میڈیا کی صحبت
جدید میڈیا تک رسائی حاصل ہونے کے بعد صحبت کے نئے دریچے کھل گئے ہیں۔
انسان جیسی صحبت میں رہتا ہے ویسا ہی بن جاتا ہے، کند ہم جنس بہ ہم جنس پرواز ، یہی وجہ ہے کہ والدین بچوں پرکڑی نظر رکھتے ہیں کہ ان کے بچے کن بچوں کے ساتھ کھیل کود رہے ہیں، کن کی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں۔ ہمارے استاد کہتے تھے کہ پھولوں والوں کے پاس بیٹھوں گے تو آپ کے پاس سے بھی خوشبو ہی آئے گی۔
ایک دیندار شخص کا کہنا ہے کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہذا دوست بھی سوچ سمجھ کر بنانا چاہییں،گویا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے، ایک انسان جس ماحول میں اپنا وقت زیادہ ترگزارتا ہے اس کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سمجھدار والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ ان کے بچے کن کی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم میں سے بہت سے والدین اس وقت پریشان ہو جاتے ہیں جب ان کی اولاد ان کی سوچ اور تربیت کے برعکس کام کر ڈالتے ہیں جب کہ بزرگ کہہ چکے ہیں کہ صحبت دانا ترا دانا کند۔
بات یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں صحبت کے روایتی انداز اور راستے نہیں رہے، جدید میڈیا تک رسائی حاصل ہونے کے بعد صحبت کے نئے دریچے کھل گئے ہیں، ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا تو محض معلومات اور تفریح کاذریعہ ہے مگر ہماری توجہ اس طرف نہیں جاتی کہ ہم کس قدر زیادہ وقت میڈیا کو دے رہے ہیں نیز اس وقت میں کیا کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، اگر ہم ایک کاغذ قلم لے کر نوٹ کریں کہ ہم میڈیا کو کس قدر وقت دیتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ اتنا وقت تو ہم اپنے گھر والوں اور قریبی لوگوں کوبھی نہیں دیا ، یوں اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ ہماری صحبت اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب اور قریبی لوگوں سے بھی زیادہ میڈیا کے ساتھ ہے۔
ہم اگر اپنے دوستوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو وہ بھی بذریعہ فیس بک ، واٹس ایپ یعنی میڈیا کے ذریعے۔ ہم اگرکسی سے پوچھیں کہ آپ نے آخری مرتبہ واٹس ایپ کب استعمال کیا تھا تو جواب ہوگا، ابھی چند منٹ پہلے، فیس بک کے استعمال کا جواب ہوگا،کچھ گھنٹے پہلے، میل کب چیک کی تھی؟ اس کا جواب ہوگا بارہ یا چوبیس گھنٹے پہلے لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ کوئی کتاب یا قرآن کب پڑھا؟ تو اس کا جواب شاید پچھلے سال ہی ہوگا، اسی طرح یہ پوچھا جائے کہ کسی قریبی عزیز یا رشتے دار سے یا پڑوسی سے کب اورکتنی دیر ملاقات ہوئی تو اس کا جواب بھی حیران کن ہوگا۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے روز مرہ کا ایک طویل وقت میڈیا پر ہی گزر تا ہے، خواہ ہماری آنکھوں کے سامنے کیمپوٹر ہو، ٹیبلٹ ہو، موبائل ہو یا ٹی وی ۔
اب آیئے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب، یعنی جہاںہمارا سب سے زیادہ وقت گذر رہا ہے وہی ہماری صحبت بھی بن رہی ہے کیونکہ صحبت بھی وہی بنتی ہے جہاں زیادہ وقت گزارا جائے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ ہمارا زیادہ وقت میڈیا کے سامنے گذر رہا ہے تو آیئے کچھ دیر غورکریں کہ میڈیا کے کس قسم کے مشتملات (کونٹنٹس) ہیں؟ اگر بات مختصرکی جائے تو اس کے تمام مشتملات میں عشق، محبت ہی نہیں ، فحاشی و عریانیت بھی ہے۔ عالمی اعداد وشمار بھی بتاتے ہیں کہ فحش مواد دیکھنے میں پاکستان مغربی ممالک سے بھی دو قدم آگے ہے۔
