سندھی فلموں کا ہیرو وسیم راجا چل بسا

وسیم نے فلم کیریئر کی شروعات 1973 میں سندھی فلم گھونگھٹ سے کی تھی جس کے ہدایت کار غلام حیدر صدیقی تھے۔

ہماری پاکستانی فلم انڈسٹری میں اداکار وحید مراد کا ایک مقام تھا اور اسے رومانوی ہیرو کہتے تھے۔ 1955 سے سندھی فلموں کا بھی وقت شروع ہوگیا، حالانکہ جب مشترکہ ہندوستان تھا تو اس وقت بھی سندھی فلمیں بنتی تھیں۔ سندھی فلموں میں اچانک وسیم راجا کی انٹری ہوئی، جس کا چہرہ اور ادائیں اداکار وحید مراد سے مشابہت رکھتی تھیں۔

اس وقت سندھی فلموں میں مشتاق چنگیزی بھی اچھا خاصا چھایا ہوا تھا۔ وسیم کے آنے کے بعد سندھی فلموں میں ایک اچھے ہیرو کا اضافہ ہوگیا۔ فلموں کا دور ختم ہوا تو سندھی الیکٹرانک چینلز کی ابتدا ہوئی، اس لیے فلموں میں کام کرنے والے پہلے پی ٹی وی کی طرف پھر پرائیویٹ چینلز میں آگئے۔

وسیم راجا کو فلموں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر جو بھی اسے دیکھتا تو کہتا کہ وہ وحید مراد کی طرح سندھی فلموں میں کام کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔ وسیم میں تھوڑی سستی تھی جس کی وجہ سے وہ اردو فلموں میں زیادہ ٹائم نہیں دے سکے، ورنہ وحید مراد کی مصروفیات کی وجہ سے فلمساز اور ڈائریکٹر اسے کاسٹ کرنا چاہتے تھے۔

وحید مراد کامیابی کی اونچائی پر تھا اور وہ فلمسازوں کو مزید فلموں کے لیے وقت نہیں دے رہے تھے، اردو فلم 'پھر صبح ہوگی' کے لیے وحید مراد سے کہا گیا جس نے ایک دم انکار کردیا۔ اس کے بعد فلمساز نے جب ایک سینما پر وسیم راجا کی فلم میں اس کی تصویر دیکھی تو انھوں نے وسیم سے رابطہ کیا کہ وہ اسے اس فلم کے لیے ہیرو کاسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس فلم میں ان کا نام نثار مراد رکھا گیا، اس کے مقابل ہیروئن اداکارہ دیبا کاسٹ کی گئی تھیں۔ بعد میں وحید مراد کو ہی اس فلم میں کاسٹ کیا گیا تھا۔

وسیم نے فلم کیریئر کی شروعات 1973 میں سندھی فلم گھونگھٹ سے کی تھی جس کے ہدایت کار غلام حیدر صدیقی تھے۔ اس فلم میں ہیرو بننا بھی ایک اتفاق تھا۔ وسیم کا بڑا بھائی رمضان فلموں میں ڈیزائننگ کا کام بھی کرتا تھا اور اداکاری بھی۔ ایک دن اس نے غلام حیدر صدیقی کو وسیم کی تصویریں دکھائیں اور ہدایت کار نے وسیم کو ایک دم فلم میں کاسٹ کرلیا۔

اس سے پہلے ان کے بھائی نے وسیم کی تصویریں ہدایت کار شیخ حسن کو بھی دکھا چکے تھے جو سندھی فلم شہروفیروز بنارہے تھے۔ اس فلم کے لیے وسیم نے انکار کردیا تھا کیونکہ انھیں ایک اردو فلم کے لیے کاسٹ کیا جارہا تھا۔ قسمت کی بات دیکھیں کہ وہ اردو فلم ریلیز نہ ہوسکی اور سندھی فلم شہروفیروز نے ریکارڈ بزنس کیا، جس کے ہیرو مشتاق تھے۔ وہ اردو فلم ساون تھی جس کے ہدایت کار یاسر چنگیزی بخاری تھے۔

