ایف بی آر پر ٹیکس ایمنسٹی اسکیم میں ترامیم کا الزام اعتماد کو ٹھیس پہنچائی گئی بزنس کمیونٹی
پارلیمنٹ نے10اپریل2018 سے قبل کے اثاثوں کیلیے اسکیم دی،ایف بی آرنے جون 2017 تک محدودکردی
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ( کے سی سی آئی ) کے صدر مفسر عطا ملک نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو( ایف بی آر) کی جانب سے رواں مالی سال کی آمدنی کو ایمنسٹی اسکیم سے نکالنے اور بیرون ملک اثاثوں کا تخمینہ لگانے کے فارمولے میں تبدیلی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان دونوں اقدامات کی وجہ سے ایسے افراد کا اعتماد بری طرح متاثر ہوا ہے جو اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے خواہش مند تھے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ ان اقدامات کی وجہ سے ان افرادمیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کرنے کا بھی خوف پیدا ہوگیا ہے جو ان اسکیموں کے تحت اپنے اثاثے ظاہر کرچکے ہیں۔ مفسر عطا ملک نے چیف جسٹس پاکستان، نگراں وزیر اعظم اوروزیر خزانہ سے ایف بی آر کے ان غیر قانونی اقدامات کا فوری نوٹس لینے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ان غیرقانونی اقدامات کا اطلاق ایمنسٹی اسکیم پر اخباری اعلامیہ جاری کرکے اور اکثر پوچھے گئے سوالات (ایف اے کیوز) کے جوابات کی شکل میں ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی اسکیم کی میعاد ختم ہونے میں صرف 4 دن باقی رہ گئے ہیں اور ایسے حالات میں ایف بی آر کی وضاحتوں اور اپنے مفاد کے فیصلے نہ صرف ایمنسٹی اسکیم کیلیے تباہ کن ثابت ہوں گے بلکہ ملک کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے حالانکہ ملک کو ایمنسٹی اسکیم کے تحت آنے والے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ غیر ملکی و مقامی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیموں میں 2 نئی وضاحتوں کے برے نتائج برآمد ہوں گے جس کے نتیجے میں لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی جنہوں نے 1ماہ انتظار کے بعد اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا شروع ہی کیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کا فیصلہ جس میں یکم جولائی 2017سے لے کر9اپریل 2018کے دوران کمائی گئی آمدنی کو اس اسکیم سے نکالنا پارلیمنٹ کے والنٹری ڈیکلریشن آف ڈومیسٹک ایسٹس ایکٹ 2018 کی خلاف ورزی ہے جس میںواضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کی روح کے مطابق کوئی بھی شخص ایف بی آر کو اپنے غیرظاہر شدہ مقامی اثاثے جو 10اپریل 2018سے قبل حاصل کیے گئے ہوں وہ ظاہر کرسکتا ہے جبکہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کیلیے اس سے منع کردیا ہے۔
مفسر ملک نے نشاندہی کی کہ یہ مایوس کن عمل ہے کہ ایف بی آر نے ایک اور وضاحت جاری کی جس کے مطابق غیرملکی اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ اسٹیٹ بینک ڈیکلیریشن جمع کرانے کی تاریخ کے ایکس چینج ریٹ کے مطابق کرے گا جس کی وجہ سے ایسے اثاثے جو کئی سال پہلے خریدے گئے ان کی ویلیو میں اضافہ ہوجائیگا، ان وضاحتوں کے اطلاق سے مقامی و غیر ملکی اثاثوں پر لاگو ٹیکس ریٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ ریٹ سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں اس اسکیم کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کم از کم 2 ہفتوں سے 1ماہ تک بڑھانے کا ہی راستہ رہ جاتا ہے جبکہ ایف بی آر اس سلسلے میں تفصیلی وضاحت جس میں تاجربرادری کے تمام تر تحفظات کا جواب دیا جائے اسے جلد از جلد جاری کرے اور ریونیو بورڈ سختی سے پارلیمنٹ سے منظور کی گئی ایمنسٹی اسکیم کی اصل حالت کو متاثر نہ ہونے دے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ ان اقدامات کی وجہ سے ان افرادمیں ٹیکس حکام کی جانب سے ہراساں کرنے کا بھی خوف پیدا ہوگیا ہے جو ان اسکیموں کے تحت اپنے اثاثے ظاہر کرچکے ہیں۔ مفسر عطا ملک نے چیف جسٹس پاکستان، نگراں وزیر اعظم اوروزیر خزانہ سے ایف بی آر کے ان غیر قانونی اقدامات کا فوری نوٹس لینے پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ان غیرقانونی اقدامات کا اطلاق ایمنسٹی اسکیم پر اخباری اعلامیہ جاری کرکے اور اکثر پوچھے گئے سوالات (ایف اے کیوز) کے جوابات کی شکل میں ایف بی آر اور اسٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا ہے۔
ایمنسٹی اسکیم کی میعاد ختم ہونے میں صرف 4 دن باقی رہ گئے ہیں اور ایسے حالات میں ایف بی آر کی وضاحتوں اور اپنے مفاد کے فیصلے نہ صرف ایمنسٹی اسکیم کیلیے تباہ کن ثابت ہوں گے بلکہ ملک کی معیشت پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے حالانکہ ملک کو ایمنسٹی اسکیم کے تحت آنے والے فنڈز کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ غیر ملکی و مقامی اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیموں میں 2 نئی وضاحتوں کے برے نتائج برآمد ہوں گے جس کے نتیجے میں لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی جنہوں نے 1ماہ انتظار کے بعد اس اسکیم سے فائدہ اٹھانا شروع ہی کیا تھا۔
انہوں نے کہاکہ ایف بی آر کا فیصلہ جس میں یکم جولائی 2017سے لے کر9اپریل 2018کے دوران کمائی گئی آمدنی کو اس اسکیم سے نکالنا پارلیمنٹ کے والنٹری ڈیکلریشن آف ڈومیسٹک ایسٹس ایکٹ 2018 کی خلاف ورزی ہے جس میںواضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کی روح کے مطابق کوئی بھی شخص ایف بی آر کو اپنے غیرظاہر شدہ مقامی اثاثے جو 10اپریل 2018سے قبل حاصل کیے گئے ہوں وہ ظاہر کرسکتا ہے جبکہ ایف بی آر نے رواں مالی سال کیلیے اس سے منع کردیا ہے۔
مفسر ملک نے نشاندہی کی کہ یہ مایوس کن عمل ہے کہ ایف بی آر نے ایک اور وضاحت جاری کی جس کے مطابق غیرملکی اثاثوں کی مالیت کا تخمینہ اسٹیٹ بینک ڈیکلیریشن جمع کرانے کی تاریخ کے ایکس چینج ریٹ کے مطابق کرے گا جس کی وجہ سے ایسے اثاثے جو کئی سال پہلے خریدے گئے ان کی ویلیو میں اضافہ ہوجائیگا، ان وضاحتوں کے اطلاق سے مقامی و غیر ملکی اثاثوں پر لاگو ٹیکس ریٹ پارلیمنٹ کے منظور کردہ ریٹ سے کئی گنا زیادہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں اس اسکیم کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کم از کم 2 ہفتوں سے 1ماہ تک بڑھانے کا ہی راستہ رہ جاتا ہے جبکہ ایف بی آر اس سلسلے میں تفصیلی وضاحت جس میں تاجربرادری کے تمام تر تحفظات کا جواب دیا جائے اسے جلد از جلد جاری کرے اور ریونیو بورڈ سختی سے پارلیمنٹ سے منظور کی گئی ایمنسٹی اسکیم کی اصل حالت کو متاثر نہ ہونے دے۔