ہمارے اپنے ٹی وی چینلز بھی صبح و شام عشق و محبت کرنے کا پیغام اس طرح دے رہے ہیں کہ ''یہ نہ کیا تو کچھ نہ کیا '' یوں ہماری نئی نسل کو خصو صاً ان نو جوانوں کو وہ صحبت دستیاب ہوچکی ہے کہ جس میں وہ میٹرک کرنے اور ملازمت یا کسی کام کاج پر لگنے سے پہلے ہی عشق وعاشقی کی معراج کو پالینا زندگی کا سب سے اہم اور ضروری کام سمجھ رہی ہے اور وہ اس کام کو اس قدر ترجیحی بنیادوں پرکر رہی ہے کہ والدین خود ہی حیران اور پریشان ہوئے جا رہے ہیں کہ انھوں نے جس اولاد کی پرورش اور تربیت اتنی اعلیٰ کی تھی، وہ کیسی حرکتیں کر رہی ہے ، فکری اور تفریحی آوارگی کی کن راہوں پر چل رہی ہے۔
گھر سے باہر نکل کردیکھیںتو احساس ہوتا ہے کہ ہماری مذہبی اقدار تو دورکی بات معاشرتی اقدار بھی تیزی سے دیمک زدہ ہو رہی ہے اور اگراس کا فوری علاج نہ کیا گیا تو جو تھوڑی بہت اقدار بچی ہے وہ بھی جلد زمین بوس ہوجائے گی۔
اگرکسی کو راقم کی بات پر شک ہو تو اسے چاہیے کہ کسی تعلیمی ادارے میں جاکر دور سے ہی اپنی آنکھوں سے مناظر دیکھ لے یا کسی اسکول ہی کی پرنسپل سے بچوں کے ' ڈسپلن' کے متعلق کچھ پوچھ لے، یہ بھی نہ ہو تو کم از کم کسی تفریح پارک یا قائد اعظم کے مزار کا دورہ کرلے، انھیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ دور اب چلا گیا جب کہا جاتا تھا کہ '' رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں' اب تعلیمی اداروں، پارکوں اور فیس بک پر بن رہے ہیں اور بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے، میڈیا کی اس صحبت سے وہ گل کھل رہے ہیں کہ کالم میں ان کا ذکرکرنا بھی مشکل ہے۔
ہمارے ایک پڑوسی کل ایک خبر سنا کر شکوہ کر رہے تھے کہ بچے خراب ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب بچے بچے کے ہاتھ میں میڈیا کی وہ صحبت دستیاب ہوگی جو ایک بالغ کو بھی پہلے نہیں تھی ، تو پھر یہی کچھ ہونا ہے۔ ہمارے ایک دوست اس عید پر بڑے غصے میں نظر آئے، ہم نے عید ملنے کے بعد احوال پوچھا تو پھٹ پڑے کہ اس کراچی شہر میں اب اپنے بچوں کے ساتھ کہیں تفریح کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔
ہم نے ذرا تفصیل جاننا چاہی توبولے کل ہم بیگم بچوں کو لے کر پارک چلے گئے تھے، وہا ں جاکر جو مناظر ہم نے دیکھے تو مارے شرم کے ہم پانی پانی ہوگئے، ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم پاکستان نہیں کسی یورپی ملک کے پارک میں آگئے ہیں، جگہ جگہ پریمی جوڑے اس انداز میں بے فکر بیٹھے تھے کہ گویا کسی انڈین فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔
یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ہماری نئی نسل کس طرف جا رہی ہے اور ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم انھیں کس قسم کی آزادی دے رہے ہیں، دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ جب ایک چھوٹے بچے کے ہاتھ میں بھی جذبات بھڑکانے کے وہ تمام لوازمات ہوں جو کسی نوجوان کے پاس بھی نہیں ہونے چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ آج خبروں میں جنسی تشدد کے وہ واقعات بھی بھرے پڑے ہیں کہ جن میں کم عمر لڑکے جرائم میں ملوث ہیں، چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی گلی محلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اور جو بڑے ہیں وہ جذبات میں اپنی ہی سگے رشتوں کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، کچھ کورٹ پہنچ کر اپنے جذبات کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر طلاقوں کی شرح پھر بھی بڑھ رہی ہے۔
