شہزادہ ولیم کا اہلیہ کے ہمراہ فلسطین اور اسرائیل کا دورہ
اسرائیل میں یہ شاہی جوڑا ’’کنگ ڈیوڈ ہوٹل‘‘ میں قیام کرے گا جو کہ برطانوی بادشاہی کے دور کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔
برطانوی شہزادہ ولیم، جسے سرکاری طور پر ڈیوک آف کیمبرج کا ٹائٹل دیا گیا ہے، اس ہفتے مقبوضہ بیت المقدس اور فلسطینی علاقوں کے پہلے سرکاری دورے پر یروشلم پہنچیں گے۔ واضح رہے فلسطین کے علاقے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا فیصلہ بھی برطانیہ نے ہی کیا تھا جس کے بعد سے مقبوضہ کشمیر کی طرح مقبوضہ فلسطین بھی مسلسل تباہی وبربادی میں مبتلا ہے۔
یہاں دن بدن نوجوانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے اور ان کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے نکتہ نظر سے اسرائیل ایک ایسا خنجر ہے جو جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی عالمی سپرپاور برطانیہ کے وزیراعظم بالفور نے مشرق وسطیٰ کے قلب میں گھونپ دیا تھا تاکہ تیل کی دولت سے مالامال اس علاقے پر سامراجی تسلط قائم ہو سکے۔
اسرائیل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی توسیعی پالیسی کے تحت فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کر کے اسرائیلی بستیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کی زرخیز زمینوں کو ہتھیانا شروع کر دیا۔ شہزادہ ولیم جو برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے بیٹے ہیں تاہم برطانیہ کا اگلا بادشاہ بننے کے لیے چارلس کے بجائے شہزادہ ولیم کا نام لیا جا رہا ہے۔
شہزادہ چارلس طلاق یافتہ خاتون کمیلا پارکر سے شادی کرنے کی وجہ سے برطانوی تخت کی وراثت سے محروم کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ شہزادہ ولیم کے دورے کو غیرسیاسی قرار دیا جا رہا ہے جس کا زیادہ زور ٹیکنالوجی پر ہو گا اور اس کے تحت مشترکہ عرب اسرائیل منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ شہزادہ ولیم یعنی ڈیوک آف کیمبرج اپنے دورے کے دوران اسرائیلی حکام کے علاوہ فلسطینی لیڈروں سے بھی ملاقات کریں گے اور ان کے تقریباً ایک صدی پرانے اختلافات کی شدت کو مدہم کرانے کی کوشش کریں گے۔
شہزادہ ولیم کا دورہ اردن سے شروع ہو گا جہاں وہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے کیمپ کو بھی دیکھنے جائیں گے۔ شہزادہ ولیم اردن کے تاریخی آثار قدیمہ کا دورہ بھی کریں گے جہاں ان کی اہلیہ کیتھرین مڈلٹن نے بھی دورہ کیا تھا کیونکہ ان کی فیملی اس علاقے میں مقیم رہی ہے۔
اسرائیل میں یہ شاہی جوڑا ''کنگ ڈیوڈ ہوٹل'' میں قیام کرے گا جو کہ برطانوی بادشاہی کے دور کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔ وہاں سے یہ دونوں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب جائیں گے جسے اسرائیل کا اقتصادی اور ثقافتی دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے۔ بعدازاں وہ رام اللہ اور مغربی کنارے کا دورہ بھی کریں گے جہاں فلسطینی حکومت قائم ہے۔ برطانوی شاہی جوڑا اسرائیل اور ۔ فلسطینی فٹ بال کے کھلاڑیوں سے بھی ملاقات کرے گا کیونکہ فٹ بال اس علاقے کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل ہے۔
برطانوی جوڑے کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطینی علاقہ کہنے پر اسرائیل نے بہت برا منایا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں برطانیہ کے بہت گہرے اثرات ہیں کیونکہ 1920ء سے 1948ء تک اس علاقے پر برطانیہ کی حکمرانی رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا یعنی مشرق سے مغرب تک کے تقریباً تمام اہم ممالک برطانیہ کے زیرتسلط تھے جب برصغیر ہند وپاک بھی طویل عرصے سے برطانیہ کی حکومت کا حصہ تھا۔
