تھرکول اور سندھ
اگر تھر کا کوئلہ عالمی گرمی پد میں اضافے کا باعث بنتا ہے تو ساؤتھ افریقا کا کوئلہ کیا ماحول پر اثرات نہیں ڈالے گا ؟
وادیِ سندھ کو خدائے ذوالجلال نے ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے ۔تاریخ میں موہن جو دڑو کے مقام پر دریائے سندھ سے سونا نکلنے کے شواہد ملتے ہیں جوعمل آج سکڑ کر فقط گلگت کے مقام تک رہ گیا ہے ۔ ساسانیوں ، تاتاریوں ، رومیوں،عربوں ، ترخانوں ، مغلوں اور انگریزوں کے حملوں کا سبب بھی سندھ کی خوشحالی ہی رہی۔
وہ خوشحالی جو زراعت ، معدنیات و ایجادات کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ و بحر ِ سندھ کی مثالی ڈیمو گرافی کی وجہ سے قائم تھی ۔ پھر صنعتی انقلاب نے بھی اپنے پَر یہاں پھیلائے اور یہاں قائم ہونے والے کارخانوں اور یہاں سے بڑے پیمانے پر ملنے والی دور ِ جدیدکی ضروری اشیائے زندگی جیسے تیل ، گیس ، ہیرے جواہر ، سنگ مرمر، کوئلہ اورکیمیائی دھاتوں نے تو سندھ کو سونے کی چڑیا بنادیا لیکن حال ہی میں دنیا کے نویں بڑے صحرا تھر سے نکلنے والے کوئلے نے تو سندھ کو دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا اور چین و آسٹریلیا وغیرہ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بے بہا خزانے کو ہم کس طرح بروئے کار لاتے ہیں اور کیسے سندھ و پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
سندھ و پاکستان کی آئندہ کئی صدیوں تک ترقی و خوشحالی کی ضمانت کا دروازہ اس وقت کھلا جب گذشتہ ہفتے یعنی 10جون2018کوتھر میں چھپے کوئلے کو نکالنے کے لیے کی جانے والی کھدائی اپنی منزل کے پہلے زینے یعنی کوئلے کی پہلی تہہ تک پہنچی تو دنیا نے صحرائے تھر میں چھپے اس کالے سونے کی جھلک دیکھی جس کے ساتھ سندھ کی آنکھوں میں 28برس سے پلنے والا خواب حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس کالے سونے سے صوبے کے عوام بالخصوص تھر کے عوام کی جدید سہولیات سے عاری زندگی کو دنیائے جدت کے تقاضاؤں سے ہم آہنگ کرسکتی ہے یا سندھ کے دیگر وسائل کی طرح ملکی روایت کے عین مطابق اس خزینے کو بھی خطہ اور مقامی آبادی کے بجائے دیگران کی ترقی کا ذریعہ بن جانے کی روش کو اپناتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سندھ کی ترقی نہیںکہلائے گی کیونکہ سندھ کی ترقی سندھ کے لوگوں کے مفاد، خوشحالی اور ترقی سے منسلک ہے ۔ جس منصوبے سے سندھ کے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا تو وہ منصوبہ سندھ کی ترقی نہیں کہلا سکتا۔
اس ذخیرے کا پتہ 1990ء میں پہلی مرتبہ لگایا گیا جب امریکی جیالاجیکل سروے کرنے والے ادارے نے تھر میں پانی کے ذخائر سے متعلق تحقیق شروع کی، اس تحقیق میں انھوں نے ٹیوب ویلز کے لیے بورنگ کی اور سب سے نچلی تہہ جو کہ تقریباً 600فٹ پر ہے ، سے تقریباً 50فٹ گہرائی میں کوئلے کے ذخائر کی موجودگی کا علم ہونے کے بعدسیمپل نکالا گیا تو پتا چلا کہ یہ لگنائٹ قسم کا کوئلہ ہے جو 9000اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ، جس کی مقدار 175ارب ٹن بتائی گئی اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے۔