وسیم نے فلم گھونگھٹ لاھہ کنوار کی ریکارڈنگ حیدرآباد میں کی تھی اور وسیم کو 500 روپے معاوضہ ملا تھا۔ جب پہلی مرتبہ وہ کیمرہ کے سامنے آئے تھے تو وہ گھبرا رہے تھے لیکن ان کے بھائی رمضان نے اسے سب کچھ سکھا دیا اور اس میں اعتماد آگیا اور اچھا کام کیا۔ اس فلم کی ریکارڈنگ سب سے پہلے گانے کی پکچرائزیشن کی گئی۔

اس کی ہیروئن اداکارہ سعیدہ تھی جس کی زبان سندھی نہیں تھی۔ یہ گانا رنگین تھا، جسے Processing کے لیے لاہور بھیجا گیا تھا۔ اس فلم کے کچھ حصے بھی رنگین تھے، جس میں آخری سین بھی شامل تھا۔ جب فلم مکمل ہوگئی اور اس کی نمائش ہوئی تو وسیم اپنے آپ کو دیکھ کر حیران ہوگیا کہ یہ سب کچھ اس نے کیسے کیا۔ فلم کی کامیابی نے اس کے اعتماد کو بڑھادیا اور لوگ اس کی بڑی عزت کرنے لگے۔


اس فلم کی کامیابی میں نورجہاں کے گانوں کا بھی بڑا عمل دخل تھا۔ اس فلم کی کامیابی نے فلمسازوں کی اس کے گھر کے آگے لائن لگادی، مگر وسیم سب سے پہلے ہدایت کاروں میں غلام حیدر صدیقی کو اہمیت دیتے تھے کیونکہ وہ انھیں اپنا استاد اور کامیابی کا سہرا سمجھتے تھے۔ اس کی دوسری فلم بادل تھی، جس کے ہدایت کار غلام حیدر صدیقی تھے اور ہیروئن بھی سعیدہ تھیں۔

بادل فلم کی شوٹنگ کے دوران وسیم کو ایورڈی فلمز کے مالک جگ دیش آنند کا فون آیا کہ انھیں اردو فلموں کے مشہور ہدایت کار اور فلم ساز شباب کیرانوی نے لاہور بلوایا ہے۔ ایک دن وسیم جگ دیش آنند کے پاس گئے اور لاہور جانے کا دن مقرر کیا، کیونکہ اس وقت وہ سندھی فلموں کی شوٹنگ میں بڑے مصروف تھے اور اس شیڈول میں سے وقت نکالنا تھا۔ وہ پی آئی اے کی فلائٹ سے لاہور پہنچے اور اسے شاہ نور فلم اسٹوڈیو لایا گیا جہاں پر فلم 'انصاف اور قانون' کی شوٹنگ ہورہی تھی، وہاں پر ان کی سب سے پہلے اداکار محمد علی کے ساتھ ملاقات ہوئی۔

جب ہدایت کار شباب کیرانوی آئے تو اس نے وسیم کا تعارف اداکار محمد علی سے کرواتے ہوئے کہا کہ یہ سندھی فلموں کا معروف اور بڑا ہیرو وسیم ہے۔ محمد علی بڑا خوش ہوتا تھا جب بھی کوئی اداکار سندھ سے آتا وہ اس کی بڑی مدد کرتا تھا۔ہدایت کار شباب کیرانوی نے وسیم کو بتایا تھا کہ وہ فلم گھونگھٹ لاھہ کنوار فلم کے پوسٹر دیکھ کر اسے اپنی فلم ''میرا نام ہے محبت'' کے لیے کاسٹ کرنا چاہتے تھے، مگر وسیم کو پیغام نہیں مل سکا کیونکہ وہ سندھ کے ایک دور دراز علاقے میں ایک فلم کی شوٹنگ میں مصروف تھے، جہاں پر فون نہیں تھا۔

