محنت کشوں کو خراجِ تحسین
مارکس کے الفاظ میں ’’سرمائے کا اجتماع دوبارہ اعلیٰ سطح پر سرمائے کے ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔
جدید سرمایہ داری نظام کا آغاز اٹھارویں صدی کے صنعتی انقلاب سے ہوا اور اسی انقلاب نے جدید مزدور کو جنم دیا اور سماج میں نئے رشتوں کی بنیاد رکھی۔ اس نئے طریقہ پیداوار میں نا انصافی اور استحصال جو کہ بنیادی عوامل ہیں، اسی وقت متحرک ہو جاتے ہیں جب سرمایہ دار اور محنت کش کا تعلق قائم ہوتا ہے۔ سرمایہ دار جو در اصل ذرایع پیداوار کا مالک ہوتا ہے۔
وہ محنت کش کی محنت کی قوت کو خریدتا ہے۔ محنت کی قوت حقیقت میں مزدور کی محنت کرنے کی صلاحیت ہے۔ مزدور جب اجناس (Commodities) کو پیدا کرتا ہے تو وہ اپنی قوت کو ان اجناس میں منتقل کر دیتا ہے۔ لہٰذا مزدور کی قوتِ محنت پہلے ہی سے ایک 'جنس' ہوتی ہے۔ مزدور جن اجناس کو پیدا کرتا ہے، ان کے مبادلے کے دوران میں پیداواری تعلقات جو حقیقت میں انسانوں کے مابین ہوتے ہیں، وہ اشیاء کے مابین تعلقات کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اشیاء کی اولیت انسانوں کے مابین تعلقات کو مخفی رکھتی ہے۔
انسان ایک دوسرے سے براہِ راست تعلقات قائم کرنے کی بجائے اشیاء کی وساطت سے ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہیں سے سرمایہ داری سماج میں ایک غیر انسانی پہلو داخل ہوتا ہے۔ مغربی فلسفے میں معروضیت کی کوئی بھی تشریح ہو، اس پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور یہیں سے مغربی فلسفے کی حدود متعین ہوتی ہیں، کیونکہ محنت کشوں کے کردار سے متعلق اسی پہلو کو تمام مغربی فلسفے میں نظر انداز کیا گیا ہے۔
سرمایہ داری نظام کا استحصالی پہلو اس کے طریقۂ پیداوار میں ہی پیوست ہوتا ہے لیکن سماجی سطح پر اس کے بھیانک نتائج کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ 'قدرِ زائد' مزدور کی وہ محنت ہے جو مزدور کو ادا نہیں کی جاتی بلکہ اس سے مزید منافع کمانے کی غرض سے کسی اور کاروبار کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح 'قدرِ زائد ' نئے سرمائے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر سرمایہ دار 'قدرِ زائد' کو پیداواری عمل پر نہ لگائے تو وہ مزید منافع کمانے سے محروم ہو جاتا ہے۔
مارکس کے الفاظ میں ''سرمائے کا اجتماع دوبارہ اعلیٰ سطح پر سرمائے کے ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔'' سرمایہ داری نظام میں پیدا کنندہ کو اس کے ہاتھ کی پیدا وار سے الگ کر دیا جاتاہے، وجہ یہ کہ ذرایع پیداوار پر سرمایہ دار کا قبضہ ہوتا ہے۔ یہ عمل انتہائی ظالمانہ اور استحصالی نوعیت کا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں ملکیت کا یہ تصور غیر فطری ہے، کیونکہ کارخانے، محنت کے اوزار اور خام مال وغیرہ محنت کا پیدا کردہ وہ سرمایہ ہے جسے مزید منافع کمانے کی غرض سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
جو نہی ہم محنت کش کی عملی سرگرمی پر غور کرتے ہیں تو یہ ادراک ہوتا ہے کہ کس طرح اس نے سماجی اور پیداواری ارتقائی عمل میں اپنی انتھک محنت کے ذریعے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ موجودہ دنیا کی تخلیق میں جتنا کردار خیال نے ادا کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ اہم کردار محنت نے ادا کیا ہے۔ محنت کشوں نے فطرت کو اپنی عملی سرگرمی کے ذریعے سماج میں تبدیل کیا ہے۔ سماج، حقیقت میں، محنت کشوں کی محنت کی تجسیم کا نام ہے۔
تصور کریں کہ اگر سماج سے محنت کو حذف کر دیا جائے تو سماج کا وجود ہی ختم ہو جائے گا اور ایک بار پھر انسان فطرت کے روبرو کھڑا ہوا نظر آئے گا۔ تہذیب و تمدن جیسی اصطلاحات سماج سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ محنت کش ہی ہیں جو تہذیب و تمدن کے حقیقی خالق ہیں، جن کی عدم موجودگی میں تہذیب و تمدن کبھی معرضِ وجود میں نہیں آ سکتے تھے۔ محنت کش انسانی تہذیب کے حقیقی خالق ہیں جو فطرت کو سماج میں تبدیل کر کے متجسس اذہان کے لیے نئے جمالیاتی پیمانے متعین کرتے ہیں۔ محنت کی زائد پیداوار کی وجہ سے ہی تفکری عمل کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
ان ذرایع کی تخلیق ہوتی ہے کہ جن کی عدم موجودگی میں سماج کی حقیقی شکل کا سامنے آنا ناممکن ہے۔ جدید دنیا آج بے شک مابعد جدید دنیا کی اصطلاح سے لیس ہے، مگر اس کو اس سطح پر پہنچانے میں سب سے زیادہ حصہ محنت کشوں نے ڈالا ہے۔ مزدور، فن کاروں اور ادیبوں کے برعکس فطرت کو محض اپنے ذہن میں ہی نہیں، عملی سطح پر تخلیق کر تا ہے۔
سرمایہ داری نظام میں ارتقا کا سفر اس کے پیدا کردہ تضادات کی نوعیت میں پیوست ہے۔ سماجی تضادات عمومی طور پر مختلف طبقات کے درمیان جنم لیتے ہیں۔ اور ان کی تحلیل محنت کشوں کی جدوجہد سے مشروط ہوتی ہے۔ سماج میں مختلف طبقات کی برپا کی گئی ہڑتالیں اور تحریکیں انھی تضادات کا اظہار ہوتی ہے۔ سماج میں برپا ہونے والی ہڑتالیں محض ظاہری بے چینی نہیں ہوتیں، حقیقت میں انتہائی پیچیدہ پیداواری عمل کے دوران میں جنم لینے والے تضادات کا اظہار ہوتی ہیں۔
پیداواری عمل کے دوران طبقات کے درمیان پیکار محنت کشوں کے اس شعور کا اظہار ہوتی ہے جو ان کے استحصال اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے پھوٹتا ہے۔ اگر یہ ہڑتالیں منظم ہوں اور انھیں عقلی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے تو یہ ایک بڑی تحریک یا انقلاب کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ تضاد کی شدت اور اس پر متشکل ہونے والا طبقاتی شعور ہی جدوجہد کی سطح کو متعین کرتا ہے۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب مظلوم و استحصال زدہ طبقات خود پر مسلط ظالم، جابر اور دہشت پسند حکمرانوں کے خلاف صف آرائی کرتے رہے ہیں۔
یکم مئی بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جسے ہر برس جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کے بحران کی علامت کے طور پر دنیا کے کروڑوں مزدور مختلف انداز میں منا کر اپنی یکجہتی اور فتح کا اظہار کرتے ہیں۔ آج بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہڑتالیں برپا کی جاتی ہیں، اس عمل سے یہ کلی طور پر آشکار ہو جاتا ہے کہ سماج کے اندر بھوک، نا انصافی اور جبر و استحصال، ناخوشی، کام کے اوقات میں اضافہ سے جنم لینے والی بے چینی، ذہنی دباؤ اور مالکوں کا آمرانہ رویہ جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
