شادی بیاہ کے سیزن میں بینڈ بجانے والے فارغ باجے زنگ کھانے لگے

شادیوں پر بینڈ باجے بجوانے کی روایت تیزی سے ختم ہونے لگی، بینڈ سے وابستہ فنکاروں کو بیروزگاری کا سامنا ہے، بینڈ ممبر


Kashif Hussain June 25, 2018
کلف لگی وردیوں اورکلغی پگڑیاں باندھے بارات میں دھنیں بکھیرتے بینڈ باراتوں کی سج دھج اور خوشیوں کے لمحات کو یادگار بناتے تھے۔ فوٹو: ایکسپریس

شادی بیاہ کا سیزن ہونے کے باوجود باراتوں میں بینڈ باجے بجانے والے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔

کچھ عرصہ پیشتر باراتوں کی شان سمجھے جانیوالے بینڈ باجے اب معدوم ہوتے جا رہے ہیں اور پڑے پڑے زنگ کھارہے ہیں، بینڈ بجانے والے ماہر فنکاروں کے چولہے بھی ٹھنڈے پڑے ہیں بیشتر بینڈ باجے والوں نے روزگار کیلیے دیگر ذرائع اختیار کرلیے ہیں فن کی ترویج اور سرپرستی نہ ہونے کی صورت میں یہ ہنر بھی معدوم ہونے کا خدشہ ہے۔

کلف لگی وردیوں اور طرح دار کلغی والی پگڑھیاں باندھے بارات کے آگے آگے دھنیں بکھیرتے بینڈ باراتوں کی سج دھج اور خوشیوں کے لمحات کو یادگار بنایا کرتے تھے تاہم ایک طرف شہری طرز زندگی میں تیزی سے تبدیلی کی وجہ سے شادی بیاہ کے رسومات پر بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جارہا ہے لیکن بینڈ باجے کی روایت تیزی سے ختم ہورہی ہے، کراچی چڑیا گھر سے متصل قدیم عمارت میں 10 سے زائد بینڈ کمپنیوں کے دفاتر قائم ہیں جہاں ان دنوں شادی بیاہ کا سیزن ہونے کے باوجود سناٹے کا راج ہے۔

بینڈ سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ عید کے فوری بعد شادی بیاہ کا سیزن شروع ہوگیا تاہم ہفتہ بھر میں اکا دکا باراتوں میں بینڈ بجانے کے آرڈر مل رہے ہیں پائپ بینڈ بجانے والے عبدالغفور نے بتایا کہ بینڈ سے وابستہ فنکاروں کو بدترین بے روزگاری کا سامنا ہے ہفتہ دس روز میں ایک سے دو آرڈر ملتے ہیں جس میں بینڈ کے ہر رکن کو 500 سے 700 روپے تک کی آمدن ہوتی ہے مہینے میں بمشکل 10سے 15ہزار روپے کی آمدن ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیشتر افراد یہ پیشہ ترک کرچکے ہیں یا پھر کراچی سے پنجاب کے شہروں میں منتقل ہوچکے ہیں جہاں اب بھی بینڈ باجے والوں کا روزگار لگا ہوا ہے۔

عبدالغفور کے مطابق کراچی میں پارٹیاں زیادہ سے زیادہ 5 سے 7 ہزار روپے معاوضہ دیتی ہیںجس میں 8 سے 10 افراد کو پرفارم کرنا ہوگا ہے کسی بھی پارٹی کیلیے تیاریاں دن سے شروع کردی جاتی ہیں وردیاں اور باجے تیار کیے جاتے ہیں دھنوں کی ریہرسل کی جاتی ہے جس کے بعد بینڈ ماسٹر کی سربراہی میں 10 افراد کا بینڈ تیار ہوتا ہے بینڈ کی آمدورفت کے لیے سوزوکی گاڑی کو مزید 1500 روپے ادا کرنا پڑتے ہیں انھوں نے بتایا کہ کراچی میں شادیوں میں شادیانے بجانے والے بینڈز کی تعداد میں تیزی سے کمی آرہی ہے اور اب 15سے 20 بینڈ گروپ ہی کام کررہے ہیں۔

بینڈ باجے کی تاریخی روایت کو جدید ساؤنڈ سسٹم ختم کرنے لگا

بینڈ باجے کی روایت ختم کرنے میں مہنگائی کے ساتھ جدید ساؤنڈ سسٹم نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے بینڈ باجے والوں کے مطابق اکثر باراتوں میں اب ساؤنڈ سسٹم لگاکر موسیقی کا انتظام کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بینڈ باجوں کی ضرورت نہیں پڑتی، بارات کے ساتھ بھی ٹرک پر بڑے ساؤنڈ سسٹم اور اسپیکر نصب کرکے چلائے جاتے ہیں جس پر کم سے کم 10 سے پندرہ ہزار روپے خرچ کیے جاتے ہیں، کم بجٹ والی پارٹیاں ڈھول بجانے والوں کو مدعو کرتی ہیں جو ہزار سے 1500روپے میں ڈھول بجاکر باراتوں اور مہندی کی تقریبات میں رونق لگاتے ہیں۔