اس کوئلے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دیگر ممالک میں بجلی بنانے کے استعمال میں آنے والے کوئلے سے زیادہ مقدار میں بجلی بنانے کی شرح رکھنے کے ساتھ ساتھ کم ماحولیاتی گرمی پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن عالمی ملکوں نے اس ذخیرے کی دریافت میں تعاون کیا تھا وہی قوتیںاپنے کوئلے سے بہترخصوصیات کا حامل کوئلہ دیکھ کر اس منصوبے کی مخالف بن کر سامنے آئیں۔
جیسے سال 2010میںعالمی بینک کے تعاون سے تھر کے کوئلے کو ترقی دلانے کے لیے ایک فزیبلٹی اسٹڈی کا آغاز کیا گیا تھا جس کے لیے عالمی بینک نے 2کروڑ 80لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا مگر فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے پیسے دینے سے انکار کردیا اور فزیبلٹی ادھوری چھوڑنی پڑی۔ عالمی بینک اور امریکا نے اس کی مخالفت میں کہا کہ اس سے ماحولیاتی گرین ہاؤس گرمی پد میں اضافہ ہوگا لیکن اسی وقت عالمی بینک نے کوئلے کو ترقی دلانے کے لیے ساؤتھ آفریقا کو ایک اسکیم کے لیے پیسے دیے۔
اگر تھر کا کوئلہ عالمی گرمی پد میں اضافے کا باعث بنتا ہے تو ساؤتھ افریقا کا کوئلہ کیا ماحول پر اثرات نہیں ڈالے گا ؟ اسی کو دوہرا معیار کہتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کوئلے سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کی جارہی ہے جیسے آسٹریلیامیں 80فیصد ہے ، چین 78فیصد، بھارت 53فیصد ، جرمنی 47فیصد ، برطانیہ میں 30فیصد ہے اور مخالفت کرنے والے ملک امریکا میں 50فیصد ہے جب کہ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی شرح صرف 0.1 فیصد ہوگی ۔ جب کہ دنیا میں سراسری طورپر 46فیصد ہے ۔ تو اگر دیگر ممالک کوئلے سے اتنے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرتے ہیں تو ماحول خراب نہیں ہوتا تو پاکستان کی جانب سے صرف 0.1فیصد سے کیسے ماحول تباہ ہو سکتا ہے؟
یہ تو تھی بین الاقوامی مخالفت اور رخنہ ڈالنے کی کہانی لیکن ملکی سطح پر بھی اس منصوبے سے عناد برتا گیا ہے ۔ 28سال پہلے دریافت ہونے والے ان ذخائر کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی بلکہ سی سی آئی میں بارہا پیش ہونے کے باوجود اس منصوبے کو کبھی سر فہرست نہیں رکھا گیا ۔ جس کا سبب دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئلے سے بجلی پیدا کرلیتے ہیں تو پھر شاید بجلی بنانے کے لیے ڈیموں کی ضرورت نہیں رہے گی اور ڈیم صرف پانی ذخیرہ کرنے کے کام آئیں گے۔ جب کہ کوئلہ تھر یعنی سندھ میں ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں سندھ کا بڑا حصہ ہوگا اورتوانائی کے محکمہ پردیگر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، اس لیے تھر کے کوئلے سے سوتیلا پن دکھایا گیا ۔ لیکن بجلی کی طلب میں اضافہ اور پیداوار میں مسلسل کمی نے وفاق کو بھی سوچنے پر مجبور کیا اور بالآخر 2014میںتھر کے کوئلے کو نکالنے کے کام کے آغازکا عزم کیا گیا۔
تھر میں چھپے کوئلے کی اتنی بڑی مقدار کو ایک دم نکالنا ناممکن تھا اس لیے حکومت ِ سندھ نے اس کے صرف دسویں حصے کو ترقی دلانے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔ جسے 13بلاکس میں تقسیم کیا گیا اور ہر بلاک کسی ایک کمپنی کو الاٹ کیا گیا مگر وہ کمپنیاں اس میں سے کوئلہ نہیں نکال پائیں ۔ جس کی وجہ وہاں مطلوبہ تعمیراتی و دیگر سہولیات کی کمی تھی جیسے ایئرپورٹ ، بڑی شاہراہیں ، پانی ، نکاسی کا نظام ، ٹرانسمیشن لائین وغیرہ وغیرہ ۔
