نئی پارٹی پرانا رواج
جمہوریت کا ہمیشہ گلا گھونٹنے والے ہمیشہ جمہوریت کے آنچل میں چھپتے رہے ہیں۔
پاکستان کی عمر کے 70 سال اشرافیہ کے اقتدار کی لڑائیوں میں بیت گئے لیکن اس طویل عرصے میں جس کو زوال نہیں آیا وہ ہے کرپشن۔ ماضی کے 70 سال کے دوران سیاست دانوں میں اختلاف دیکھے جاتے رہے لیکن یہ اختلافات اقتدار میں حصہ بقدر جثہ کی لڑائی کا حصہ رہے، 52 سال میں کبھی عوامی مسائل کے حل کے طریقوں پر نہ اختلاف رہا، نہ لڑائیاں رہیں، لڑائیوں کی اصل وجہ ہمیشہ اقتدار کلی کی خواہش رہی۔
اگرچہ اس دوران بے تحاشا لوٹ مار کا سلسلہ جاری رہا اور اپوزیشن بھی برابر کی حصہ دار رہی لیکن 70 سال میں کوئی ایک بھی ایسی جماعت برسر اقتدار نہیں آئی جس کی پہلی ترجیح عوام کے مسائل رہے ہوں۔ اس کی وجہ بلکہ اصل وجہ یہی ہے کہ اشرافیہ کی لغت میں عوامی مسائل کا ذکر ہی نہیں ملتا۔
دنیا کے دوسرے ملکوں میں بھی یہی عوام دشمن رسوائے زمانہ نظام زر رہا ہے لیکن اقتدار کے مالکوں نے اپنے مفاد ہی خاطر عوام کے آنسو پونچھنے کی کوشش کی، اس کی ایک وجہ تو اپوزیشن کا دباؤ رہا دوسری اس پون صدی میں عوام میں بھی کچھ شعور آیا، کچھ بیداری آئی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے عوام 70 سال پہلے جہاں کھڑے تھے اب بھی وہیں کھڑے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک میں ایسی سیاسی جماعتیں نہیں رہیں جن کی ترجیح اقتدار نہ رہا ہو، بلکہ عوام میں بیداری پیدا کرنا ان کی ترجیح رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ آج حکومت بھی ہے، حزب اقتدار بھی، لیکن ان کا موضوع عوامی مسائل نہیں ایک دوسرے پر سنگین الزام تراشی ہی رہا ہے۔
ہمارے ملک میں یہ سارا سیاسی کاروبار جمہوریت کی منڈی میں ہو رہا ہے، جمہوریت کا ہمیشہ گلا گھونٹنے والے ہمیشہ جمہوریت کے آنچل میں چھپتے رہے ہیں، اگرچہ یہ تاثر عام ہے کہ سابقہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی ایک ایسی حکومت ہے جس کا پورا خاندان ہی کرپشن کے الزامات میں عدالتوں کے چکر کاٹ رہا ہے اور ان چکروں کی گنتی عوام کے سامنے پیش کرکے اپنے آپ کو تاریخ کی مظلوم ترین حکومت ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن میڈیا میں آنے والی کرپشن کی داستانوں کی وجہ سے عوام اس سیاسی نوحہ خوانی سے زیادہ متاثر نظر نہیں آتے۔
یہ بجا اور درست ہے کہ اربوں بلکہ کھربوں کی کرپشن ہو رہی ہے لیکن ہم اس کا الزام عموماً حکمرانوں پر ہی لگاتے ہیں اور بہ ظاہر یہ غلط بھی نہیں لیکن ہم بحیثیت قوم اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں کہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا ناگزیر حصہ ہے اور جب تک کوئی ملک سرمایہ دارانہ جمہوریت میں مبتلا رہے گا کرپشن اس کا مقدر ہوگی۔
سرمایہ دارانہ نظام کے شاطروں نے عوام کو دھوکا دینے کے لیے ہر پانچ سال بعد انتخابات کروا کر نئی حکومت عوام کے سامنے لانے کا ایک شاطرانہ سلسلہ جاری کیا ہوا ہے تاکہ عوام کو پرانی حکومت سے نجات دلا کر انھیں نئی حکومت فراہم کرکے دھوکے میں مبتلا کیا جائے کہ نئی حکومت ان کے مسائل حل کرے گی، لیکن یہ فریبی لوگ کیا اس حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں کہ پرانی اور نئی حکومتوں کے عناصر ترکیبی ایک ہی ہوتے ہیں، پھر کیا تبدیلی آئے گی؟