بہرحال یہ اس کی قسمت کی بات تھی، جب فلم ''میرا نام ہے محبت'' ریلیز ہوئی اور وسیم نے یہ فلم دیکھی تو اسے بڑا دکھ ہوا کہ اس نے ایک بڑی فلم کو مس کردیا۔ بعد میں وسیم نے کچھ اردو فلموں میں کام کیا، جس میں بلیک کیٹ، دہشت، جہیز، امانت، پیسہ بولتا ہے، مستی خان اور ایک فلم پشتو بھی تھی۔

اس کے بعد ایک مرتبہ انھیں فلم ''ان داتا'' میں سلطان راہی اور محمد علی کے مقابل کام کرنا تھا، لیکن جب اسے کسی نے کہا کہ تمہیں دونوں فلم میں بہت مارتے ہیں اور تم سندھی فلموں کے ہیرو ہو، تمہارے پرستار کیا کہیںگے، اس نے لیا ہوا ایڈوانس اور بنائے ہوئے کپڑے اقبال یوسف کو واپس کردیے۔ یہ بھی ایک اچھا اور بڑا موقع تھا جسے اس نے کھودیا۔

دوسری سندھی فلموں میں پنوں عاقل، سورٹھ، پیار کہو سینگھار، دھرتی لال کنوار، دھرتی آئیں آکاش، حاضر سائیں، حیدر خان، حاکم خان اور بہت ساری فلمیں شامل ہیں۔وسیم کا اصلی نام غلام نبی راجپوت تھا جس کا جنم 25 اگست 1947 میں کراچی میں ہوا۔ ان کے والد کچھ عرصے کے لیے کراچی سے ٹھٹھہ شفٹ ہوگئے، جہاں پر اس نے ایک ہوٹل کھولا جو نیشنل ہائی وے روڈ پر ہی واقع تھا، انھوں نے پرائمری اور سیکنڈری تعلیم ٹھٹھہ سے حاصل کی اور میٹرک کا امتحان 1965 میں پاس کیا، پڑھائی کے دوران وہ کھیل میں بھی حصہ لیتے تھے جس میں ہاکی، کرکٹ، فٹ بال، والی بال، کبڈی اور 400 میٹر ریس میں بڑی دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ڈپٹی کمشنر بنیں کیونکہ ایک مرتبہ جب ان کے کالج میں شاہ جہاں ایس کریم ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ آئے تو اس کی عزت اور شان دیکھ کر انھیں ڈپٹی کمشنر بننے کا شوق پیدا ہوا، جو پورا نہیں ہوسکا۔

1967 میں وسیم کے والد ٹھٹھہ چھوڑ کر پوری فیملی کے ساتھ واپس کراچی آگئے اور ہوٹل کرائے پر دے دیا۔ کراچی میں وسیم کو بی اے میں داخلہ نہیں مل سکا، جس کی وجہ سے وہ فارغ ہوتے تھے، اس دوران اس نے کراچی کی تفریح گاہوں کی سیر کرنا، تصویریں بنانے میں وقت گزارا۔ فلموں کے دور کے خاتمے کے بعد وہ پی ٹی وی، ریڈیو اور بعد میں پرائیویٹ چینلز کے ڈراموں میں کام کیا اور اچھا نام کمایا۔ وقت گزرتا رہا اور حالات بدلتے رہے، اب وہ سینئر فنکار بن گئے، اس نے اچھے کردار کو ترجیح دی اور چھوٹے موٹے رول کرنے سے گریز کرنا شروع کردیا۔

اسے ہمیشہ یہ شکایت تھی کہ نئے فنکار سینئر فنکاروں کی قدر اور عزت کرنا نہیں جانتے، جو افسوسناک ہے۔ مجھے جب عید کے دوسرے روز الطاف سومرو نے ان کی انتقال کی خبر سنائی تو ایک جھٹکا سا لگا، اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ زمین پر گرے اور چل بسے۔ ان کی بیٹی کے مسقط سے آنے پر اسے میوہ شاہ قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا اور اب وہ ابدی نیند میں ہیں۔
Load Next Story