حکومت ِ سندھ نے ان سہولیات کی فراہمی کے لیے کوششیں شروع کیں اور ساتھ ہی اینگرو کمپنی سے اشتراک کرکے ایک کمپنی بنائی، جس کا نام ''اینگرو کول مائننگ کمپنی '' رکھا گیا اور 13بلاکس میں سے ایک بلاک یعنی بلاک II-،کی ترقی کا ذمہ اس کمپنی کے سپردکیا۔ اس کمپنی نے چین کو اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے دعوت دی ۔ کافی تگ و دو کے بعد چین رضامند ہوا اور ایک منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر ایک جگہ سے کوئلہ نکال کر اس میں سے 660میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پروگرام بنایا گیا جسے بعد میں 5000میگا واٹ تک پہنچایا جائے گا۔یہ کوئی آسان کام نہ تھا ۔
کوئلہ زمین میں 600فٹ نیچے تھا اور بیچ میں تین پانی کی تہہ تھیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ بڑی سے بڑی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک پہلے قدم کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ملکی ترقی کی منزل کی اس راہ میں سندھ حکومت نے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی طرف سے 100اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی 15فٹ بالائی ریت کو ہٹانے کے کام کا آغاز بطور پہلے قدم کے کیا ۔
کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا رَسی سے بھی ڈرتا ہے، ماضی میں سندھ کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع میں فوقیت دینے اور منصوبوں پر وفاق کی بے جا اجارہ داری کی وجہ سے سندھ کے عوام تھر کول منصوبے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے لگے اور کئی قسم کے اعتراضات نے سر اٹھایا جن میں سر فہرست روزگار میں مقامی لوگوں کا حصہ ، علاقائی ترقی اور خطے پر پڑنیوالے معاشی ، معاشرتی، سماجی ، ثقافتی اور ارضی و ماحولیاتی اثرات وغیرہ ہیں۔ جن میں سے کوئلہ نکالنے کے دوران نکلنے والے پانی کو جمع کرنے کے لیے تعمیر کیے جانے والے گوڑانو ڈیم کی سائٹ پر اٹھنے والا اعتراض بڑے پیمانے پر اخبارات کی زینت بنا ۔
ان اعتراضات پر سندھ حکومت اور اینگرو کمپنی کے مشترکہ قائم کردہ ادارے اینگرو کول مائننگ کمپنی کی جانب سے اس منصوبے کو غیرمتنازعہ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ۔ جن میں سر فہرست گوڑانو ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرکے اب گوڑانو سے شمال مشرق کی جانب دیوار دی جارہی ہے جب کہ گوڑانو کے عقب میں تین چار کلومیٹر دور ایک اور ذخیرہ تیار کیا جارہا ہے ۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مقامی لوگوں کے اعتراضات کی طرف توجہ دیکر پروجیکٹ میں تبدیلی کی روایت قائم کی گئی ہے ،لیکن سننے میں آرہا ہے کہ کوئلے سے نکلنے والے کیمیائی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے جانے والے اس ڈیم کو لے کر مقامی آبادی کو اب تک خدشات ہیں جن کا تدارک دیرپا نتائج کے لیے لازمی ہوگا۔ جہاں تک روزگار کے مواقع میں مقامی آبادی کے تناسب کی بات ہے تو اب تک آنے والے سرکاری اعداد و شمار کیمطابق اس منصوبے میں تھر کے مقامی افراد کی بالخصوص اور سندھ بھر کے ڈومیسائل رکھنے والے لوگوں کی عمومی طور پرشرح زیادہ نظر آتی ہے۔
ساتھ ہی پروجیکٹ کی جانب سے تربیتی پروگرامزاور اسکالر شپ پروگرامز کا آغاز کرکے اس میں بھی اولیت تھر کے مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے ۔ایک اور بات جو منفرد نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ تھر جو صدیوں سے روایتی دیہاتی ماحول کا مسکن تھا وہاں اب تیزی سے معاشرتی و معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ اس منصوبہ کی بدولت یہاں کی پس ماندہ ترین خواتین بھی روزگار کے مواقع حاصل کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک کارگر جُز کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں۔
اس منصوبے کے ماتحت ایک فلاحی ادارے تھر فاؤنڈیشن کی جانب سے تھر کے مقامی ہنروں جیسے رلی ، ٹوپیاں ، کھیس ، شالیں اور قالین وغیرہ بنانے کی صنعت کو مارکیٹ تک عام رسائی کے مواقع فراہم کرنا ، سلائی سینٹروں کا قیام اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی نے جہاں لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں ، وہیں پروجیکٹ کی جانب سے دیگر پروگراموں کے ذریعے یہاں کی خواتین کو ڈمپر جیسی ہیوی وہیکلز کی ڈرائیونگ کی تربیت کے بعد ملازمت دینا بھی یہاں کے کاروبار ِ زندگی میں تبدیلی کی لہر پیدا کرچکا ہے ۔ جب کہ انجینئرز و دیگر فنی شعبوں کی تربیت کا مقامی سطح پر انتظام بھی یہاں کے نوجوانوں کو دنیاکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا کرنے کا ایک اہم پروگرام ہے۔
یہاں کے فطرتی حسن کی علامت موروں کی دیکھ بھال اور بنتے بدلتے ریٹ کے ٹیلوں کے حسن کو دنیا میں اجاگر کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی آبشاروں کے مرکز کارونجھر کی ترقی پر توجہ دینا بھی ایک مثبت قدم ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر مواصلات کی جدید سہولیات اور زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس کی تنصیب اور علاج معالجے کی جدید سہولیات کی فراہمی کے لیے تھر کول منصوبے کی جانب سے ایک بڑے اسپتال کی تیاری بھی تھر کی زندگی کو جدت کی راہوں پر گامزن کرنے کی جانب پیش قدمی ثابت ہورہی ہے ۔
ان تمام اقدامات و سہولیات کے آغاز کو دیکھ کر امید کی کرن نظر آئی ہے کہ سالوں سے قحط زدہ علاقے کے طور پر جانا جانے والا تھر اب خوشحالی و ترقی کی شاہراہ پر محوئے سفر ہوچکا ہے جو آگے چل کرنہ صرف اس خطے بلکہ سندھ بھر کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنے گا بلکہ ملکی معیشت کے استحکام کی علامت بھی ثابت ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کو وفاقی و صوبائی سطح پر اولیت دیکر جلد سے جلد مکمل طور پر فعال کیا جائے اور یہاں جدید یونیورسٹیز و تحقیقی اداروں کا جال بھی بچھایا جائے تاکہ یہ خطہ مستقل ترقی کی ضمانت بن جائے ۔جس کے لیے تھر کی ترقی و خوشحالی کو سر فہرست رکھنا ہمارا مقصد ہونا چاہیے اور ایسا نہ ہونے پائے کہ جیسے بدین سے کئی عشروں سے تیل جیسی اہم معدنیات کا ذخیرہ ، سانگھڑ سے تیل و گیس کے ذخائر اور قادرپور گھوٹکی سے بڑی مقدار والے گیس کے ذخائر نکلنے کے باوجود وہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ اور اگر ایسا ہوا توسندھ کی یہ احساس محرومی کی ایک نئی داستان ہوگی جو کہ کسی بھی صورت ملکی استحکام کے حق میں نہ ہوگی ۔