آئیے غورکریں، کچھ دیر،کہ ہم اپنی نسل کو کیسی صحبت دے رہے ہیں اور اس کا انجام کیا ہونے جا رہا ہے؟
ایک دیندار شخص کا کہنا ہے کہ انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے ، لہذا دوست بھی سوچ سمجھ کر بنانا چاہییں،گویا دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے، ایک انسان جس ماحول میں اپنا وقت زیادہ ترگزارتا ہے اس کا اثر شخصیت پر ضرور پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی سمجھدار والدین اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں کہ ان کے بچے کن کی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم میں سے بہت سے والدین اس وقت پریشان ہو جاتے ہیں جب ان کی اولاد ان کی سوچ اور تربیت کے برعکس کام کر ڈالتے ہیں جب کہ بزرگ کہہ چکے ہیں کہ صحبت دانا ترا دانا کند۔
بات یہ ہے کہ آج کے جدید دور میں صحبت کے روایتی انداز اور راستے نہیں رہے، جدید میڈیا تک رسائی حاصل ہونے کے بعد صحبت کے نئے دریچے کھل گئے ہیں، ہم میں سے اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا تو محض معلومات اور تفریح کاذریعہ ہے مگر ہماری توجہ اس طرف نہیں جاتی کہ ہم کس قدر زیادہ وقت میڈیا کو دے رہے ہیں نیز اس وقت میں کیا کچھ دیکھ اور سن رہے ہیں، اگر ہم ایک کاغذ قلم لے کر نوٹ کریں کہ ہم میڈیا کو کس قدر وقت دیتے ہیں تو معلوم ہوگا کہ اتنا وقت تو ہم اپنے گھر والوں اور قریبی لوگوں کوبھی نہیں دیا ، یوں اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ ہماری صحبت اپنے گھر والوں، عزیز و اقارب اور قریبی لوگوں سے بھی زیادہ میڈیا کے ساتھ ہے۔
ہم اگر اپنے دوستوں کو زیادہ وقت دیتے ہیں تو وہ بھی بذریعہ فیس بک ، واٹس ایپ یعنی میڈیا کے ذریعے۔ ہم اگرکسی سے پوچھیں کہ آپ نے آخری مرتبہ واٹس ایپ کب استعمال کیا تھا تو جواب ہوگا، ابھی چند منٹ پہلے، فیس بک کے استعمال کا جواب ہوگا،کچھ گھنٹے پہلے، میل کب چیک کی تھی؟ اس کا جواب ہوگا بارہ یا چوبیس گھنٹے پہلے لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ کوئی کتاب یا قرآن کب پڑھا؟ تو اس کا جواب شاید پچھلے سال ہی ہوگا، اسی طرح یہ پوچھا جائے کہ کسی قریبی عزیز یا رشتے دار سے یا پڑوسی سے کب اورکتنی دیر ملاقات ہوئی تو اس کا جواب بھی حیران کن ہوگا۔ یوں دیکھا جائے تو ہمارے روز مرہ کا ایک طویل وقت میڈیا پر ہی گزر تا ہے، خواہ ہماری آنکھوں کے سامنے کیمپوٹر ہو، ٹیبلٹ ہو، موبائل ہو یا ٹی وی ۔
اب آیئے تصویر کے دوسرے رخ کی جانب، یعنی جہاںہمارا سب سے زیادہ وقت گذر رہا ہے وہی ہماری صحبت بھی بن رہی ہے کیونکہ صحبت بھی وہی بنتی ہے جہاں زیادہ وقت گزارا جائے۔ جب یہ طے ہوگیا کہ ہمارا زیادہ وقت میڈیا کے سامنے گذر رہا ہے تو آیئے کچھ دیر غورکریں کہ میڈیا کے کس قسم کے مشتملات (کونٹنٹس) ہیں؟ اگر بات مختصرکی جائے تو اس کے تمام مشتملات میں عشق، محبت ہی نہیں ، فحاشی و عریانیت بھی ہے۔ عالمی اعداد وشمار بھی بتاتے ہیں کہ فحش مواد دیکھنے میں پاکستان مغربی ممالک سے بھی دو قدم آگے ہے۔
