یکم مئی اور سیاسی جماعتیں
یہ جماعتیں معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے معاملے پر خاموشی کو اپنے مفادات کے لیے ضروری جانتی ہیں۔
عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں نے 29کارکنوں کو قومی اسمبلی کے انتخابات میں ٹکٹ دیے ہیں۔یوں 342 نمایندوں پر مشتمل قومی اسمبلی میں کارکنوں کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہوگئی، لہٰذا مزدوروں کے حالات کار بہتر بنانے کے لیے نئی منتخب اسمبلی سے مثبت قوانین منظور کرانے کی کوئی امید نہ رہی۔
کراچی میں مزدوروں کے حالات کار پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشور میں مزدوروں کے بارے میں اصلاحات کا ذکر تک نہیں اور زرعی اصلاحات کے بارے میں بھی مبہم تجویزیں شامل کی گئی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں Status Quo کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
اس ضمن میں یہ جماعتیں معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے معاملے پر خاموشی کو اپنے مفادات کے لیے ضروری جانتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں غریب عوام کے حالات کار پر ماتم کرتی ہوئی نظر تو آتی ہیں البتہ ان جماعتوں نے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے قوانین کے نفاذ کے بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اس وقت غریب طبقات کا سب سے اہم مسئلہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ملک کو درپیش دہشت گردی کی وجہ سے غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی شرح کم تر ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کے بحران نے بھی ملکی صنعت کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔
تمام جماعتوں نے جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف نمایاں ہیں بجلی اور گیس کے بحرانوں کے خاتمے کو اپنے اپنے منشور میں شامل تو کیا ہے مگر اس بحران کے خاتمے کے لیے جو مجوزہ منصوبے پیش کیے جارہے ہیں اگر ان پر واقعی فوری عملدرآمد ہو بھی جائے تو بھی توانائی کا بحران اگلے انتخابات کے موقعے پر ہی حل ہوگا، مگر فوری طور پر اس بحران کے حل کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا جارہا۔
دنیا کے بعض ممالک نے توانائی کے بحران میں زرعی اور صنعتی استعمال کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی کو اولین ترجیحاتی فہرست میں شامل کیا۔ بھارت میں زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے سستی اور مفت بجلی کی فراہمی کو کانگریس اوراکالی دل نے اپنے اپنے منشور میں شامل کیا تھا تاکہ زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اس طرح غریبوں کو روزگار کی فراہمی میں مدد ملی، مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے اس اہم نکتے کو نظرانداز کردیا۔
ملک میں معاہداتی نظام (کانٹریکٹ سسٹم ) بھی موجود ہے جو بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے صنعتی سیکٹر میں معاہداتی نظام نافذ ہوا۔ کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو تیسری پارٹی (Out Sourcing) کے ذریعے بھرتی کرنا شروع کیا۔ اس طرح منافع کمانے والے اداروں نے اپنے کارکنوں کو مراعات سے محروم کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا۔ جب ملک کے بڑے بڑے ادارے نجکاری کے ذریعے غیر ملکی اور ملکی مالکان کے حوالے کیے گئے تو پھر گولڈن ہینڈ شیک کی اصطلاح رائج ہوئی۔
یہ صورتحال مسلم لیگ کے رہنما میاں نواز شریف کے پہلے دور سے شروع ہوئی اور بعد ازاں دیگر برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے بھی اسی پالیسی پر عملدرآمد کیا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ جن نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں بھی وہ ملازمتوں کے کمزور نظام کی بنا پر ذہنی اور معاشی کرب میں مبتلا ہیں، جن غیر ملکی سرمایہ کاروں نے مختلف اداروں کو خریدا انھوں نے نیا سرمایہ نہیں لگایا۔ ۰ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی جو انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس کے تحت مزدور سودا کار ایجنٹ کے حق سے محروم ہوگئے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ ہوا تو اس فیصلے کی مزاحمت کرنے والے مزدوروں کی حامی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی مگر جب پیپلز پارٹی کے دور میں کے ای ایس سی میں 30,30 سال تک فرائض انجام دینے والے ہزاروں مزدورں اور افسروں کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کی حمایت کی۔
پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما جن میں تاج حیدر خصوصی طور پر نمایاں ہیں کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا برملا اظہا رکرتے رہے، یہ جدوجہد ایک سال سے زائد عرصے جاری رہی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے صدر زرداری کی ڈاکٹرائن کو قبول کرلیا مگر اسمبلی میں بیٹھی ہوئی جماعتیں اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے کو اپنی کامیابی جانتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بینکنگ کے شعبے کے ایک اہم رہنما کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا، اس طرح مسلم لیگ ن نے بھی پی آئی اے کے ایک سابق ٹریڈ یونین رہنما کو سینیٹ میں کامیاب کرایا مگر پیپلز پارٹی کے یہ سینیٹر بینکنگ سیکٹر میں ٹریڈ یونین پر پابندی پر مسلسل خاموش رہے۔
اگرچہ ان کی ہدایت پر ان کی ٹریڈ یونین کے چند کارکنوں نے کئی برسوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔ یہ رہنما ہر ٹی وی چینل پر اپنی پارٹی کی پالیسی کا دفاع کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر عجیب ستم ظریفی ہے کہ بینکنگ کی صنعت میں ٹریڈ یونین پر پابندی کے بارے میں ان رہنماؤں نے بھی کبھی منتخب ایوان میں آواز نہیں اٹھائی۔
سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی پنجاب میں مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے بجائے وہی مزدور دشمن پالیسی اختیار کی جو پیپلز پارٹی نے نافذ کی تھی۔ اس کی ایک بری مثال 2010 میں جاری ہونے والا پنجاب انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس ہے۔
یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 17 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس قانون کے ذریعے مزدوروں سے تنظیم سازی کا حق چھین لیا جب کہ آئین کا آرٹیکل 17 ہر شہری کو تنظیم سازی کا حق دیتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے اس قانون کا نوٹس نہیں لیا۔ اس ضمن میں مثبت بات یہ رہی کہ باقی صوبوں میں 2008 میں نافذ ہونے والے صنعتی تعلقات کا قانون (I.R.A) مزدوروں کو قانونی طور پر تنظیم سازی کا حق دیتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے زرعی اصلاحات کے مسئلے کو بھی کسی حد تک نظرانداز کیا ہے۔ زرعی شعبے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 93 فیصد کسان 4 ایکڑ سے بھی کم زمین کے مالک ہیں، زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی آمدنی ملک میں نافذ کم سے کم اجرت سے بھی کم ہے جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بدستور بڑھ رہی ہے۔
کسان اور ان کے اہل خانہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح بیماریوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اسکیم شروع کی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ یہ اسکیم کس حد تک کامیاب بھی رہی، یہ ایک اچھی کوشش تھی مگر اسٹیٹ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے گزشتہ 5 برسوں کے دوران غربت کی شرح بڑھنے کے بارے میں حقائق کے انکشافات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں اس بارے میں واضح حکمت عملی کا اظہار کرنا چاہیے۔ سندھ میں زمینداروں کی نجی جیلوں کا قصہ بھی خاصا پرانا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ ٹیننسی ایکٹ (Tenancy Act) 1950 میں سندھ اسمبلی سے ایک متنازعہ ترمیم منظور کرا کر جبری مشقت کو قانونی حیثیت دے دی۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے بیشتر صنعتی اداروں میں سیفٹی قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ شکاگو کے مزدوروں نے 250 سال قبل مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے جو قربانیاں دیں ان قربانیوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات ہوئیں۔
پاکستان میں بھی مزدور تحریکوں کے نتیجے میں قوانین نافذ ہوئے مگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان قوانین پر عملدرآمد ختم ہوگیا۔ آج یکم مئی، یوم مزدور کے موقعے پر سیاسی رہنما اپنے بیانات میں مزدور طبقے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تو کررہے ہیں مگر ان جماعتوں کے منشور مزدوروں اور کسانوں کے حالات کار کے بارے میں کسی اہم تبدیلی Change کے بارے میں خاموش ہیں۔
کراچی میں مزدوروں کے حالات کار پر تحقیق کرنے والے سول سوسائٹی کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بیشتر سیاسی جماعتوں کے منشور میں مزدوروں کے بارے میں اصلاحات کا ذکر تک نہیں اور زرعی اصلاحات کے بارے میں بھی مبہم تجویزیں شامل کی گئی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتیں Status Quo کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
اس ضمن میں یہ جماعتیں معاشرے میں دولت کی منصفانہ تقسیم کے معاملے پر خاموشی کو اپنے مفادات کے لیے ضروری جانتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں غریب عوام کے حالات کار پر ماتم کرتی ہوئی نظر تو آتی ہیں البتہ ان جماعتوں نے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے قوانین کے نفاذ کے بارے میں پراسرار خاموشی اختیار کرلی ہے۔ اس وقت غریب طبقات کا سب سے اہم مسئلہ بے روزگاری ہے۔ بے روزگاری کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ملک کو درپیش دہشت گردی کی وجہ سے غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کاری کی شرح کم تر ہے۔ علاوہ ازیں توانائی کے بحران نے بھی ملکی صنعت کا پہیہ جام کر رکھا ہے۔
تمام جماعتوں نے جن میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف نمایاں ہیں بجلی اور گیس کے بحرانوں کے خاتمے کو اپنے اپنے منشور میں شامل تو کیا ہے مگر اس بحران کے خاتمے کے لیے جو مجوزہ منصوبے پیش کیے جارہے ہیں اگر ان پر واقعی فوری عملدرآمد ہو بھی جائے تو بھی توانائی کا بحران اگلے انتخابات کے موقعے پر ہی حل ہوگا، مگر فوری طور پر اس بحران کے حل کے لیے کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا جارہا۔
دنیا کے بعض ممالک نے توانائی کے بحران میں زرعی اور صنعتی استعمال کے لیے بجلی اور گیس کی فراہمی کو اولین ترجیحاتی فہرست میں شامل کیا۔ بھارت میں زرعی ٹیوب ویلوں کے لیے سستی اور مفت بجلی کی فراہمی کو کانگریس اوراکالی دل نے اپنے اپنے منشور میں شامل کیا تھا تاکہ زرعی اور صنعتی پیداوار بڑھنے میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اس طرح غریبوں کو روزگار کی فراہمی میں مدد ملی، مگر پاکستان میں سیاسی جماعتوں نے اس اہم نکتے کو نظرانداز کردیا۔
ملک میں معاہداتی نظام (کانٹریکٹ سسٹم ) بھی موجود ہے جو بے روزگاری کی ایک اہم وجہ ہے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے صنعتی سیکٹر میں معاہداتی نظام نافذ ہوا۔ کمپنیوں نے اپنے ملازمین کو تیسری پارٹی (Out Sourcing) کے ذریعے بھرتی کرنا شروع کیا۔ اس طرح منافع کمانے والے اداروں نے اپنے کارکنوں کو مراعات سے محروم کرنے کا طریقہ کار اختیار کیا۔ جب ملک کے بڑے بڑے ادارے نجکاری کے ذریعے غیر ملکی اور ملکی مالکان کے حوالے کیے گئے تو پھر گولڈن ہینڈ شیک کی اصطلاح رائج ہوئی۔
یہ صورتحال مسلم لیگ کے رہنما میاں نواز شریف کے پہلے دور سے شروع ہوئی اور بعد ازاں دیگر برسر اقتدار آنے والی حکومتوں نے بھی اسی پالیسی پر عملدرآمد کیا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہوگئے۔ جن نوجوانوں کو ملازمتیں ملیں بھی وہ ملازمتوں کے کمزور نظام کی بنا پر ذہنی اور معاشی کرب میں مبتلا ہیں، جن غیر ملکی سرمایہ کاروں نے مختلف اداروں کو خریدا انھوں نے نیا سرمایہ نہیں لگایا۔ ۰ ٹریڈ یونین سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی جو انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس کے تحت مزدور سودا کار ایجنٹ کے حق سے محروم ہوگئے۔
بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ جب سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کے ای ایس سی کی نجکاری کا فیصلہ ہوا تو اس فیصلے کی مزاحمت کرنے والے مزدوروں کی حامی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی حمایت کی مگر جب پیپلز پارٹی کے دور میں کے ای ایس سی میں 30,30 سال تک فرائض انجام دینے والے ہزاروں مزدورں اور افسروں کو قانونی تقاضے پورے کیے بغیر ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تو پیپلز پارٹی کی حکومت نے کے ای ایس سی کی انتظامیہ کی حمایت کی۔
پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما جن میں تاج حیدر خصوصی طور پر نمایاں ہیں کارکنوں کے ساتھ یکجہتی کا برملا اظہا رکرتے رہے، یہ جدوجہد ایک سال سے زائد عرصے جاری رہی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے صدر زرداری کی ڈاکٹرائن کو قبول کرلیا مگر اسمبلی میں بیٹھی ہوئی جماعتیں اس اہم مسئلے کو نظرانداز کرنے کو اپنی کامیابی جانتی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے بینکنگ کے شعبے کے ایک اہم رہنما کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا، اس طرح مسلم لیگ ن نے بھی پی آئی اے کے ایک سابق ٹریڈ یونین رہنما کو سینیٹ میں کامیاب کرایا مگر پیپلز پارٹی کے یہ سینیٹر بینکنگ سیکٹر میں ٹریڈ یونین پر پابندی پر مسلسل خاموش رہے۔
اگرچہ ان کی ہدایت پر ان کی ٹریڈ یونین کے چند کارکنوں نے کئی برسوں سے کراچی پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا ہوا ہے۔ یہ رہنما ہر ٹی وی چینل پر اپنی پارٹی کی پالیسی کا دفاع کرتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے سینیٹر پیپلز پارٹی کی حکومت پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے مگر عجیب ستم ظریفی ہے کہ بینکنگ کی صنعت میں ٹریڈ یونین پر پابندی کے بارے میں ان رہنماؤں نے بھی کبھی منتخب ایوان میں آواز نہیں اٹھائی۔
سول سوسائٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے بھی پنجاب میں مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے بجائے وہی مزدور دشمن پالیسی اختیار کی جو پیپلز پارٹی نے نافذ کی تھی۔ اس کی ایک بری مثال 2010 میں جاری ہونے والا پنجاب انڈسٹریل ریلیشن آرڈیننس ہے۔
یہ آرڈیننس آئین کے آرٹیکل 17 کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس قانون کے ذریعے مزدوروں سے تنظیم سازی کا حق چھین لیا جب کہ آئین کا آرٹیکل 17 ہر شہری کو تنظیم سازی کا حق دیتا ہے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے بھی مزدوروں کے بنیادی حقوق سلب کرنے والے اس قانون کا نوٹس نہیں لیا۔ اس ضمن میں مثبت بات یہ رہی کہ باقی صوبوں میں 2008 میں نافذ ہونے والے صنعتی تعلقات کا قانون (I.R.A) مزدوروں کو قانونی طور پر تنظیم سازی کا حق دیتا ہے۔
سیاسی جماعتوں نے زرعی اصلاحات کے مسئلے کو بھی کسی حد تک نظرانداز کیا ہے۔ زرعی شعبے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 93 فیصد کسان 4 ایکڑ سے بھی کم زمین کے مالک ہیں، زرعی شعبے سے تعلق رکھنے والے کسانوں کی آمدنی ملک میں نافذ کم سے کم اجرت سے بھی کم ہے جس کے نتیجے میں دیہی علاقوں میں غربت کی شرح بدستور بڑھ رہی ہے۔
کسان اور ان کے اہل خانہ غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اسی طرح بیماریوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی اسکیم شروع کی تھی۔ اس سے قطع نظر کہ یہ اسکیم کس حد تک کامیاب بھی رہی، یہ ایک اچھی کوشش تھی مگر اسٹیٹ بینک اور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے گزشتہ 5 برسوں کے دوران غربت کی شرح بڑھنے کے بارے میں حقائق کے انکشافات سے واضح ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں اس بارے میں واضح حکمت عملی کا اظہار کرنا چاہیے۔ سندھ میں زمینداروں کی نجی جیلوں کا قصہ بھی خاصا پرانا ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ ٹیننسی ایکٹ (Tenancy Act) 1950 میں سندھ اسمبلی سے ایک متنازعہ ترمیم منظور کرا کر جبری مشقت کو قانونی حیثیت دے دی۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کے بیشتر صنعتی اداروں میں سیفٹی قوانین پر عمل نہیں ہوتا۔ شکاگو کے مزدوروں نے 250 سال قبل مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے جو قربانیاں دیں ان قربانیوں کے نتیجے میں دنیا بھر کے مزدوروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات ہوئیں۔
پاکستان میں بھی مزدور تحریکوں کے نتیجے میں قوانین نافذ ہوئے مگر سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ان قوانین پر عملدرآمد ختم ہوگیا۔ آج یکم مئی، یوم مزدور کے موقعے پر سیاسی رہنما اپنے بیانات میں مزدور طبقے کے ساتھ یکجہتی کا اظہار تو کررہے ہیں مگر ان جماعتوں کے منشور مزدوروں اور کسانوں کے حالات کار کے بارے میں کسی اہم تبدیلی Change کے بارے میں خاموش ہیں۔