سرمایہ پرستی کا سفینہ
اُس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج دولت کی تقسیم میں وہ نا انصافی یا تو موجود نہ ہوتی یا بے حد کم ہوگئی ہوتی۔
ISLAMABAD:
کیسی عجیب بات ہے کہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ایک ایسے ملک میں ایک ظالمانہ واقعے کی بنیاد پر قرار دیا گیا جو تب سے اب تک پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا گڑھ ہے ۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ پراپیگنڈہ وہیں سے ہوتا ہے لیکن یہ دونوں ''نعمتیں'' تیسری دنیا کے ملکوں میں داخل ہوتے ہی اپنی صورت اور راستہ بدل لیتی ہیں اور وہاں کے ایک بڑے شاعر اقبال کو آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ !
دنیا ہے تریِ منتظرِ روزِ مکافات
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں کارل مارکس اور لینن کی زبان سے اقبال نے سرمایہ داری نظام اور مزدور کی محنت کے حوالے سے ایسی گہری اور چونکا دینے والی باتیں کی ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے استعماری اور سرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کے لیے ایک لعنت تصور کرتے تھے اور اس مسئلے میں اُن کا مشاہدہ اور مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ اُن کی کہی ہوئی بعض باتیں ناسٹر ڈیمس کی پیش گوئیوں کی طرح آپ کو حیران کر دیتی ہیں۔ سرمایہ و محنت کے حوالے سے کہے گئے ان کے اشعار سے پہلے میں ان کی ایک ایسی ہی پیش گوئی اور کارل مارکس کا جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے ایک بیان درج کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں ہی باتیں یکم مئی کی معنویت سے جڑی ہوئی ہیں، علامہ کا مصرعہ ہے کہ
مے فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
اگر چہ کارل مارکس کا نسلی تعلق بھی اسی قبیلہ یہود سے تھا مگر اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے وہ دنیا میں غریب کے حقوق کے لیے ایک ایسی موثر اور توانا آواز بن کر اُبھرا کہ بے ساختہ اقبال نے اُس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ''نیست پیغمبر و لیکن دربغل دار د کتاب'' ۔ اب آیئے اُسی کارل مارکس کا ایک بیان دیکھتے ہیں، وہ جمہوریت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے۔
''ہر پانچ سال بعد محنت کش عوام کو یہ سرمایہ دارانہ نظام موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے استحصال کے لیے استحصالیوں کے کسی گروہ کو منتخب کرلیں''
مارکس کے خیال میں Have Nots یعنی اپنے حقوق سے محروم انسان مل مزدور ہوں یا کھیت مزدور یا معاشرے کے دیگر غریب افراد ان سب کی غربت کی اصل وجہ وہ ایک ظالم اور استحصالی طبقہ ہے جو اُن کے حصے کا رزق ایک انسان کش نظام کے ذریعے ان کے ہاتھوں سے چھین کر اپنی تجوریوں میں بھرتا چلا جار ہا ہے اور اس مظلوم اکثریت کو دھوکہ اور فریب دینے اور اپنا استحصال جاری رکھنے کے لیے نت نئے فلسفے اور نظام ایجاد کرتا رہتا ہے ۔ میر تقی میرؔ نے برّصغیر کی مخصوص صورتِ حال کے پیش نظر اسی بات کو کچھ اس طرح سے بیان کیا تھا کہ
امیر زادوں سے دِلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
اور آج کے زمانے میں یہی بات اس طرح سے بھی کہی گئی کہ۔
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے!
یوں تو علامہ اقبالؔ کی شاعری کے ہر دور میں ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور بندئہ مزدور کے حق میں بہت سی نظمیں ملتی ہیں لیکن اُن کی طویل نظم ''خضر راہ'' میں ''سرمایہ و محنت'' کے ذیلی عنوان کے تحت لکھے گئے ان کے یہ چند اشعار میرے نزدیک حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان میں اقبال نے گویا اپنا سینہ کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ سو یہ چند اشعار یکم مئی 2013کی نذر
بندئہ مزدور کو جاکر مِرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیامِ کائنات
٭٭٭
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
٭٭٭
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
٭٭٭
ساحرِ الموت نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تُو اے بے خبر سمجھا اِسے شاخِ نبات
٭٭٭
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خوابگی نے خوب چن چن کر بنائے مُسکرات
٭٭٭
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے
سُکر کی لذت میں تو لُٹوا گیا نقدِ حیات
٭٭٭
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات
٭٭٭
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں ترے دور کا آغاز ہے
رُوس اور چین کے عظیم انقلابات اور ان کے زیرِ اثر زمین کے نقشے پر جگہ جگہ مزدور کے حقوق کے حوالے سے اُٹھنے والی تحریکوں سے گزشتہ تقریباََ 85 برس میں دنیا کے مختلف خطوں میں انسانی حقوق کے لیے جو جدوجہد ہوئی ہے، اُس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج دولت کی تقسیم میں وہ نا انصافی یا تو موجود نہ ہوتی یا بے حد کم ہوگئی ہوتی۔
جس کے ذریعے سے سرمایہ دارانہ نظام ایک مخصوص اقلیت کی تجوریاں بھرنے کے لیے اربوں انسانوں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ سومیرے نزدیک مزدوروں کے اس عالمی دن کو ایک Reminder کے طور پر دیکھنا اور منانا چاہیے یعنی اسے منزل کے بجائے منزل نما سمجھا جائے تو زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔
کیسی عجیب بات ہے کہ یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ایک ایسے ملک میں ایک ظالمانہ واقعے کی بنیاد پر قرار دیا گیا جو تب سے اب تک پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے بڑا گڑھ ہے ۔ انسانی حقوق اور جمہوریت کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ پراپیگنڈہ وہیں سے ہوتا ہے لیکن یہ دونوں ''نعمتیں'' تیسری دنیا کے ملکوں میں داخل ہوتے ہی اپنی صورت اور راستہ بدل لیتی ہیں اور وہاں کے ایک بڑے شاعر اقبال کو آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ ۔
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ !
دنیا ہے تریِ منتظرِ روزِ مکافات
انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آغاز میں کارل مارکس اور لینن کی زبان سے اقبال نے سرمایہ داری نظام اور مزدور کی محنت کے حوالے سے ایسی گہری اور چونکا دینے والی باتیں کی ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مغرب کے استعماری اور سرمایہ دارانہ نظام کو انسانیت کے لیے ایک لعنت تصور کرتے تھے اور اس مسئلے میں اُن کا مشاہدہ اور مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ اُن کی کہی ہوئی بعض باتیں ناسٹر ڈیمس کی پیش گوئیوں کی طرح آپ کو حیران کر دیتی ہیں۔ سرمایہ و محنت کے حوالے سے کہے گئے ان کے اشعار سے پہلے میں ان کی ایک ایسی ہی پیش گوئی اور کارل مارکس کا جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کے حوالے سے ایک بیان درج کرنا چاہتا ہوں کہ دونوں ہی باتیں یکم مئی کی معنویت سے جڑی ہوئی ہیں، علامہ کا مصرعہ ہے کہ
مے فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے
اگر چہ کارل مارکس کا نسلی تعلق بھی اسی قبیلہ یہود سے تھا مگر اپنے انقلابی خیالات کی وجہ سے وہ دنیا میں غریب کے حقوق کے لیے ایک ایسی موثر اور توانا آواز بن کر اُبھرا کہ بے ساختہ اقبال نے اُس کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ ''نیست پیغمبر و لیکن دربغل دار د کتاب'' ۔ اب آیئے اُسی کارل مارکس کا ایک بیان دیکھتے ہیں، وہ جمہوریت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتا ہے۔
''ہر پانچ سال بعد محنت کش عوام کو یہ سرمایہ دارانہ نظام موقع دیتا ہے کہ وہ اپنے استحصال کے لیے استحصالیوں کے کسی گروہ کو منتخب کرلیں''
مارکس کے خیال میں Have Nots یعنی اپنے حقوق سے محروم انسان مل مزدور ہوں یا کھیت مزدور یا معاشرے کے دیگر غریب افراد ان سب کی غربت کی اصل وجہ وہ ایک ظالم اور استحصالی طبقہ ہے جو اُن کے حصے کا رزق ایک انسان کش نظام کے ذریعے ان کے ہاتھوں سے چھین کر اپنی تجوریوں میں بھرتا چلا جار ہا ہے اور اس مظلوم اکثریت کو دھوکہ اور فریب دینے اور اپنا استحصال جاری رکھنے کے لیے نت نئے فلسفے اور نظام ایجاد کرتا رہتا ہے ۔ میر تقی میرؔ نے برّصغیر کی مخصوص صورتِ حال کے پیش نظر اسی بات کو کچھ اس طرح سے بیان کیا تھا کہ
امیر زادوں سے دِلّی کے مت ملا کر میرؔ
کہ ہم غریب ہوئے ہیں انھی کی دولت سے
اور آج کے زمانے میں یہی بات اس طرح سے بھی کہی گئی کہ۔
خدا کا رزق تو ہرگز زمیں پر کم نہیں یارو
مگر یہ کاٹنے والے! مگر یہ بانٹنے والے!
یوں تو علامہ اقبالؔ کی شاعری کے ہر دور میں ہمیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور بندئہ مزدور کے حق میں بہت سی نظمیں ملتی ہیں لیکن اُن کی طویل نظم ''خضر راہ'' میں ''سرمایہ و محنت'' کے ذیلی عنوان کے تحت لکھے گئے ان کے یہ چند اشعار میرے نزدیک حرفِ آخر کی حیثیت رکھتے ہیں کہ ان میں اقبال نے گویا اپنا سینہ کھول کر سامنے رکھ دیا ہے۔ سو یہ چند اشعار یکم مئی 2013کی نذر
بندئہ مزدور کو جاکر مِرا پیغام دے
خضر کا پیغام کیا ، ہے یہ پیامِ کائنات
٭٭٭
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دارِ حیلہ گر
شاخِ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات
٭٭٭
دستِ دولت آفریں کو مزد یوں ملتی رہی
اہلِ ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات
٭٭٭
ساحرِ الموت نے تجھ کو دیا برگِ حشیش
اور تُو اے بے خبر سمجھا اِسے شاخِ نبات
٭٭٭
نسل، قومیت، کلیسا، سلطنت، تہذیب، رنگ
خوابگی نے خوب چن چن کر بنائے مُسکرات
٭٭٭
کٹ مرا ناداں خیالی دیوتائوں کے لیے
سُکر کی لذت میں تو لُٹوا گیا نقدِ حیات
٭٭٭
مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار
انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور، مات
٭٭٭
اُٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں ترے دور کا آغاز ہے
رُوس اور چین کے عظیم انقلابات اور ان کے زیرِ اثر زمین کے نقشے پر جگہ جگہ مزدور کے حقوق کے حوالے سے اُٹھنے والی تحریکوں سے گزشتہ تقریباََ 85 برس میں دنیا کے مختلف خطوں میں انسانی حقوق کے لیے جو جدوجہد ہوئی ہے، اُس کے نتیجے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج دولت کی تقسیم میں وہ نا انصافی یا تو موجود نہ ہوتی یا بے حد کم ہوگئی ہوتی۔
جس کے ذریعے سے سرمایہ دارانہ نظام ایک مخصوص اقلیت کی تجوریاں بھرنے کے لیے اربوں انسانوں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے مگر ایسا ہو نہیں سکا۔ سومیرے نزدیک مزدوروں کے اس عالمی دن کو ایک Reminder کے طور پر دیکھنا اور منانا چاہیے یعنی اسے منزل کے بجائے منزل نما سمجھا جائے تو زیادہ بہتر اور مناسب ہوگا۔