معاشی بیانیہ عورت دشمنی پر مبنی
ہم نے خواتین کو گھروں میں بند کرکے رکھا ہے جس کا میں نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر بھی کیا تھا
عین اس وقت جب ہم بیلٹ باکس کی طرف جا رہے ہیں ۔ جب ہم جوشیلی تقریروں ، وعدوں اور اقرار ناموں کے چنگل میں ایک بار پھر پھسنے جا رہے ہیں، پھر ہمیں سہانے خواب دکھائے جا رہے ہیں ۔ ہماری معیشت کے پیرا میٹرزکچھ اور بتا رہے ہیں ۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر نے سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ جمع کروائی کہ گزشتہ مالی سال میں اس ملک سے اکاؤنٹس کے ذریعے سوا پندرہ ارب ڈالر باہر گئے ہیں ، یہ ہماری معشیت کا نیا زاویہ ہے ۔ ہوسکتا ہے یہ سلسلہ اسی طرح آگے بھی چلتا رہے اور ہوسکتا ہے کہ یہ معاملات صرف ایک سال کے ہوں اور آیندہ سالوں میں ایسا نہ ہو ۔
یہ تو صرف وہ ڈالر ہیں جو اس ملک سے ہاتھوں ہاتھ گئے ہیں ، مگر جو ہنڈی کے ذریعے گئے ہیں ،اس کا تو پتا لگانا اتنا آسان نہ ہوگا ، اگر ہماری undocumented معیشت کو خاطر میں لایا جائے جوکہ اتنی ہی بڑی معیشت ہے تو اتنے ہی ڈالر عین ممکن ہے، ہنڈی کے ذریعے بھی باہر گئے ہوں ۔ ہمارے پاس جو remittances سے پیسے آتے ہیں جوکہ documented بھی ہیں وہ لگ بھگ 20 ارب ڈالر کے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ undocumented یعنی ہنڈی کے ذریعے اتنے ہی اور ڈالر اس ملک میں آئے ہوں ۔ یوں کہیے کہ ڈالر پر بہت پریشر آگیا ہے یہ بات بآلاخر دنیا کے مشہور ریٹنگ ایجنسی Moody's کو بھی سمجھ آئی اور اس نے ہماری Credit Rating مثبت سے منفی کر دی ۔ ہمیں بہت سال لگے تھے یہrating منفی سے مثبت کرنے میں اور پھر ایک بار ہم یہ ratingگنوا بیٹھے ہیں ۔
بلآخر ڈالر نے وہ دوڑ لگائی کہ 125 روپے کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ہمارا روپیہ پہلے ہی over valued تھا۔ اس میں corrections کی ضرورت تھی مگر میاں صاحب کی حکومت یہ کام کرنے سے کترا رہی تھی ۔ جب نیب انکوائری شروع ہوئی ، اسٹیٹ بینک کے سابقہ گورنر جو اسحق ڈار یعنی سابق وزیر خزانہ کے لنگوٹیا یار تھے وہ انکوائری کے زد میں آگئے ۔ جب قائم مقام اسٹیٹ بینک گورنر آئے تو انھوں نے ڈالرکا انٹر بینک ریٹ روپے کی نسبت بڑھا دیا۔ ڈار صاحب برہم ہوئے اور یہ کہا کہ ہمارے بیرونی قرضہ جات روپوں کے حساب سے 360 ارب روپے بڑھ گئے ہیں ۔
ایک انکوائری بھی ہوئی، قائم مقام گورنر کے خلاف کے جیسے انھوں نے یہ کام کرکے کوئی ملک کے مفادات سے غداری کی ہو، جب کہ یہ تخمینہ انتہائی احمقانہ ہے کہ بیرونی قرض روپوں میں بڑھ جائیں۔ کیونکہ بیرونی قرض جب ہمیں ڈالر میں یا فارن کرنسی میں دیا جاتا ہے تو اس کا روپوں سے کیا تعلق۔ آپ ڈالر چھاپ نہیں سکتے اور ان کو قرض کی واپسی روپے میں نہیں اسی کرنسی میں چاہیے جس کرنسی میں وہ لیے گئے تھے۔ لیکن ڈار صاحب کی بات لوگوں کو صحیح لگی ہوگی اور یقینا معاشیات کے طالبعلم کو بری۔ ڈالر کو اپنی حیثیت میں نہ لانے سے بلاخر یہ صورتحال پیدا ہوئی کے ایک دم ڈالر بڑھ گیا یہ کام آہستہ آہستہ کیا جاتا تو آج ڈالر پر اتنا پریشر نہیں آتا۔ یہی ہوا تھا جب ایٹمی دھماکہ ہوا تھا۔ ہم نے مجبوراً ساری فارن کرنسی کے اکاؤنٹ منجمد کردیے لیکن یہ کام ہندوستان کو نہیں کرنا پڑا ۔
