نظریاتی نہیں انتخابی سیاست ہورہی ہے کوئی بھی پارٹی منشور کا اعلان نہیں کرسکی

سیاسی تجزیہ نگاروں و قانونی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال


سیاسی تجزیہ نگاروں و قانونی ماہرین کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال۔ فوٹو:ایکسپریس

عام انتخابات کی آمد آمد ہے جس کے باعث سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور جوڑ توڑ کا سلسلہ جاری ہے جبکہ عوام کی نظریں عام انتخابات پر لگی ہوئی ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ''ملکی سیاسی صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا انعقاد کیا گیا جس میں سیاسی تجزیہ نگاروں و قانونی ماہرین نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر اعجاز بٹ (سیاسی تجزیہ نگار)

پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جولائی میں عام انتخابات منعقد ہورہے ہیں، اس ماہ میں موسم شدید گرم ہوتا ہے جس کے اثرات ٹرن آؤٹ پر پڑ سکتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک مسئلہ بنے گا۔ موسم کے علاوہ جو چیزیں انتخابات میں التوا کا سبب بن سکتی تھیں جن میں فارم کا مسئلہ و دیگر شامل ہیں، پر الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ نے قابو پالیا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں حکومت کے 10 اور مرکز میں 5 سال مکمل کرلیے ہیں۔ ان کے بنیادی وعدوں میں توانائی بحران کا خاتمہ اور دہشت گردی کے خلاف جنگ شامل تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ وعدے کس حد تک پورے ہوئے اور عوام کو کتنا ریلیف ملا؟ حقائق یہ ہیں کہ لوڈشیڈنگ میں کمی تو آئی ہے مگر اس کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔ ہمارے نظام میں دہشت گردی کے خاتمے کا کریڈٹ فوج لیتی ہے کہ اس نے کراچی میں امن بحال کروایا اور بہترین سٹرٹیجی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی، اس کا کریڈٹ سول حکومت لینا بھی چاہے تو عوام اسے تسلیم نہیں کرتے۔ مسلم لیگ (ن) نے عوام سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے، مہنگائی و بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا اب ان کے پاس عوام میں لے جانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے کرپشن کے کیسز کو سیاسی بنانے اور اس بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے، اسی لیے اب ''ووٹ کو عزت دو'' کا نعرہ لگا کر یہ کہا جا رہا ہے کہ ہم سویلین بالادستی چاہتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو مقبول لیڈر تھے، نواز شریف نے بھی بے حد مقبولیت حاصل کی مگر وہ ڈیلور نہیں کرسکے یہی وجہ ہے کہ بھٹو اور نواز کے بعد فوج اقتدار میں آئی مگر لوگ باہر نہیں نکلے۔ افسوس ہے کہ سیاستدانوں نے سیاست کو اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا لہٰذا ایسی صورتحال میں ووٹ کو عزت ملے گی اور نہ ہی سویلین بالادستی قائم ہوسکے گی۔ ووٹ کو حقیقی معنوں میں عزت دلوانے کیلئے سیاستدانوں کو اپنے رویے جمہوری بنانا ہوں گے۔ صدر مسلم لیگ (ن)شہباز شریف نے اقتدار کے آخری روز کہا کہ اب لوڈشیڈنگ ہوئی تو ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہوں گے جو میرے نزدیک ناکامی کا اعتراف ہے کہ وہ لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کرسکے۔ مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کررہی ہے، ڈالر کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، انہوں نے ڈیلور نہیں کیا اوراب یہ ہمدردی کا ووٹ چاہتے ہیں جس کا فائدہ نہیں ہوگا۔ عام انتخابات میں نئی چیزیں سامنے آئیں گی۔ عمران خان مسلم لیگ (ن) کی ناکامیوں کافائدہ اٹھا سکتے تھے مگر انہوں نے (ن) لیگ چھوڑنے والے امیدواران کو ٹکٹ دیکر اپنی پارٹی کے ساتھ زیادتی اور مخلص کارکنوں کے ساتھ ناانصافی کی ہے، اب عوام با شعور ہیںلہٰذا تحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑے گا اور انتخابات کے نتائج پر انہیں پچھتاوا ہوگا۔ عام انتخابات کے حوالے سے بات کریں تو سینیٹ کا الیکشن ، آئندہ انتخابات کا ماڈل ہے۔ کوئی بھی جماعت اکیلے اقتدار میں نہیں آسکے گی بلکہ 4، 5 جماعتوں پر مشتمل مخلوط حکومت بنے گی، کسی بھی بڑی جماعت کا وزیراعظم نہیں بنے گا بلکہ محمد خان جونیجو یا صادق سنجرانی جیسے کسی نام پر اتفاق ہوگا۔ اس انتخابات میں آزاد امیدواران کی ایک بڑی تعداد جیتے گی جو پریشر گروپ کے طور پر سامنے آئے گی۔ اس ساری صورتحال میں مجھے اسٹیبلشمنٹ کا کردار بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ نواز شریف کیسز میں بری طرح پھنس چکے ہیں، انہیں انتخابات میں واضح شکست نظر آرہی ہے لہٰذا ممکن ہے کہ وہ انتخابات کا بائیکاٹ کردیں۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف کے بیانیے کو پذیرائی مل رہی ہے کیونکہ ان کے جلسوں میں لوگ آرہے ہیں۔ پہلے ان کی حکومت تھی اور جلسے مینج کیے جا رہے تھے مگر اب ان کی حکومت ختم ہوچکی ہے اور عوام نے ان کے بیانیے کو رد کیا ہے۔ یہ کرپشن کے کیس کوسیاسی بنانے کی کوشش کررہے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار حکمران ہیں، نواز شریف خود کو مظلوم ثابت کرکے انتخابات میں جانا چاہتے ہیںلیکن ان کے بیانیے کو عوامی پذیرائی نہیں ملے گی۔

