جمہوریت اور سیاست
جمہوریت بھی کوئی آئیڈیل نظام ان معنوں میں نہیں ہے جو خامیوں سے مبرا ہو لیکن یہ بادشاہت اورآمریت سے لاکھ درجہ بہتر ہے
آرمی چیف بار بار کہہ چکے ہیں اور حال میں پھر کہا ہے کہ اب پاکستان میں قانون کی حکمرانی ہو گی یعنی کوئی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہو گا۔ یہ عزم قابل تعریف ہے ۔ قانون کی حکمرانی اور جمہوریت لازم و ملزوم ہے۔
قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور ممکن نہیں ورنہ جنگل کا قانون ہوتا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ہزاروں سال کی خونی جدوجہد میں جس میں کروڑوں لوگ کام آئے، انسانوں نے جاگیرداری، سرداری اور بادشاہی نظام کا خاتمہ کر کے اپنے لیے جمہوریت کو منتخب کیا۔
جمہوریت بھی کوئی آئیڈیل نظام ان معنوں میں نہیں ہے جو خامیوں سے مبرا ہو لیکن یہ بادشاہت اور آمریت سے لاکھ درجہ بہتر ہے تاہم جمہوریت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پہلی عوامی جمہوریت جس میں مزدور، کسان، محنت کش، کم مسائل رکھنے والے کلرک، سرکاری ملازمین، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، دانشور حضرات جو ان میں سے ہی ہوتے ہیں، اپنے نمایندے منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں یعنی پارلیمنٹ میں غریب عوام کی نمایندگی صرف غریب ہی کر سکتا ہے۔
دوسری قسم سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔اس میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کے بل بوتے پر سرمایہ دار ہی الیکشن لڑ سکتا ہے ، ایسے میں جب سرمایہ دار غریب عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو وہ اپنے مفاد میں وہ قوانین بنانے کو ترجیح دے گا ۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کہلاتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہی جمہوریت رائج ہے جس میں عوام کو میڈیا کے ذریعے ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں تک لایا جاتا ہے ، پھر اس کے بعد عوام کی چھٹی۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں انجینئرڈ الیکشن کرائے جاتے ہیں۔
عوام کو صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا ہے۔ انتخابات کے نتائج بالادست طبقات کی مرضی کے مطابق نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک مرتبہ عوام کو غلطی سے فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا لیکن ان کی رائے کو نہ مانا گیا جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ اب عوام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس عمل میں صرف تماشا ئی ہیں۔ عوام سے ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں ٹشو پیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
انتخابی عمل کو اتنا مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ غریب تو کیا اپرمڈل کلاس بھی انتخاب کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔ انتخابی خرچہ 5 سے 20 کروڑ تک چلا جاتا ہے۔ جائز ذرایع سے اتنا پیسہ خرچ کرنے کا کس میں دم ہے۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے جس میں سرمایہ کاری کرنے سے نہ صرف کئی گنا زیادہ ملتا ہے بلکہ حلقے کے اعلیٰ سرکاری افسران آپ کے ذاتی ملازم بن کر رہ جاتے ہیں۔
حقیقت میں یہ ایک بادشاہی ہے۔ صرف نام تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے لیکن نام نہاد ہے۔ پارٹی سربراہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں، نہ کوئی اس کا احتساب کر سکتا ہے۔ نتیجے میں پارٹی میں آمریت قائم ہو جاتی ہے۔ پارٹی میں انتخابات نہیں ہوتے۔ نامزدگی سے کام چلا کر اپنے من پسند لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے۔ حکمران اپنی آل اولاد کو اپنا جانشین بنانے پر مصر ہو جاتے ہیں چنانچہ پارٹی میں جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔
ہمارے سامراجی آقاؤں کے لیے یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوتی ہے۔ ایسے انتخابات کے نتیجے میں عوام ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف بغاوت بھی نہیں کرتے اور ان کے غصے اور محرومی کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔
سامراج کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اس کے زیراثر ملکوں کے لیڈر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ان کے مفادات کو کسی بھی طرح سے خطرہ لاحق نہ ہو۔ دوسری صورت میں اس لیڈر کو اقتدار سے محروم کر کے اس کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔ اس طرح اسے دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پچھلے ستر سال سے محدود جمہوریت رائج ہے ۔ اس جمہوریت کا چہرہ بظاہر جمہوری لیکن حقیقت میں یہ آمریت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو دنیا کے انتہائی حساس مقام پر واقع ہے، حقیقی جمہوریت کا رسک لیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں امریکا کی اجازت کے بغیر جاگیرداری، سرداری نظام ختم نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ستر سال بعد آج بھی یہ نظام رائج ہے کیونکہ بادشاہت کی جڑیں سرداری اور جاگیرداری نظام میں پوشیدہ ہیں۔ ان دونوں کے خاتمے کا مطلب بادشاہت کا خاتمہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی بقاء جاگیرداری اور سرداری نظام کی بقا میں ہے اور ان دونوں کی بقا مذہبی جنونیت، شدت پسندی میں ہے۔
پاکستان میں سویلین بالادستی نہ امریکا کو وارہ کھاتی ہے نہ عرب بادشاہتوں کو لیکن سویلین بالادستی نواز شریف کی شکل میں امریکا کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو توڑا جائے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی نے پچھلے ایک سال میں اداروں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔
اب یہ اپنے منطقی انجام یعنی ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا خود نواز شریف اور پاکستان کو بہت نقصان ہو گا۔ یاد رہے کہ خطے میں انڈین بالادستی امریکا کا مستقبل کا ایجنڈا ہے تاکہ ''نئے دور'' کا آغاز ہو سکے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے کے باوجود ان کی اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت برقرار رہنا، گرفتار نہ ہونا، ایسے سوال ہیں جن کا جواب وقت دے گا۔
جولائی بیگم کلثوم نواز کی زندگی اور صحت کے حوالے سے اہم وقت ہے۔
قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور ممکن نہیں ورنہ جنگل کا قانون ہوتا ہے یعنی جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ ہزاروں سال کی خونی جدوجہد میں جس میں کروڑوں لوگ کام آئے، انسانوں نے جاگیرداری، سرداری اور بادشاہی نظام کا خاتمہ کر کے اپنے لیے جمہوریت کو منتخب کیا۔
جمہوریت بھی کوئی آئیڈیل نظام ان معنوں میں نہیں ہے جو خامیوں سے مبرا ہو لیکن یہ بادشاہت اور آمریت سے لاکھ درجہ بہتر ہے تاہم جمہوریت کی بھی دو قسمیں ہیں۔ پہلی عوامی جمہوریت جس میں مزدور، کسان، محنت کش، کم مسائل رکھنے والے کلرک، سرکاری ملازمین، ڈاکٹر، انجینئر، صحافی، دانشور حضرات جو ان میں سے ہی ہوتے ہیں، اپنے نمایندے منتخب کر کے پارلیمنٹ بھیجتے ہیں یعنی پارلیمنٹ میں غریب عوام کی نمایندگی صرف غریب ہی کر سکتا ہے۔
دوسری قسم سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے۔اس میں ایسے قوانین بنائے جاتے ہیں جن کے بل بوتے پر سرمایہ دار ہی الیکشن لڑ سکتا ہے ، ایسے میں جب سرمایہ دار غریب عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہو کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو وہ اپنے مفاد میں وہ قوانین بنانے کو ترجیح دے گا ۔ یہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کہلاتی ہے۔ ہمارے ملک میں یہی جمہوریت رائج ہے جس میں عوام کو میڈیا کے ذریعے ہانک کر پولنگ اسٹیشنوں تک لایا جاتا ہے ، پھر اس کے بعد عوام کی چھٹی۔ ہم جیسے تیسری دنیا کے بیشتر ملکوں میں انجینئرڈ الیکشن کرائے جاتے ہیں۔