وہ خوشحالی جو زراعت ، معدنیات و ایجادات کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ و بحر ِ سندھ کی مثالی ڈیمو گرافی کی وجہ سے قائم تھی ۔ پھر صنعتی انقلاب نے بھی اپنے پَر یہاں پھیلائے اور یہاں قائم ہونے والے کارخانوں اور یہاں سے بڑے پیمانے پر ملنے والی دور ِ جدیدکی ضروری اشیائے زندگی جیسے تیل ، گیس ، ہیرے جواہر ، سنگ مرمر، کوئلہ اورکیمیائی دھاتوں نے تو سندھ کو سونے کی چڑیا بنادیا لیکن حال ہی میں دنیا کے نویں بڑے صحرا تھر سے نکلنے والے کوئلے نے تو سندھ کو دنیا کے بڑے ترقی یافتہ ممالک جیسے امریکا اور چین و آسٹریلیا وغیرہ کے مقابلے میں لاکھڑا کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بے بہا خزانے کو ہم کس طرح بروئے کار لاتے ہیں اور کیسے سندھ و پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا ذریعہ بناتے ہیں ۔
سندھ و پاکستان کی آئندہ کئی صدیوں تک ترقی و خوشحالی کی ضمانت کا دروازہ اس وقت کھلا جب گذشتہ ہفتے یعنی 10جون2018کوتھر میں چھپے کوئلے کو نکالنے کے لیے کی جانے والی کھدائی اپنی منزل کے پہلے زینے یعنی کوئلے کی پہلی تہہ تک پہنچی تو دنیا نے صحرائے تھر میں چھپے اس کالے سونے کی جھلک دیکھی جس کے ساتھ سندھ کی آنکھوں میں 28برس سے پلنے والا خواب حقیقت بن کر سامنے آیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت اس کالے سونے سے صوبے کے عوام بالخصوص تھر کے عوام کی جدید سہولیات سے عاری زندگی کو دنیائے جدت کے تقاضاؤں سے ہم آہنگ کرسکتی ہے یا سندھ کے دیگر وسائل کی طرح ملکی روایت کے عین مطابق اس خزینے کو بھی خطہ اور مقامی آبادی کے بجائے دیگران کی ترقی کا ذریعہ بن جانے کی روش کو اپناتی ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ سندھ کی ترقی نہیںکہلائے گی کیونکہ سندھ کی ترقی سندھ کے لوگوں کے مفاد، خوشحالی اور ترقی سے منسلک ہے ۔ جس منصوبے سے سندھ کے لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا تو وہ منصوبہ سندھ کی ترقی نہیں کہلا سکتا۔
اس ذخیرے کا پتہ 1990ء میں پہلی مرتبہ لگایا گیا جب امریکی جیالاجیکل سروے کرنے والے ادارے نے تھر میں پانی کے ذخائر سے متعلق تحقیق شروع کی، اس تحقیق میں انھوں نے ٹیوب ویلز کے لیے بورنگ کی اور سب سے نچلی تہہ جو کہ تقریباً 600فٹ پر ہے ، سے تقریباً 50فٹ گہرائی میں کوئلے کے ذخائر کی موجودگی کا علم ہونے کے بعدسیمپل نکالا گیا تو پتا چلا کہ یہ لگنائٹ قسم کا کوئلہ ہے جو 9000اسکوائر کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے ، جس کی مقدار 175ارب ٹن بتائی گئی اور یہ دنیا کا ساتواں بڑا کوئلے کا ذخیرہ ہے۔
اس کوئلے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دیگر ممالک میں بجلی بنانے کے استعمال میں آنے والے کوئلے سے زیادہ مقدار میں بجلی بنانے کی شرح رکھنے کے ساتھ ساتھ کم ماحولیاتی گرمی پیدا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جن عالمی ملکوں نے اس ذخیرے کی دریافت میں تعاون کیا تھا وہی قوتیںاپنے کوئلے سے بہترخصوصیات کا حامل کوئلہ دیکھ کر اس منصوبے کی مخالف بن کر سامنے آئیں۔
جیسے سال 2010میںعالمی بینک کے تعاون سے تھر کے کوئلے کو ترقی دلانے کے لیے ایک فزیبلٹی اسٹڈی کا آغاز کیا گیا تھا جس کے لیے عالمی بینک نے 2کروڑ 80لاکھ ڈالر دینے کا وعدہ کیا مگر فزیبلٹی اسٹڈی کے لیے پیسے دینے سے انکار کردیا اور فزیبلٹی ادھوری چھوڑنی پڑی۔ عالمی بینک اور امریکا نے اس کی مخالفت میں کہا کہ اس سے ماحولیاتی گرین ہاؤس گرمی پد میں اضافہ ہوگا لیکن اسی وقت عالمی بینک نے کوئلے کو ترقی دلانے کے لیے ساؤتھ آفریقا کو ایک اسکیم کے لیے پیسے دیے۔
اگر تھر کا کوئلہ عالمی گرمی پد میں اضافے کا باعث بنتا ہے تو ساؤتھ افریقا کا کوئلہ کیا ماحول پر اثرات نہیں ڈالے گا ؟ اسی کو دوہرا معیار کہتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کوئلے سے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کی جارہی ہے جیسے آسٹریلیامیں 80فیصد ہے ، چین 78فیصد، بھارت 53فیصد ، جرمنی 47فیصد ، برطانیہ میں 30فیصد ہے اور مخالفت کرنے والے ملک امریکا میں 50فیصد ہے جب کہ تھر کے کوئلے سے بجلی بنانے کی شرح صرف 0.1 فیصد ہوگی ۔ جب کہ دنیا میں سراسری طورپر 46فیصد ہے ۔ تو اگر دیگر ممالک کوئلے سے اتنے بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرتے ہیں تو ماحول خراب نہیں ہوتا تو پاکستان کی جانب سے صرف 0.1فیصد سے کیسے ماحول تباہ ہو سکتا ہے؟
یہ تو تھی بین الاقوامی مخالفت اور رخنہ ڈالنے کی کہانی لیکن ملکی سطح پر بھی اس منصوبے سے عناد برتا گیا ہے ۔ 28سال پہلے دریافت ہونے والے ان ذخائر کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی بلکہ سی سی آئی میں بارہا پیش ہونے کے باوجود اس منصوبے کو کبھی سر فہرست نہیں رکھا گیا ۔ جس کا سبب دیگر وجوہات کے ساتھ ساتھ یہ بھی رہا ہے کہ اگر کوئلے سے بجلی پیدا کرلیتے ہیں تو پھر شاید بجلی بنانے کے لیے ڈیموں کی ضرورت نہیں رہے گی اور ڈیم صرف پانی ذخیرہ کرنے کے کام آئیں گے۔ جب کہ کوئلہ تھر یعنی سندھ میں ہونے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں سندھ کا بڑا حصہ ہوگا اورتوانائی کے محکمہ پردیگر کی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، اس لیے تھر کے کوئلے سے سوتیلا پن دکھایا گیا ۔ لیکن بجلی کی طلب میں اضافہ اور پیداوار میں مسلسل کمی نے وفاق کو بھی سوچنے پر مجبور کیا اور بالآخر 2014میںتھر کے کوئلے کو نکالنے کے کام کے آغازکا عزم کیا گیا۔
تھر میں چھپے کوئلے کی اتنی بڑی مقدار کو ایک دم نکالنا ناممکن تھا اس لیے حکومت ِ سندھ نے اس کے صرف دسویں حصے کو ترقی دلانے کی کوششوں کا آغاز کیا ۔ جسے 13بلاکس میں تقسیم کیا گیا اور ہر بلاک کسی ایک کمپنی کو الاٹ کیا گیا مگر وہ کمپنیاں اس میں سے کوئلہ نہیں نکال پائیں ۔ جس کی وجہ وہاں مطلوبہ تعمیراتی و دیگر سہولیات کی کمی تھی جیسے ایئرپورٹ ، بڑی شاہراہیں ، پانی ، نکاسی کا نظام ، ٹرانسمیشن لائین وغیرہ وغیرہ ۔
حکومت ِ سندھ نے ان سہولیات کی فراہمی کے لیے کوششیں شروع کیں اور ساتھ ہی اینگرو کمپنی سے اشتراک کرکے ایک کمپنی بنائی، جس کا نام ''اینگرو کول مائننگ کمپنی '' رکھا گیا اور 13بلاکس میں سے ایک بلاک یعنی بلاک II-،کی ترقی کا ذمہ اس کمپنی کے سپردکیا۔ اس کمپنی نے چین کو اس منصوبے پر سرمایہ کاری کے لیے دعوت دی ۔ کافی تگ و دو کے بعد چین رضامند ہوا اور ایک منصوبے کے تحت ابتدائی طور پر ایک جگہ سے کوئلہ نکال کر اس میں سے 660میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا پروگرام بنایا گیا جسے بعد میں 5000میگا واٹ تک پہنچایا جائے گا۔یہ کوئی آسان کام نہ تھا ۔
کوئلہ زمین میں 600فٹ نیچے تھا اور بیچ میں تین پانی کی تہہ تھیں۔ لیکن کہتے ہیں کہ بڑی سے بڑی منزل تک پہنچنے کے لیے ایک پہلے قدم کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ملکی ترقی کی منزل کی اس راہ میں سندھ حکومت نے اپنی سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی طرف سے 100اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی 15فٹ بالائی ریت کو ہٹانے کے کام کا آغاز بطور پہلے قدم کے کیا ۔
کہتے ہیں کہ سانپ کا ڈسا رَسی سے بھی ڈرتا ہے، ماضی میں سندھ کے منصوبوں میں بڑے پیمانے پر ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں کو روزگار کے مواقع میں فوقیت دینے اور منصوبوں پر وفاق کی بے جا اجارہ داری کی وجہ سے سندھ کے عوام تھر کول منصوبے کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے لگے اور کئی قسم کے اعتراضات نے سر اٹھایا جن میں سر فہرست روزگار میں مقامی لوگوں کا حصہ ، علاقائی ترقی اور خطے پر پڑنیوالے معاشی ، معاشرتی، سماجی ، ثقافتی اور ارضی و ماحولیاتی اثرات وغیرہ ہیں۔ جن میں سے کوئلہ نکالنے کے دوران نکلنے والے پانی کو جمع کرنے کے لیے تعمیر کیے جانے والے گوڑانو ڈیم کی سائٹ پر اٹھنے والا اعتراض بڑے پیمانے پر اخبارات کی زینت بنا ۔
ان اعتراضات پر سندھ حکومت اور اینگرو کمپنی کے مشترکہ قائم کردہ ادارے اینگرو کول مائننگ کمپنی کی جانب سے اس منصوبے کو غیرمتنازعہ بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے گئے ۔ جن میں سر فہرست گوڑانو ڈیم کے ڈیزائن میں تبدیلی کرکے اب گوڑانو سے شمال مشرق کی جانب دیوار دی جارہی ہے جب کہ گوڑانو کے عقب میں تین چار کلومیٹر دور ایک اور ذخیرہ تیار کیا جارہا ہے ۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ مقامی لوگوں کے اعتراضات کی طرف توجہ دیکر پروجیکٹ میں تبدیلی کی روایت قائم کی گئی ہے ،لیکن سننے میں آرہا ہے کہ کوئلے سے نکلنے والے کیمیائی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنائے جانے والے اس ڈیم کو لے کر مقامی آبادی کو اب تک خدشات ہیں جن کا تدارک دیرپا نتائج کے لیے لازمی ہوگا۔ جہاں تک روزگار کے مواقع میں مقامی آبادی کے تناسب کی بات ہے تو اب تک آنے والے سرکاری اعداد و شمار کیمطابق اس منصوبے میں تھر کے مقامی افراد کی بالخصوص اور سندھ بھر کے ڈومیسائل رکھنے والے لوگوں کی عمومی طور پرشرح زیادہ نظر آتی ہے۔
ساتھ ہی پروجیکٹ کی جانب سے تربیتی پروگرامزاور اسکالر شپ پروگرامز کا آغاز کرکے اس میں بھی اولیت تھر کے مقامی لوگوں کو دی جارہی ہے ۔ایک اور بات جو منفرد نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ تھر جو صدیوں سے روایتی دیہاتی ماحول کا مسکن تھا وہاں اب تیزی سے معاشرتی و معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ۔ اس منصوبہ کی بدولت یہاں کی پس ماندہ ترین خواتین بھی روزگار کے مواقع حاصل کرکے اپنی زندگی کی گاڑی کو دھکیلنے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایک کارگر جُز کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہیں۔
اس منصوبے کے ماتحت ایک فلاحی ادارے تھر فاؤنڈیشن کی جانب سے تھر کے مقامی ہنروں جیسے رلی ، ٹوپیاں ، کھیس ، شالیں اور قالین وغیرہ بنانے کی صنعت کو مارکیٹ تک عام رسائی کے مواقع فراہم کرنا ، سلائی سینٹروں کا قیام اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی نے جہاں لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں ، وہیں پروجیکٹ کی جانب سے دیگر پروگراموں کے ذریعے یہاں کی خواتین کو ڈمپر جیسی ہیوی وہیکلز کی ڈرائیونگ کی تربیت کے بعد ملازمت دینا بھی یہاں کے کاروبار ِ زندگی میں تبدیلی کی لہر پیدا کرچکا ہے ۔ جب کہ انجینئرز و دیگر فنی شعبوں کی تربیت کا مقامی سطح پر انتظام بھی یہاں کے نوجوانوں کو دنیاکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا کرنے کا ایک اہم پروگرام ہے۔
یہاں کے فطرتی حسن کی علامت موروں کی دیکھ بھال اور بنتے بدلتے ریٹ کے ٹیلوں کے حسن کو دنیا میں اجاگر کرنے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ یہاں کے قدرتی آبشاروں کے مرکز کارونجھر کی ترقی پر توجہ دینا بھی ایک مثبت قدم ہے۔ اس کے علاوہ یہاں پر مواصلات کی جدید سہولیات اور زندگی کی بنیادی سہولیات جیسے میٹھے پانی کی فراہمی کے لیے آر او پلانٹس کی تنصیب اور علاج معالجے کی جدید سہولیات کی فراہمی کے لیے تھر کول منصوبے کی جانب سے ایک بڑے اسپتال کی تیاری بھی تھر کی زندگی کو جدت کی راہوں پر گامزن کرنے کی جانب پیش قدمی ثابت ہورہی ہے ۔
ان تمام اقدامات و سہولیات کے آغاز کو دیکھ کر امید کی کرن نظر آئی ہے کہ سالوں سے قحط زدہ علاقے کے طور پر جانا جانے والا تھر اب خوشحالی و ترقی کی شاہراہ پر محوئے سفر ہوچکا ہے جو آگے چل کرنہ صرف اس خطے بلکہ سندھ بھر کی ترقی و خوشحالی کا باعث بنے گا بلکہ ملکی معیشت کے استحکام کی علامت بھی ثابت ہوگا۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس منصوبے کو وفاقی و صوبائی سطح پر اولیت دیکر جلد سے جلد مکمل طور پر فعال کیا جائے اور یہاں جدید یونیورسٹیز و تحقیقی اداروں کا جال بھی بچھایا جائے تاکہ یہ خطہ مستقل ترقی کی ضمانت بن جائے ۔جس کے لیے تھر کی ترقی و خوشحالی کو سر فہرست رکھنا ہمارا مقصد ہونا چاہیے اور ایسا نہ ہونے پائے کہ جیسے بدین سے کئی عشروں سے تیل جیسی اہم معدنیات کا ذخیرہ ، سانگھڑ سے تیل و گیس کے ذخائر اور قادرپور گھوٹکی سے بڑی مقدار والے گیس کے ذخائر نکلنے کے باوجود وہاں کے لوگ غربت کی لکیر سے بھی نیچے کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں ۔ اور اگر ایسا ہوا توسندھ کی یہ احساس محرومی کی ایک نئی داستان ہوگی جو کہ کسی بھی صورت ملکی استحکام کے حق میں نہ ہوگی ۔