یوم مئی اور الیکشن 2013
اپریل 1886 کے آخری ایام اور مئی کے ابتدائی دنوں میں یہ معرکہ سخت صورت اختیار کر گیا۔
19 ویں صدی کے صنعتی انقلاب نے جہاں ایک محدود طبقے کی زندگیوں کو پرتعیش، آرام دہ اور پرکشش بنایا وہیں محنت کشوں کے لیے دور قدیم کی غلامی کی یاد تازہ کر دی۔ ابتدا ہی سے صنعتی ترقی سے فائدہ اٹھانے اور اپنے سرمایہ میں منافعے کی صورت میں بے پناہ اضافہ حاصل کرنے والے سرمایہ دار نے صنعتی عمل میں کلیدی کردار ادا کرنے اور صنعتی ترقی کا پہیہ چلا کر اس کے سرمایہ میں اضافہ پہنچانے کا سب سے بڑا ذریعہ بننے والے صنعتی محنت کشوں کا بدترین استحصال شروع کر دیا۔ محنت کشوں کو بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا اور صنعتی اداروں ہی میں ان کی رہائش کا انتظام کر کے عملاً انھیں مقید کر دیا جاتا۔
اس طرح محنت کشوں کی آزادی کو سلب کر لیا گیا تھا۔ اس صورت حال میں ان محنت کشوں کی زندگی کا فقط ایک ہی مقصد باقی رہ گیا تھا کہ وہ دن رات اپنی بے پناہ محنت کے نتیجے میں سرمایہ دار کے منافعے میں اضافے کا ذریعہ بنے رہیں۔ اس ظالمانہ نظام کے خلاف محنت کشوں نے اعلان بغاوت کیا اور پرامن جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ ابتدائی طور پر ان کے مطالبات کے چند ہی نکات تھے جن میں 24 گھنٹے کے دن کو اس طرح تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ آٹھ گھنٹے یومیہ ملازمت، آٹھ گھنٹے سماجی تعلقات اور آٹھ گھنٹے نجی زندگی کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ اجرتوں میں معقول اضافہ اور ملازمت کا تحفظ بھی ان کے مطالبات کے خصوصی نکات میں شامل تھے۔ ایک صنعتی ادارے سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے محنت کشوں میں بے حد مقبول ہو گئی۔ ابتدا میں صنعت کار، محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ انھوں نے روایتی ریاستی طاقت کا بے جا اور بے دریغ استعمال کر کے محنت کشوں کی احتجاجی تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش کی مگر نہتے لیکن پرعزم اور ہمت سے مالا مال محنت کشوں کے قائدین نے سرمایہ داروں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔
اپریل 1886 کے آخری ایام اور مئی کے ابتدائی دنوں میں یہ معرکہ سخت صورت اختیار کر گیا۔ پھانسی گھاٹ اور جیلیں بھی محنت کشوں کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکیں۔ آخرکار سرمایہ داروں نے محنت کشوں کے بنیادی مطالبات تسلیم کر لیے۔ اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد محنت کشوں کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد جاری رکھی جس کے باعث سرمایہ دار ممالک کو صنعتی محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عالمی سطح پر حقوق انسانی کا منشور پیش کرنا پڑا اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ اس چارٹر کی منظوری کے بعد اپنے ممالک میں اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش آج ایک سو ستائیس سال بعد بھی اس بنیادی تحریک کے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے یکم مئی کو ''عالمی یومِ محنت'' کے طور پر مناتے ہیں۔
گزشتہ ایک سو ستائیس برسوں میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین میں پچھلی صدی کے دوران کمیونسٹ نظریات پر مبنی محنت کشوں کی ایک ریاست کا قائم ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا جس میں مارکس کے نظریات کے تحت محنت کشوں کے بدترین استحصال کے خاتمے کے لیے نجی ملکیت کو ختم کر کے قومی ملکیت کا تصور پیش کیا تھا لیکن نظریات کو ارتقائی عمل سے ہم آہنگ نہ کرسکنے کے باعث یہ نظام ستر سال بھی قائم نہ رہ سکا اور شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔
جب کہ آزاد منڈیوں کی معیشت پر یقین رکھنے والا سرمایہ دارانہ نظام اپنے داخلی بحرانوں کے حل تلاش کرنے میں اب تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔ سابق سوویت یونین کے برعکس سوشلسٹ چین جدید حالات کا صحیح طور پر تجزیہ کرتے ہوئے اپنی سوشلسٹ معیشت کو ارتقائی عمل سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے آزاد منڈیوں کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اپنی منڈی دیگر سرمایہ دار ممالک کے لیے کھولی اور اس کے جواب میں پوری دنیا کی منڈی پر اپنی صنعتی پیداوار کے ذریعے غلبہ حاصل کر لیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی تبدیل شدہ دنیا اور اس کے تقاضوں کے مطابق چین نے دانشمندانہ طور پر اپنی معیشت کو سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے پیش کیے گئے نیو ورلڈ آرڈر سے ہم آہنگ کیا اور ساتھ ہی سرمایہ دار ممالک کی بنائی گئی عالمی تنظیم WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی رکنیت حاصل کی۔ اس حکمت عملی کی بدولت چین نے بھرپور فوائد حاصل کیے اور تیز رفتار معاشی ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
اس بار ''عالمی یوم محنت'' یعنی ''یکم مئی'' پاکستان میں ایک ایسے موقعے پر منایا جا رہا ہے کہ جس کے محض 10 روز بعد قومی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ اس وقت ایک طرف ملک کی معیشت ابتری کا شکار ہے تو دوسری جانب امن و امان کی خراب صورت حال، توانائی کا بدترین بحران، صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں ریاستی اداروں کی بے جا مداخلت نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے صنعت کاری سمیت کاروبار کے ہر شعبے کے امکانات کو انتہائی محدود کر دیا ہے جس کے سبب ملک میں بیروزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
غربت و مہنگائی نے غریب اور متوسط درجہ کے افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کو دشوار بنا دیا ہے۔ ملک میں موجود بدترین بیروزگاری کا بھرپور فائدہ وہ عناصر اٹھا رہے ہیں کہ جو آج پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی صنعت چلانے یا کاروبار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے اداروں میں ملازمین کے لیے نہ تو دفتر آنے کا کوئی و قت مقرر ہے اور نہ ہی دفتر سے واپس گھر جانے کا وقت مقرر ہے۔ حکومت نے ناخواندہ اور غیر ہنر مند مزدور کی کم سے کم جو بھی اجرت مقرر کر رکھی ہے بیشتر سرمایہ دار وہ بھی ادا نہیں کر رہے جب کہ مزدور بیروزگاری کے خوف سے کم سے کم اجرت پر خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں۔
ایسے خراب معاشی حالات میں سیاسی جماعتوں کو زیادہ دانشمندانہ اقدامات اٹھانا ہوں گے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک گیر سطح پر صنعتوں کا جال بچھانا ہو گا، کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں معاشی ترقی اور صنعتی سرگرمی کے فروغ کے بغیر ناخواندہ اور غیر ہنر مند ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے لیے بھی روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنا ممکن نہیںہوتا۔ یوں تو انتخابات میں عوامی پذیرائی حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت کشوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن ان مسائل کا سب سے زیادہ ادراک یقیناً ایسی سیاسی قیادت کو ہو گا جو منڈی کی معیشت کے نظام کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہو گی۔
صنعت کاری کے عمل کے نتیجے میں جہاں صنعتی مزدور پیدا ہوتا ہے وہیں صنعت کاری معاشرے سے بیروزگاری کے خاتمے اور ملک کی قومی پیداوار میں اضافے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اس عمل کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ محنت کشوں کو ان کی محنت کا بھرپور معاوضہ ملے اور ان کے حالات کار بھی بہتر ہوں۔ انتخابات 2013 میں ملک کا محنت کش طبقہ محنت کشوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کا روایتی نعرہ بلند کرنے والوں کو نہیں بلکہ مزدور دوست صنعت کاری کو فروغ دے کر بیروزگاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھنے والی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو اپنی حمایت سے ہمکنار کریں گے۔
اب محنت کش اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ سرکاری ملکیتوں والے اداروں میں محنت کشوں کو روزگار دے کر نہ معاشرے سے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ 70 کی دہائی میں نجی ملکیت کے صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو محنت کشوں نے اس کا خیر مقدم کیا کہ ان کی ملازمتوں کو تحفظ حاصل ہو گیا ہے لیکن وہ قومی صنعتی و تجارتی ادارے جو اس وقت منافع بخش تھے آج سالانہ کھربوں روپے کے خسارے کا شکار ہیں اور ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں جنھیں جب تک منافع بخش نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تنزلی کا شکار ملکی معیشت کو صحیح سمت پر رواں نہیں کیا جا سکے گا۔
یہ بات ضروری ہے کہ جدید دور کے معاشی تقاضوں سے بہرہ مند سیاسی قوتوں کو آنے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل ہو۔ ''یوم مئی'' محنت کشوں سے اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ اپنا ووٹ درست جماعت اور قیادت کے انتخاب کے لیے استعمال کریں اور ملک میں جمود کا شکار صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو تیز رفتار ترقی کے عمل سے مہمیز کریں۔
اس طرح محنت کشوں کی آزادی کو سلب کر لیا گیا تھا۔ اس صورت حال میں ان محنت کشوں کی زندگی کا فقط ایک ہی مقصد باقی رہ گیا تھا کہ وہ دن رات اپنی بے پناہ محنت کے نتیجے میں سرمایہ دار کے منافعے میں اضافے کا ذریعہ بنے رہیں۔ اس ظالمانہ نظام کے خلاف محنت کشوں نے اعلان بغاوت کیا اور پرامن جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ ابتدائی طور پر ان کے مطالبات کے چند ہی نکات تھے جن میں 24 گھنٹے کے دن کو اس طرح تین درجوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ آٹھ گھنٹے یومیہ ملازمت، آٹھ گھنٹے سماجی تعلقات اور آٹھ گھنٹے نجی زندگی کے لیے مختص کیے گئے تھے۔
اس کے علاوہ اجرتوں میں معقول اضافہ اور ملازمت کا تحفظ بھی ان کے مطالبات کے خصوصی نکات میں شامل تھے۔ ایک صنعتی ادارے سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک دیکھتے ہی دیکھتے محنت کشوں میں بے حد مقبول ہو گئی۔ ابتدا میں صنعت کار، محنت کشوں کے مطالبات تسلیم کرنے کو ہرگز تیار نہیں تھے۔ انھوں نے روایتی ریاستی طاقت کا بے جا اور بے دریغ استعمال کر کے محنت کشوں کی احتجاجی تحریک کو کچلنے کی پوری کوشش کی مگر نہتے لیکن پرعزم اور ہمت سے مالا مال محنت کشوں کے قائدین نے سرمایہ داروں کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا۔
اپریل 1886 کے آخری ایام اور مئی کے ابتدائی دنوں میں یہ معرکہ سخت صورت اختیار کر گیا۔ پھانسی گھاٹ اور جیلیں بھی محنت کشوں کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکیں۔ آخرکار سرمایہ داروں نے محنت کشوں کے بنیادی مطالبات تسلیم کر لیے۔ اپنے مطالبات کو تسلیم کروانے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد محنت کشوں کی جدوجہد ختم نہیں ہوئی بلکہ انھوں نے اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد جاری رکھی جس کے باعث سرمایہ دار ممالک کو صنعتی محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے عالمی سطح پر حقوق انسانی کا منشور پیش کرنا پڑا اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ اس چارٹر کی منظوری کے بعد اپنے ممالک میں اس پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت کش آج ایک سو ستائیس سال بعد بھی اس بنیادی تحریک کے ہیروز کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے یکم مئی کو ''عالمی یومِ محنت'' کے طور پر مناتے ہیں۔
گزشتہ ایک سو ستائیس برسوں میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سوویت یونین میں پچھلی صدی کے دوران کمیونسٹ نظریات پر مبنی محنت کشوں کی ایک ریاست کا قائم ہونا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا جس میں مارکس کے نظریات کے تحت محنت کشوں کے بدترین استحصال کے خاتمے کے لیے نجی ملکیت کو ختم کر کے قومی ملکیت کا تصور پیش کیا تھا لیکن نظریات کو ارتقائی عمل سے ہم آہنگ نہ کرسکنے کے باعث یہ نظام ستر سال بھی قائم نہ رہ سکا اور شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔
جب کہ آزاد منڈیوں کی معیشت پر یقین رکھنے والا سرمایہ دارانہ نظام اپنے داخلی بحرانوں کے حل تلاش کرنے میں اب تک کامیاب ثابت ہوا ہے۔ سابق سوویت یونین کے برعکس سوشلسٹ چین جدید حالات کا صحیح طور پر تجزیہ کرتے ہوئے اپنی سوشلسٹ معیشت کو ارتقائی عمل سے ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہا۔ اس نے آزاد منڈیوں کی پالیسی کو اپناتے ہوئے اپنی منڈی دیگر سرمایہ دار ممالک کے لیے کھولی اور اس کے جواب میں پوری دنیا کی منڈی پر اپنی صنعتی پیداوار کے ذریعے غلبہ حاصل کر لیا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد کی تبدیل شدہ دنیا اور اس کے تقاضوں کے مطابق چین نے دانشمندانہ طور پر اپنی معیشت کو سرمایہ دارانہ ممالک کی جانب سے پیش کیے گئے نیو ورلڈ آرڈر سے ہم آہنگ کیا اور ساتھ ہی سرمایہ دار ممالک کی بنائی گئی عالمی تنظیم WTO (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی رکنیت حاصل کی۔ اس حکمت عملی کی بدولت چین نے بھرپور فوائد حاصل کیے اور تیز رفتار معاشی ترقی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔
اس بار ''عالمی یوم محنت'' یعنی ''یکم مئی'' پاکستان میں ایک ایسے موقعے پر منایا جا رہا ہے کہ جس کے محض 10 روز بعد قومی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں۔ اس وقت ایک طرف ملک کی معیشت ابتری کا شکار ہے تو دوسری جانب امن و امان کی خراب صورت حال، توانائی کا بدترین بحران، صنعتی، تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں ریاستی اداروں کی بے جا مداخلت نے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے صنعت کاری سمیت کاروبار کے ہر شعبے کے امکانات کو انتہائی محدود کر دیا ہے جس کے سبب ملک میں بیروزگاری میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
غربت و مہنگائی نے غریب اور متوسط درجہ کے افراد کے لیے باعزت زندگی گزارنے کو دشوار بنا دیا ہے۔ ملک میں موجود بدترین بیروزگاری کا بھرپور فائدہ وہ عناصر اٹھا رہے ہیں کہ جو آج پاکستان میں کسی بھی نوعیت کی صنعت چلانے یا کاروبار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے اداروں میں ملازمین کے لیے نہ تو دفتر آنے کا کوئی و قت مقرر ہے اور نہ ہی دفتر سے واپس گھر جانے کا وقت مقرر ہے۔ حکومت نے ناخواندہ اور غیر ہنر مند مزدور کی کم سے کم جو بھی اجرت مقرر کر رکھی ہے بیشتر سرمایہ دار وہ بھی ادا نہیں کر رہے جب کہ مزدور بیروزگاری کے خوف سے کم سے کم اجرت پر خدمات انجام دینے پر مجبور ہیں۔
ایسے خراب معاشی حالات میں سیاسی جماعتوں کو زیادہ دانشمندانہ اقدامات اٹھانا ہوں گے اور انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد ملک گیر سطح پر صنعتوں کا جال بچھانا ہو گا، کیونکہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معاشرے میں معاشی ترقی اور صنعتی سرگرمی کے فروغ کے بغیر ناخواندہ اور غیر ہنر مند ہی نہیں بلکہ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے لیے بھی روزگار کے نئے مواقعے پیدا کرنا ممکن نہیںہوتا۔ یوں تو انتخابات میں عوامی پذیرائی حاصل کرنے والی تمام سیاسی جماعتیں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے محنت کشوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گی لیکن ان مسائل کا سب سے زیادہ ادراک یقیناً ایسی سیاسی قیادت کو ہو گا جو منڈی کی معیشت کے نظام کو بہتر طور پر سمجھنے کی صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہو گی۔
صنعت کاری کے عمل کے نتیجے میں جہاں صنعتی مزدور پیدا ہوتا ہے وہیں صنعت کاری معاشرے سے بیروزگاری کے خاتمے اور ملک کی قومی پیداوار میں اضافے کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اس عمل کو پائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے کہ محنت کشوں کو ان کی محنت کا بھرپور معاوضہ ملے اور ان کے حالات کار بھی بہتر ہوں۔ انتخابات 2013 میں ملک کا محنت کش طبقہ محنت کشوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کا روایتی نعرہ بلند کرنے والوں کو نہیں بلکہ مزدور دوست صنعت کاری کو فروغ دے کر بیروزگاری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی صلاحیت رکھنے والی سیاسی جماعت اور اس کی قیادت کو اپنی حمایت سے ہمکنار کریں گے۔
اب محنت کش اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ سرکاری ملکیتوں والے اداروں میں محنت کشوں کو روزگار دے کر نہ معاشرے سے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ملکی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔ 70 کی دہائی میں نجی ملکیت کے صنعتی اور تجارتی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا تو محنت کشوں نے اس کا خیر مقدم کیا کہ ان کی ملازمتوں کو تحفظ حاصل ہو گیا ہے لیکن وہ قومی صنعتی و تجارتی ادارے جو اس وقت منافع بخش تھے آج سالانہ کھربوں روپے کے خسارے کا شکار ہیں اور ملکی معیشت پر بوجھ بن چکے ہیں جنھیں جب تک منافع بخش نہیں بنایا جاتا اس وقت تک تنزلی کا شکار ملکی معیشت کو صحیح سمت پر رواں نہیں کیا جا سکے گا۔
یہ بات ضروری ہے کہ جدید دور کے معاشی تقاضوں سے بہرہ مند سیاسی قوتوں کو آنے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل ہو۔ ''یوم مئی'' محنت کشوں سے اس امر کا متقاضی ہے کہ وہ اپنا ووٹ درست جماعت اور قیادت کے انتخاب کے لیے استعمال کریں اور ملک میں جمود کا شکار صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو تیز رفتار ترقی کے عمل سے مہمیز کریں۔