مدت ختم ہونے سے 6 روز پہلے قوانین میں تبدیلی ایف بی آر نے ایمنسٹی اسکیم تباہ کردی

 تبدیلیوں نے اسکیم کے ذریعے پوشیدہ  فارن اوراندرون ملک اثاثوں تک رسائی مشکل بنا دی۔

سابق وزیراعظم عباسی نے بھی تجویزکو قبول کرنے انکارکردیا تھا، ذرائع۔ فوٹو : فائل

ایف بی آر نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے سے صرف6 روزقبل قوانین میں تبدیلی کرکے اسکیم سے متعلق ہونے والا سابقہ تمام کام تباہ کردیا۔

ایف بی آر نے ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کی مدت ختم ہونے سے صرف پانچ روز قبل رواں مالی سال کے دوران کمائی جانے والی آمدنی کو فارمولا تبدیل کرتے ہوئے اسے اسکیم کے اسکوپ سے نکال دیا باوجود اسکے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز اسکیم کا کام کامیابی سے مکمل کرچکے تھے۔

قوانین میں تبدیلی کرنے کا ٹیکس انتظامیہ کا یہ فیصلہ آف شور اور ڈومیسٹک ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے متعلق 2 قوانین میں ترامیم لائے بغیر کیا گیا ہے، جس سے عوا م کا اعتماد بری طر ح متزلزل ہو سکتا ہے۔ اس فیصلے نے اسکیم سے استفادہ کرچکے ان سیکڑوں افرادکو بھی حیران کر نے کے ساتھ ساتھ ٹیکس انتظامیہ کی بازومروڑنے والی ٹیکنیکس کو بھی ایکسپوز کر دیا ہے۔

ایمنسٹی اسکیم 10اپریل 2018ء کو ایک آرڈینننس کے ذریعے سامنے لائی گئی تھی جبکہ اسکیم سے فائدہ اٹھانے کی آخری تاریخ 30 جون 2018مقررکی گئی تھی۔ اسکیم ریاست کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے خصوصی پیشکش کی گئی تھی کیونکہ ملک کو کسی بھی صورت میں فارن ایکسچینج درکار تھا۔ اسٹیٹ بینک حکام کے مطابق اس وقت قومی خزانے میں 10بلین ڈالرکا فارن ایکسچینج موجود تھا جو صرف 2 ماہ کے درآمدی بل کی ضروریات پوراکر سکتا تھا۔

ایف بی آر کے حکام نے جمعے کے روز اس امید کا اظہار کیا کہ پاکستان ایمنسٹی اسکیم سے 4 بلین ڈالر سے زائد جمع کر سکتا ہے، لیکن اگراسکیم ناکام ہو جاتی ہے تو اس سے حکومت کو درآمدی سکیٹر میں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔

یہ تبدیلیاں ایف بی آر کی ویب سائٹ پر کثیر تعداد میں پوچھے گئے سوالات کے ظاہری طور پر دیے گئے ملفوف جوابات کی شکل میں کی گئیں۔ ان دونئی وضاحتوں نے اسکیم کے ذریعے پوشیدہ فارن اوراندرون ملک اثاثوں تک رسائی مشکل بنا دی ہے، یہ لوگوں کا اعتماد مکمل طور پر ختم کردے گی جو ایک ماہ کے انتظار کے بعد اس سے بھرپوراستفادہ کرنے کے خواہشمند تھے۔ وہ لوگ جو اپنے اثاثے سامنے لانے کا پلان بنا رہے تھے، ایف بی آر کی تبدیل ہونیوالی پالیسی کے بارے میں تحفظات کاشکار ہوگئے ہیں۔


چیئرمین ایف بی آر طارق پاشا نے اپنے قریبی ذرائع سے بتایا ہے کہ قانونی اور ٹیکس ماہرین کی طرف سے آنیوالے فیڈ بیک میں یہ مشورہ دیا گیا کہ ایف بی آر کو کم از کم 85بلین ٹیکس کی مد میں موصول ہوگا۔ تاہم یہ دو تبدیلیاں اس حقیقت کے باوجود کہ لوگ اپنے اثاثے ظاہرکرنے کے لیے تیار تھے ان کوآہستہ آہستہ اپنے کیسز فائل کرنے سے روکنے کی طرف لے جا سکتی ہیں۔

پچھلے ہفتے ایف بی آر نے سوالات کے فہرست میں ایک نئی وضاحت تحریر کی کہ 1جولائی 2017ء سے9 اپریل 2018ء تک کی آمدنی کی ڈکلیئریشن فائل نہیںکی جا سکتی۔ کیونکہ یہ آمدنی ٹیکس سال 2018ء میں شمار ہوگی اور رواں سال کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن آرڈیننس کے آغازکی تاریخ یا اسکیم کے اپلائی ہونے کے آخری دن تک واجب الادا نہیں ہے۔

انھوں نے مزید وضاحت کی کہ تاہم اس بارے میں کوئی سوال نہیں کہ یہ آمدنی غیراعلانیہ ہے یا خفیہ۔ وضاحت اس قانون سے متصادم ہے جو والنٹیری ڈیکلریشن آف ڈومیسٹک ایسٹس ایکٹ 2018 میں بیان ہوئی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ایف بی آرکی تجویزکہ مالی رواں سال 2017 -18کی آمدنی کو ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے نکال دیا جائے کوقبول کرنے انکار کردیا تھا، اس کے بعد انھیں عناصر نے ان تبدیلیوں کے ذریعے اس سارے عمل کوخراب کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔

ایف بی آر کے ترجمان ڈاکٹر محمد اقبال نے رواں مالی سال کے دوران ہونیوالی کمائی کواسکیم سے نکالنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ایف بی آر ایک سال کے دوران کی آمدن پر دومختلف ٹیکس ریٹ نافذ نہیں کرسکتا۔

 
Load Next Story