صدر ٹرمپ کی غیر انسانی مہم
امریکا کے صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں امریکا کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تارکین وطن کے خلاف جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کی نہ صرف دنیا بھر میں مخالفت ہو رہی ہے بلکہ ٹرمپ کی اپنی حکمران پارٹی ری پبلکن میں بھی اس پالیسی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں جس کے جواب میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غصے میں آ کر اپنی پارٹی کے ارکان پر زور دیا ہے کہ وہ تارکین وطن کے سوال پر اپنا وقت ضائع نہ کریں کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ نے غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی کرنے کا پختہ فیصلہ کر رکھا ہے۔ نیز میکسیکو اور امریکا کی درمیانی سرحد پر سیکڑوں کلومیٹر لمبی دیوار تعمیر کی جائے گی تاکہ غیرقانونی طور پر اس جانب سے امریکا میں داخلے کا امکان ہی ختم ہو جائے اور عجیب بات یہ ہے کہ ٹرمپ صاحب اس دیوار کی تعمیر کے اخراجات بھی میکسیکو کے سر پر ڈالنا چاہتے ہیں حالانکہ اس دیوار میں میکسیکو والوں کا کیا مفاد ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان بھی افغانستان کی سرحد پر بنائی جانے والی ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل دیوار کا خرچہ افغانستان کے سر ڈال سکے؟ امریکا کی اس حوالے سے تقلید کی کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔ صدرٹرمپ نے اپنی جماعت کے اراکین پر زور دیا ہے کہ وہ تارکین وطن کا مسئلہ اس سرکاری مسودہ قانون کی روشنی میں حل کریں جو پیش کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کا خرچہ 25 ارب ڈالر سے زیادہ آنے کا تخمینہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جو تارکین وطن بچپن کے اوائل ایام سے امریکا ہی میں رہ رہے ہیں انھیں یہاں رہنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر حالیہ نکتہ چینی میں اضافہ اس بناء پر ہوا ہے کہ انھوں نے حکم دیا تھا کہ تارکین وطن کے تمام شیرخوار بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر کے دونوں کو مختلف جیلوں میں بند کر دیا جائے لیکن یہ فیصلہ اس قدر ظالمانہ تھا کہ اس کے خلاف چاروں طرف شور مچ گیا۔ ایک غیرملکی ادارے کی خبر کے مطابق ٹی وی پر یہ خبر پڑھتے وقت نیوز ریڈر خود بھی بے اختیار رو پڑی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے مخالف ڈیموکریٹک اراکین کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ اس پالیسی کی خوامخواہ مخالفت کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ان کی مخالفت کا کہیں ملک کی قومی سلامتی پر نقصان دہ اثرات مرتب نہ ہوں۔ ٹرمپ نے مزید کہا اگر ری پبلکن پارٹی کے سو فیصد ووٹ بھی اس مسودہ قانون کے حق میں آ جاتے ہیں پھر بھی ہمیں ڈیموکریٹک اراکین کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی تاکہ سینیٹ میں اس مسودہ قانون کو کامیابی سے منظور کرایا جا سکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس پالیسی کی کامیابی کا اصل فیصلہ نومبر میں ہو گا جب ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں جگہوں پر اس مسودہ قانون کی حمایت درکار ہو گی۔ ادھر اقوام متحدہ نے امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ تارکین وطن کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور اس حوالے سے متنازعہ شقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اقوام متحدہ نے دراصل اس بناء پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تارکین وطن کے بچوں کو ان کے والدین اور بالخصوص ماؤں سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جسے واپس لیا جائے کیونکہ نوزائیدہ بچوں کو ماؤں سے جدا کرنا نہ صرف غیر انسانی بلکہ گناہ عظیم ہے لہٰذا اگر امریکا کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ اس مسئلہ کا حل انسانی بنیادوں پر نکالنے کی کوشش کریں۔
