سیاسی عزم اور قراقرم میں سے ریشمی راستہ

اب تک آپریشن بنگال، بلوچستان، پختونخوا، فاٹٓا، کراچی اور حیدرآباد نے سہے تھے، پنجاب پر یہ وقت کبھی آیا ہی نہیں تھا

اے مالکانِ تختِ لاہور، پہلے ہی آپ نے گلا پھاڑ پھاڑ کر ستر سال سے جاری سرد جنگ کو کھلی جنگ بنا دیا ہے، اب جلتی پر مزید تیل نہ ڈالیے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کل کس نے دیکھی ہے؟ کون الیکشن جیتے گا؟ کون جیل جائے گا؟ کس کا نظریہ مقبول ہو گا اور کس کا مسترد؟ تحریک چلے گی یا گولی؟ مزید پنڈورا باکس کھلتے چلے جائیں گے یا پھر بالجبر بند کردیئے جائیں گے؟ کوئی عارضی ایمرجنسی لگے گی یا مستقل بوریا بستر گول ہو گا یا دریا اپنا راستہ بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ ہر جانب سے یا ایک دو جوانب سے تدبر، بڑے پن اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا جائے گا یا نہیں؟ کل کسی نے نہیں دیکھی ہے؟

ضد سانحات کو جنم دیتی ہے۔ لچک اور معاملہ فہمی ہی سیاست ہے۔ باقی سب آمریت ہے۔ ہر لچک اور ہر معاملہ فہمی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہوتی۔ معاملات کا سیاسی حل نکالا جا سکتا ہے۔ بس ذرا آؤٹ آف دی باکس سوچنا پڑتا ہے۔ سیاسی وِل (سیاسی عزم) تو قراقرم میں سے بھی راستہ نکال لیتی ہے... اور وہ بھی ریشمی!

پنجاب یا اس کی لیڈرشپ پر شاید ایسا وقت کبھی آیا ہی نہیں تھا۔ اب تک آپریشن بنگال، بلوچستان، پختونخوا، فاٹٓا، کراچی اور حیدرآباد نے سہے تھے۔ سیاسی عمل سے بے دخلی بھی اُدھر ہی کے سیاستدانوں نے سہی تھی۔ پری پول دھاندلی یا رِگڈ پول بلوچستان یا سندھ یا فاٹا کے سیاستدانوں نے بار بار سہا تھا... لیکن غائب ہونے، پرچے کٹنے، پری پول دھاندلی اور جبر کے دیگر اسالیب میں تخت لاہور کے وارثوں نے ابھی تک حصہ ملایا ہی نہیں تھا۔

پنجاب کے میدان گیارہ کروڑ انسانوں کا مسکن ہیں۔ جغرافیائی پوزیشن بھی مرکزی ہے۔ تعلیم کی بھی کمی نہیں۔ وسائل کی بھی فراوانی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی بھی بکثرت ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو کھیل سے یوں آؤٹ کرنا آسان نہیں جیسے بلوچ قوم پرستوں یا پشتون قوم پرستوں کو کیا گیا۔ چنانچہ جیسے یہ اب ہر طاقت کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں، انتخابات میں بھی دیں گے۔


لیکن اہل پنجاب لیڈروں کو کندھوں پر بٹھانے کے حوالے سے بڑے سبز قدم واقع ہوئے ہیں۔ جس کے ساتھ مل کر دیگر قوتوں کو تنہا کرنے کی ٹھان لیں، اس بیچارے کے ساتھ اچھا نہیں ہوتا۔ لیاقت باغ کی زمین دو مرتبہ سرخ ہو چکی... بس اور کچھ نہیں لکھنا! اللہ احسن اقبال کو صحت عطا فرمائے!

پلیز مالکانِ تختِ لاہور! اصولوں پر سمجھوتہ نہ کیجیے لیکن سیاسی وِل کا مظاہرہ تو کریں! پہلے ہی آپ نے گلا پھاڑ پھاڑ کر ستر سال سے جاری سرد جنگ کو کھلی جنگ بنا دیا ہے، اب جلتی پر مزید تیل نہ ڈالیے۔ ایک تو آپ کے اپنے معاملات ٹھیک نہیں۔ قطر میں سیف الرحمٰن ہے تو مے فیئر میں اپارٹمنٹس... اگر ایک ٹکٹ میں دو مزے چاہیں تو دوبارہ اسی مرشد کی بیعت کرلیں جس کی کرامت سے آپ جم خانہ کے میدان سے مارگلہ کی پہاڑیوں تک پہنچے۔ لیکن اگر بیعت نہیں کرنی تو پھر آوازیں نیچی رکھیے ورنہ خونخوار درندے سراغ پا لیں گے!

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہ شیشہ گری کا


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story