آج ان کی شدّت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان عوامل کو مزید تقویت دینے کے لیے سیاسی و معاشی جابروں کا گروہ سماجی عمل کو اس نہج پر متشکل کرتا ہے تا کہ مزدور کی یکجہتی اور بے چینی سے جنم لینے والی تحریکوں کو بے رحم طریقے سے کچلا جا سکے۔ اسی طرح کی ایک جدوجہد نے یکم مئی کی بنیاد رکھی تھی، جب شکا گو کے مزدوروں کے سر براہ البرٹ پارسن نے دن میں آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے حق میں1880 میں اسّی ہزار لوگوں پر مشتمل مظاہرے کی رہنمائی کی۔ اگرچہ روزا لگزمبرگ نے آٹھ گھنٹے کے خیال کو 1856 میں آسٹریلیا کے مزدوروں کی جدوجہد سے منسوب کیا ہے جو کامیاب ہو گئی تھی، لیکن اسے صرف ایک سال یعنی 1856کے لیے تصور کیا گیا تھا۔ تاہم شکاگو میں چند ہی دنوں بعد وہ مظاہرہ شدّت اختیار کر گیا اور مظاہرہ برپا کرنے والے کارکنوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ گئی۔
اس کے بعد پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے متشددانہ عمل کا کا آغاز کرے۔ اس عمل کے نتیجے میں تقریباََ چار مزدور شہید اور سات پولیس اہلکار ہلاک ہوئے اور دو سو سے زیادہ کارکنان زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے بعد برطانیہ اور جرمنی میں بھی مئی کے دوسرے ہفتے میں مظاہرے برپا کیے گئے۔1884 میں ''کنونشن آف دی فیڈریشن آف دی آرگنائزڈ ٹریڈ'' نے یہ قرارداد منظور کی کہ وہ مزدور طبقے کے اس موقف کی پیروی کرے گی کہ یکم مئی1882 سے مزدور آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرے گا۔ محنت کشوں کا موقف کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آج مزدوروں کی وہ تحریک عالمی شکل اختیار کر گئی ہے اور دنیا کے ہر ملک میں یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔
محنت کش جس سماج کو جنم دیتا ہے اس کی کم و بیش تمام آئیڈیولاجیکل اشکال کا واحد مقصد اسی محنت کش پر ظلم مسلط کرنا اور سماج میں جمود کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ سرمایہ داروں کے حق میں لکھی یا لکھوائی گئی کتابوں میں محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے تعلق کے حوالے سے جو مباحث پڑھنے کو ملتے ہیں ان میں ماہرِ معیشت، جو حقیقت میں ماہرِ اخلاقیات ہوتے ہیں، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زبوں حالی پر بحث کے دوران ماورائی اخلاقیات کو درمیان میں کھینچ لاتے ہیں اور سرمایہ داری کے عالمی سطح پر ہونے والے گھناؤنے مظاہر سے انحراف کر کے غیر حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر سیاسی معاشیات کے مسئلے کو حل کرنے کی مضحکہ خیز کوشیں کرتے ہیں۔
ہر انسان کے اندر ایک نایاب جوہر موجود ہے جو اسے اعلیٰ درجے کی سچائی (فن، فلسفہ، ادب) کی جانب مائل کرتا ہے، مگر اس 'سچائی' تک پہنچنے کے لیے فرار کا راستہ درست نہیں ہے، بلکہ اس دہشت پسند نظام سے برسرِ پیکار ہونا زیادہ اہم ہے، جو اس سچائی کی راہ میں حائل ہے۔ اعلیٰ سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے انسان ایک ایسے سماج کو معرض وجود میں لائے جہاں اسے معاشی آسودگی میسر ہو۔ اس اعلیٰ سچ میں اتنی قوت ہے کہ وہ انسان کو اپنی جانب مائل کر ہی لے گا۔ اس کے حصول کی خواہش ہی اس کے لیے محرک کا کردار ادا کرئے گی اور خود انسان معاشی استحصال و ناانصافی کو منہدم کر دے گا۔
آج عالمی سطح پر ایک آزاد اور مبنی بر مساوات معاشرے کے قیام کے لیے حالات موافق ہیں۔ تاہم ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کے لیے لازمی ہے کہ ظلم و جبر، دہشت و بربریت کی آماجگاہ سرمایہ داری نظام کے ان تضادات پر گہری نظر رکھی جائے جن کی تحلیل اس نظام کے انہدام پر منتج ہو گی۔ اس کے لیے ان جدلیاتی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو موجودہ معاشرے کے استحصالی ڈھانچے کی بنیادوں سے جنم لیں، جو محنت کشوں پر ہونے والے ظلم و بربریت اور استحصال کا ذمے دار ہے۔
وہ محنت کش کی محنت کی قوت کو خریدتا ہے۔ محنت کی قوت حقیقت میں مزدور کی محنت کرنے کی صلاحیت ہے۔ مزدور جب اجناس (Commodities) کو پیدا کرتا ہے تو وہ اپنی قوت کو ان اجناس میں منتقل کر دیتا ہے۔ لہٰذا مزدور کی قوتِ محنت پہلے ہی سے ایک 'جنس' ہوتی ہے۔ مزدور جن اجناس کو پیدا کرتا ہے، ان کے مبادلے کے دوران میں پیداواری تعلقات جو حقیقت میں انسانوں کے مابین ہوتے ہیں، وہ اشیاء کے مابین تعلقات کی شکل میں سامنے آتے ہیں۔ اشیاء کی اولیت انسانوں کے مابین تعلقات کو مخفی رکھتی ہے۔
انسان ایک دوسرے سے براہِ راست تعلقات قائم کرنے کی بجائے اشیاء کی وساطت سے ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہیں سے سرمایہ داری سماج میں ایک غیر انسانی پہلو داخل ہوتا ہے۔ مغربی فلسفے میں معروضیت کی کوئی بھی تشریح ہو، اس پہلو کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور یہیں سے مغربی فلسفے کی حدود متعین ہوتی ہیں، کیونکہ محنت کشوں کے کردار سے متعلق اسی پہلو کو تمام مغربی فلسفے میں نظر انداز کیا گیا ہے۔
سرمایہ داری نظام کا استحصالی پہلو اس کے طریقۂ پیداوار میں ہی پیوست ہوتا ہے لیکن سماجی سطح پر اس کے بھیانک نتائج کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب یہ انکشاف ہوتا ہے کہ 'قدرِ زائد' مزدور کی وہ محنت ہے جو مزدور کو ادا نہیں کی جاتی بلکہ اس سے مزید منافع کمانے کی غرض سے کسی اور کاروبار کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح 'قدرِ زائد ' نئے سرمائے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اگر سرمایہ دار 'قدرِ زائد' کو پیداواری عمل پر نہ لگائے تو وہ مزید منافع کمانے سے محروم ہو جاتا ہے۔
مارکس کے الفاظ میں ''سرمائے کا اجتماع دوبارہ اعلیٰ سطح پر سرمائے کے ارتکاز کا باعث بنتا ہے۔'' سرمایہ داری نظام میں پیدا کنندہ کو اس کے ہاتھ کی پیدا وار سے الگ کر دیا جاتاہے، وجہ یہ کہ ذرایع پیداوار پر سرمایہ دار کا قبضہ ہوتا ہے۔ یہ عمل انتہائی ظالمانہ اور استحصالی نوعیت کا ہے۔ سرمایہ داری نظام میں ملکیت کا یہ تصور غیر فطری ہے، کیونکہ کارخانے، محنت کے اوزار اور خام مال وغیرہ محنت کا پیدا کردہ وہ سرمایہ ہے جسے مزید منافع کمانے کی غرض سے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
جو نہی ہم محنت کش کی عملی سرگرمی پر غور کرتے ہیں تو یہ ادراک ہوتا ہے کہ کس طرح اس نے سماجی اور پیداواری ارتقائی عمل میں اپنی انتھک محنت کے ذریعے دنیا کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ موجودہ دنیا کی تخلیق میں جتنا کردار خیال نے ادا کیا ہے، اس سے کہیں زیادہ اہم کردار محنت نے ادا کیا ہے۔ محنت کشوں نے فطرت کو اپنی عملی سرگرمی کے ذریعے سماج میں تبدیل کیا ہے۔ سماج، حقیقت میں، محنت کشوں کی محنت کی تجسیم کا نام ہے۔
تصور کریں کہ اگر سماج سے محنت کو حذف کر دیا جائے تو سماج کا وجود ہی ختم ہو جائے گا اور ایک بار پھر انسان فطرت کے روبرو کھڑا ہوا نظر آئے گا۔ تہذیب و تمدن جیسی اصطلاحات سماج سے جڑی ہوئی ہیں اور یہ محنت کش ہی ہیں جو تہذیب و تمدن کے حقیقی خالق ہیں، جن کی عدم موجودگی میں تہذیب و تمدن کبھی معرضِ وجود میں نہیں آ سکتے تھے۔ محنت کش انسانی تہذیب کے حقیقی خالق ہیں جو فطرت کو سماج میں تبدیل کر کے متجسس اذہان کے لیے نئے جمالیاتی پیمانے متعین کرتے ہیں۔ محنت کی زائد پیداوار کی وجہ سے ہی تفکری عمل کا امکان پیدا ہوتا ہے۔
ان ذرایع کی تخلیق ہوتی ہے کہ جن کی عدم موجودگی میں سماج کی حقیقی شکل کا سامنے آنا ناممکن ہے۔ جدید دنیا آج بے شک مابعد جدید دنیا کی اصطلاح سے لیس ہے، مگر اس کو اس سطح پر پہنچانے میں سب سے زیادہ حصہ محنت کشوں نے ڈالا ہے۔ مزدور، فن کاروں اور ادیبوں کے برعکس فطرت کو محض اپنے ذہن میں ہی نہیں، عملی سطح پر تخلیق کر تا ہے۔
سرمایہ داری نظام میں ارتقا کا سفر اس کے پیدا کردہ تضادات کی نوعیت میں پیوست ہے۔ سماجی تضادات عمومی طور پر مختلف طبقات کے درمیان جنم لیتے ہیں۔ اور ان کی تحلیل محنت کشوں کی جدوجہد سے مشروط ہوتی ہے۔ سماج میں مختلف طبقات کی برپا کی گئی ہڑتالیں اور تحریکیں انھی تضادات کا اظہار ہوتی ہے۔ سماج میں برپا ہونے والی ہڑتالیں محض ظاہری بے چینی نہیں ہوتیں، حقیقت میں انتہائی پیچیدہ پیداواری عمل کے دوران میں جنم لینے والے تضادات کا اظہار ہوتی ہیں۔
پیداواری عمل کے دوران طبقات کے درمیان پیکار محنت کشوں کے اس شعور کا اظہار ہوتی ہے جو ان کے استحصال اور ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی سے پھوٹتا ہے۔ اگر یہ ہڑتالیں منظم ہوں اور انھیں عقلی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے تو یہ ایک بڑی تحریک یا انقلاب کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ تضاد کی شدت اور اس پر متشکل ہونے والا طبقاتی شعور ہی جدوجہد کی سطح کو متعین کرتا ہے۔ تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب مظلوم و استحصال زدہ طبقات خود پر مسلط ظالم، جابر اور دہشت پسند حکمرانوں کے خلاف صف آرائی کرتے رہے ہیں۔
یکم مئی بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جسے ہر برس جاگیر داری اور سرمایہ داری نظام کے بحران کی علامت کے طور پر دنیا کے کروڑوں مزدور مختلف انداز میں منا کر اپنی یکجہتی اور فتح کا اظہار کرتے ہیں۔ آج بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں ہڑتالیں برپا کی جاتی ہیں، اس عمل سے یہ کلی طور پر آشکار ہو جاتا ہے کہ سماج کے اندر بھوک، نا انصافی اور جبر و استحصال، ناخوشی، کام کے اوقات میں اضافہ سے جنم لینے والی بے چینی، ذہنی دباؤ اور مالکوں کا آمرانہ رویہ جیسے عوامل شامل ہوتے ہیں۔
آج ان کی شدّت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ان عوامل کو مزید تقویت دینے کے لیے سیاسی و معاشی جابروں کا گروہ سماجی عمل کو اس نہج پر متشکل کرتا ہے تا کہ مزدور کی یکجہتی اور بے چینی سے جنم لینے والی تحریکوں کو بے رحم طریقے سے کچلا جا سکے۔ اسی طرح کی ایک جدوجہد نے یکم مئی کی بنیاد رکھی تھی، جب شکا گو کے مزدوروں کے سر براہ البرٹ پارسن نے دن میں آٹھ گھنٹے کی مزدوری کے حق میں1880 میں اسّی ہزار لوگوں پر مشتمل مظاہرے کی رہنمائی کی۔ اگرچہ روزا لگزمبرگ نے آٹھ گھنٹے کے خیال کو 1856 میں آسٹریلیا کے مزدوروں کی جدوجہد سے منسوب کیا ہے جو کامیاب ہو گئی تھی، لیکن اسے صرف ایک سال یعنی 1856کے لیے تصور کیا گیا تھا۔ تاہم شکاگو میں چند ہی دنوں بعد وہ مظاہرہ شدّت اختیار کر گیا اور مظاہرہ برپا کرنے والے کارکنوں کی تعداد ساڑھے تین لاکھ تک پہنچ گئی۔
اس کے بعد پولیس کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے متشددانہ عمل کا کا آغاز کرے۔ اس عمل کے نتیجے میں تقریباََ چار مزدور شہید اور سات پولیس اہلکار ہلاک ہوئے اور دو سو سے زیادہ کارکنان زخمی ہوئے۔ ان واقعات کے بعد برطانیہ اور جرمنی میں بھی مئی کے دوسرے ہفتے میں مظاہرے برپا کیے گئے۔1884 میں ''کنونشن آف دی فیڈریشن آف دی آرگنائزڈ ٹریڈ'' نے یہ قرارداد منظور کی کہ وہ مزدور طبقے کے اس موقف کی پیروی کرے گی کہ یکم مئی1882 سے مزدور آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کرے گا۔ محنت کشوں کا موقف کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ آج مزدوروں کی وہ تحریک عالمی شکل اختیار کر گئی ہے اور دنیا کے ہر ملک میں یکم مئی کو مزدوروں کے دن کے طور پر منعقد کیا جاتا ہے۔
محنت کش جس سماج کو جنم دیتا ہے اس کی کم و بیش تمام آئیڈیولاجیکل اشکال کا واحد مقصد اسی محنت کش پر ظلم مسلط کرنا اور سماج میں جمود کی صورتحال کو برقرار رکھنا ہوتا ہے۔ سرمایہ داروں کے حق میں لکھی یا لکھوائی گئی کتابوں میں محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے تعلق کے حوالے سے جو مباحث پڑھنے کو ملتے ہیں ان میں ماہرِ معیشت، جو حقیقت میں ماہرِ اخلاقیات ہوتے ہیں، عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی زبوں حالی پر بحث کے دوران ماورائی اخلاقیات کو درمیان میں کھینچ لاتے ہیں اور سرمایہ داری کے عالمی سطح پر ہونے والے گھناؤنے مظاہر سے انحراف کر کے غیر حقیقت پسندی کا ثبوت دیتے ہوئے مذہبی بنیادوں پر سیاسی معاشیات کے مسئلے کو حل کرنے کی مضحکہ خیز کوشیں کرتے ہیں۔
ہر انسان کے اندر ایک نایاب جوہر موجود ہے جو اسے اعلیٰ درجے کی سچائی (فن، فلسفہ، ادب) کی جانب مائل کرتا ہے، مگر اس 'سچائی' تک پہنچنے کے لیے فرار کا راستہ درست نہیں ہے، بلکہ اس دہشت پسند نظام سے برسرِ پیکار ہونا زیادہ اہم ہے، جو اس سچائی کی راہ میں حائل ہے۔ اعلیٰ سچائی تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے انسان ایک ایسے سماج کو معرض وجود میں لائے جہاں اسے معاشی آسودگی میسر ہو۔ اس اعلیٰ سچ میں اتنی قوت ہے کہ وہ انسان کو اپنی جانب مائل کر ہی لے گا۔ اس کے حصول کی خواہش ہی اس کے لیے محرک کا کردار ادا کرئے گی اور خود انسان معاشی استحصال و ناانصافی کو منہدم کر دے گا۔
آج عالمی سطح پر ایک آزاد اور مبنی بر مساوات معاشرے کے قیام کے لیے حالات موافق ہیں۔ تاہم ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کے لیے لازمی ہے کہ ظلم و جبر، دہشت و بربریت کی آماجگاہ سرمایہ داری نظام کے ان تضادات پر گہری نظر رکھی جائے جن کی تحلیل اس نظام کے انہدام پر منتج ہو گی۔ اس کے لیے ان جدلیاتی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے جو موجودہ معاشرے کے استحصالی ڈھانچے کی بنیادوں سے جنم لیں، جو محنت کشوں پر ہونے والے ظلم و بربریت اور استحصال کا ذمے دار ہے۔