عدلیہ کے فرائض ہم آج تک صحیح طرح ادا نہیں کرسکے چیف جسٹس
از خود نوٹس لینے سے صحت و تعلیم کے شعبوں میں بہتری آئی، چیف جسٹس
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ عدلیہ کے فرائض ہم آج تک صحیح طرح انجام نہیں دے پائے۔
حیدرآباد میں وکلاء نے چیف جسٹس پاکستان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تاہم تقریب کے دوران لا پتہ افراد کے گھر والوں نے اسٹیج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے باعث سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کو کچھ دیر کے لیے اپنا خطاب روکنا بھی پڑا۔
بعدازاں عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ کو جو فرائض سونپے گئے ہیں شاید ہم آج تک اسے صحیح طرح انجام نہیں دے پائے، ہمارا ضابطہ فوجداری 1908 کا بنا ہوا ہے ، جبکہ 2018 میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں، جلد انصاف کے لئے قانون میں اصلاحات لانی ہوں گی، قانون سازی کرنا مقننہ کا کام ہے، امید ہے آنے والے قانون ساز ان چیزوں کو مد نظر رکہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملوں پر خاموش نہیں رہوں گا، سپریم کورٹ کے صحت و تعلیم کے شعبے میں از خود نوٹس لینے سے بہتری آئی ہے، لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کام کر رہی ہے، اگر تھانہ دار وقت پر مقدمہ درج اور ایمانداری سے تفتیش کرے تو پھر عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم ہو، تفتیش میں سقم کے باعث ملزمان رہا ہوتے ہیں اور الزام ہم پر آتا ہے۔
حیدرآباد میں وکلاء نے چیف جسٹس پاکستان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تاہم تقریب کے دوران لا پتہ افراد کے گھر والوں نے اسٹیج کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔ احتجاج کے باعث سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ کو کچھ دیر کے لیے اپنا خطاب روکنا بھی پڑا۔
بعدازاں عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ عدلیہ کو جو فرائض سونپے گئے ہیں شاید ہم آج تک اسے صحیح طرح انجام نہیں دے پائے، ہمارا ضابطہ فوجداری 1908 کا بنا ہوا ہے ، جبکہ 2018 میں حالات تبدیل ہو چکے ہیں، جلد انصاف کے لئے قانون میں اصلاحات لانی ہوں گی، قانون سازی کرنا مقننہ کا کام ہے، امید ہے آنے والے قانون ساز ان چیزوں کو مد نظر رکہیں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی انسانی حقوق کے معاملوں پر خاموش نہیں رہوں گا، سپریم کورٹ کے صحت و تعلیم کے شعبے میں از خود نوٹس لینے سے بہتری آئی ہے، لاپتہ افراد کے معاملے پر بھی سپریم کورٹ کام کر رہی ہے، اگر تھانہ دار وقت پر مقدمہ درج اور ایمانداری سے تفتیش کرے تو پھر عدالتوں سے مقدمات کا بوجھ کم ہو، تفتیش میں سقم کے باعث ملزمان رہا ہوتے ہیں اور الزام ہم پر آتا ہے۔