میرے وطن کے ’’بیمار سیاستدان ‘‘
نوازشریف دل کے چار بائی پاس آپریشن کرا چکے ہیں، اب گردے میں پتھری بھی سامنے آگئی
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ہشاش بشاش اور چلتے پھرتے کی ویڈیو دیکھ کر کالم لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ موصوف کئی ماہ سے لندن میں مقیم ہیں،عدالتوں نے انھیں کئی بارطلب کیا ہے تاہم اسحاق ڈار بیماری کا عذر پیش کرکے پاکستانی عدالتوں میںپیش نہیں ہو ئے اور نت نئے سرٹیفیکیٹ جمع کرو دیتے ہیں۔ اسی دوران وہ سینیٹر بھی منتخب ہوجاتے ہیں۔ شمالی کوریا کے قائد اول کم ال سنگ کی مثال لے لیں جنھیں 1981ء میں گردن کی ہڈی پر ایک بڑا ٹیومر نکل آیا جسے انھوں نے اپنی قوم سے چھپائے رکھا اور حتی المقدور کوشش کی کہ وہ گردن کو کسی نہ کسی طرح کیمرے کی آنکھ سے بچائے رکھیں، عوام کو اس بیماری کا 1994ء کو علم ہوا جب اُن کا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال ہوا۔ جان ایف کینیڈی کی مثال سب کے سامنے ہے جنھیں امریکی صدارت کے دوران علم ہوا کہ وہ Addison's Disease نامی بیماری میں مبتلا ہیں۔
جان ایف کینیڈی نے اس بیماری کو عوام کے سامنے نہ لائے تاکہ اُن کا ضمیر انھیں ملامت نہ کرے وہ لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا چاہتے ہیں۔ امریکا کے ہی سابق صدر رونلڈ ریگن کی مثال دنیا کے سامنے ہے ۔ جو معمر ترین امریکی صدر بھی سمجھے جاتے ہیں 8سال تک وہ امریکا کے صدر رہے، انھیں یورن انفیکشن کی تکلیف دہ بیماری کی تشخیص بھی دوران صدارت ہوئی مگر انھوں نے اپنی قوم کے لیے جدوجہد جاری رکھی اور اس بیماری کو آڑے نہیں آنے دیا۔ اور نہ ہی قوم کے سامنے اس مرض کو رکھ کر ڈھنڈورا پیٹا پھر وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے پانچ برس بعد جب رونلڈ ریگن الزائمر بیماری میں مبتلا ہو گئے تب عوام کو علم ہوا کہ انھیں متعدد بیماریوں نے جکڑا ہوا تھا۔
لیکن افسوس ہے میرے وطن کے ''شیر سیاستدانوں'' پر کہ جب جب اُن سے حساب مانگا تب تب ہی ایسی ایسی بیماریوں کی تشخیص ہوئی کہ خدا کی پنا۔ حد تو یہ ہے کہ سیاسی لوگ تو شعبدہ بازی میں ماہر ہیں ہی، حیرانی ہے کہ فوج کا سابق سپہ سالار بھی ''بیمار'' ہے، وہ بھی اسوقت جب اسے یقین ہو گیا کہ شکنجہ تیار کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ چیف جسٹس نے انھیں ضمانت تک دے دی کہ انھیں گرفتار نہیں کیا جائے گا مگر بیماری ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔
سوال یہ ہے کہ ان تمام مریضوں کو ، اگر کوئی یقین دلا دے کہ وہ اپنا کھیل کھل کر کھیلیں،کوئی گرفت نہیں ہو گی تو کل ہی سب کے سب ہٹے کٹے دکھائی دیں گے ۔ دل کی بیماری تو دو چار ماہ میں نہیں ہوتی۔ اسے ایک عرصہ لگتا ہے۔ وہ غرباء جن کے پاس وسائل نہیں ہوتے کہ چیک اپ کرا سکیں، ان کی بات مانی جا سکتی ہے کہ انھیں خبر ہونے تک بہت دیر ہو جاتی ہے۔ مگر ان سیاستدانوں کو تو نزلہ زکام پر بھی ڈاکٹروں کے پینل چیک کرنے بھاگے آجاتے ہیں۔ پھر ان سب کو بیماری سے بے خبری ناقابل فہم ہے۔ بقول مرزا غالب
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
نوازشریف دل کے چار بائی پاس آپریشن کرا چکے ہیں، اب گردے میں پتھری بھی سامنے آگئی۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ بے ضرر سی پتھری ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف بھی بیمار سے ہیں جنھیں ریڑھ کی ہڈی کا علاج کرانے کے لیے سال میں دو مرتبہ لندن جانا پڑتا ہے۔ سابق صدر آصف زرداری کو بھی دل کا مرض لاحق ہے۔
اسی طرح سا بق وزیر اعظم محمد خا ن جو نیجومرحوم کی بیماری بھی یاد ہوگی۔ سابق صدر آصف علی زرداری اپنے لیے ملکی حالات ناسازدیکھ کر ''علاج ''کے لیے بیرون ملک روانہ ہوجاتے ہیں اور پھر حالات اُن کے حق میں ہونے پر وہ واپس آجاتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے بانی ایک طویل عرصے سے بیرون ملک میں موجود ہیں جو اکثر قومی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے رہتے ہیں، یہاں کی عدالتوں میں وہ اکثر مطلوب ہوتے ہیں مگر ایک عرصے تک اُن کی بیماری کی رپورٹس جمع کروائی جاتی رہی ہیں۔
اسی روایت کو شرجیل میمن، ڈاکٹر عاصم سمیت کئی سیاستدانوں اور افسران نے برقراررکھا ہوا ہے جو قومی اداروں سے خود کو بچانے کے لیے بیرون ملک ''علاج'' کے لیے آنے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اکثر و بیشتر سیاستدان وطن واپسی پر اپنی ''بیماری'' کو عوام سے ہمدردی کے حصول کا ذریعہ بناتے رہے ہیں۔ انھی ابہامی کیفیات کی بدولت آج اگر کلثوم نواز حقیقت میں بیمار ہیں تو یہی وجہ ہے کہ لوگ یقین کرنے کو تیار نہیں اسی لیے طرح طرح کی باتیں بنائی جارہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ کلثوم نواز کی بیماری کو ن لیگ انتخابی مہم کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔
خیر ان باتوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے مگر یہ باتیں ہو کیوں رہی ہیں؟ یہ انھی اسحاق ڈار جیسے حب الوطن سیاستدانوں کی وجہ سے ہو رہی ہیں جو ملک کی معاشی لٹیا کو ڈبو کر خود دیار غیر میں مزے کی زندگی گزار رہا ہے اور عدالتوں میں نت نئے سرٹیفیکیٹ بنا کر جمع کروا رہا ہے۔ بہرکیف پاکستانی سیاستدان ہمیشہ اداروں کی پکڑ سے بچنے کے لیے بیماریوں کا بہانہ بناتے رہے ہیں۔ سیاستدانو ں کی بیما ر یا ں بھی سیا سی نو عیت کی ہو تی ہیں۔ میں تو بس یہی کہوں گا کہ اللہ اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جس قوم کو اپنی حالت خود بدلنے کی فکر نہ ہو! بس یہی دعا ہے کہ اللہ ان بیماروں کو مستقل ''شفاء'' دے دے۔