ہماے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے جو long term بیرونی قرضے تھے وہ کل قرضوں کی نسبت کم ہوئے ہیں اور جو ہمارے short term بیرونی قرضے ہیں وہ بڑھ رہے ہیں۔ یعنی ہمیں آنیوالے دنوں میں اور بھی تیزی سے ان قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اور یوں ڈالر پر اور بھی پریشر ہوگا۔ ہمارے پاس کالے دھن کی بہتات ہے ۔ نیا قانون پاس کر کے ہم نے کالے دھن کو سفید کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی مدت 30 جون تک ختم ہورہی ہے۔ اس سے لگ بھگ 21 ارب روپے ٹیکس کی مد میں اور آئیں گے جو کہ اتنی خاص بات نہیں۔ یوں کہیے کہ یہ اسکیم اتنی کامیاب نہیں گئی ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ پچھلے سال میں جو تیزی سے ڈالر کا باہر جانا تھا وہ یہ بتاتا ہے کہ ہماری معیشت کتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔
پچھلے سال NAB اور FBR بہت متحرک ہوئے۔ ایک اصول کے اعتبار سے یہ کام صحیح بھی تھا مگر جس طرح سوموٹوز کے ذریعے سپریم کورٹ حرکت میں آئی وہ شاید business man یا کارپوریٹ دنیا کو زیادہ بہتر اور ٹھیک لگی۔ اب تو non-filer کچھ بھی نہیں کرسکتا نہ جائیداد خرید کرسکتا ہے نہ گاڑی اور یہ قدم بھی اصولی طور پر صحیح ہے ۔ مگر ان ساری باتوں نے کارپوریٹ ورلڈ میں افراتفری کو جنم دیا اگر ہم اس کا پڑوسی ملکوںکیساتھ تجزیہ کریں تو ہماری cost of production ویسے ہی بہت زیادہ ہے۔
اب ہمارے حکمرانوں کو چین کا راستہ نظر آیا۔ہم چین کے عام بینکوں سے short term قرضے لینے لگے ہیں اور short term قرضے long term کے استعمال کے لیے ہیں۔ ایسے کام تو جواری لوگ کر تے ہیں جو کہ ہماری قوم کے financial مینیجر کر رہے ہیں۔ اس سے اور کچھ نہیں ہوگا۔ جب آپ قرضہ واپس کرنے کے قابل نہ ہوں گے تو پھر مجبوراً ہمیں گوادر90 سال کے لیے چین کو lease پر دینا پڑ جائیگا۔ جس طرح سری لنکا نے اپنا سب سے بڑا پورٹ چین کو 90 سال کے لیے lease پر دے دیا۔
ان تمام مسائل کا حل short term نہیں بلکہ long term ہے۔ وہ بھی اگر ابھی سے ہوش کے ناخن لیں تو ۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے اداروں کی کارکردگی صحیح نہیں ۔ ہمارے سیاسی رہنما گرین بس ، اورینج ٹرین جیسے پروجیکٹس کو لانچ کر کے یہ سمجھ رہے ہیں یا سمجھا رہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہوں پر ہے ۔ ہمارا ایکسپورٹ تب بڑھے گا جب ہم لوگوں میں invest کریں گے۔
ہم نے خواتین کو گھروں میں بند کرکے رکھا ہے جس کا میں نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر بھی کیا تھا۔ یعنی ہماری معیشت ایک ٹانگ پر کھڑی ہے اور یہی بات تازہ IMF کی رپورٹ بھی پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہمارا ایکسپورٹ کچھ مخصوص چیزوں پر نہیں بلکہ diversifide ہو جس طرح کہ بنگلہ دیش میں ہے۔ ہمیں لوگوں کے skills کو بہتر بنانے کے لیے معاشرے کو transform کرنا ہوگا، مگر ہمارے سندھی وڈیرے کی خواہش یہی ہے کہ سندھ کے لوگ transform نہ ہوں کیونکہ وہ آزاد ہوجائیں گے اگر ان کے پاس ہنر ہوگا تو صنعت میں بہتری آئے گی ، کاروبار ہوگا توان کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور لوگ ان کو ووٹ دینا چھوڑ دیں گے۔یہی بات بلوچستان کے سردارکو بھاتی ہے اور ساؤتھ پنجاب کے سرداروں کو بھی ۔جیسا کہ آج سینٹرل پنجاب میں ہورہا ہے کہ وہاں ہنر مند لوگ زیادہ ہیں۔ وہاں مڈل کلاس مضبوط اور ابھرتی کلاس ہے اس لیے سیاسی بیانیہ بھی مختلف ہے۔
جوں جوں پاکستان اس electable کی سیاست سے آزاد ہوگا تو ہنر مند لوگ بڑھیں گے اور یہ ہنر مند لوگ ہماری remittances کے ضامن ہونگے اور اس طرح ہم ڈالر کمائیں گے۔ ہمارے قرضہ جات کی ادائیگی میں کوئی خطرناک بحران نہیں آئے گا۔ ہمارے balance of payments میں توازن رہے گا جو اقدام ہم پاکستان کی معشیت کو ڈاکومنٹ کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن جو کام ہم سیاسی ایجنڈے کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں ، انفراسٹرکچر کے نام پر نئے نئے پروجیکٹس لاکر ان میں کمیشن لے کر ، وہ پیسے روپے میں لے کر اور اس کو ڈالر میں convert کر کے باہر بھیجتے رہے ہیں یہ عمل ملکی معشیت کے لیے بہت برا خطرہ ہے ۔
اس وقت اس ملک میں اتنے مہنگے اور میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں یعنی اس وقت اس ملک میں چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس لانچ کرنے کی ضرورت ہے ، (HDI)Human Development Index کے حوالے سے انسانی زندگی کے معیارکو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہم بیس، اکیس کروڑ لوگوں پر مشتمل قوم ہیں ۔ جس میں بارہ کروڑ نوجوان نسل ہے۔ اس زاویے سے ہم دنیا کی نوجوان ترین قوم ہیں لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نوجوان نسل پر invest نہیں کرتے، ہم خواتین کی ترقی کے لیے invest نہیں کرتے اور ہمارا مجموعی بیانیہ عورت دشمنی ہے۔
یہ تو صرف وہ ڈالر ہیں جو اس ملک سے ہاتھوں ہاتھ گئے ہیں ، مگر جو ہنڈی کے ذریعے گئے ہیں ،اس کا تو پتا لگانا اتنا آسان نہ ہوگا ، اگر ہماری undocumented معیشت کو خاطر میں لایا جائے جوکہ اتنی ہی بڑی معیشت ہے تو اتنے ہی ڈالر عین ممکن ہے، ہنڈی کے ذریعے بھی باہر گئے ہوں ۔ ہمارے پاس جو remittances سے پیسے آتے ہیں جوکہ documented بھی ہیں وہ لگ بھگ 20 ارب ڈالر کے ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ undocumented یعنی ہنڈی کے ذریعے اتنے ہی اور ڈالر اس ملک میں آئے ہوں ۔ یوں کہیے کہ ڈالر پر بہت پریشر آگیا ہے یہ بات بآلاخر دنیا کے مشہور ریٹنگ ایجنسی Moody's کو بھی سمجھ آئی اور اس نے ہماری Credit Rating مثبت سے منفی کر دی ۔ ہمیں بہت سال لگے تھے یہrating منفی سے مثبت کرنے میں اور پھر ایک بار ہم یہ ratingگنوا بیٹھے ہیں ۔
بلآخر ڈالر نے وہ دوڑ لگائی کہ 125 روپے کے گرد گھوم رہا ہے ۔ ہمارا روپیہ پہلے ہی over valued تھا۔ اس میں corrections کی ضرورت تھی مگر میاں صاحب کی حکومت یہ کام کرنے سے کترا رہی تھی ۔ جب نیب انکوائری شروع ہوئی ، اسٹیٹ بینک کے سابقہ گورنر جو اسحق ڈار یعنی سابق وزیر خزانہ کے لنگوٹیا یار تھے وہ انکوائری کے زد میں آگئے ۔ جب قائم مقام اسٹیٹ بینک گورنر آئے تو انھوں نے ڈالرکا انٹر بینک ریٹ روپے کی نسبت بڑھا دیا۔ ڈار صاحب برہم ہوئے اور یہ کہا کہ ہمارے بیرونی قرضہ جات روپوں کے حساب سے 360 ارب روپے بڑھ گئے ہیں ۔
ایک انکوائری بھی ہوئی، قائم مقام گورنر کے خلاف کے جیسے انھوں نے یہ کام کرکے کوئی ملک کے مفادات سے غداری کی ہو، جب کہ یہ تخمینہ انتہائی احمقانہ ہے کہ بیرونی قرض روپوں میں بڑھ جائیں۔ کیونکہ بیرونی قرض جب ہمیں ڈالر میں یا فارن کرنسی میں دیا جاتا ہے تو اس کا روپوں سے کیا تعلق۔ آپ ڈالر چھاپ نہیں سکتے اور ان کو قرض کی واپسی روپے میں نہیں اسی کرنسی میں چاہیے جس کرنسی میں وہ لیے گئے تھے۔ لیکن ڈار صاحب کی بات لوگوں کو صحیح لگی ہوگی اور یقینا معاشیات کے طالبعلم کو بری۔ ڈالر کو اپنی حیثیت میں نہ لانے سے بلاخر یہ صورتحال پیدا ہوئی کے ایک دم ڈالر بڑھ گیا یہ کام آہستہ آہستہ کیا جاتا تو آج ڈالر پر اتنا پریشر نہیں آتا۔ یہی ہوا تھا جب ایٹمی دھماکہ ہوا تھا۔ ہم نے مجبوراً ساری فارن کرنسی کے اکاؤنٹ منجمد کردیے لیکن یہ کام ہندوستان کو نہیں کرنا پڑا ۔
ہماے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ ہمارے جو long term بیرونی قرضے تھے وہ کل قرضوں کی نسبت کم ہوئے ہیں اور جو ہمارے short term بیرونی قرضے ہیں وہ بڑھ رہے ہیں۔ یعنی ہمیں آنیوالے دنوں میں اور بھی تیزی سے ان قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ اور یوں ڈالر پر اور بھی پریشر ہوگا۔ ہمارے پاس کالے دھن کی بہتات ہے ۔ نیا قانون پاس کر کے ہم نے کالے دھن کو سفید کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس کی مدت 30 جون تک ختم ہورہی ہے۔ اس سے لگ بھگ 21 ارب روپے ٹیکس کی مد میں اور آئیں گے جو کہ اتنی خاص بات نہیں۔ یوں کہیے کہ یہ اسکیم اتنی کامیاب نہیں گئی ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ پچھلے سال میں جو تیزی سے ڈالر کا باہر جانا تھا وہ یہ بتاتا ہے کہ ہماری معیشت کتنی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہے۔
پچھلے سال NAB اور FBR بہت متحرک ہوئے۔ ایک اصول کے اعتبار سے یہ کام صحیح بھی تھا مگر جس طرح سوموٹوز کے ذریعے سپریم کورٹ حرکت میں آئی وہ شاید business man یا کارپوریٹ دنیا کو زیادہ بہتر اور ٹھیک لگی۔ اب تو non-filer کچھ بھی نہیں کرسکتا نہ جائیداد خرید کرسکتا ہے نہ گاڑی اور یہ قدم بھی اصولی طور پر صحیح ہے ۔ مگر ان ساری باتوں نے کارپوریٹ ورلڈ میں افراتفری کو جنم دیا اگر ہم اس کا پڑوسی ملکوںکیساتھ تجزیہ کریں تو ہماری cost of production ویسے ہی بہت زیادہ ہے۔
اب ہمارے حکمرانوں کو چین کا راستہ نظر آیا۔ہم چین کے عام بینکوں سے short term قرضے لینے لگے ہیں اور short term قرضے long term کے استعمال کے لیے ہیں۔ ایسے کام تو جواری لوگ کر تے ہیں جو کہ ہماری قوم کے financial مینیجر کر رہے ہیں۔ اس سے اور کچھ نہیں ہوگا۔ جب آپ قرضہ واپس کرنے کے قابل نہ ہوں گے تو پھر مجبوراً ہمیں گوادر90 سال کے لیے چین کو lease پر دینا پڑ جائیگا۔ جس طرح سری لنکا نے اپنا سب سے بڑا پورٹ چین کو 90 سال کے لیے lease پر دے دیا۔
ان تمام مسائل کا حل short term نہیں بلکہ long term ہے۔ وہ بھی اگر ابھی سے ہوش کے ناخن لیں تو ۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے اداروں کی کارکردگی صحیح نہیں ۔ ہمارے سیاسی رہنما گرین بس ، اورینج ٹرین جیسے پروجیکٹس کو لانچ کر کے یہ سمجھ رہے ہیں یا سمجھا رہے ہیں کہ ملک ترقی کی راہوں پر ہے ۔ ہمارا ایکسپورٹ تب بڑھے گا جب ہم لوگوں میں invest کریں گے۔
ہم نے خواتین کو گھروں میں بند کرکے رکھا ہے جس کا میں نے اپنے پچھلے کالم میں ذکر بھی کیا تھا۔ یعنی ہماری معیشت ایک ٹانگ پر کھڑی ہے اور یہی بات تازہ IMF کی رپورٹ بھی پیش کرتی ہے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہمارا ایکسپورٹ کچھ مخصوص چیزوں پر نہیں بلکہ diversifide ہو جس طرح کہ بنگلہ دیش میں ہے۔ ہمیں لوگوں کے skills کو بہتر بنانے کے لیے معاشرے کو transform کرنا ہوگا، مگر ہمارے سندھی وڈیرے کی خواہش یہی ہے کہ سندھ کے لوگ transform نہ ہوں کیونکہ وہ آزاد ہوجائیں گے اگر ان کے پاس ہنر ہوگا تو صنعت میں بہتری آئے گی ، کاروبار ہوگا توان کا معیار زندگی بہتر ہوگا اور لوگ ان کو ووٹ دینا چھوڑ دیں گے۔یہی بات بلوچستان کے سردارکو بھاتی ہے اور ساؤتھ پنجاب کے سرداروں کو بھی ۔جیسا کہ آج سینٹرل پنجاب میں ہورہا ہے کہ وہاں ہنر مند لوگ زیادہ ہیں۔ وہاں مڈل کلاس مضبوط اور ابھرتی کلاس ہے اس لیے سیاسی بیانیہ بھی مختلف ہے۔
جوں جوں پاکستان اس electable کی سیاست سے آزاد ہوگا تو ہنر مند لوگ بڑھیں گے اور یہ ہنر مند لوگ ہماری remittances کے ضامن ہونگے اور اس طرح ہم ڈالر کمائیں گے۔ ہمارے قرضہ جات کی ادائیگی میں کوئی خطرناک بحران نہیں آئے گا۔ ہمارے balance of payments میں توازن رہے گا جو اقدام ہم پاکستان کی معشیت کو ڈاکومنٹ کرنے کے لیے اٹھا رہے ہیں وہ ٹھیک ہیں۔ لیکن جو کام ہم سیاسی ایجنڈے کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں ، انفراسٹرکچر کے نام پر نئے نئے پروجیکٹس لاکر ان میں کمیشن لے کر ، وہ پیسے روپے میں لے کر اور اس کو ڈالر میں convert کر کے باہر بھیجتے رہے ہیں یہ عمل ملکی معشیت کے لیے بہت برا خطرہ ہے ۔
اس وقت اس ملک میں اتنے مہنگے اور میگا پراجیکٹس کی ضرورت نہیں یعنی اس وقت اس ملک میں چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس لانچ کرنے کی ضرورت ہے ، (HDI)Human Development Index کے حوالے سے انسانی زندگی کے معیارکو بہتر بنانے کی ضرورت ہے ۔ ہم بیس، اکیس کروڑ لوگوں پر مشتمل قوم ہیں ۔ جس میں بارہ کروڑ نوجوان نسل ہے۔ اس زاویے سے ہم دنیا کی نوجوان ترین قوم ہیں لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ ہم نوجوان نسل پر invest نہیں کرتے، ہم خواتین کی ترقی کے لیے invest نہیں کرتے اور ہمارا مجموعی بیانیہ عورت دشمنی ہے۔