پاکستان میں 25 جولائی 2018ء کو نئے انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور اگر کوئی آسمانی رکاوٹ پیش نہ آئی تو مقررہ وقت پر الیکشن ہوجائیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہی سیاسی جماعتیں وہی سیاسی رہنما اس فرق کے ساتھ کہ ایک آدھ تازہ دم رہنما اس بھیڑ میں شریک ہے اور اپنی بھاری آواز سے سب پر بھاری ہونے کی کوشش کر رہا ہے باقی سب وہی ہے، نعروں میں تھوڑی بہت تبدیلی کے باوجود سیاسی جماعتیں وہی ہیں، سیاسی رہنما وہی ہیں۔ عوام کو ورغلانے کے طریقے بھی وہی ہیں، پھر انتخابات عوام کو کیا دیں گے؟ البتہ ایک بات جو تازہ انتخابات میں نئی دیکھی جا رہی ہے وہ ہے سابق حکومت کا زیر احتساب آنا۔
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی بار دیکھا جا رہا ہے کہ برسر اقتدار حکمرانوں کا نہ صرف احتساب ہو رہا ہے بلکہ انھیں ان کے عہدوں وغیرہ سے نااہل بھی کر دیا گیا ہے اگرچہ سابق حکمران احتساب کے شکنجوں میں چاروں طرف سے کسے جا رہے ہیں لیکن ان کی ہمت کو داد دینی چاہیے کہ وہ دباؤ میں دفاعی کے بجائے جارحانہ پالیسی پر گامزن ہیں، اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ حکمرانوں نے عوام میں یہ تاثر قائم کرنے میں بھی کسی حد تک کامیابی حاصل کر لی ہے کہ ان پر ظلم کیا جا رہا ہے، بینظیر کے قتل کے بعد بھی لواحقین کو اس مظلومانہ پالیسی کا فائدہ یہ ہوا تھا کہ انتخابات جیت گئے تھے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سب کے سب بار بار کے آزمائے ہوئے ہیں ان آزمائے ہوؤں میں ایک بندہ ایک پارٹی نئی ہے، چونکہ نہ یہ اقتدار میں رہی نہ اس پر کرپشن کے الزامات لگے ہیں، اس لیے یہ پارٹی ایک منفرد پارٹی نظر آرہی ہے اور عوام اس سے اچھی توقعات باندھنے میں حق بجانب دکھائی دے رہے ہیں، لیکن انتخابات کے عین سامنے مہاجر سیاستدان یعنی ہجرت کرنے والے سیاستدان اس نیک نام پارٹی کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں اور حیرت ہے کہ پارٹی کے سربراہ نہ صرف ان فصلی بٹیروں کو قبول کر رہے ہیں بلکہ انھیں انتخابی ٹکٹوں سے بھی سرفراز کر رہے ہیں۔ یہ غیر اصولی بلکہ بددیانتانہ پالیسی کسی ایک جماعت کی نہیں بلکہ ہر جماعت دوسری جماعتوں سے آنے والے فصلی بٹیروں کے لیے ان کا ماضی ان کی ''خدمات'' دیکھے بغیر دیدہ و دل فرش راہ کر رہی ہے۔
ہر پارٹی میں سیکنڈ رینک کے ایسے بہت سارے قائدین ہوتے ہیں جن کی عمر کا ایک بڑا حصہ پارٹی کی خدمت میں گزر جاتا ہے اور بال سفید ہوجاتے ہیں، ایسے سینئر دوستوں کو نظرانداز کرکے نیو کمرز کو آگے لانا اور انتخابی ٹکٹ دینا نہ صرف پرانے اور کام کرنے والوں کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ سخت ناانصافی بھی ہے۔ اگرچہ پرانی پارٹیوں میں فصلی بٹیروں کی آؤ بھگت ایک بدترین روایت ہے لیکن نئے پاکستان کی داعی نئی پارٹی کو کیا یہ زیب دیتا ہے کہ وہ سینئر ساتھیوں کو نظرانداز کرکے نئے آنے والے لوز کریکٹر لوگوں کو آگے لائے؟