رمضان چودھری (ماہر قانون)

نیب قوانین کے مطابق کسی بھی ریفرنس کا فیصلہ 30 دن میں کرنا ہوتا ہے مگر سپریم کورٹ نے نیب عدالت کو ریفریسز کے فیصلے کیلئے6 ماہ کا وقت دیا ، بعدازاں نیب عدالت نے مزید وقت مانگا تو سپریم کورٹ نے دے دیا اور اب ایک بار پھرتوسیع کرکے فیصلے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیا گیا ہے لہٰذا ریفرنسز کی جلد بازی میں سماعت اور عدالتی پریشر کا بیانیہ حقائق کے برعکس اور گمراہ کرنے کی کوشش ہے ۔ خصوصی عدالتیں جن میں نیب ، اینٹی کرپشن ،انسداد دہشت گردی و فوجی عدالتیں شامل ہیں، میں مخصوص مقدمات اسی لیے بھیجے جاتے ہیں کہ وہاں فیصلے جلد ہوں اور بروقت انصاف ملے ۔ عدالتوں کے جج، چیف جسٹس کی منظوری سے لگائے جاتے ہیں جو حاضر سروس جج ہوتے ہیں لہٰذا عدالتیں آزاد ہیں اور ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے بلکہ قانون کے مطابق کارروائی چل رہی ہے۔ نواز شریف کے خلاف اس وقت تین ریفرنسز زیر سماعت ہیں جن میں سے ایون فیلڈ ریفرنس تقریباََ مکمل ہوچکا ہے، اس میں استغاثہ کی شہادتیں ہوچکی ہیں، ملزمان کا اپنی صفائی میں بیان رکارڈ اور نیب پراسیکیوٹر کی بحث بھی مکمل ہوچکی ہے۔دیگر ریفرنسز میں پراسیکیوشن کے شواہد مکمل ہونے کے قریب ہیں، پھر ان کا بیان ہوگا اور اس پربحث ہوگی جس کے لیے سپریم کورٹ نے ایک ماہ کا وقت دیا ہے جو انتہائی مناسب ہے مگر خواجہ حارث نے کیس سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا، جو کسی بھی طور درست نہیں تھا کیونکہ اس سطح پر کسی وکیل کا کیس سے دستبردار ہونا اور یہ کہنا کہ وہ پریشر برداشت نہیں کرسکتا ،پیشہ وارانہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ملکی اہمیت کا مسئلہ ہے کیونکہ سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے خلاف کیسز ہیں۔ اُس وقت خیال یہ کیا جارہا تھا کہ خواجہ حارث کا فیصلہ سیاسی ،تاخیری حربہ اور کیس کو التوا کا شکار بنانے کی منظم کوشش ہے۔ کہا جا رہا تھا کہ خواجہ حارث کی جانب سے موکل کے ساتھ ملی بھگت سے کیس خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ نے خواجہ حارث کو دستبرداری کی اجازت نہیں دی لیکن اگر وہ کیس سے ہٹ جاتے تو کوئی خاص فرق نہیں پڑنا تھا بلکہ نواز شریف کو نئے وکیل کے لیے دیئے گئے وقت کے بعد اگر وہ وکیل نہ کرتے تو عدالت نے سرکاری وکیل فراہم کردینا تھا جو کیس کو آگے لے کر چلتا۔ عدالت نے تیسری مرتبہ کیس میں توسیع دی ، اگر اب بھی ضرورت محسوس ہوئی تو مزید توسیع دی جاسکتی ہے۔ نیب عدالت نے سپریم کورٹ کے دیے گئے ٹائم فریم میں کیس کا فیصلہ کرنا ہے، اگر نہیں کرے گی تو اسے تاخیر کی وجوہات بتانا پڑیں گی۔ میرے نزدیک اس کیس کو سیاسی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ ''فائر بیک'' کرے گا اور اس کانقصان اٹھانا پڑے گا۔ انہیں ذوالفقار علی بھٹو کا کیس نہیں بھولنا چاہیے۔ بھٹونے سیدھے سادھے کیس کو سیاسی بنانے کی کوشش کی اور ان کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، اب یہ بھی ایسا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا انہیں نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ نواز شریف کے پاس اچھا موقع تھا کہ وہ اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لیجاتے مگر سیاسی قیادت ''ٹی او آرز'' پر راضی نہیں ہوسکی۔ پھر معاملہ عدالت میں چلا گیا، انہوں نے عدالتی کارروائی کو سنجیدگی سے نہیں لیا، انہیں ایک اور موقع ملا اور ''جے آئی ٹی'' بن گئی مگر یہ موقع بھی ضائع کردیا گیا اور پھر سپریم کورٹ نے معاملہ نیب عدالت کو بھیج دیا کہ یہ وہاں 6 ماہ میں تمام ثبوت جمع کروادیں اور اپنی صفائی کی شہادت دیں۔ انہوں نے کسی سطح پر بھی ثبوت نہیں دیے اور نیب عدالت میں صفائی دینے سے بھی انکار کردیا۔ اب انہیں نظر آرہا ہے کہ فیصلہ ان کے خلاف آئے گا، اسی لیے تاخیری حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ اگر یہ خود کو شفاف ثابت کرکے بریت لے کر آتے تو انہیں انتخابات میں بھی فائدہ ہوتا۔ اب اگر انہیں سزا ہوتی ہے تو یقینا اس کے منفی و مثبت اثرات مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر پڑیں گے،انہیں لوگوں کی ہمدردیاں بھی مل سکتی ہیں۔ اس وقت نیب بلا روک ٹوک تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے،آنے والے دنوں میں اس کا دائرہ کار مزید وسیع ہوگا، مزید لوگوں کونوٹس جاری ہوں گے اور کوئی بھی قانون سے بچ نہیں سکے گا۔ عدلیہ تین چیزوں کو لے کر چل رہی ہے جن میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، ان کی فراہمی میں حکومتوں کی کوتاہیاں اور کرپشن کے معاملات شامل ہیں۔ عدلیہ بالکل آزاد ہے، اس پر جانبداری کا کوئی الزام نہیں ہے لہٰذا اب کسی سے رعایت نہیں برتی جائے گی۔انتخابی شیڈول آچکا ، کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال ہورہی ہے مگر اس کے باوجود نہ جانے کیوں چہ مہ گوئیاں ہورہی ہیں کہ الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں۔ 60 دن میں الیکشن کروانا آئینی طور پر لازمی ہے، اگر اس مدت میں الیکشن نہ ہوئے تو پھر معلوم نہیں کہ کب انتخابات ہوں۔ چیف جسٹس بارہا کہہ چکے ہیں کہ انتخابات وقت پر ہوں گے اور وہ ایک لارجربنچ بھی بنا رہے ہیں جو سپروائز کرے گا۔ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، یہ ادارہ بھی کہہ رہا ہے کہ وقت پر الیکشن کروائیں گے لہٰذا مقتدر اداروں کی طرف سے تاخیر کی کوئی رائے نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کو افواہوں پر کان دھڑنے کے بجائے بھرپور طریقے سے انتخابی عمل کا حصہ بننا چاہیے۔2013ء کے انتخابات سے پہلے پیپلز پارٹی اور اب 2018ء کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) ایک ہی طرح کے مسائل کا شکار ہے جس میں وزیراعظم کی نااہلی، مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ و نیب ریفرینسز شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ کرپشن کے الزامات لے کرانتخابی میدان میں اتری، طالبان نے انہیں انتخابی مہم بھی نہ چلانے دی اور پھر وہ ایک صوبے تک محدود ہوکر رہ گئی۔ مسلم لیگ (ن) بھی اسی طرح کے مسائل کے ساتھ انتخابی میدان میں اتر رہی ہے، ایسا لگتا ہے کہ یہ جماعت ایک صوبے میں کسی ایک حصے تک محدود ہوسکتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس وقت قومی سطح کی کوئی بھی جماعت نظر نہیںا ٓرہی بلکہ تمام جماعتیں کسی ایک صوبے تک محدود ہیں۔ یہ سیاسی جماعتوں کی کوتاہی ہے مگر الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگا دیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر امجد مگسی (پروفیسر پاکستان سٹڈی سینٹر جامعہ پنجاب)

سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں سے سیاسی میدان نکلتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔ معاملات ہنگ پارلیمنٹ کی طرف جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کے آپس کے اختلافات ہیں جن کے باعث سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا۔اب سیاسی قیادت یہ التجا کرتی ہوئی نظر آتی ہے کہ انہیں مکمل اقتدار دیا جائے اور یہ مطالبہ نواز شریف، عمران خان و دیگر سیاسی رہنماؤں کی جانب سے نظر آتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ آئندہ سیاسی جماعتیں فیصلہ سازی کر پائیں گی یا نہیں؟ وہ وزیراعظم خود منتخب کریں گی یا کسی کو مسلط کیا جائے گا؟ 2013ء کے انتخابات میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کو الیکشن مہم سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، اب بھی ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ اسے دیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے جو نہیں ہونا چاہیے، نگران حکومتوں و ارباب اختیار کو چاہیے کہ سب کو یکساں مواقع فراہم کریں لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو نقصان ہوسکتا ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی بڑی جماعتیں ہیں، سیاسی استحکام کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی عمل میں بھرپور طریقے سے حصہ لینے دیا جائے۔ اگر قانونی یا کسی اور طریقے سے یہ تاثر قائم ہوا کہ ایک خاص جماعت یا خاندان کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو سیاسی نظام پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ نیب کے حوالے سے بات کریں تو پنجاب کی 56 کمپنیوں اور احد چیمہ کے خلاف کارروائیاں نظر آتی ہیں۔ احتساب بے لاگ اور سب کا ہونا چاہیے لیکن جب صرف برسر اقتدار جماعت کے خلاف کارروائیاں ہوں گی تواحتساب کے حقیقی نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست شخصیات کے گرد گھوم رہی ہے جبکہ نظریات ختم ہوچکے ہیں۔اس وقت نظریاتی نہیں انتخابی سیاست ہورہی ہے۔ الیکشن میں ایک ماہ رہ گیا ہے مگر ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے اپنے انتخابی منشور کا اعلان نہیں کیا جبکہ سارا زور شخصیات پر ہے جو ایک جماعت چھوڑ کر دوسری جماعت میں شامل ہورہی ہیں۔ افسوس ہے کہ سیاسی جماعتوں میں خود احتسابی کا عمل بالکل نہیں ہے، تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت بھی شخصیات کے اثر میں آکر اپنا نظریہ کھوچکی ہے اور پارٹی کارکنوں کے بجائے دوسری جماعتوں سے آئے ہوئے لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے جارہے ہیں۔ اس وجہ سے ہمیں سیاسی نظام کی مضبوطی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ شخصیات کسی پریشر کے نتیجے میں اپنی جماعت تبدیل کرتی ہیں اور الیکشن جیتنے کے بعد حکومت سازی کے مرحلے میں بھی کسی کے اشارے پر چلتی ہیں۔ ایسے مفاد پرستوں کا راستہ سیاسی قیادت نے روکنا تھا مگر کسی بھی جماعت نے ان کا راستہ نہیں روکا جس کی وجہ سے ہمیں ہنگ پارلیمنٹ نظر آرہی اور یہ بھی کہ اب سیاسی فیصلے کہیں اور ہوں گے۔ افسوس ہے کہ سیاستدانوں نے اپنے مفادات کے لیے سیاست کو استعمال کیا، سیاسی جماعتوں کو ادارہ نہیں بنایا گیا، یہی وجہ ہے کہ سیاسی سفر جہاں سے شروع ہوا تھا آج پھر وہیں کھڑا ہے اور نظریاتی کارکن سراپا احتجاج ہیں۔ مسلم لیگ (ن) انتخابی سیاست کے حوالے سے مقبول جماعت ہے اور تحریک انصاف کا سب سے بڑا مقابلہ اسی جماعت کے ساتھ ہے۔ لوڈ شیڈنگ پہلے سے بہت کم ہوچکی ہے جبکہ انہوں نے دیگر ترقیاتی کام بھی کروائے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے بھی مثبت کام ہوا ہے اورہماری سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔

ڈاکٹر عاصم اللہ بخش (تجزیہ نگار)

سیاستدان اختیارات کو ذمہ داری سمجھنے کے بجائے اپنے مفادات کیلئے استعمال کرتے رہے۔ دوسری طرف فوج ملکی مفاد کا دفاع کرتے کرتے آگے بڑھی تو ادارہ جاتی مفاد اور ملکی مفاد کے درمیان لکیر دھندلاگئی اورپھر ادارہ جاتی مفاد ہی ملکی مفاد بن گیا اور اس کا فیصلہ ملٹری لیڈر شپ کرتی ہے۔ اس صورتحال سے ٹکراؤ پیدا ہوا کیونکہ جب ایک ہی ریاست میں طاقت کے دو مراکز قائم ہوجائیں تو عدم تحفظ کی صورتحال پیدا ہوتی ہے جو صرف سیاسی حلقوں میں ہی نہیں بلکہ فوجی حلقوں میں بھی پائی جاتی ہے،یہی وجہ ہے کہ سیاستدان سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف ہونے والے کسی بھی اقدام کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے اور ایسا ہی تصور فوج میں بھی پایا جاتا ہے کہ سیاستدان ان کے مخالف ہیں۔ہمارے سسٹم میں اعتماد کے ووٹ سے وزیراعظم نے اپنے عہدے پر رہنا ہوتا ہے اور پارلیمنٹ میں بہت سارے ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ادھر ادھر جاتے رہتے ہیں، ایسے سیاستدان جو کسی بھی جماعت میں شامل ہوکر اس کی جیت کا سبب بنتے ہیں، سیاسی قیادت ان کے ہاتھوں یرغمال ہوتی ہے، یہی لوگ تمام جماعتوں میں جاتے ہیں اور اگر غیر جانبدار حکومت بنے گی تو یہ اس کا بھی حصہ ہوں گے۔ملکی سیاسی استحکام کیلئے اداروں کے درمیان عدم تحفظ کی فضا کو ختم کرنا ہوگا، ہمیں سمجھنا چاہیے کہ فوج اور سیاستدانوں کا ایک دوسرے کے بغیر گزارہ نہیں ہے۔جب بھی ڈکٹیٹر اقتدار میں آئے تو وہ سول قیادت کے کردار کو سامنے لائے۔ دوسری طرف جب سویلین حکومت آتی ہے تو اسے پاکستان کی جیو سٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے سیلاب سے لے کر دہشت گردی کی جنگ تک فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔ اداروں میں ٹکراؤ کی کیفیت سے عوام متاثر ہوتے لہٰذا جب تک ہم بنیادی ڈھانچے کے مسائل حل نہیں کریں گے تب تک معاملات آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ہنگ پارلیمنٹ کی باتیں ہورہی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف مخصوص لوگ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جارہے ہیں اور ہر جماعت کے پاس جیتنے والے امیدوار موجود ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ آنے والی حکومت کتنی دیر قائم رہ سکے گی، میرے نزدیک اس کی مدت 2 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔ آئندہ برسوں میں پاکستان کے سٹرٹیجک و معاشی مسائل میں اضافہ ہوگا، شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان معاملات، وسطی ایشیاء و افغانستان کا مسئلہ بھی ہے لہٰذاجب تک ادارے مضبوط نہیں ہوں گے تب تک مسائل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ہم فوج کو کامیاب اور فاتح دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ کردار سرحدوں سے باہر ہونا چاہیے۔ اسی طرح سیاسی قیادت ذمہ دار، بردبار اور دستوری حکمرانی کی قائل ہونی چاہیے جو ادارے مضبوط کرے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ہم آئین کو مرکز مان کر اپنے دائرہ کار اور اختیارات کے گرد لکیر نہیں کھینچیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سیاستدانوں کا جب بھی ریاستی اداروں سے ٹکراؤ ہوتا ہے تو سیاستدان کی فتح اس لیے ہوجاتی ہے کہ وہ فوراََ مظلوم بن جاتا ہے۔ خاص طور پر اس تناظر میں جب اداروں کی کارکردگی میں تسلسل نہ ہو اور بظاہر یہ نظر آنے لگے کہ کسی کے لیے لیول فیلڈ ہے اور کسی کے راستے میں پتھر ڈالے جارہے ہیں۔ اس سے اداروں کاا عتماد، صلاحیت اور فائدہ کم ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک ہمیں بڑے فیصلے لینے چاہئیں اور سسٹم کی سٹرکچرل خرابیوں کو دور کرنا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں