پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک کو درپیش چیلنجز

مقابلے کے لیے محنت کش تنظیموں میں اشتراک عمل کی ضرورت ہے


Habib Uddin Jinaidi April 30, 2013
مقابلے کے لیے محنت کش تنظیموں میں اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

عام طور پر شہدائے شکاگو کی جدوجہد کو زیادہ سے زیادہ آٹھ گھنٹے یومیہ اوقات کار مقرر کرانے کی جدوجہد سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ تصور غلط اور اس عظیم جدوجہد کے مقاصد کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک نے دنیا بھر کے مظلوم طبقات کو ایک نئی سوچ ، فکر، دانش اور سرخ پرچم سے روشناس کرایا، جس نے بعدازاں سرمایہ دارانہ نظام کے کھوکھلے پن کا پردہ چاک کیا اور اس کی جڑوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کے نتیجے میں سرمایہ دار دنیا مجبور ہوئی کہ وہ غریبوں اور محنت کشوں کو بھی انسان تصور کرے اور انہیں وہ حقوق دیے جوکہ بحیثیت انسان ان کے پیدائشی حقوق ہیں۔ آج دنیا کے ترقی یافتہ، ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک میں کروڑوں بلکہ اربوں کی تعداد میں موجود محنت کشوں کو جو حقوق اور سہولیات حاصل ہیں بلاشبہہ وہ شہدائے شکاگو کی قربانیوں کاہی ثمر ہیں۔

پاکستان میں ہم آج اگر محنت کش ملازمت پیشہ طبقہ کے حالات اور ٹریڈ یونین تحریک پر نظر ڈالیں تو صورت حال بہرکیف تشویش ناک ہی نظر آتی ہے۔ فوجی ڈکٹیٹرز کے ادوار میں نہ صرف یہ کہ جمہوریت، جمہوری تحریکوں بالخصوص ترقی پسند پارٹیوں اور قوتوں کو نقصان پہنچا، بلکہ آمروں نے اپنے مختلف ادوار میں ٹریڈ یونین تحریک پر بھی مختلف ادوار میں زبردست حملے کیے اور اسے تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ اس حوالے سے یہ الزام دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک سیاسی پارٹی پر بھی عاید ہوتا ہے کہ اس نے بھی محنت کش عوام اور ٹریڈ یونین تحریک کے ساتھ کسی مختلف روّیہ کا اظہار نہیں کیا۔ یہ بھی وہ تاریخی عوامل اور وجوہات ہیں کہ جن کی بنا پر پاکستان میں ٹریڈ یونین تحریک دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں خاصی پیچھے رہ گئی۔

ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ صنعتی ترقی یا انڈسٹریلائزیشن کی عدم موجودگی میں ایک موثر، متحرک اور فعال ٹریڈ یونین تحریک کا تصور محال ہے، کیوں کہ صنعتوں کے ارتقاء اور ٹریڈ یونین تحریک کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ گذشتہ تقریباً 15سال میں وطن عزیز میں صنعتی ترقی اور اس کا پھیلاؤ کاغذ کی حد تک بے شک موجود ہو، مگر عملی طور پر زیادہ نظر نہیں آیا۔ نئے کارخانے خاص طور پر وہ کہ جن کے ذریعے بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہوں، قائم ہوتے ہوئے نظر نہیں آئے۔ سال ہاسال سے بند تقریباً ساڑھے تین ہزار کارخانے آج بھی اسی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اس تمام تر صورت حال کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا ملک غیرملکی مصنوعات کی کھپت کی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ اندھا دھند پرائیویٹائزیشن کے ذریعے ریاست کو انتہائی منافع بخش اداروں (جن میں بالخصوص پرائیویٹائزڈ بینک شامل ہیں) کی ملکیت سے محروم کرکے انہیں سرمایہ داروں کے ہاتھوں فروخت کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کے ذریعے فروخت کیے گئے بعض کارخانے نج کاری کے بعد بند کردیے گئے اور ان کی املاک اور زمینیں بیچ دی گئیں۔

پاکستان میں پرائیویٹائزیشن سے قبل اور اس کے بعد تقریباً تمام پرائیویٹائزڈ اداروں میں نام نہاد رائٹ سائزنگ کے نام پر لاکھوں ملازمین کو بے روز گاری کے عفریت کے حوالے کردیا گیا۔ اور یوں ہمارے ہاں نج کاری اور بے روزگاری کو لازم و ملزوم تصور کیا جاتا ہے۔ دہشت گردی، انتہاپسندی، لا اینڈ آرڈر کے سنگین مسائل، ناقص منصوبہ بندی، فیکٹری اور کارخانوں سے جرائم پیشہ گروہ اور ان کے پشت پناہوں کی بھتاخوری نے بھی صنعت کاری کے عمل کو نقصان پہنچایا۔ اس صورت حال کے منفی اثرات نے پورے ملک، بالخصوص صوبہ سندھ کی صنعتوں کو شدید متاثر کیا، جہاں صنعتی پھیلاؤ تقریباً منجمد ہوکر رہ گیا۔ صنعت کار طبقے کی یہ بھی شکایت ہے کہ سندھ کے انڈسٹریل ایریا زمیں انفرا اسٹرکچر پر بھی توجہ نہیں دی گئی جس کی وجہ سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ صوبہ سندھ سے تقریباً 30فیصد انڈسٹری اس صوبے سے دوسرے نسبتاً محفوظ صوبہ بلکہ بیرون ملک بھی منتقل ہوچکی ہیں۔



صنعت کاروں، سرمایہ کاروں اور پرائیویٹ سیکٹر کے اداروں کی انتظامیہ کی اکثریت نے اس صورت حال کے منفی اثرات کو ملازمین اور اپنے اداروں کے محنت کشوں کہ سر تھوپ دیا ۔ چھانٹیاں، برطرفیاں، نہایت ہی کم اجرتیں، غیر مستقل ملازمتیں، ٹھیکے داری نظام کا عفریت اس کی مثالیں ہیں۔ ہمارے ملک کے پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینک تو اس ضمن میں تمام حدود پھلانگ گئے۔ انہوں نے مستقل ملازمتوں کی فراہمی کا سلسلہ تقریباً ختم ہی کردیا۔

بلیو کالر کیڈر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں ملازمین کو ایک ہی دن میں بیک جنبش قلم برطرف کرکے ان ملازمتوں کو آؤٹ سورس کردیا گیا۔ انتہائی ظالمانہ طور پر کنٹریکٹ اور تھرڈ پارٹی ایمپلائمنٹ سسٹم اپنالیا اور اس طرح پاکستان کے بینکوں کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ملازمتوں میں بھرتی کے لیے ایک مڈل مین کا کردار جنم دیا گیا۔ ان افراد نے اپنی کمپنیز قائم کرلی ہیں اور اب ان ہی کے توسط سے تقریباً تمام پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینک ملازمتیں فراہم کرتے ہیں اور یہ ''مڈل مین'' اس ظالمانہ نظام کے مزے لوٹ رہے اور لاکھوں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔

ان پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکوں نے ملازمین کی سہولت میں بھی زبردست کٹوتیاں کیں۔ سالانہ بونس کی رقم کی حد ملازمین کے لیے منجمد کردی۔ طبی سہولیات میں کٹوتیاں کی گئیں، بعض کیڈرز کے ملازمین کے والدین کو فیملی کی تعریف سے خارج کرکے انہیں طبی سہولت سے محروم کردیا گیا۔ پینشن کی رقم فریز کردی ۔ اس طرح عملی طور پر پینشن کا نظام ختم ہی سمجھیں۔ بعض پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکوں نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ انتہائی شاطرانہ اور خاموش حکمت عملی پر عمل درآمد کرتے ہوئے اس امر کا اہتمام کرلیا ہے کہ آئندہ پانچ سات سال کے دوران ان اداروں سے ٹریڈ یونین کا نام و نشان ازخود مٹ جائے گا۔

واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ تقریباً 20 سال سے ان اداروں میں یونینائزڈ کیڈر، جو کہ کلیریکل اور بلیو کالر ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے، کی بھرتیاں بند اور انہیں آؤٹ سورس کردیا گیا ہے، جب کہ اُن فرائض کی ادائیگی کے لیے جو کہ کلریکل عملہ ادا کرتا تھا، کسٹمر سروس آفیسرز، کیش آفیسرز اور اسسٹنٹ منیجر کے نام سے بھرتیاں کی جاتی ہیں، تاکہ یہ ملازمین جوکہ درحقیقت یونینائزڈ کیڈر ہی سے تعلق رکھتے ہیں، انہیں قانون کی غلط تشریح کرتے ہوئے ٹریڈ یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے حق سے محروم کردیا جائے۔ اس طرح ایک تیر سے دو شکار کیے جاسکیں۔

قانون کی یہ دھجیاں پاکستان کے پرائیویٹائزڈ کمرشیل بینکوں میں کھلے عام اڑائی جارہی ہیں۔ اس طرح پاکستان میں ٹریڈ یونینز کی ممبر شپ دن بدن گرتی جارہی ہے۔ ادارے اور کارخانے ''ٹریڈ یونین فری زون'' میں تبدیل ہورہے ہیں اور ٹریڈ یونین تحریک کے انحطاط کا سب سے بڑا ایک سبب یہ بھی ہے۔

ٹریڈ یونین تحریک کو اس انحطاط سے چھٹکارے اور صورت حال سے نمٹنے اور آگے بڑھنے کے لیے یقینی طور پر جدوجہد کے مختلف مراحل طے کرنا ہوں گے۔ موجودہ منظر نامہ اتنا گمبھیر اور مسائل ومشکلات سے پُر ہے کہ تنہا کسی ایک بڑے گروپ آف ٹریڈ یونینز یا اُن کی حمایت میں کھڑا ہونے والی ترقی پسند سیاسی پارٹی کے لیے بھی اس صورت حال سے نبردآزما ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ آئندہ آنے والی پارلیمان کو بعض متفقہ فیصلہ کرنا ہوں گے۔

اُسے یہ طے کرنا ہوگا کہ ملک کے چاروں صوبوں میں بلا تفریق انڈسٹریلائزیشن کی جائے گی اور اُس کے لیے ماحول سازگار بنایا جائے گا۔ پرائیویٹائزیشن کے عمل کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے خسارہ میں چلنے والے سرکاری تحویل کے اداروں اور کارخانوں کی ری اسٹرکچرنگ کرکے انہیں انتہائی پروفیشنل انتظامیہ کے حوالے کیا جائے گا اور اس طرح انہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ نقصان میں چلنے والے اداروں کے نئے بورڈ آف ڈائریکٹر ز مقرر کیے جائیں گے اور اس معاملے میں بھی صرف اور صرف میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔

سیاسی مداخلت یا کسی بھی طبقہ کے اثرورسوخ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ ہمارے ملک میں ٹریڈ یونینز اور اُن کی فیڈریشنز کا ایک وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ ایسی ٹریڈ یونینز بھی موجود ہیں جن کا الحاق قومی سطح پر کسی بھی ٹریڈ یونین فیڈریشن سے قائم نہیں مگر ان کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ ملک بھر میں پھیلی ہوئی یہ موثر یا غیرموثر تنظیمیں اپنا اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے، کم سے کم نکات پر متفق ہوجائیں تو ٹریڈ یونین محاذ پر ایک طویل عرصہ کے بعد یہ بہت بڑی پیش رفت ہوگی۔

پھر یہاں سے آگے بڑھا جاسکتا ہے اور اس کے دُوررَس مثبت اثرات ٹریڈ یونین تحریک، محنت کشوں کے حالات کار اور صنعتی ترقی پر مرتّب ہوں گے۔ ٹریڈ یونین کاڈر کو بھی نوجوان تعلیم یافتہ خواتین وحضرات اور نئے خون کی ضرورت ہے۔ محنت کشوں کے مسائل اور مزدور تحریک کے مقاصد کو اجاگر کرنے کے لیے انٹرنیٹ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر تمام ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا جانا چاہیے۔

محنت کش طبقہ کو ہمارے ہاں ایک سازش کے تحت پارلیمانی سیاست اور پارلیمانی اداروں سے دور رکھا گیا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے مطالبہ کیا جائے کہ قانون سازی کے ذریعہ پارلیمان کے تمام ایوانوں میں محنت کشوں کے نمائندگان کے لیے نشستیں مختص کی جائیں۔ یہ سارے کام کرنے کے لیے محنت کش تنظیموں میں وسیع مشاورت، اتفاق رائے اور اشتراک عمل کی ضرورت ہے۔ انگریزی زبان کا پرانا مقولہ ہے کہ"UNITED WE STAND,DIVIDED WE FALL" یوم مئی 2013کا پیغام بھی یہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |