وہیکل ایمنسٹی اسکیم سے پاکستانی آٹو انڈسٹری کو دھچکہ
پیداواری گنجائش بڑھانے اور لوکلائزیشن کیلیے ممکنہ سرمایہ کاری پر سوالیہ نشان لگ گیا۔
اسمگل شدہ نان ڈیوٹی پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن کے لیے ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم سے پاکستان کی آٹو انڈسٹری کو شدید دھچکہ پہنچا ہے اور اس شعبے میں پیداواری گنجائش بڑھانے اور لوکلائزیشن کے لیے ممکنہ سرمایہ کاری پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
پاکستان میں لوکل کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کو پہلے ہی استعمال شدہ کاروں کی بڑے پیمانے پر درآمد کے سبب دباؤ کا سامنا ہے، پیداواری لاگت میں اضافے کے باوجود زیادہ سے زیادہ لوکلائزیشن کے لیے کوشاں مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم غیرموافق پالیسیوں کا ایک اور سیاہ باب بن گئی ہے، ایمنسٹی اسکیم نے ملک میں گاڑیوں کی اسمگلنگ کے نئے ریکارڈ قائم کردیے، ایک ماہ کے دوران 50 ہزار 844 گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حکومت کو 16 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوا تاہم یہ ریونیو آٹو سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور مقامی سطح پر پرزہ جات کی تیاری کے لیے وینڈر انڈسٹری میں کی گئی سرمایہ کاری کو پہنچنے والے نقصان کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے۔
آٹو انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کی جانے والی گاڑیاں مقامی سطح پر تیار کیے جانے کی صورت میں 25 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کیا جاسکتا تھا، ساتھ ہی روزگار کے بھی نئے مواقع مہیا کیے جا سکتے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں کسی ایک نئے ماڈل کو تیار کرنے کے لیے کمپنیوں کو 5 سے 7 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔
ماڈل میں معمولی سی تبدیلی سے مقامی سطح پر باڈی فریم کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی ڈائز اور مولڈز بھی تبدیل کیے جاتے ہیں جن میں سے ہر پیس کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی ڈائی اور مولڈ کی مالیت 50 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت کلیئر کرائی گئی گاڑیوں کا بوجھ سرکاری خزانے کے ساتھ جو ایمنسٹی اسکیم سے کلیئر کرائی گئی گاڑیوں کے خریداروں کو بھی اٹھانا پڑے گا، ان گاڑیوں کے پرزہ جات مقامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں اور ہائی ٹیک پرزہ جات کی خرابی کی صورت میں مقامی سطح پر کوئی سروس سینٹر یا تکنیکی معاونت بھی میسر نہیں ہے جس سے گاڑیوں کے پرزہ جات کی اسمگلنگ کے رجحان میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
پاکستان میں لوکل کاریں تیار کرنے والی کمپنیوں کو پہلے ہی استعمال شدہ کاروں کی بڑے پیمانے پر درآمد کے سبب دباؤ کا سامنا ہے، پیداواری لاگت میں اضافے کے باوجود زیادہ سے زیادہ لوکلائزیشن کے لیے کوشاں مقامی آٹو انڈسٹری کے لیے ایف بی آر کی ایمنسٹی اسکیم غیرموافق پالیسیوں کا ایک اور سیاہ باب بن گئی ہے، ایمنسٹی اسکیم نے ملک میں گاڑیوں کی اسمگلنگ کے نئے ریکارڈ قائم کردیے، ایک ماہ کے دوران 50 ہزار 844 گاڑیوں کی رجسٹریشن سے حکومت کو 16 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوا تاہم یہ ریونیو آٹو سیکٹر میں کی جانے والی سرمایہ کاری اور مقامی سطح پر پرزہ جات کی تیاری کے لیے وینڈر انڈسٹری میں کی گئی سرمایہ کاری کو پہنچنے والے نقصان کے مقابلے میں انتہائی قلیل ہے۔
آٹو انڈسٹری کے ذرائع کے مطابق ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے ریگولرائز کی جانے والی گاڑیاں مقامی سطح پر تیار کیے جانے کی صورت میں 25 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس وصول کیا جاسکتا تھا، ساتھ ہی روزگار کے بھی نئے مواقع مہیا کیے جا سکتے تھے۔ ذرائع نے بتایا کہ پاکستان میں کسی ایک نئے ماڈل کو تیار کرنے کے لیے کمپنیوں کو 5 سے 7 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنا پڑتی ہے۔
ماڈل میں معمولی سی تبدیلی سے مقامی سطح پر باڈی فریم کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی ڈائز اور مولڈز بھی تبدیل کیے جاتے ہیں جن میں سے ہر پیس کی تیاری کے لیے استعمال ہونے والی ڈائی اور مولڈ کی مالیت 50 لاکھ روپے سے زائد بتائی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے تحت کلیئر کرائی گئی گاڑیوں کا بوجھ سرکاری خزانے کے ساتھ جو ایمنسٹی اسکیم سے کلیئر کرائی گئی گاڑیوں کے خریداروں کو بھی اٹھانا پڑے گا، ان گاڑیوں کے پرزہ جات مقامی سطح پر دستیاب نہیں ہیں اور ہائی ٹیک پرزہ جات کی خرابی کی صورت میں مقامی سطح پر کوئی سروس سینٹر یا تکنیکی معاونت بھی میسر نہیں ہے جس سے گاڑیوں کے پرزہ جات کی اسمگلنگ کے رجحان میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