سیاسی مچھر
ایم کیو ایم کے کئی ٹکڑے ہوئے اور ان ٹکڑوں کو جوڑا بھی گیا ، مگر ٹوٹتے سمے جوکرچیاں پھیلائی گئیں
ہمارے گھر میں مچھر، لال بیگ، کٹھمل اور چھپکلی کوگھومنے پھرنے اور اپنی پسند کے مطابق پیٹ بھرنے کی مکمل آزادی ہے، لیکن یہ آزادی بیوی کو ایک آنکھ نہیں بھاتی اس لیے کہ وہ ضرورت سے زیادہ صفائی پسند ہیں اور ان کے بقول میں ضرورت سے زیادہ گندا ہوں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیڑے مکوڑے اور حشرات الارض وہیں قیام کرتے ہیں جہاں انھیں پسندیدہ ماحول میسر آتا ہے۔
اگر آپ بچا بچایا باسی کھانا ، دودھ ، دہی اور دیگر اشیائے خورونوش اپنے اپنے ٹھکانے تک نہ پہنچائیں تو مچھر اور مکھیاں جمع ہوکر آپ کے لیے بیماریوں کا موجب تو بنیں گی۔ خاتون خانہ کی رائے درست، مگر میرا موقف یہ ہے کہ مکھیوں اور مچھروں سے پر قاتلانہ حملے اور احمقانہ داؤ پیچ استعمال کرنے کے بجائے اگر حفظ ماتقدم کے طور پرکچن، واش روم اور کمرے میں دوائیوں کا چھڑکاؤکردیا جائے، دروازوں،کھڑکیوں اور روشن دانوں پر جالیاں لگا دی جائیں توکیڑے مکوڑوں کی جان بھی محفوظ رہے اور ہمیں ان سے نجات حاصل کرنے کے لیے مختلف کرتب بھی نہ دکھانے پڑیں۔
جب سے نگران حکومت وجود میں آئی اور نئے الیکشن کی تیاریاں شروع ہوئی ہیں مختلف سیاسی پارٹیوں کے قائد اپنے اپنے طریقے اور استعداد کے مطابق اس مہم کا حصہ بن رہے ہیں ۔ یہ ملک کا واحد الیکشن ہے جس میں کچھ سیاست دان ٹی وی ٹاک شوزکے دوران آپ سے تم ، تم سے تو اور تو سے نسل ، ذات ، قبیلے اورگالیوں تک پہنچنے کے بعد تھپڑوں اورگھونسوں سے بھی آگے نکل گئے یہاں تک کہ ایک نجی ٹی وی چینل کو اپنے خبر نامے کے دوران سیاسی ٹاک شوکا ذکر کرتے ہوئے مغربی ٹی وی چینلز کی طرح اسکرین پر 18+ کے نشان کی طرح یہ Bug چلانا پڑا کہ '' بچے اسے نہ دیکھیں ۔''
ٹی وی کے ایسے ٹاک شوز تو اپنی جگہ جن پر چند مخصوص اور 'معزز 'سیاست دانوں یا ان کے نمایندوںکے علاوہ ایسے پڑھے لکھے تجزیہ کار بھی براجمان ہوتے ہیں جو تجزیے کے بجائے غالب کی طرفداری کا بھر پور پور ثبوت دیتے ہیں مگر اخبارات کا پیٹ اور ٹی وی کا منہ بھی ایسے ہی بیانات سے بھرا ہوتا ہے جن میں مختلف سیاست دان ایک دوسرے کی ذات پر حملے کرتے ہیں یا برا بھلا کہتے نظر آتے ہیں۔ اس کام کے لیے ملک کی تین بڑی پارٹیوں نے تو اپنے ترجمان مقررکر رکھے ہیں جو اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ مخالفین کسی موضوع پر منہ کھولیں اور ہم ان کے لتے لینے کے لیے فوراً پریس کانفرنس طلب کریں۔ زیادہ تر پارٹی ترجمان تو ایسے ہیں جو معاملات کو سلجھانے اور اختلافات کی آگ کو بجھانے کے بجائے اسے ذاتیات کے تیل سے بھڑکانے کی مزید کوشش کرتے ہیں۔
آصف زرداری ہمارے ملک کی مشہور شخصیت ہیں۔ ہمارے خیال میں وہ اس ملک کے صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نہ بھی ہوتے تب بھی اتنے ہی مشہور ہوتے جتنے اب ہیں۔ بالکل اس طرح جیسے ایک کاروباری شخص اس ملک کے صدر رہے نہ کسی بڑی پارٹی کے رہنما اس کے باوجود انھوں نے جب سے ملک کے'' غریب'' عوام کو رہائش کا بہترین وسیلہ فراہم کیا تب سے وہ اتنے ہی مشہور ہیں جتنا کوئی صدر یا وزیر اعظم ہو سکتا ہے۔ ہمیںاس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ موصوف جس محنت اور غریب پروری سے اپنا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں اس کے طفیل ایک دن اس ملک کی قسمت بدلنے کے لیے صدر یا وزیر اعظم بھی بنا دیے جائیں گے۔
ادھر بلاول بھٹو زرداری نے اپنے تازہ بیان میں کچھ سیاست دانوں کو سیاسی مچھر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ'' کچھ مچھروں نے سیاست پر حملہ کردیا ہے اور سندھ میں سیاسی مچھروں کی لائنیں لگ گئی ہیں ''ان کا اشارہ کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف ہوسکتا ہے اس لیے کہ پچھلے ایک آدھ سال کے دوران بہت ساری سیاسی پارٹیوں کے کار کنوں اور رہنماؤں نے سندھ کے دوسرے اہم شہروں کی طرح اس کے سب سے بڑے شہر کراچی کے عوام پر بھی اتنے حملے کیے کہ ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کو ملیریا زدہ کردیا۔ کسی کوکچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ سندھ میںکیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور کون سی پارٹی کس سوچ کی ترجمان ہے۔
ایم کیو ایم کے کئی ٹکڑے ہوئے اور ان ٹکڑوں کو جوڑا بھی گیا ، مگر ٹوٹتے سمے جوکرچیاں پھیلائی گئیں ، ان کے چبھنے سے یہاں کے شہریوں کے سیاسی پاؤں اور سوچ اب تک زخموں سے چور چور ہے۔ اس شیشے کو جوڑنے والے ماہرین کے ذہن میں یہ بات بھی نہ آئی کہ ٹوٹا ہوا شیشہ لاکھ جوڑا جائے وہ اپنی اصلی حالت میں نہیں آتا اور اس کی چاہے جتنی بھی کرچیاں کردی جائیں ان میں ایک ہی چہرہ دکھائی دیتا ہے۔
بلاول بھٹو کا اشارہ چاہے کسی بھی ''سیاسی مچھر'' کی جانب کیوں نہ ہو ہم تو یہی کہیں گے اس صوبے اور ملک کے بہت سارے علاقوں میں ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے کچھ نظریاتی دوستوں کے ساتھ مل کر جس سیاسی پارٹی کی بنیاد رکھی تھی ۔
اس کے دستر خوان سے ایسے لوگ کب کے اٹھ چکے ہیں جو کھاتے پیتے، اٹھتے بیٹھتے اور ایک دوسرے ملتے جلتے وقت صاف ستھرے سیاسی ماحول کا خیال ضرور رکھتے اور اس زبان و بیان اور انداز تخاطب سے بھی کافی حد تک دور رہتے جو اب مروج ہے لیکن اب وقت بہت بدل چکا ہے پارٹی میں شیخ رشید ، ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خان جیسے نظریاتی لوگ ہیں اور نہ ملک معراج خالد اور حنیف رامے جیسے پڑھے لکھے ارکان بچے ہیں ۔ بلاول کو عام سیاسی مچھروں کا گلہ کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ ان کے گھر کی کھڑکیاں، دروازے اور روشن دان اب بھی ایسی نظریاتی جالیوں سے ڈھکے ہوئے ہیں جو سیاسی مچھروں کو سندھ میں داخل ہو نے سے روک سکتی ہیں یا انھوںنے ایسی تمام جالیوں کوکاٹ کرسمندر میں پھینک دیا ہے۔