گڈانی ساحل پر الم ناک سانحہ
کوتاہی اور غفلت کاارتکاب صوبائی حکام سے ہواکہ انھوں نے گڈانی بریکنگ یارڈکے ماضی کے دلدوزسانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
کیا دنیا بھر کی ساحلی تفریح گاہیں موت کا کنواں ہوتی ہیں؟ جواب یقینا نفی میں ہوگا تاہم بلوچستان میں گڈانی کے ساحل پر پکنک منانے والے خاندان پر اس وقت قیامت ٹوٹ پڑی جب سمندر میں نہاتے ہوئے متعدد افراد کو بے رحم موجیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئیں اور ڈوبنے والوں کو بچانے کی کوشش میں7افراد سمندر میں ڈوب گئے۔
امدادی جماعتوں کے رضا کاروں نے ایک لڑکی کو بچالیا جب کہ ڈوبنے والی ماں اور بیٹی سمیت 4 خواتین کی لاشوں کو سخت جدوجہد کے بعد تلاش کر کے باہر نکالا گیا، سمندر میں ڈوبنے والے2 بھائی تاحال لاپتہ ہیں اور ان کی تلاش کا کام رات ہونے کی وجہ سے روک دیا گیا جو ہفتے کو صبح دوبارہ شروع کیا گیا، متوفیوں کی لاشیں کھارادر موسیٰ لین ایدھی ہوم لائی گئیں جب کہ متاثرہ خاندان لیاری کچھی پاڑہ کا رہائشی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا غمناک واقعہ نہیں، تفریحی مقامات پر قیمتی جانوں کے اتلاف کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وقوعہ کی دردانگیزی تو ویسے بھی لہو رلا دیتی ہے لیکن لیاری کے علاقے کچھی پاڑہ جونا مسجد کا رہائشی خاندان پکنک منانے کے لیے گڈانی کے جس ویران ساحل پر گیا تھا وہاں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات تو درکنار وہ جگہ معمول کا پکنک پوائنٹ بھی نہیں کہلا سکتی،جب کہ بلوچستان حکومت کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ بدنصیب خاندان کے افراد کو کہا گیا کہ وہ سمندر کے اس حصہ میں جانے اور معصوم بچوں کو نہانے سے منع کریں۔
بہر حال کوتاہی اور غفلت کا ارتکاب صوبائی حکام سے ہوا کہ انھوں نے گڈانی بریکنگ یارڈ کے ماضی کے دلدوز سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، تاہم سانحہ کے مضمرات اور صدمہ کو غمزدہ خاندان زندگی بھر بھلا نہیں سکتا اس لیے ساحلی علاقہ کی پولیس، سمندری سیزن کی تلاطم خیزی سے واقف اہلکاروں کو پکنک پوائنٹ کی حفاظت کا انتظام کر ہی لینا چاہیے تھا، کسی سانحہ سے دامن چھڑانا مسئلہ کا حل نہیں، المیہ یہ ہے کہ کلفٹن، ہاکس بے ، پیراڈائز اور سنہری پوائنٹس کے علاوہ بھی ملک میں کئی غیر محفوظ تفریحی مقامات ایسے ہیں جہاں منی آبشاریں، گرم سرد چشمے، بہتے نالے، جھیلیں، تالاب اور ندیوں کے سلسلہ موجود ہیں اور اندرون سندھ سمیت کراچی و بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اور اکثرکینجھر و کلری جھیل پر پکنک کے شوقین کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان تفریحی مقامات پر نہانے والوں کے لیے واچ ٹاور، ہنگامی لائف سیونگ آلات نہیں، چنانچہ وہاں اپنی مدد آپ کا اصول چلتا ہے، البتہ ایدھی اہلکار موقع پر ضرور پہنچتے ہیں، حالانکہ ساحلی پٹی پر پکنک منانے والے شہریوں اور سیاحوں کو ہر ممکن سہولت دینے کا مکمل سرکاری انتظام ہونا چاہیے۔
بلاشبہ بدنصیب خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی، ڈوبنے والوں کو بچانے کی کوشش میں خواتین اور لڑکوں سمیت7 افراد سمندر میں ڈوب گئے، موقع پر موجود دیگر افراد کی چیخ و پکار سن کر قریب ہی موجود لائف گارڈز اور ایدھی کے غوطہ خور موقع پر پہنچ گئے اور ڈوبنے والی12سالہ حدیقہ دختر یونس کو بے ہوشی کی حالت میں نکال کر طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال پہنچایا جب کہ سمندر میں ڈوبنے والی 4 خواتین کی لاشوں کو سخت جدوجہد کے بعد تلاش کر کے ساحل پر پہنچایا جنھیں بعدازاں غسل کفن کے لیے ایدھی موسیٰ لین سرد خانے لے جایا گیا جب کہ سمندر میں ڈوبنے والے2 کمسن بھائیوں کی تلاش جاری رکھی گئی تاہم رات ہونے کے باعث ان کی تلاش کا کام روک دیا گیا جو ہفتے کو دوبارہ شروع ہوا۔
سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والی خواتین کی شناخت 30 سالہ شاہدہ زوجہ شاہد، اس کی بیٹی 12 سالہ مہک دختر شاہد، 25 سالہ عمیرہ زوجہ زاہد اور21 سالہ صدف دختر الیاس کے نام سے ہوئی جب کہ سمندر میں لاپتہ ہونے والے دونوں بھائی11 سالہ سفیان اور 9 سالہ امان ولد شاہد جاں بحق ہونے والی شاہدہ کے بیٹے ہیں۔اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی جب کہ متوفیوں کے ورثا سے تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
دریں اثنا ہاکس بے کے ساحل گولڈن بیچ کے ہٹ پر پکنک منانے کے لیے آنے والے2 افراد سمندر میں ڈوب گئے جس کی اطلاع پر لائف گارڈز موقع پر پہنچ گئے اور سخت جدوجہد کے بعد دونوں افراد کو تشویشناک حالت میں باہر نکال کر ایدھی ایمبولینس کے ذریعے مرشد اسپتال پہنچایا۔
انچارج ای آر سی ہاکس بے نے بتایا کہ اس وقت سمندر انتہائی خطرناک ہے اور لہریں کئی کئی فٹ اونچی اٹھ رہی ہیں، پکنک پر آنے والے شہریوں کو جتنا ممکن ہوسکتا ہے سمندر میں جانے سے منع کیا جاتا ہے لیکن وہ ہدایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شہری بھی طغیانی کے اس خطرناک موسم میں سمندر میں نہانے سے اجتناب کریں، جون جولائی میں ماہی گیر کشتیوں اور لانچوں کو بھی ڈیپ سی فشنگ سے منع کیا جاتا ہے لہٰذا شہری اس انتباہ پر توجہ دیں کیونکہ ہر جان قیمتی ہوتی ہے۔تفریح ہر انسان کا حق ہے اور ملک کے تمام تفریحی مقامات کو فول پروف سیکیورٹی اور بنیادی حفاظتی سہولتیں بھی ملنی چاہئیں۔
امدادی جماعتوں کے رضا کاروں نے ایک لڑکی کو بچالیا جب کہ ڈوبنے والی ماں اور بیٹی سمیت 4 خواتین کی لاشوں کو سخت جدوجہد کے بعد تلاش کر کے باہر نکالا گیا، سمندر میں ڈوبنے والے2 بھائی تاحال لاپتہ ہیں اور ان کی تلاش کا کام رات ہونے کی وجہ سے روک دیا گیا جو ہفتے کو صبح دوبارہ شروع کیا گیا، متوفیوں کی لاشیں کھارادر موسیٰ لین ایدھی ہوم لائی گئیں جب کہ متاثرہ خاندان لیاری کچھی پاڑہ کا رہائشی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا غمناک واقعہ نہیں، تفریحی مقامات پر قیمتی جانوں کے اتلاف کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔
وقوعہ کی دردانگیزی تو ویسے بھی لہو رلا دیتی ہے لیکن لیاری کے علاقے کچھی پاڑہ جونا مسجد کا رہائشی خاندان پکنک منانے کے لیے گڈانی کے جس ویران ساحل پر گیا تھا وہاں کسی قسم کے حفاظتی انتظامات تو درکنار وہ جگہ معمول کا پکنک پوائنٹ بھی نہیں کہلا سکتی،جب کہ بلوچستان حکومت کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ بدنصیب خاندان کے افراد کو کہا گیا کہ وہ سمندر کے اس حصہ میں جانے اور معصوم بچوں کو نہانے سے منع کریں۔
بہر حال کوتاہی اور غفلت کا ارتکاب صوبائی حکام سے ہوا کہ انھوں نے گڈانی بریکنگ یارڈ کے ماضی کے دلدوز سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، تاہم سانحہ کے مضمرات اور صدمہ کو غمزدہ خاندان زندگی بھر بھلا نہیں سکتا اس لیے ساحلی علاقہ کی پولیس، سمندری سیزن کی تلاطم خیزی سے واقف اہلکاروں کو پکنک پوائنٹ کی حفاظت کا انتظام کر ہی لینا چاہیے تھا، کسی سانحہ سے دامن چھڑانا مسئلہ کا حل نہیں، المیہ یہ ہے کہ کلفٹن، ہاکس بے ، پیراڈائز اور سنہری پوائنٹس کے علاوہ بھی ملک میں کئی غیر محفوظ تفریحی مقامات ایسے ہیں جہاں منی آبشاریں، گرم سرد چشمے، بہتے نالے، جھیلیں، تالاب اور ندیوں کے سلسلہ موجود ہیں اور اندرون سندھ سمیت کراچی و بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں اور اکثرکینجھر و کلری جھیل پر پکنک کے شوقین کسی نہ کسی طرح پہنچ جاتے ہیں، لیکن ان تفریحی مقامات پر نہانے والوں کے لیے واچ ٹاور، ہنگامی لائف سیونگ آلات نہیں، چنانچہ وہاں اپنی مدد آپ کا اصول چلتا ہے، البتہ ایدھی اہلکار موقع پر ضرور پہنچتے ہیں، حالانکہ ساحلی پٹی پر پکنک منانے والے شہریوں اور سیاحوں کو ہر ممکن سہولت دینے کا مکمل سرکاری انتظام ہونا چاہیے۔
بلاشبہ بدنصیب خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی، ڈوبنے والوں کو بچانے کی کوشش میں خواتین اور لڑکوں سمیت7 افراد سمندر میں ڈوب گئے، موقع پر موجود دیگر افراد کی چیخ و پکار سن کر قریب ہی موجود لائف گارڈز اور ایدھی کے غوطہ خور موقع پر پہنچ گئے اور ڈوبنے والی12سالہ حدیقہ دختر یونس کو بے ہوشی کی حالت میں نکال کر طبی امداد کے لیے قریبی اسپتال پہنچایا جب کہ سمندر میں ڈوبنے والی 4 خواتین کی لاشوں کو سخت جدوجہد کے بعد تلاش کر کے ساحل پر پہنچایا جنھیں بعدازاں غسل کفن کے لیے ایدھی موسیٰ لین سرد خانے لے جایا گیا جب کہ سمندر میں ڈوبنے والے2 کمسن بھائیوں کی تلاش جاری رکھی گئی تاہم رات ہونے کے باعث ان کی تلاش کا کام روک دیا گیا جو ہفتے کو دوبارہ شروع ہوا۔
سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والی خواتین کی شناخت 30 سالہ شاہدہ زوجہ شاہد، اس کی بیٹی 12 سالہ مہک دختر شاہد، 25 سالہ عمیرہ زوجہ زاہد اور21 سالہ صدف دختر الیاس کے نام سے ہوئی جب کہ سمندر میں لاپتہ ہونے والے دونوں بھائی11 سالہ سفیان اور 9 سالہ امان ولد شاہد جاں بحق ہونے والی شاہدہ کے بیٹے ہیں۔اس موقع پر رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، علاقے میں سوگ کی فضا طاری ہوگئی جب کہ متوفیوں کے ورثا سے تعزیت کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔
دریں اثنا ہاکس بے کے ساحل گولڈن بیچ کے ہٹ پر پکنک منانے کے لیے آنے والے2 افراد سمندر میں ڈوب گئے جس کی اطلاع پر لائف گارڈز موقع پر پہنچ گئے اور سخت جدوجہد کے بعد دونوں افراد کو تشویشناک حالت میں باہر نکال کر ایدھی ایمبولینس کے ذریعے مرشد اسپتال پہنچایا۔
انچارج ای آر سی ہاکس بے نے بتایا کہ اس وقت سمندر انتہائی خطرناک ہے اور لہریں کئی کئی فٹ اونچی اٹھ رہی ہیں، پکنک پر آنے والے شہریوں کو جتنا ممکن ہوسکتا ہے سمندر میں جانے سے منع کیا جاتا ہے لیکن وہ ہدایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ شہری بھی طغیانی کے اس خطرناک موسم میں سمندر میں نہانے سے اجتناب کریں، جون جولائی میں ماہی گیر کشتیوں اور لانچوں کو بھی ڈیپ سی فشنگ سے منع کیا جاتا ہے لہٰذا شہری اس انتباہ پر توجہ دیں کیونکہ ہر جان قیمتی ہوتی ہے۔تفریح ہر انسان کا حق ہے اور ملک کے تمام تفریحی مقامات کو فول پروف سیکیورٹی اور بنیادی حفاظتی سہولتیں بھی ملنی چاہئیں۔