یہ صرف الیکشن نہیں ہیں
اور بدقسمتی سے ہمارے الیکشن تو ہمارے شاعر والا ہنگامہ بن گئے ہیں اور نغمہ شادی ہے یا نہیں نغمہ غم ضرور ہے۔
الیکشن کا آزار گو ہر پاکستانی کو لاحق ہے بلکہ جسے اس سے بچ جانے کا کچھ خطرہ ہے وہ ضد کر رہا ہے کہ الیکشن ضرور کرایا جائے، وہ ہر حال میں الیکشن لڑے گا اور اسے ہر حال میں منعقد ہونا چاہیے تا کہ وہ الیکشن لڑ سکے۔
ہمارے بعض کر م فرما اور الیکشن لڑنے کے شوقین تو ایسے ہیں جو ابھی سے دھمکیاں بھی دے رہے ہیں کہ ان کے بغیر کوئی حکومت نہیں بنے گی اور بن گئی تو پھر چل نہیں سکے گی جب کہ ابھی تک تو الیکشن ہوئے ہی نہیں اور آنے والی اسمبلی میں کسی کی طاقت کا کوئی تعین ہی نہیں تو پھر یہ دھمکیاں کیسی۔ حضرت بھی آدھے پنجابی ہیں، انھیں پنجابی کی یہ مثل ضرور معلوم ہو گی کہ پنڈ وسیا نئی تے اچکے پہلے ہی آ گئے ہیں۔ یعنی گاؤں تو ابھی آباد ہی نہیں ہوا مگر چور چکار پہلے ہی پہنچ گئے ہیں۔ متوقع کامیاب امیدواروں کو جو حکمران بھی بن سکتے ہیں چور اچکے کہنا بڑی گستاخی ہے لیکن جب کوئی خود ہی ابھی سے اپنا مقام متعین کرنا چاہے تو کوئی کیا کہہ سکتا ہے۔
دنیا کے جمہوری ملکوں میں الیکشن ایک معمول ہیں، وہاں الیکشن منعقد ہوتے ہیں، لڑے نہیں جاتے جب کہ ہم الیکشن لڑتے ہیں اور شاید اسی لیے ہمارے الیکشن مارکٹائی سے بھرپور ایک ہنگامہ بن جاتے ہیں۔ گھر کی رونق ہمارے شاعر والی رونق ہے جو کبھی نوحہ غم ہوتی ہے تو کبھی نغمۂ شادی۔
ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق
نوحہ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی
اور بدقسمتی سے ہمارے الیکشن تو ہمارے شاعر والا ہنگامہ بن گئے ہیں اور نغمہ شادی ہے یا نہیں نغمہ غم ضرور ہے۔ ایسے خون ریز ہنگامے تو کسی الیکشن وغیرہ میں نہیں فتنہ و فساد والے ماحول میں ہوتے ہیں۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ ہمارے محافظوں اور ان کے ہمنوا سویلین نے الیکشن کے بعد کے ہنگاموں میں ملک ہی توڑ دیا جیسے ہمارے ایک حضرت ابھی سے وارننگ دے رہے ہیں کہ وہ حکومت نہیں چلنے دیں گے یعنی الیکشن کو ناکام بنا کر پاکستان کے اس گناہ سے نجات پا لیں گے اور کسے معلوم نہیں کہ ہمارے دشمن اس وقت بالکل یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے ہاں الیکشن ناکام ہوں، اول تو الیکشن کو ہونے نہ دیا جائے اور اس کے لیے انھوں نے دھماکے شروع کر دیے ہیں، دھماکے کیا ہیں پاکستان پر حملے ہیں جو صبح و شام جاری ہیں اور نہ جانے کتنے پاکستانی ان میں جاں بحق ہو رہے ہیں۔ یہ حملے بالکل ظاہر ہے کہ ہمارا پرانا اور نسلی دشمن کرا رہا ہے۔ ہم اپنی میتوں کو صرف دفنا رہے ہیں اور بس البتہ ہر بار کوئی بیان ضرور جاری ہوتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت ملک کی تاریخ کی کمزور ترین حکومت کا دور ہے جس کے جسم میں طاقت نہیں اس کے انتظام میں کیا طاقت ہو گی۔ یہ ضعیف العمر حکومت بھی کسی بیرونی منظوری کی حکومت بتائی جاتی ہے اور بعض حکمران تو طے شدہ حقیقت ہے کہ امریکا کے غلام ہیں۔ اس سلسلے میں آپ ہمارے پڑوسی دوست ایران کے درویش صدر کا تازہ ترین بیان پڑھ لیں کہ بعض مغربی ممالک پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔
اگر ہم عقل کے اندھے نہیں تو ہمیں اس سازش کا مکمل احساس ہونا چاہیے کہ مغربی ممالک بھارت کو آلہ کار بنا کر پاکستان کا ٹنٹنا ہی ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ملک اور قوم ان کے لیے ہمیشہ پرابلم ہی بنی رہی ہے۔ کبھی کسی جہاد میں سرگرم ہو جاتی ہے اور کبھی ایٹم بم تک بنا لیتی ہے۔ یہ تمام حرکتیں مغرب کی غالب دنیا کے لیے پریشان کن ہیں۔ ہم نے جب سوویت یونین کا خاتمہ کیا تو سوویت روس کے ساتھ تو جو کچھ ہوا سو ہوا اس کا خطرہ سب سے زیادہ مغربی ملکوں نے محسوس کیا جو روس کے خلاف جنگ میں ہمارے اتحادی تھے اور دیکھ رہے تھے کہ یہ قوم کس قدر ایمانی طاقت رکھتی ہے اور کیا کچھ کر سکتی ہے، بس صرف ایک لیڈر کی ضرورت ہے۔
ہماری طرف سے دشنام طرازی کے مسلسل شکار جنرل ضیاء الحق نے اپنی ''تمامتر منافقتوں'' کے باوجود دنیا کی دوسری بڑی طاقت کو ٹھکانے لگا دیا اور اس جرم میں اس دوسری بڑی طاقت کے دشمن امریکا نے اسے ٹھکانے لگا دیا جب کہ امریکا کو چاہیے یہ تھا کہ وہ اس پاکستانی لیڈر کو بھی اپنا ہیرو سمجھتا مگر ہماری بدقسمتی کہ اس لیڈر میں کوئی ایسا جوہر موجود تھا کہ امریکا اس زندہ خطرے کو برداشت نہیں کر سکتا تھا، اس نے غیظ و غضب کے عالم میں اس کے ساتھ اپنے بڑے بھی مروا دیے۔ امریکا نے دیکھ لیا تھا کہ ضیاء الحق اب قدم بڑھا رہا ہے اور یہ قدم امریکا کے دوست اور مستقبل کے زبردست اتحادی بھارت کی طرف اٹھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں اس سے کشمیر کا شکار چھینا جانے والا ہے اور بھی بہت کچھ تھا افغانستان کے شمال میں مسلم ریاستوں کا ایک طویل سلسلہ تھا، بات لمبی ہو جائے گی، بہت کچھ تھا اتنا کچھ کہ امریکا گھبرا گیا اور ضیاء الحق کا وجود اس کے لیے برداشت سے باہر ہو گیا۔ اس کے پاس طاقت تھی سازشی ذہن تھا اور ضیاء الحق اس کے لیے ایک آسان شکار تھا بس وہی ہوا جو ایک کمزور قوم کے ساتھ کوئی طاقت ور کیا کرتا ہے۔
بات الیکشن سے شروع ہوئی تھی لیکن ہمیں یہ احساس رہے کہ ہمارے یہ الیکشن محض ایک حکومت کے قیام کے لیے نہیں ہیں، یہ ملک کو بچانے والے الیکشن ہیں، خود ہمارے بزرگ الیکشن کمشنر کہتے ہیں کہ یہ الیکشن ملک کی بقا کے الیکشن ہیں اور وہ بالکل صحیح کہتے ہیں ۔مغربی دنیا بقول ایرانی صدر کے ہمیں ختم کرنا چاہتی ہے اور ہم کیا چاہتے ہیں یہ تو معلوم نہیں ہے۔