عوام کو صرف ووٹ ڈالنے کا حق دیا جاتا ہے۔ انتخابات کے نتائج بالادست طبقات کی مرضی کے مطابق نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایک مرتبہ عوام کو غلطی سے فیصلہ کرنے کا حق دیا گیا لیکن ان کی رائے کو نہ مانا گیا جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا۔ اب عوام سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اس عمل میں صرف تماشا ئی ہیں۔ عوام سے ہر پانچ سال بعد ووٹ ڈلوائے جاتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں ٹشو پیپر کی طرح کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا ہے۔
انتخابی عمل کو اتنا مہنگا بنا دیا گیا ہے کہ غریب تو کیا اپرمڈل کلاس بھی انتخاب کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتی۔ انتخابی خرچہ 5 سے 20 کروڑ تک چلا جاتا ہے۔ جائز ذرایع سے اتنا پیسہ خرچ کرنے کا کس میں دم ہے۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا منافع بخش کاروبار ہے جس میں سرمایہ کاری کرنے سے نہ صرف کئی گنا زیادہ ملتا ہے بلکہ حلقے کے اعلیٰ سرکاری افسران آپ کے ذاتی ملازم بن کر رہ جاتے ہیں۔
حقیقت میں یہ ایک بادشاہی ہے۔ صرف نام تبدیل ہو گئے ہیں۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے لیکن نام نہاد ہے۔ پارٹی سربراہ کسی کے آگے جواب دہ نہیں، نہ کوئی اس کا احتساب کر سکتا ہے۔ نتیجے میں پارٹی میں آمریت قائم ہو جاتی ہے۔ پارٹی میں انتخابات نہیں ہوتے۔ نامزدگی سے کام چلا کر اپنے من پسند لوگوں کو مسلط کیا جاتا ہے۔ حکمران اپنی آل اولاد کو اپنا جانشین بنانے پر مصر ہو جاتے ہیں چنانچہ پارٹی میں جمہوریت ختم ہو جاتی ہے۔
ہمارے سامراجی آقاؤں کے لیے یہ ایک آئیڈیل صورتحال ہوتی ہے۔ ایسے انتخابات کے نتیجے میں عوام ظالمانہ استحصالی نظام کے خلاف بغاوت بھی نہیں کرتے اور ان کے غصے اور محرومی کا علاج بھی ہو جاتا ہے۔
سامراج کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ اس کے زیراثر ملکوں کے لیڈر لوٹ مار کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ان کی بنیادی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ ان کے مفادات کو کسی بھی طرح سے خطرہ لاحق نہ ہو۔ دوسری صورت میں اس لیڈر کو اقتدار سے محروم کر کے اس کی جان بھی لی جا سکتی ہے۔ اس طرح اسے دوسروں کے لیے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے۔
پاکستان میں پچھلے ستر سال سے محدود جمہوریت رائج ہے ۔ اس جمہوریت کا چہرہ بظاہر جمہوری لیکن حقیقت میں یہ آمریت ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جو دنیا کے انتہائی حساس مقام پر واقع ہے، حقیقی جمہوریت کا رسک لیا ہی نہیں جا سکتا۔ پاکستان میں امریکا کی اجازت کے بغیر جاگیرداری، سرداری نظام ختم نہیں ہو سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ستر سال بعد آج بھی یہ نظام رائج ہے کیونکہ بادشاہت کی جڑیں سرداری اور جاگیرداری نظام میں پوشیدہ ہیں۔ ان دونوں کے خاتمے کا مطلب بادشاہت کا خاتمہ ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں کی بقاء جاگیرداری اور سرداری نظام کی بقا میں ہے اور ان دونوں کی بقا مذہبی جنونیت، شدت پسندی میں ہے۔
پاکستان میں سویلین بالادستی نہ امریکا کو وارہ کھاتی ہے نہ عرب بادشاہتوں کو لیکن سویلین بالادستی نواز شریف کی شکل میں امریکا کی ضرورت ہے تاکہ کشمیر کے مسئلے کو ایک طرف رکھ کر اسٹیبلشمنٹ کی طاقت کو توڑا جائے۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی نے پچھلے ایک سال میں اداروں کے بارے میں بدگمانی پیدا کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ہے۔
اب یہ اپنے منطقی انجام یعنی ٹکراؤ کی جانب بڑھ رہے ہیں جس کا خود نواز شریف اور پاکستان کو بہت نقصان ہو گا۔ یاد رہے کہ خطے میں انڈین بالادستی امریکا کا مستقبل کا ایجنڈا ہے تاکہ ''نئے دور'' کا آغاز ہو سکے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے کے باوجود ان کی اسلام آباد اور پنجاب میں حکومت برقرار رہنا، گرفتار نہ ہونا، ایسے سوال ہیں جن کا جواب وقت دے گا۔
جولائی بیگم کلثوم نواز کی زندگی اور صحت کے حوالے سے اہم وقت ہے۔