کراچی میں اب بڑے باجوں اور ٹرمپٹ وغیرہ کا رجحان کافی حد تک کم ہوچکا ہے جن علاقوں اور برادریوں میں بینڈ باجوں کی روایت باقی ہے وہ اب پائپ بینڈ کو ترجیح دیتے ہیں جس میں 6 سے 8 پائپ بجانے والے ،بیس ڈرم اور 2 چھوٹے ڈرم شامل ہوتے ہیں اس بینڈ کی سربراہی بینڈ ماسٹر کرتا ہے، کراچی میں بینڈ اور شادی بیاہ میں شادیانے بجانے کی روایت کو قیام پاکستان کے وقت بھارت کے علاقوں ڈھول پور، اندور اور آگرے سے آنے والے ماہر فنکاروں نے شروع کیا تاہم وقت کے ساتھ بہت سے لوگ اپنا آبائی پیشہ ترک کرچکے ہیں اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں یہ پیشہ شوقیہ اختیار کرنے والے افراد کی بڑی تعداد کراچی میں اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔

کسی دور میں بینڈکے بغیر بارات روانہ نہیں ہوتی تھی، استاد غوث محمد

سپر اسٹار بینڈ کے نام سے کام کرنے والے ماسٹر غوث محمد کراچی کے قدیم اور مشہور بینڈز میں سے ایک ہیں جنھیں یہ فن اپنے والد سے ورثہ میں ملا، غوث محمد خود بھی پولیس کے بینڈ کا حصہ رہ چکے ہیں جبکہ ان کے والد کو بھی پولیس بینڈ میں شہرت حاصل رہی، ماسٹر غوث محمد ایک حادثے میں قوت گویائی اور سماعت متاثر ہونے کے بعد کسمپرسی کا شکار ہیں روزگار متاثر ہونے سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔

غوث محمد نے بتایا کہ کسی وقت بینڈ کے بغیر شادیاں ادھوری سمجھی جاتی تھیں اور بینڈ باجے والوں کے انتظار میں باراتوں کو روانہ ہونے میں تاخیر ہوجاتی تھی، بینڈ کی پرفارمنس سے باراتیوں سمیت پورے علاقے کے لوگ لطف اندوز ہوتے تھے تاہم اب وقت کے ساتھ یہ کام ختم ہو چکا ہے ماسٹر غوث محمد نے بتایا کہ انہوں نے بے شمار شاگرد تیار کیے جو ملک سے باہر خلیجی ریاستوں اور مڈل ایسٹ ملکوں میں بینڈ کا حصہ ہیں ان کے بہت سے شاگرد پولیس اور دیگر فورسز کے بینڈ میں شامل ہیں ماسٹر غوث تمام اقسام کے باجے بجانا جانتے ہیں اور پائپ بینڈ بجانے میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں شہنائی بجانے میں ان کی مہارت قابل دید ہے لیکن حادثہ کی وجہ سے ان کا اعصابی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔

ماسٹر غوث کے پاس باجوں اور پائپ بینڈز کا وسیع ذخیرہ موجود ہے لیکن بجانے والے نہیں رہے ان کے بہت سے شاگر دلبرداشتہ ہوکر یہ کام چھوڑ چکے ہیں انھوں نے بتایا کہ اس وقت مختلف بینڈز میں ماہر فنکاروں کی کمی ہے پورے شہر میں 10 سے 12 ماہر فنکار رہ گئے ہیں ملکی سطح پر اس فن کی ناقدری کے سبب خود بینڈ کمپنیاں چلانے والے بینڈ ماسٹرز بھی اپنے بچوں کو یہ فن نہیں سکھارہے اور بچوں کو جیسے تیسے کرکے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے یا پھر کوئی ہنر سکھانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

تہواروں اور سرکاری ایام پر بھی بینڈ کے مظاہرے کی روایت کم ہونے لگی

اہم تہواروں، قومی ایام اور سرکاری تقریبات میں بھی بینڈ کے مظاہرے کی روایت کم ہورہی ہے، بینڈ بجانے والوں کے مطابق یوم پاکستان، جشن آزادی و دیگر قومی تہواروں کے موقع پر سرکاری اداروں اسکولوں اور نجی اداروں میں بینڈز کو قومی دھنیں بکھیرنے کے لیے مدعو کیا جاتا تھا تاہم وقت کے ساتھ یہ روایت بھی ختم ہورہی ہے۔

بینڈ سروس سے وابستہ افراد کے مطابق اگر قومی تہواروں پر بینڈز کے مظاہرے کو فرغ دیا جائے تو ایک معدوم ہوتے ہوئے فن کو دوبارہ زندہ کرنے کے ساتھ اس کام سے وابستہ سیکڑوں گھرانوں کے چولہے ٹھنڈے ہونے سے بچائے جاسکتے ہیں بینڈ سکھانے کے لیے فورسز میں خصوصی اکیڈمیاں قائم ہیں لیکن نجی شعبے میں اس طرز کی کوئی اکیڈمی موجود نہیں ہے بینڈ کی مہارت کو دیگر فنون لطیفہ کی طرح پذیرائی اور فروغ نہ ملنے سے اس فن کی نئی نسل کو منتقلی کا عمل رک گیا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں