ء میں یہاں سے متحدہ مجلس عمل کے میاں محمد اسلم، 2008ء میں مسلم لیگ ن کے انجم عقیل، 2013ء میں تحریک انصاف کے مخدوم جاوید ہاشمی اور ان کے سیٹ خالی کرنے پر اسدعمر کامیاب ہوئے۔

ضلع راولپنڈی کی سات قومی اور15صوبائی نشستوں کیلئے مجموعی طور پر 459امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور کئے گئے ہیں۔ مسلم لیگ ن راولپنڈی میں زیادہ مسائل کا شکار ہے،ضلع کونسل، میونسپل کارپوریشن کے چیئرمینوں،وائس چیئرمینوں اورکنٹونمنٹ بورڈز کے ممبران کاایک بڑا دھڑا سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کے ساتھ جانے والا ہے، تاحال بعض ن لیگی رہنما دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ چودھری نثارعلی خان کو راضی کرلیں گے۔ ایسا نہ ہوسکا تو ن لیگ راولپنڈی کے ضلع سے محروم ہوسکتی ہے۔ ن لیگ کی طرف سے این اے 57 میں شاہدخاقان عباسی، این اے58 میں محمد جاویداخلاص، این اے59 میں قمرالاسلام راجہ، این اے60 میں حنیف عباسی، این اے62 میں سینیٹر چودھری تنویرخان کے بڑے بیٹے دانیال چودھری یا پھر ملک شکیل اعوان اور این اے63 میں راجہ ممتاز ٹکٹ کے مضبوط امیدوار سمجھے جاتے ہیں۔ این اے61 کی صورتحال واضح نہیں ہے۔

تحریک انصاف نے این اے 57 کے لئے صداقت عباسی، این اے58 میں چودھری محمد عظیم، این اے 59 میں غلام سرورخان،این اے60 میں شیخ رشیداحمد، این اے61 میں عامرمحمود کیانی، این اے 62 میں شیخ رشیداحمد اور این اے 63 میں غلام سرورخان کو ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ ضلع راولپنڈی کی تحریک انصاف میںگروہ بندی بھی سنگین صورت اختیار کرچکی ہے، شیخ رشید احمد کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر تحریک انصاف کا بڑا حلقہ ناراض ہے، ان میں وہ لوگ بالخصوص شامل ہیں جوطویل عرصہ سے تحریک انصاف کے امیدوار ہونے کا دعویٰ کرتے تھے اور کہاکرتے تھے کہ وہ شیخ رشید کو ٹکٹ نہیں لینے دیں گے۔ این اے60 اور این اے62 کے نیچے صوبائی سیٹوں پرچارامیدواروں میں سے تین امیدوار شیخ رشید احمد کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔

متحدہ مجلس عمل نے این اے58 سے مفتی محمود حسین شائق کو ٹکٹ دیدیاہے، این اے59 سے جماعت اسلامی محمد تاج عباسی اور جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالغفار توحیدی ٹکٹ کے امیدوار ہیں، این اے 60 سے رضا احمد شاہ یا قاضی محمد جمیل امیدوار ہوں گے، این اے61 سے چودھری ظفریاسین جبکہ این اے63 سے سابق ایم پی اے محمد وقاص خان کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، این اے 62 کے لئے فیصلہ نہیں کیا گیا۔ اسی طرح یہاں صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لئے ٹکٹیں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے حصے میں آئی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں