ڈیرہ غازی خانNA171 پارٹیوں کے بجائے شخصیات کو برتری
مسلم لیگ(ن) کے سردار امجد فاروق خان کھوسہ، پیپلز پارٹی کےامیوار خواجہ شیراز محمود، جمعیت علمااسلام (ف) کے سردار۔۔۔
پنجاب، پختونخوا اور سرحدی پٹی پر نیم قبائلی علاقہ سے جڑا ضلع ڈیرہ غازی خان کا رقبہ کے لحاظ سے طویل ترین قومی حلقہ 171 کا بیشتر حصہ قبائلی و دیہی اور دریائی دیہات پر مشتمل ہے اس حلقہ میں زیادہ ترقبائلی اور شخصیات کی بنیاد پر ووٹ دیا جاتا ہے۔
جہاں کسی امیدوار کی فتح یا شکست کا دارومدار امیدوار کی سیاسی وابستگی اور انتخابی نشان سے قطع نظر بلوچوں کے دو اہم قبائل قیصرانی اور بزدار کی حمایت یا مخالفت کانتیجہ رہا ہے۔ اس قومی حلقہ کی شمالی حدود کا آغاز صوبہ خیبر پختونخواکی سرحد جبکہ مغربی حدود صوبہ بلوچستان سے شروع ہوتی ہیں تاہم دریائے سندھ کی متوازی مشرقی حد ضلع لیہ اور جنوبی پٹی قومی حلقہ 173 پر جاکر ختم ہوتی ہے۔
اس حلقہ کے دیگر اہم قبائل اور برادریوں میں ملغانی، نتکانی، نصوحہ، کھتران، میرانی، ڈونہ، کلاچی، خواجہ، لاشاری، مندرانی، چچہ پٹھان، سید، جسکانی، لعلوانی، سنجرانی، چجھڑا، ملک اور دیگر شامل ہیں۔ حلقہ کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی کے ذرائع آمدن کا انحصار کھیتی باڑی ، لائیو سٹاک ، فارمنگ پر ہے جبکہ میدانی علاقوں میں شرح خواندگی ستر فیصد کے لگ بھگ ہے تاہم قبائلی علاقوں میں یہ شرح کمی کا شکار ہے جہاں بالخصوص دور دراز دشوار گزار راستوں ، سفری مشکلات اور تعلیمی اداروں میں سٹاف کی قلت کے سبب خواتین میں خواندگی کی شرح بہت ہیکم ہے۔
قبائلی علاقہ میں اسی فیصد سے زیادہ آبادی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پال کر زندگی گزارتی ہے تاہم یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے قبائلی پٹی جو کوہ سلیمان کے طویل سلسلے پر مشتمل ہے سے میدانی علاقوں میں ہجرت کا عمل کافی زورو شور سے جاری ہے جس کی وجہ غربت، پسماندگی، تعلیم و صحت کی سہولیات کا فقدان، خشک سالی اور ذرائع آمدورفت کی ناکافی سہولیات ہیں۔ اسی طرح میدانی اور قبائلی علاقہ کے مرد حضرات کی ایک معقول تعداد بسلسلہ روزگار صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقیم ہے۔
کیونکہ اس حلقہ میں صنعت ، تجارت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں عوامی مطالبات میں ٹبی قیصرانی / لیہ کے درمیان دریائے سندھ پر پل کی تعمیر ، تونسہ بلوچستان سڑک کی تکمیل ، ڈھوڈک پلانٹ کی بحالی و توسیع شامل ہیں ضلع ڈیرہ غازی خان کے اس قومی حلقہ میں دیگر دو قومی حلقوں کی نسبت رجسٹرڈ ووٹرز کی تعدادکم ہے ۔مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 20 ہزار 535 ہے جس میں مردو ووٹرز کی تعداد 183554اور خواتین ووٹرز کی تعداد 136981ہے اس طرح پی پی 240کے مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز 131008میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 75145اور خواتین ووٹرز کی تعداد 55863ہے اور پی پی 241میں 82095مرد اور 64283خواتین ووٹرز کے ساتھ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 146378ہے کم اور بکھری ہوئی آبادی کے لیے مناسب مقدار میں پولنگ سٹیشن اور پولنگ بوتھز کا قیام اس حلقہ میں ہمیشہ سے ایک اہم ترین ایشو رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان دور دراز علاقہ میں پھیلی ہوئی کم آبادی کو پولنگ سٹیشن نزدیک ترین علاقوں میں قائم کرنے کی سہولت فراہم کرنے سے قطع نظر ایک ہی اوسط فارمولے کے تحت پولنگ سٹیشن قائم کرنے کی سکیم پر عمل کرتا چلا آرہا ہے جس سے ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے طویل ترین سفر اور سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے کم کاسٹنگ کی شرح مشاہد ے میں آئی ہے ۔حالیہ انتخابات کے لئے الیکشن مہم زوروں پر ہے اور عام انتخابات فائنل رائونڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کی طرف سے سردار امجد فاروق خان کھوسہ اپنی سنجیدہ سیاست اور علاقہ میں جوڑ توڑ کی مہارت کے سبب مضبوط امیدوار ہیں جبکہ2002 ء اور 2008ء کے انتخابات میں صوبائی حلقہ پی پی 242 سے رکن پنجاب اسمبلی آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کی وجہ سے اُن کی مقبولیت بہت زیادہ ہے ۔
اپنی اس نشست پی پی 242 پر اُنہوں نے مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی سردار محسن عطا کھوسہ کو میدان میں اُتارا ہے اور اُن کے ساتھ پی پی 241 پر سابق ایم پی اے سردار فتح محمد خان بزدار کے فرزند سردار محمد عثما ن خان بزدار ہیں جو پہلے تحصیل ناظم قبائلی علاقہ رہ چکے ہیں ۔اب پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں اُن کا قبیلہ پہلے 2002اور 2008 میں اُنکے والد سردار فتح محمد خان بزدار کو ایم پی اے منتخب کراچُکا ہے ۔ اب سردار محمد عثمان خان بزدار کس حد تک علاقہ کی دیگر اقوام اور اپنی قوم کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں اس کا فیصلہ 11 مئی کو ہو گا۔ تاہم اُنکے این اے 171 پر سردار امجد فاروق خان کھوسہ کے لئے ووٹر ز کو قائل کرنے سے سردار امجد خان کھوسہ کی الیکشن مہم مضبوط ہورہی ہے۔ صوبائی حلقہ 240پر قیصرانی قبیلہ کی اکثریت ہے ۔
اور قیصرانی قبیلہ میں قوم پرستی کا جذبہ شدت سے موجود ہے۔قیصرانی قبیلہ کی باقاعدہ نمائندگی کا آغاز 1960میں سردار منظور احمد خان قیصرانی کے رُکن اسمبلی منتخب ہونے سے ہوا جبکہ 1990اور 1997میں سردار ظہور احمد قیصرانی رکن اسمبلی منتخب ہو ئے اور 2002ء اور2008ء میں اُن کے بیٹے سردار میر بادشاہ قیصرانی رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اس حلقہ کے ووٹرز کی ترجیحا ت دیگر حلقوں کی نسبت مختلف ہیں اور مذہبی ووٹ کا بھی بڑا اثر ہے جبکہ بارڈر ملٹری پولیس فیکٹر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس علاقے کے تمن قیصرانی او ر تمن بزدار کے لوگ اس فورس میں ملازم ہیں ۔
2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں مسلسل ایم پی اے منتخب ہونے والے اور جعلی ڈگری کیس کا شکارہونے والے سردار میر بادشاہ قیصرانی اوپر تلے پارٹیاں بدلتے ہوئے اب جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر این اے 171 اور پی پی 240 پر امیدوار ہیں جبکہ پی پی 240 پر اُنکے مقابلے میں بیرسٹر امام بخش قیصرانی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں جو اُنکے روایتی حریف ہیں ۔ این اے 171 پر تیسرے بڑے او ر اہم امیدوار سابق وزیر مملکت خواجہ شیراز محمود ہیں جو 2002ء اور2008ء میں ق لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اب پیپلز پارٹی ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ اُنکے والدخواجہ کمال الدین انور(مرحوم) 1988ء میں آئی جے آئی اور 1993ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔
اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے سابق ضلعی صدر خواجہ مدثر المحمود اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 171 سے امیدوار ہیں او ر عمران خان کی پارٹی کی مقبولیت اور نوجوان طبقہ کی سپورٹ کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی دو مرتبہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لے چکے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ موجودہ صورتحال او ر سیاسی وعلاقائی فضا ء کے تناظر میں الیکشن 2013کے سلسلہ میں 11مئی کو این اے 171 پر مسلم لیگ (ن) کے سردار امجد فاروق خان کھوسہ، پیپلز پارٹی کے امیدوار خواجہ شیراز محمود ، جمعیت علماء اسلام (ف)کے سردار میر بادشاہ خا ن قیصرانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔
جہاں کسی امیدوار کی فتح یا شکست کا دارومدار امیدوار کی سیاسی وابستگی اور انتخابی نشان سے قطع نظر بلوچوں کے دو اہم قبائل قیصرانی اور بزدار کی حمایت یا مخالفت کانتیجہ رہا ہے۔ اس قومی حلقہ کی شمالی حدود کا آغاز صوبہ خیبر پختونخواکی سرحد جبکہ مغربی حدود صوبہ بلوچستان سے شروع ہوتی ہیں تاہم دریائے سندھ کی متوازی مشرقی حد ضلع لیہ اور جنوبی پٹی قومی حلقہ 173 پر جاکر ختم ہوتی ہے۔
اس حلقہ کے دیگر اہم قبائل اور برادریوں میں ملغانی، نتکانی، نصوحہ، کھتران، میرانی، ڈونہ، کلاچی، خواجہ، لاشاری، مندرانی، چچہ پٹھان، سید، جسکانی، لعلوانی، سنجرانی، چجھڑا، ملک اور دیگر شامل ہیں۔ حلقہ کی ساٹھ فیصد سے زیادہ آبادی کے ذرائع آمدن کا انحصار کھیتی باڑی ، لائیو سٹاک ، فارمنگ پر ہے جبکہ میدانی علاقوں میں شرح خواندگی ستر فیصد کے لگ بھگ ہے تاہم قبائلی علاقوں میں یہ شرح کمی کا شکار ہے جہاں بالخصوص دور دراز دشوار گزار راستوں ، سفری مشکلات اور تعلیمی اداروں میں سٹاف کی قلت کے سبب خواتین میں خواندگی کی شرح بہت ہیکم ہے۔
قبائلی علاقہ میں اسی فیصد سے زیادہ آبادی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ پال کر زندگی گزارتی ہے تاہم یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں سے قبائلی پٹی جو کوہ سلیمان کے طویل سلسلے پر مشتمل ہے سے میدانی علاقوں میں ہجرت کا عمل کافی زورو شور سے جاری ہے جس کی وجہ غربت، پسماندگی، تعلیم و صحت کی سہولیات کا فقدان، خشک سالی اور ذرائع آمدورفت کی ناکافی سہولیات ہیں۔ اسی طرح میدانی اور قبائلی علاقہ کے مرد حضرات کی ایک معقول تعداد بسلسلہ روزگار صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقیم ہے۔
کیونکہ اس حلقہ میں صنعت ، تجارت اور روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں عوامی مطالبات میں ٹبی قیصرانی / لیہ کے درمیان دریائے سندھ پر پل کی تعمیر ، تونسہ بلوچستان سڑک کی تکمیل ، ڈھوڈک پلانٹ کی بحالی و توسیع شامل ہیں ضلع ڈیرہ غازی خان کے اس قومی حلقہ میں دیگر دو قومی حلقوں کی نسبت رجسٹرڈ ووٹرز کی تعدادکم ہے ۔مجموعی طور پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 3 لاکھ 20 ہزار 535 ہے جس میں مردو ووٹرز کی تعداد 183554اور خواتین ووٹرز کی تعداد 136981ہے اس طرح پی پی 240کے مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز 131008میں سے مرد ووٹرز کی تعداد 75145اور خواتین ووٹرز کی تعداد 55863ہے اور پی پی 241میں 82095مرد اور 64283خواتین ووٹرز کے ساتھ مجموعی رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 146378ہے کم اور بکھری ہوئی آبادی کے لیے مناسب مقدار میں پولنگ سٹیشن اور پولنگ بوتھز کا قیام اس حلقہ میں ہمیشہ سے ایک اہم ترین ایشو رہا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان دور دراز علاقہ میں پھیلی ہوئی کم آبادی کو پولنگ سٹیشن نزدیک ترین علاقوں میں قائم کرنے کی سہولت فراہم کرنے سے قطع نظر ایک ہی اوسط فارمولے کے تحت پولنگ سٹیشن قائم کرنے کی سکیم پر عمل کرتا چلا آرہا ہے جس سے ووٹرز کو ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے طویل ترین سفر اور سفری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے کم کاسٹنگ کی شرح مشاہد ے میں آئی ہے ۔حالیہ انتخابات کے لئے الیکشن مہم زوروں پر ہے اور عام انتخابات فائنل رائونڈ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس حلقہ میں مسلم لیگ ن کی طرف سے سردار امجد فاروق خان کھوسہ اپنی سنجیدہ سیاست اور علاقہ میں جوڑ توڑ کی مہارت کے سبب مضبوط امیدوار ہیں جبکہ2002 ء اور 2008ء کے انتخابات میں صوبائی حلقہ پی پی 242 سے رکن پنجاب اسمبلی آزاد حیثیت میں منتخب ہونے کی وجہ سے اُن کی مقبولیت بہت زیادہ ہے ۔
اپنی اس نشست پی پی 242 پر اُنہوں نے مسلم لیگ ن کے دیرینہ ساتھی سردار محسن عطا کھوسہ کو میدان میں اُتارا ہے اور اُن کے ساتھ پی پی 241 پر سابق ایم پی اے سردار فتح محمد خان بزدار کے فرزند سردار محمد عثما ن خان بزدار ہیں جو پہلے تحصیل ناظم قبائلی علاقہ رہ چکے ہیں ۔اب پہلی مرتبہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر امیدوار ہیں اُن کا قبیلہ پہلے 2002اور 2008 میں اُنکے والد سردار فتح محمد خان بزدار کو ایم پی اے منتخب کراچُکا ہے ۔ اب سردار محمد عثمان خان بزدار کس حد تک علاقہ کی دیگر اقوام اور اپنی قوم کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں اس کا فیصلہ 11 مئی کو ہو گا۔ تاہم اُنکے این اے 171 پر سردار امجد فاروق خان کھوسہ کے لئے ووٹر ز کو قائل کرنے سے سردار امجد خان کھوسہ کی الیکشن مہم مضبوط ہورہی ہے۔ صوبائی حلقہ 240پر قیصرانی قبیلہ کی اکثریت ہے ۔
اور قیصرانی قبیلہ میں قوم پرستی کا جذبہ شدت سے موجود ہے۔قیصرانی قبیلہ کی باقاعدہ نمائندگی کا آغاز 1960میں سردار منظور احمد خان قیصرانی کے رُکن اسمبلی منتخب ہونے سے ہوا جبکہ 1990اور 1997میں سردار ظہور احمد قیصرانی رکن اسمبلی منتخب ہو ئے اور 2002ء اور2008ء میں اُن کے بیٹے سردار میر بادشاہ قیصرانی رُکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے اس حلقہ کے ووٹرز کی ترجیحا ت دیگر حلقوں کی نسبت مختلف ہیں اور مذہبی ووٹ کا بھی بڑا اثر ہے جبکہ بارڈر ملٹری پولیس فیکٹر بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کیونکہ اس علاقے کے تمن قیصرانی او ر تمن بزدار کے لوگ اس فورس میں ملازم ہیں ۔
2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں مسلسل ایم پی اے منتخب ہونے والے اور جعلی ڈگری کیس کا شکارہونے والے سردار میر بادشاہ قیصرانی اوپر تلے پارٹیاں بدلتے ہوئے اب جے یو آئی (ف) کے ٹکٹ پر این اے 171 اور پی پی 240 پر امیدوار ہیں جبکہ پی پی 240 پر اُنکے مقابلے میں بیرسٹر امام بخش قیصرانی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہیں جو اُنکے روایتی حریف ہیں ۔ این اے 171 پر تیسرے بڑے او ر اہم امیدوار سابق وزیر مملکت خواجہ شیراز محمود ہیں جو 2002ء اور2008ء میں ق لیگ کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اب پیپلز پارٹی ٹکٹ پر امیدوار ہیں۔ اُنکے والدخواجہ کمال الدین انور(مرحوم) 1988ء میں آئی جے آئی اور 1993ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہوئے تھے۔
اس حلقہ میں پیپلز پارٹی کے سابق ضلعی صدر خواجہ مدثر المحمود اب تحریک انصاف کے ٹکٹ پر این اے 171 سے امیدوار ہیں او ر عمران خان کی پارٹی کی مقبولیت اور نوجوان طبقہ کی سپورٹ کے ساتھ اپنی الیکشن مہم چلا رہے ہیں۔ وہ پہلے بھی دو مرتبہ عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر حصہ لے چکے ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں کرسکے ۔ موجودہ صورتحال او ر سیاسی وعلاقائی فضا ء کے تناظر میں الیکشن 2013کے سلسلہ میں 11مئی کو این اے 171 پر مسلم لیگ (ن) کے سردار امجد فاروق خان کھوسہ، پیپلز پارٹی کے امیدوار خواجہ شیراز محمود ، جمعیت علماء اسلام (ف)کے سردار میر بادشاہ خا ن قیصرانی کے درمیان کانٹے دار مقابلہ متوقع ہے۔