شہزادہ ولیم کا یہ دورہ دوررس اثرات کا حامل ہو گا۔ فلسطینیوں کو بھی توقع ہے کہ شہزادہ ولیم کے دورے سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنا مؤقف زیادہ بہتر انداز میں برطانیہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ ادھر اسرائیل کی حکومت بھی پرامید ہے کہ اس کے مؤقف کو بھی بہتر اندداز میں سنا جائے گا۔ بہرحال شہزادہ ولیم کا دورہ اسرائیل اور فلسطین موجودہ حالات کے تناظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔
یہاں دن بدن نوجوانوں کو قتل کیا جا رہا ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے اور ان کی زرخیز زمینوں پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے نکتہ نظر سے اسرائیل ایک ایسا خنجر ہے جو جنگ عظیم دوئم کے زمانے کی عالمی سپرپاور برطانیہ کے وزیراعظم بالفور نے مشرق وسطیٰ کے قلب میں گھونپ دیا تھا تاکہ تیل کی دولت سے مالامال اس علاقے پر سامراجی تسلط قائم ہو سکے۔
اسرائیل نے اپنے قیام کے ساتھ ہی توسیعی پالیسی کے تحت فلسطینی علاقوں پر قبضہ شروع کر کے اسرائیلی بستیاں قائم کرنا شروع کر دیں اور مزاحمت کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کر کے ان کی زرخیز زمینوں کو ہتھیانا شروع کر دیا۔ شہزادہ ولیم جو برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس کے بیٹے ہیں تاہم برطانیہ کا اگلا بادشاہ بننے کے لیے چارلس کے بجائے شہزادہ ولیم کا نام لیا جا رہا ہے۔
شہزادہ چارلس طلاق یافتہ خاتون کمیلا پارکر سے شادی کرنے کی وجہ سے برطانوی تخت کی وراثت سے محروم کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ شہزادہ ولیم کے دورے کو غیرسیاسی قرار دیا جا رہا ہے جس کا زیادہ زور ٹیکنالوجی پر ہو گا اور اس کے تحت مشترکہ عرب اسرائیل منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ شہزادہ ولیم یعنی ڈیوک آف کیمبرج اپنے دورے کے دوران اسرائیلی حکام کے علاوہ فلسطینی لیڈروں سے بھی ملاقات کریں گے اور ان کے تقریباً ایک صدی پرانے اختلافات کی شدت کو مدہم کرانے کی کوشش کریں گے۔
شہزادہ ولیم کا دورہ اردن سے شروع ہو گا جہاں وہ شام سے آنے والے پناہ گزینوں کے کیمپ کو بھی دیکھنے جائیں گے۔ شہزادہ ولیم اردن کے تاریخی آثار قدیمہ کا دورہ بھی کریں گے جہاں ان کی اہلیہ کیتھرین مڈلٹن نے بھی دورہ کیا تھا کیونکہ ان کی فیملی اس علاقے میں مقیم رہی ہے۔
اسرائیل میں یہ شاہی جوڑا ''کنگ ڈیوڈ ہوٹل'' میں قیام کرے گا جو کہ برطانوی بادشاہی کے دور کا ایک عظیم الشان نمونہ ہے۔ وہاں سے یہ دونوں اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب جائیں گے جسے اسرائیل کا اقتصادی اور ثقافتی دارالحکومت قرار دیا جاتا ہے۔ بعدازاں وہ رام اللہ اور مغربی کنارے کا دورہ بھی کریں گے جہاں فلسطینی حکومت قائم ہے۔ برطانوی شاہی جوڑا اسرائیل اور ۔ فلسطینی فٹ بال کے کھلاڑیوں سے بھی ملاقات کرے گا کیونکہ فٹ بال اس علاقے کا سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل ہے۔
برطانوی جوڑے کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو فلسطینی علاقہ کہنے پر اسرائیل نے بہت برا منایا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس علاقے میں برطانیہ کے بہت گہرے اثرات ہیں کیونکہ 1920ء سے 1948ء تک اس علاقے پر برطانیہ کی حکمرانی رہی ہے۔ یہ وہ دور تھا جب کہا جاتا تھا کہ برطانوی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا یعنی مشرق سے مغرب تک کے تقریباً تمام اہم ممالک برطانیہ کے زیرتسلط تھے جب برصغیر ہند وپاک بھی طویل عرصے سے برطانیہ کی حکومت کا حصہ تھا۔
شہزادہ ولیم کا یہ دورہ دوررس اثرات کا حامل ہو گا۔ فلسطینیوں کو بھی توقع ہے کہ شہزادہ ولیم کے دورے سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنا مؤقف زیادہ بہتر انداز میں برطانیہ تک پہنچا سکتے ہیں۔ ادھر اسرائیل کی حکومت بھی پرامید ہے کہ اس کے مؤقف کو بھی بہتر اندداز میں سنا جائے گا۔ بہرحال شہزادہ ولیم کا دورہ اسرائیل اور فلسطین موجودہ حالات کے تناظر میں بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