دہشت گردی کا جواب صرف ووٹ
پاکستان کا سب سے بڑا شہر عرصہ ہوا ہر طرح کی دہشت گردی کی زد پر ہے۔
1979 کا واقعہ ہے۔ ایران میں انتخابات ہو رہے تھے، پولنگ میں گنتی کے چند روز رہ گئے تھے، یہی تین چار روز کہ ایران کے پارلیمنٹ ہاؤس کو بموں کے دھماکوں سے اڑا دیا گیا۔ اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں اجلاس ہو رہا تھا۔ پوری عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی اور سانحے میں 70 ارکان اسمبلی شہید ہو گئے۔ پورے ایران میں کہرام مچ گیا۔ مگر ایرانی انقلابی حکومت نے اعلان کیا کہ انتخابات وقت مقررہ پر ہی ہوں گے۔ تین چار روز بعد انتخابات تھے اور پوری ایرانی قوم نے انتخابات میں اور زیادہ قوت کے ساتھ حصہ لیا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ ایران آج بھی قائم و دائم ہے اور پورے طمطراق کے ساتھ۔
ہمارے ملک میں بھی دس روز بعد الیکشن ہونے والے ہیں۔ اور چار میں سے تین صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں، جن میں قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے، املاک تباہ ہو رہی ہیں، انسان ہیں کہ حیران ہیں اور ''خونخوار درندے ہیں رقصاں'' مگر اس رقص درندگی پر لوگ خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہمارے شہر کراچی میں گزشتہ چار دنوں میں پانچ خودکش و ریموٹ کنٹرول بم دھماکے ہوئے ہیں، جن میں چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے، اور تقریباً سو افراد زخمی ہوئے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر عرصہ ہوا ہر طرح کی دہشت گردی کی زد پر ہے اور دہشت گردی کا وہ کون سا حربہ ہے جسے یہاں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ بھتہ گیری، اغواء برائے تاوان، بوری بند لاشیں، رہائشی عمارتیں بموں کی نذر، عبادت گاہوں پر خودکش حملے اور کراچی جیسے بڑے تجارتی شہر کے تمام کاروباری مراکز بند، معیشت تباہ، دہاڑی دار مزدور، خوانچہ فروش، ٹھیلے والے پریشان اور کم و بیش یہی حال صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا ہے ۔ پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں اور لوگ مر رہے ہیں۔
ان حالات میں جو سامنے نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ اندر باہر کے دشمن چاہتے ہیں چند روز بعد ہونے والے انتخابات کو تہس نہس کر دیا جائے اور یوں ملک مایوسیوں کی گہرائیوں میں غرق ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام سب کچھ سمجھتے ہیں اور خصوصاً آج کا نوجوان جاگ اٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے ''اپنے وطن کو جلتا دیکھوں اور خاموش رہوں! آخر کیوں؟'' آج کا نوجوان سوالات اٹھائے الیکشن کے دن یعنی 11 مئی 2013 کا انتظار کر رہا ہے اور اس روز وہ اپنے ہر ہر سوال کا جواب ووٹ کی صورت دے گا۔
دیکھ رہے ہو! آج کا نوجوان (خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو) سمجھ چکا ہے، اس نے جان لیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے :
اٹھ کے درد مندوں کے صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمن کو پہچانو
اٹھارہ کروڑ انسانو
جالب نے جب یہ طویل نظم لکھی تھی تو ملک کی آبادی دس کروڑ تھی اور جنرل ایوب خان حکمران تھا۔ آج ہم اٹھارہ کروڑ ہیں اور لٹیرے خاندان جو بیس تھے آج لاکھوں ہیں۔ مظلوم اور ظالم کا مقابلہ بہت زیادہ سخت ہو چکا ہے، مگر فتح آخر عوام کی ہو گی۔ آج کا نوجوان ہر اول دستہ ہے اور پیچھے کروڑوں عوام کا لشکر ہے اور مظلوم عوام کا یقین پختہ ہے۔ بقول جالب:
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
اور یہ میرا شہر کراچی! اس شہر کو برباد کرنے کے خواب دیکھنے والے مت بھولیں کہ اس شہر کے رہنے والوں نے بڑے بڑے طرم خانوں کو بھگتایا ہے اور اپنے شہر کی بربادی کو یہاں کے رہنے والے کبھی اور کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ یہ شہر کراچی بڑے بڑے سونامیوں سے خود ٹکرا چکا ہے اور خونخوار سونامی کی لہریں ان کے قدموں میں ڈھیر ثابت ہوئیں۔ اس شہر کو یہاں ملک کے کونے کونے سے آ کر بسنے والے لوگوں نے بسایا ہے، جھونپڑیوں سے پکے مکانوں تک کا سفر گواہ ہے، یہ سیلف میڈ لوگوں کا شہر ہے۔
اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کراچی کے رہنے والوں کی برداشت کی حد اب ختم ہونے کو ہے اور اس شہر کو بچانا ہے، اسے قائم رکھنا ہے۔ اس گلدستے کے رنگ رنگ پھول اور خوشبو کو سنبھالنا اس شہر کے رہنے والے یہ سب کچھ خوب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔ ارے غور کرو! ایک شاہ زیب قتل ہوا تو اس شہر کے پوش علاقے ڈیفنس کے جوان لڑکے لڑکیاں، عورت مرد، بوڑھے بچے سڑکوں پر نکل آئے تھے، تو ذرا سوچیے، لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی، لیاری، اورنگی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، برنس روڈ، لائنز ایریا، کیماڑی، بلدیہ، سعید آباد و دیگر کیا یہ علاقے شہر کی تباہی و بربادی پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
''اپنے شہر کو جلتا دیکھیں اور خاموش رہیں'' کبھی نہیں۔ اس وقت ملک کو ووٹ کی ضرورت ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی نشانہ بننے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے لوگوں کی جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود اعلان کیا ہے کہ ''ہم الیکشن کو ایک لمحے کے لیے بھی ملتوی نہیں ہونے دیں گے''۔ عوامی نیشنل پارٹی سے اختلاف اپنی جگہ، مگر اس جماعت کا یہ بیان بڑا جرأت مندانہ اور بروقت ہے، کراچی شہر میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر مومن آباد پر بہت بڑا حملہ ہوا جس میں پندرہ سولہ افراد جاں بحق ہوئے اور تیس چالیس زخمی ہوئے، مگر اس جماعت نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے روز محض پر امن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں کاروبار جاری رہے گا، ٹرانسپورٹ چلے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ان دہشت گردوں کا مقابلہ یونہی کیا جا سکتا ہے کہ خوف و ہراس کا قلع قمع کیا جائے۔
یہ دہشت گرد تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہماری دہشت گردی سے کاروبار بند ہو جائے، ٹرانسپورٹ رک جائے، اور ہم ایسا کر کے دہشت گردوں کو کامیاب کر دیتے ہیں۔ ہمیں شہر کو ہر حال میں رواں دواں رکھنا چاہیے۔ کراچی کی تینوں سابق اتحادی جماعتوں نے ہر قیمت پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
بہرحال الیکشن ہر حال میں ہوں گے اور ہم خصوصاً آج کا نوجوان بھی نظام کی تبدیلی کے لیے اپنا ووٹ ضرور ڈالے گا۔ الیکشن والے دن تمام لوگ گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں گے اور ملک کی مانگ پوری کریں گے۔ ملک ہم سے ووٹ مانگ رہا ہے اور ہم ضرور اپنے ملک کی خواہش پوری کریں گے۔ حبیب جالب کے چار مصرعے سنیے!
آخری رات ہے یہ سر نہ جھکانا لوگو
حسن ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگو
انتہا ظلم کی ہو جائے وفا والوں پر
غیر ممکن ہے محبت کو مٹانا لوگو
ہمارے ملک میں بھی دس روز بعد الیکشن ہونے والے ہیں۔ اور چار میں سے تین صوبوں میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں، جن میں قیمتی انسانی جانوں کا ناقابل تلافی نقصان ہو رہا ہے، املاک تباہ ہو رہی ہیں، انسان ہیں کہ حیران ہیں اور ''خونخوار درندے ہیں رقصاں'' مگر اس رقص درندگی پر لوگ خوف زدہ نہیں ہیں۔ ہمارے شہر کراچی میں گزشتہ چار دنوں میں پانچ خودکش و ریموٹ کنٹرول بم دھماکے ہوئے ہیں، جن میں چالیس افراد لقمہ اجل بن گئے، اور تقریباً سو افراد زخمی ہوئے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر عرصہ ہوا ہر طرح کی دہشت گردی کی زد پر ہے اور دہشت گردی کا وہ کون سا حربہ ہے جسے یہاں استعمال نہ کیا گیا ہو۔ بھتہ گیری، اغواء برائے تاوان، بوری بند لاشیں، رہائشی عمارتیں بموں کی نذر، عبادت گاہوں پر خودکش حملے اور کراچی جیسے بڑے تجارتی شہر کے تمام کاروباری مراکز بند، معیشت تباہ، دہاڑی دار مزدور، خوانچہ فروش، ٹھیلے والے پریشان اور کم و بیش یہی حال صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کا ہے ۔ پشاور اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں مسلسل ہو رہی ہیں اور لوگ مر رہے ہیں۔
ان حالات میں جو سامنے نظر آ رہا ہے وہ یہی ہے کہ اندر باہر کے دشمن چاہتے ہیں چند روز بعد ہونے والے انتخابات کو تہس نہس کر دیا جائے اور یوں ملک مایوسیوں کی گہرائیوں میں غرق ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کے باشعور عوام سب کچھ سمجھتے ہیں اور خصوصاً آج کا نوجوان جاگ اٹھا ہے اور وہ کہہ رہا ہے ''اپنے وطن کو جلتا دیکھوں اور خاموش رہوں! آخر کیوں؟'' آج کا نوجوان سوالات اٹھائے الیکشن کے دن یعنی 11 مئی 2013 کا انتظار کر رہا ہے اور اس روز وہ اپنے ہر ہر سوال کا جواب ووٹ کی صورت دے گا۔
دیکھ رہے ہو! آج کا نوجوان (خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ہو) سمجھ چکا ہے، اس نے جان لیا ہے اور وہ کہہ رہا ہے :
اٹھ کے درد مندوں کے صبح و شام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کو پہچانو
دشمن کو پہچانو
اٹھارہ کروڑ انسانو
جالب نے جب یہ طویل نظم لکھی تھی تو ملک کی آبادی دس کروڑ تھی اور جنرل ایوب خان حکمران تھا۔ آج ہم اٹھارہ کروڑ ہیں اور لٹیرے خاندان جو بیس تھے آج لاکھوں ہیں۔ مظلوم اور ظالم کا مقابلہ بہت زیادہ سخت ہو چکا ہے، مگر فتح آخر عوام کی ہو گی۔ آج کا نوجوان ہر اول دستہ ہے اور پیچھے کروڑوں عوام کا لشکر ہے اور مظلوم عوام کا یقین پختہ ہے۔ بقول جالب:
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
مرے خیال کی دنیا حسین آج بھی ہے
اور یہ میرا شہر کراچی! اس شہر کو برباد کرنے کے خواب دیکھنے والے مت بھولیں کہ اس شہر کے رہنے والوں نے بڑے بڑے طرم خانوں کو بھگتایا ہے اور اپنے شہر کی بربادی کو یہاں کے رہنے والے کبھی اور کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ یہ شہر کراچی بڑے بڑے سونامیوں سے خود ٹکرا چکا ہے اور خونخوار سونامی کی لہریں ان کے قدموں میں ڈھیر ثابت ہوئیں۔ اس شہر کو یہاں ملک کے کونے کونے سے آ کر بسنے والے لوگوں نے بسایا ہے، جھونپڑیوں سے پکے مکانوں تک کا سفر گواہ ہے، یہ سیلف میڈ لوگوں کا شہر ہے۔
اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کراچی کے رہنے والوں کی برداشت کی حد اب ختم ہونے کو ہے اور اس شہر کو بچانا ہے، اسے قائم رکھنا ہے۔ اس گلدستے کے رنگ رنگ پھول اور خوشبو کو سنبھالنا اس شہر کے رہنے والے یہ سب کچھ خوب جانتے ہیں، سمجھتے ہیں۔ ارے غور کرو! ایک شاہ زیب قتل ہوا تو اس شہر کے پوش علاقے ڈیفنس کے جوان لڑکے لڑکیاں، عورت مرد، بوڑھے بچے سڑکوں پر نکل آئے تھے، تو ذرا سوچیے، لیاقت آباد، ملیر، لانڈھی، لیاری، اورنگی، کورنگی، شاہ فیصل کالونی، برنس روڈ، لائنز ایریا، کیماڑی، بلدیہ، سعید آباد و دیگر کیا یہ علاقے شہر کی تباہی و بربادی پر خاموش تماشائی بنے رہیں گے؟ نہیں ہرگز نہیں۔
''اپنے شہر کو جلتا دیکھیں اور خاموش رہیں'' کبھی نہیں۔ اس وقت ملک کو ووٹ کی ضرورت ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی نشانہ بننے والی جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے لوگوں کی جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجود اعلان کیا ہے کہ ''ہم الیکشن کو ایک لمحے کے لیے بھی ملتوی نہیں ہونے دیں گے''۔ عوامی نیشنل پارٹی سے اختلاف اپنی جگہ، مگر اس جماعت کا یہ بیان بڑا جرأت مندانہ اور بروقت ہے، کراچی شہر میں بھی عوامی نیشنل پارٹی کے دفتر مومن آباد پر بہت بڑا حملہ ہوا جس میں پندرہ سولہ افراد جاں بحق ہوئے اور تیس چالیس زخمی ہوئے، مگر اس جماعت نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اگلے روز محض پر امن سوگ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں کاروبار جاری رہے گا، ٹرانسپورٹ چلے گی اور ایسا ہی ہوا۔ ان دہشت گردوں کا مقابلہ یونہی کیا جا سکتا ہے کہ خوف و ہراس کا قلع قمع کیا جائے۔
یہ دہشت گرد تو چاہتے ہی یہی ہیں کہ ہماری دہشت گردی سے کاروبار بند ہو جائے، ٹرانسپورٹ رک جائے، اور ہم ایسا کر کے دہشت گردوں کو کامیاب کر دیتے ہیں۔ ہمیں شہر کو ہر حال میں رواں دواں رکھنا چاہیے۔ کراچی کی تینوں سابق اتحادی جماعتوں نے ہر قیمت پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
بہرحال الیکشن ہر حال میں ہوں گے اور ہم خصوصاً آج کا نوجوان بھی نظام کی تبدیلی کے لیے اپنا ووٹ ضرور ڈالے گا۔ الیکشن والے دن تمام لوگ گھروں سے نکل کر پولنگ اسٹیشنوں کا رخ کریں گے اور ملک کی مانگ پوری کریں گے۔ ملک ہم سے ووٹ مانگ رہا ہے اور ہم ضرور اپنے ملک کی خواہش پوری کریں گے۔ حبیب جالب کے چار مصرعے سنیے!
آخری رات ہے یہ سر نہ جھکانا لوگو
حسن ادراک کی شمعیں نہ بجھانا لوگو
انتہا ظلم کی ہو جائے وفا والوں پر
غیر ممکن ہے محبت کو مٹانا لوگو