ہمارے اپنے ٹی وی چینلز بھی صبح و شام عشق و محبت کرنے کا پیغام اس طرح دے رہے ہیں کہ ''یہ نہ کیا تو کچھ نہ کیا '' یوں ہماری نئی نسل کو خصو صاً ان نو جوانوں کو وہ صحبت دستیاب ہوچکی ہے کہ جس میں وہ میٹرک کرنے اور ملازمت یا کسی کام کاج پر لگنے سے پہلے ہی عشق وعاشقی کی معراج کو پالینا زندگی کا سب سے اہم اور ضروری کام سمجھ رہی ہے اور وہ اس کام کو اس قدر ترجیحی بنیادوں پرکر رہی ہے کہ والدین خود ہی حیران اور پریشان ہوئے جا رہے ہیں کہ انھوں نے جس اولاد کی پرورش اور تربیت اتنی اعلیٰ کی تھی، وہ کیسی حرکتیں کر رہی ہے ، فکری اور تفریحی آوارگی کی کن راہوں پر چل رہی ہے۔
گھر سے باہر نکل کردیکھیںتو احساس ہوتا ہے کہ ہماری مذہبی اقدار تو دورکی بات معاشرتی اقدار بھی تیزی سے دیمک زدہ ہو رہی ہے اور اگراس کا فوری علاج نہ کیا گیا تو جو تھوڑی بہت اقدار بچی ہے وہ بھی جلد زمین بوس ہوجائے گی۔
اگرکسی کو راقم کی بات پر شک ہو تو اسے چاہیے کہ کسی تعلیمی ادارے میں جاکر دور سے ہی اپنی آنکھوں سے مناظر دیکھ لے یا کسی اسکول ہی کی پرنسپل سے بچوں کے ' ڈسپلن' کے متعلق کچھ پوچھ لے، یہ بھی نہ ہو تو کم از کم کسی تفریح پارک یا قائد اعظم کے مزار کا دورہ کرلے، انھیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ دور اب چلا گیا جب کہا جاتا تھا کہ '' رشتے آسمانوں پر بنتے ہیں' اب تعلیمی اداروں، پارکوں اور فیس بک پر بن رہے ہیں اور بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے، میڈیا کی اس صحبت سے وہ گل کھل رہے ہیں کہ کالم میں ان کا ذکرکرنا بھی مشکل ہے۔
ہمارے ایک پڑوسی کل ایک خبر سنا کر شکوہ کر رہے تھے کہ بچے خراب ہو رہے ہیں۔ ظاہر ہے جب بچے بچے کے ہاتھ میں میڈیا کی وہ صحبت دستیاب ہوگی جو ایک بالغ کو بھی پہلے نہیں تھی ، تو پھر یہی کچھ ہونا ہے۔ ہمارے ایک دوست اس عید پر بڑے غصے میں نظر آئے، ہم نے عید ملنے کے بعد احوال پوچھا تو پھٹ پڑے کہ اس کراچی شہر میں اب اپنے بچوں کے ساتھ کہیں تفریح کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔
ہم نے ذرا تفصیل جاننا چاہی توبولے کل ہم بیگم بچوں کو لے کر پارک چلے گئے تھے، وہا ں جاکر جو مناظر ہم نے دیکھے تو مارے شرم کے ہم پانی پانی ہوگئے، ہمیں لگ رہا تھا کہ ہم پاکستان نہیں کسی یورپی ملک کے پارک میں آگئے ہیں، جگہ جگہ پریمی جوڑے اس انداز میں بے فکر بیٹھے تھے کہ گویا کسی انڈین فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔
یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ ہماری نئی نسل کس طرف جا رہی ہے اور ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم انھیں کس قسم کی آزادی دے رہے ہیں، دنیا کی تاریخ میں کبھی ایسا موقع نہیں آیا کہ جب ایک چھوٹے بچے کے ہاتھ میں بھی جذبات بھڑکانے کے وہ تمام لوازمات ہوں جو کسی نوجوان کے پاس بھی نہیں ہونے چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ آج خبروں میں جنسی تشدد کے وہ واقعات بھی بھرے پڑے ہیں کہ جن میں کم عمر لڑکے جرائم میں ملوث ہیں، چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی گلی محلوں میں محفوظ نہیں ہیں۔ اور جو بڑے ہیں وہ جذبات میں اپنی ہی سگے رشتوں کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں، کچھ کورٹ پہنچ کر اپنے جذبات کو قانونی تحفظ دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر طلاقوں کی شرح پھر بھی بڑھ رہی ہے۔
آئیے غورکریں، کچھ دیر،کہ ہم اپنی نسل کو کیسی صحبت دے رہے ہیں اور اس کا انجام کیا ہونے جا رہا ہے؟