واضح رہے میڈیا کے مطابق امریکا نے 2300 بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر دیا جس بناء پر امریکا کے خلاف سخت تنقید کی جا رہی ہے چنانچہ اس تنقید سے بچنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک صدارتی حکم جاری کر دیا کہ بچوں اور ان کی ماؤں کو اکٹھا کر دیا جائے اور بے شک انھیں حراستی مراکز میں رکھا جائے مگر علیحدہ کر کے نہیں جیسا کہ پہلے کہا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی شعبے کے ترجمان راوینا شامداسانی نے جنیوا میں پریس بریفنگ کے دوران کہا ہم نے بار بار امریکا سے کہا ہے کہ بچوں کو ان کی ماؤں سے ہرگز جدا نہیں کیا جانا چاہیے مگر وہاں پر نہ جانے ایسا غیرانسانی فیصلہ کس نے کیا اور نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا مگر اب ہمیں اطمینان ہو گیا ہے کہ اس فیصلے کو بدل دیا گیا ہے اور بچوں کو ان کی ماؤں کی گود واپس مل گئی ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا میں زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ یہاں تک ری پبلکن بھی ان پر برس رہے ہیں۔ امریکا کے صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں امریکا کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ پاکستان بھی افغانستان کی سرحد پر بنائی جانے والی ڈھائی ہزار کلومیٹر طویل دیوار کا خرچہ افغانستان کے سر ڈال سکے؟ امریکا کی اس حوالے سے تقلید کی کوشش ضرور کی جانی چاہیے۔ صدرٹرمپ نے اپنی جماعت کے اراکین پر زور دیا ہے کہ وہ تارکین وطن کا مسئلہ اس سرکاری مسودہ قانون کی روشنی میں حل کریں جو پیش کیا جا چکا ہے۔ واضح رہے میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کا خرچہ 25 ارب ڈالر سے زیادہ آنے کا تخمینہ ہے۔ صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ جو تارکین وطن بچپن کے اوائل ایام سے امریکا ہی میں رہ رہے ہیں انھیں یہاں رہنے کی اجازت دے دی جائے گی۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر حالیہ نکتہ چینی میں اضافہ اس بناء پر ہوا ہے کہ انھوں نے حکم دیا تھا کہ تارکین وطن کے تمام شیرخوار بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر کے دونوں کو مختلف جیلوں میں بند کر دیا جائے لیکن یہ فیصلہ اس قدر ظالمانہ تھا کہ اس کے خلاف چاروں طرف شور مچ گیا۔ ایک غیرملکی ادارے کی خبر کے مطابق ٹی وی پر یہ خبر پڑھتے وقت نیوز ریڈر خود بھی بے اختیار رو پڑی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے مخالف ڈیموکریٹک اراکین کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ اس پالیسی کی خوامخواہ مخالفت کرنے سے پہلے یہ دیکھ لیں کہ ان کی مخالفت کا کہیں ملک کی قومی سلامتی پر نقصان دہ اثرات مرتب نہ ہوں۔ ٹرمپ نے مزید کہا اگر ری پبلکن پارٹی کے سو فیصد ووٹ بھی اس مسودہ قانون کے حق میں آ جاتے ہیں پھر بھی ہمیں ڈیموکریٹک اراکین کے ووٹوں کی ضرورت ہو گی تاکہ سینیٹ میں اس مسودہ قانون کو کامیابی سے منظور کرایا جا سکے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ اس پالیسی کی کامیابی کا اصل فیصلہ نومبر میں ہو گا جب ایوان نمائندگان اور سینیٹ دونوں جگہوں پر اس مسودہ قانون کی حمایت درکار ہو گی۔ ادھر اقوام متحدہ نے امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ سے کہا ہے کہ وہ تارکین وطن کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور اس حوالے سے متنازعہ شقوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔
اقوام متحدہ نے دراصل اس بناء پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے تارکین وطن کے بچوں کو ان کے والدین اور بالخصوص ماؤں سے علیحدہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جسے واپس لیا جائے کیونکہ نوزائیدہ بچوں کو ماؤں سے جدا کرنا نہ صرف غیر انسانی بلکہ گناہ عظیم ہے لہٰذا اگر امریکا کو کوئی مسئلہ ہے تو وہ اس مسئلہ کا حل انسانی بنیادوں پر نکالنے کی کوشش کریں۔
واضح رہے میڈیا کے مطابق امریکا نے 2300 بچوں کو ان کے والدین سے علیحدہ کر دیا جس بناء پر امریکا کے خلاف سخت تنقید کی جا رہی ہے چنانچہ اس تنقید سے بچنے کے لیے امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ روز ایک صدارتی حکم جاری کر دیا کہ بچوں اور ان کی ماؤں کو اکٹھا کر دیا جائے اور بے شک انھیں حراستی مراکز میں رکھا جائے مگر علیحدہ کر کے نہیں جیسا کہ پہلے کہا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی شعبے کے ترجمان راوینا شامداسانی نے جنیوا میں پریس بریفنگ کے دوران کہا ہم نے بار بار امریکا سے کہا ہے کہ بچوں کو ان کی ماؤں سے ہرگز جدا نہیں کیا جانا چاہیے مگر وہاں پر نہ جانے ایسا غیرانسانی فیصلہ کس نے کیا اور نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا مگر اب ہمیں اطمینان ہو گیا ہے کہ اس فیصلے کو بدل دیا گیا ہے اور بچوں کو ان کی ماؤں کی گود واپس مل گئی ہے۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا میں زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ یہاں تک ری پبلکن بھی ان پر برس رہے ہیں۔ امریکا کے صدر ٹرمپ اور ان کے مشیر مسلسل ایسے فیصلے کر رہے ہیں جس سے پوری دنیا میں امریکا کا امیج متاثر ہو رہا ہے۔