زیادہ حلقوں کا نقصان دہ انتخاب
عام انتخابات کے بعد ہر بار ملک میں کئی جگہوں سے منتخب ہونے والے نشستیں خالی کرتے ہیں
ایکسپریس نیوز کے پروگرام ایکسپرٹس میں سینئر تجزیہ کار نے عمران خان کے پانچ مختلف حلقوںسے انتخاب لڑنے کا فیصلہ سمجھ میں نہیں آتا پر جو ریمارکس دیے ہیں اس پر عمران خان ہی نہیں ایسے دوسرے امیدواروں پر بھی تنقید ہورہی ہے اور ایسے فیصلوں کو ملک اور خصوصاً الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لیے نقصان دہ قراردیا جارہاہے اور یہ عوام کے فیصلوں کی توہین بھی ہے جس کی سزا خود عمران خان 2013 میں اپنی چھوڑی ہوئی میانوالی اور پشاور کی نشستیں ہار کر بھگت چکے ہیں۔
1970 کے انتخابات میں پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے مختلف شہروں سے قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر انتخاب لڑا تھا اور وہ چار پر کامیاب اور ڈی آئی خان میں مولانا مفتی محمود کے مقابلے میں شکست کھاگئے تھے۔ بھٹو کی طرح عمران خان نے بھی کرشماتی مقبولیت حاصل کی اور 2013 میں وہ کئی جگہ سے کامیاب ہوئے تھے اور اپنی چھوڑی ہوئی نشستوں پر عمران خان پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب نہیں کراسکے تھے۔
بڑے سے بڑے رہنما کو بھی اپنی آبائی نشست پر ہارنے کا خدشہ رہتا ہے اس لیے وہ کسی اور ایک حلقہ سے بھی اگر الیکشن لڑے تو سمجھ میں آتا ہے مگر ایک قومی رہنما کا پانچ جگہوں سے الیکشن لڑنا واقعی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا وہ شکست سے خوفزدہ ہے اور کہیں نہ کہیں سے جیت جانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ شہباز شریف نے بھی 2013 میں متعدد قومی وصوبائی حلقوں میں کامیابی حاصل کی تھی اور بعد میں ایک صوبائی نشست پر وزیراعلیٰ بنے تھے، بعض رہنما اپنے ہی حلقے میں قومی کے ساتھ ساتھ صوبائی نشست پر انتخاب لڑ کر کبھی دونوں جگہ جیت اور کبھی ایک پر ہار جاتے ہیں تو یہ بھی عجیب لگتا ہے۔
چوہدری نثار گزشتہ الیکشن میں صوبائی نشست ہار گئے تھے، یہ بھی ہورہا ہے کہ کسی بڑے رہنما سے عام انتخابات میں ہارنے والا بعد میں بڑے رہنما کی خالی کی گئی نشست پر جیت جاتا ہے اور قومی رہنما کی اپنی ہی پارٹی کا امیدوار ہار جاتا ہے، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پہلے لوگ قومی رہنما کو خوشی خوشی ووٹ دیتے ہیں مگر بعد میں وہ رہنما جب اپنی نشست چھوڑ دیتا ہے تو اس کے ووٹر ناراض ہوکر اس کی پارٹی ہی کے امیدوار کو ووٹ نہ دے کر اپنی خفگی ظاہر کردیتے ہیں اور مایوس بھی ہوجاتے ہیں۔
کراچی سے اس بار کہا جارہا ہے کہ آیندہ وزیراعظم کراچی سے ہوگا، کیونکہ 3 بڑی پارٹیوں کے سربراہ شہباز شریف، عمران خان اور بلاول زرداری کراچی سے انتخاب لڑرہے ہیں، جب کہ بلاول زرداری صوبائی اسمبلی کا بھی انتخاب لڑ رہے ہیں، جو ظاہر کرتا ہے کہ انھوں نے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنا شاید اب چھوڑ دیا ہے اور وہ سندھ کی حکمرانی کے خواہاں ہیں۔ پیپلزپارٹی کی حالت 2008 والی نہیں، آصف زرداری صرف دعوے کررہے ہیں اور صرف ایک نشست پر انتخاب لڑرہے ہیں، جب کہ ملک میں اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہے، جن کے سربراہ کراچی سے انتخاب لڑرہے ہیں اور دونوں کا کراچی میں پہلی بار انتخاب لڑنا اور دونوں میں کسی کا وزیراعظم بننا ممکن بھی ہوا تو یہ بعید نہیں کہ دونوں کراچی کی نشست برقرار رکھیں اور کراچی سے منتخب وزیراعظم کہلائیں۔
عام انتخابات کے بعد ہر بار ملک میں کئی جگہوں سے منتخب ہونے والے نشستیں خالی کرتے ہیں، جہاں دوبارہ ضمنی انتخاب ہوتے ہیں، عام انتخاب ہارنے والے ہمیشہ الیکشن کمیشن پر الزامات لگاتے ہیں اور یہی الیکشن کمیشن مبینہ متنازعہ ہوکر بھی ضمنی انتخاب کراتا ہے، جس پر عوام کے ادا کیے ہوئے ٹیکسوں کے اربوں نہیں تو کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور رزلٹ مختلف نکلتے ہیں۔ کروڑوں روپے کے سرکاری اخراجات عوام کے دیے گئے ٹیکس کی رقم ضایع کرنے کے مترادف ہوتے ہیں اور کہاجاتا ہے کہ حکومتی پارٹی اکثر ضمنی انتخاب جیت جاتی ہے مگر ایسا اکثر نہیں ہوتا ہر جگہ حکومت ہی نہیں امیدوار بھی دیکھا جاتا ہے جو حکومت کے امیدواروں کو ہرا بھی دیتا ہے۔
ضمنی انتخابات سے ہمیشہ عوام اور الیکشن کمیشن کو ہی نقصان ہوتا ہے خالی ہونے والی نشستوںکے عوام کو دو تین ماہ بعد ہی پھر الیکشن کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے اس لیے عام طور پر عام انتخابات جیسی گہما گہمی نظر آتی مگر الیکشن کمیشن اور متعلقہ ضلعی انتظامیہ کو عام انتخابات جیسے ہی انتظامات کرنا پڑتے ہیں۔ حکومتی امیدوار سرکاری وسائل استعمال کرتا ہے اور حکومت اسے جتوانے کے لیے سرکاری اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے ضمنی انتخابات میں لوگ دلچسپی بھی نہیں لیتے اور ووٹ کم کاسٹ ہوتے ہیں۔
جعلی ووٹنگ زیادہ ہوتی ہے ضمنی الیکشن میں پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹروں کا رش نظر نہیں آتا مگر بیلٹ بکس بھرے ہوئے نکلتے ہیں اپوزیشن ہمیشہ حکومت پر دھاندلی کا الزام لگاتی ہے کروڑوں روپے ضایع اور جانی نقصان الگ ہوتا ہے جس کے ذمے دار زیادہ نشستوں پر جیتنے والے ہوتے ہیں مگر ضمنی الیکشن میں ان کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوتا اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کو نشستیں چھوڑنے والوں سے انتخابی اخراجات وصول کرنا چاہئیں یا ایک سے زائد نشستوں پر انتخاب لڑنے کی پابندی عاید کرنی چاہیے تاکہ اس فضول مشق کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