اور ہم لُٹ گئے
اس نے کہا موبائل دے۔ میں حیرت میں تھا کہ ووٹ سے بات موبائل تک کہاں آگئی؟
اس نے زور زور سے گاڑی کے شیشے پر ہاتھ مارنا شروع کردیا۔ میں سمجھا کوئی بھکاری ووٹ مانگنے آیا ہوگا، اس لیے اپنے دوست سے باتوں میں مصروف رہا۔ اور یہ ظاہر کرتا رہا کہ تیر چلے یا بلا گھومے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن اس نے شیشے پر ایک زوردار ہاتھ مارا اور چلاتے ہوئے کہا 'شیشہ نیچے کر ورنہ گولی مار دوں گا'۔ یقین مانیں اگر وہ گولی مارنے کا نہ کہتا تو میں یہ سمجھتا رہتا کہ یہ مکا شہباز شریف نے ووٹ کے لیے مارا ہوگا۔ اب میں اور میرا دوست اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بالکل اسی طرح جیسے عمران خان کی طرف سب لپک پڑے ہیں۔
میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ اس نے کہا موبائل دے۔ میں حیرت میں تھا کہ ووٹ سے بات موبائل تک کہاں آگئی؟ میں نے ایک نظر آگے کی جانب دیکھا، شاید وہ لوگ نظر آجائیں جو پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ ہم نے ٹنکی میں چھپا اسلحہ پکڑلیا۔ میرے آگے گاڑی کھڑی تھی اور ٹریفک سگنل بند تھا۔ ویسے ہی جیسے MQM والوں کے آگے مصطفیٰ کمال کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں نے فوراً سوچا کہ ہارن بجانا یا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ میں نے چھوٹا موبائل اس کے ہاتھ میں دے دیا اور سوچا کہ اس وقت متحدہ کی طرح تھوڑا بہت تحریک انصاف کو دے کر جان بچالی جائے۔
میں نے آج تک اتنی بار ووٹ نہیں دیا جتنی بار موبائل دیا ہے۔ اور یہ میرا ریکارڈ ہے کہ میرے پاس کوئی بھی موبائل دو سال سے زیادہ نہیں رہا۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ ہر سال الیکشن ہونے چاہئیں تاکہ ووٹ کی جیت ہوسکے۔ اس لیے پچھلے پانچ سال سے دو موبائل رکھتا ہوں، بالکل اسی طرح جیسے سیاست دان دو چہرے رکھتے ہیں۔ دینے کے لیے علحیدہ اور استعمال کے لیے الگ۔ ایک بالکل سستا سا موبائل اور دوسرا اپنی ای میل اور رابطوں کے لیے موبائل۔ ہر بار کی طرح میں نے سستا والا موبائل اس کے ہاتھ میں دیا، جیسے الیکشن کے دنوں میں سیاستدان گلی میں بلب لگا کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ میں سمجھا سیاستدان ہوگا، ووٹ پر ٹل جائے گا، لیکن وہ چلا کر کہنے لگا کہ شرافت سے بڑا موبائل دے ورنہ گولی مار دوں گا۔ پولیس اور رینجرز کراچی سے اتنی گولیاں پکڑ چکی ہے کہ میں سمجھ گیا کہ اس کے پاس گولی نہیں ہوگی۔ اتنی دیر میں سگنل کھل گیا اور میں نے گاڑی نکالنے کی کوشش کی۔ وہ شخص فوراً ہی بھاگ گیا۔
کراچی کے علاقے اختر کالونی کے اس سگنل پر کافی رش تھا۔ مجھ سے آگے ایک گاڑی کھڑی تھی اور اس سے آگے ٹریفک پولیس والا کھڑا تھا۔ کہنے کو کراچی میں بہت امن ہے لیکن تقریباً ہر سال ہی نیا موبائل لینا پڑجاتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کراچی والوں کے موبائل زیادہ چھنتے ہیں یا عمران خان زیادہ یوٹرن لیتے ہیں۔ سڑک کے دوسری طرف یعنی جہاں ہم سے موبائل چھینا گیا، اس کے ساتھ ہی پولیس کا تھانہ ہے، جیسے اسلام آباد کے ساتھ ہی پنڈی کا کوارٹر ہے۔ جہاں یہ واردات ہوئی اس کے اوپر چھ کیمرے لگے ہوئے ہیں، لیکن لگتا یوں ہے کہ ان کیمروں کی آنکھ آج کل صرف ٹکٹ کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ یہاں سے ہمارے آفس کا فاصلہ تین منٹ کی مسافت پر ہے۔ تو ہم فوراً آفس گئے اور وہاں کسی سے موبائل لے کر پہلے اپنی سم بند کرائی اور پھر ہم تھانے پہنچے۔ موبائل لٹ جانے، آفس آنے اور تھانے میں پہنچنے میں ہمیں کل 12 منٹ لگے۔
ہم نے سوچا کہ تھانے جانا چاہیے۔ ہائے رے قسمت، کوئی لاڑکانہ جاتا ہے، کوئی بنی گالہ، کوئی لندن اور ہماری قسمت میں لکھا ہے تھانہ۔ تھانے کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ تھی اور اس میں بہت سارے پولیس والے سادہ لباس میں بیٹھے 'پارٹی' کررہے تھے۔ کیونکہ انھیں بھی کہہ دیا گیا ہے کہ کون سی پارٹی کے جھنڈے کو نہیں روکنا ہے۔ گاڑی پارک کرکے دروازے کی جانب گئے تو ایک سپاہی بیٹھا ہوا تھا، اس نے ہم سے کچھ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اور میں سوچنے لگا کہ شاید ہماری پولیس اب یہ سمجھنے لگ گئی ہے کہ اب شہر میں کوئی خطرہ نہیں ہے، نیا پاکستان بن چکا ہے۔ اندر داخل ہوئے تو کوئی اہلکار نظر نہیں آیا۔ رپورٹ سیکشن میں گئے تو ٹیبل پر ایک رجسٹر پڑا تھا اور چھ کرسیاں خالی تھیں۔
میں سمجھا کہ شاید کوئی اہلکار ٹیبل کے نیچے کسی VIP کی حفاظت کر رہا ہو۔ لیکن کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم بغیر روک ٹوک اندر چلے گئے اور ایک لمحے کے لیے خود کو چیف سمجھنے لگے۔ رپورٹنگ سیکشن سے گزر کر گئے تو ایک شخص سلاخوں کے پیچھے موجود تھا۔ بہت کوشش کے باوجود اس کا چہرہ کسی سیاستدان سے نہیں مل رہا تھا۔ اتنی دیر میں ایک سپاہی آتا ہوا دکھائی دیا۔ ہم نے پوچھا کہ SHO صاحب ہیں، تو کہنے لگا نہیں وہ تو نہیں۔ میں نے پوچھا کہ رپورٹنگ میں کوئی بھی نہیں۔ تو کہنے لگے کہ آپ بیٹھیں کہیں گئے ہوں گے۔ ایک ASI صاحب ٹہلتے ہوئے تشریف لائے۔ ہم نے پوچھا کہ جناب یہاں تو کوئی بھی نہیں، ہم رپورٹ کہاں درج کرائیں۔ انھوں نے کہا کہ میں کسی صاحب کو یہاں بٹھا کر گیا تھا، پتہ نہیں کہا گیا۔
خیر ہم نے ان صاحب سے کہا کہ کچھ دیر پہلے تھانے سے 20 قدم دور ہمیں لوٹ لیا گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ سڑک کے کس طر ف ہوا۔ اگر سڑک کی دوسری طرف ہوا ہے تو ہماری حدود نہیں ہے۔ جب تک یہ کنفرم نہ ہوجائے کہ ہماری حدود ہے، ہم کوئی رپورٹ درج نہیں کرسکتے۔ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ پہلے وہ صاحب ہمارے ساتھ چل کر یہ دیکھیں گے کہ کارروائی ہماری حدود میں ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد کوئی کارروائی ہوگی۔ صاحب آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے اور چلنے لگے۔
انھیں تھانے سے نکلنے میں اتنی دیر لگی جتنی دیر میں ہم کوئی 20 اور موبائل دے چکے ہوتے۔ لگتا یوں تھا کہ تعارف کے بعد وہ شاید چلنے کے لیے تیار ہوئے، ورنہ ان کا پورا موڈ تھا کہ ہمیں چلتا کر دیتے۔ آہستہ آہستہ وہ چلتے ہوئے گاڑی تک آئے۔ اور ہم جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اوپر موجود کیمروں کی طرف دیکھا۔ ٹریفک پولیس والوں سے پوچھا اور کہا کہ بس چلیں۔ ہم بھی چپ چاپ اس کے ساتھ واپس تھانے آگئے۔ ایسے دھچکا لگا جیسے کسی نے تحریک انصاف کا ٹکٹ دے کر واپس لے لیا ہو۔
بڑی مشکل سے انھوں نے دو کاغذ تلاش کیے، اپنے ایک ساتھی سے کاربن پیپر لیا۔ پولیس والے کی رفتار اتنی ہی تیز تھی جتنی ہماری معیشت۔ اگر میرے ہاتھ میں ڈالر ہوتے تو شاید پولیس کو روپے کی قدر ہوتی، جو مجھے ہر سال موبائل پر لگانے پڑتے ہیں۔ اسی لیے تو ڈالر ہے کہ روکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اور پھر کاغذ میرے سامنے رکھ دیا گیا۔ کہا کہ اس میں وہ سب تحریر کردیجیے جو کچھ ہوا ہے۔ انھوں نے مجھے ریحام خان سمجھا ہوا تھا کہ میں وہ سب لکھ دوں جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے۔
اس سب میں ایک گھنٹہ گزر گیا اور پولیس والے نے یہ کہہ کر دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے کہ آپ نے ہمیں اطلاع دے دی اب ہم آیندہ خیال رکھیں گے۔ نہ ہی اس پورے میں کوئی کارروائی ہوئی، نہ ہی تلاش کرنے کی کوئی کوشش کی گئی۔ بلکہ پولیس والے نے ہر اس جگہ کے بارے میں مجھے بتا دیا جہاں جہاں اس نے پولیس والوں کو کھڑا کیا ہے۔
مگر جس جگہ میں لٹ گیا وہاں کسی کی ڈیوٹی نہیں لگائی۔ میری درخواست پر انھوں نے ایک مہر لگائی اور کہا کہ اگر DHA والوں نے ہمیں cctv کیمرے تک رسائی دے دی تو ہم دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ اب آپ خود سمجھدار ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ پولیس وہاں سے CCTV فوٹیج نکال سکے؟ موبائل اتنی بار جاچکا ہے کہ سارا عمل یاد ہوگیا ہے۔ جتنی دیر FIR میں لگی، اس سے کم وقت میں موبائل کی سم آگئی۔ جس جگہ ایمولینس سے پہلے پیزا آجائے، جہاں پولیس سے پہلے سم آگئی، جہاں ووٹ لینے سے پہلے حکومت آجائے۔ وہاں تھانے لوٹ کر لے جانے والے نہیں، ہم جیسے لٹ جانے والے لوگ ہی جاتے ہیں۔ اگلی بار ووٹ بھی دینا ہے اور موبائل بھی، سوچ رہا ہوں سستا کون پڑے گا۔
میں نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ اس نے کہا موبائل دے۔ میں حیرت میں تھا کہ ووٹ سے بات موبائل تک کہاں آگئی؟ میں نے ایک نظر آگے کی جانب دیکھا، شاید وہ لوگ نظر آجائیں جو پریس کانفرنس میں کہتے ہیں کہ ہم نے ٹنکی میں چھپا اسلحہ پکڑلیا۔ میرے آگے گاڑی کھڑی تھی اور ٹریفک سگنل بند تھا۔ ویسے ہی جیسے MQM والوں کے آگے مصطفیٰ کمال کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں نے فوراً سوچا کہ ہارن بجانا یا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ میں نے چھوٹا موبائل اس کے ہاتھ میں دے دیا اور سوچا کہ اس وقت متحدہ کی طرح تھوڑا بہت تحریک انصاف کو دے کر جان بچالی جائے۔
میں نے آج تک اتنی بار ووٹ نہیں دیا جتنی بار موبائل دیا ہے۔ اور یہ میرا ریکارڈ ہے کہ میرے پاس کوئی بھی موبائل دو سال سے زیادہ نہیں رہا۔ اس لیے میری خواہش ہے کہ ہر سال الیکشن ہونے چاہئیں تاکہ ووٹ کی جیت ہوسکے۔ اس لیے پچھلے پانچ سال سے دو موبائل رکھتا ہوں، بالکل اسی طرح جیسے سیاست دان دو چہرے رکھتے ہیں۔ دینے کے لیے علحیدہ اور استعمال کے لیے الگ۔ ایک بالکل سستا سا موبائل اور دوسرا اپنی ای میل اور رابطوں کے لیے موبائل۔ ہر بار کی طرح میں نے سستا والا موبائل اس کے ہاتھ میں دیا، جیسے الیکشن کے دنوں میں سیاستدان گلی میں بلب لگا کر جان چھڑا لیتے ہیں۔ میں سمجھا سیاستدان ہوگا، ووٹ پر ٹل جائے گا، لیکن وہ چلا کر کہنے لگا کہ شرافت سے بڑا موبائل دے ورنہ گولی مار دوں گا۔ پولیس اور رینجرز کراچی سے اتنی گولیاں پکڑ چکی ہے کہ میں سمجھ گیا کہ اس کے پاس گولی نہیں ہوگی۔ اتنی دیر میں سگنل کھل گیا اور میں نے گاڑی نکالنے کی کوشش کی۔ وہ شخص فوراً ہی بھاگ گیا۔
کراچی کے علاقے اختر کالونی کے اس سگنل پر کافی رش تھا۔ مجھ سے آگے ایک گاڑی کھڑی تھی اور اس سے آگے ٹریفک پولیس والا کھڑا تھا۔ کہنے کو کراچی میں بہت امن ہے لیکن تقریباً ہر سال ہی نیا موبائل لینا پڑجاتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ کراچی والوں کے موبائل زیادہ چھنتے ہیں یا عمران خان زیادہ یوٹرن لیتے ہیں۔ سڑک کے دوسری طرف یعنی جہاں ہم سے موبائل چھینا گیا، اس کے ساتھ ہی پولیس کا تھانہ ہے، جیسے اسلام آباد کے ساتھ ہی پنڈی کا کوارٹر ہے۔ جہاں یہ واردات ہوئی اس کے اوپر چھ کیمرے لگے ہوئے ہیں، لیکن لگتا یوں ہے کہ ان کیمروں کی آنکھ آج کل صرف ٹکٹ کے چکر میں پڑی ہوئی ہے۔ یہاں سے ہمارے آفس کا فاصلہ تین منٹ کی مسافت پر ہے۔ تو ہم فوراً آفس گئے اور وہاں کسی سے موبائل لے کر پہلے اپنی سم بند کرائی اور پھر ہم تھانے پہنچے۔ موبائل لٹ جانے، آفس آنے اور تھانے میں پہنچنے میں ہمیں کل 12 منٹ لگے۔
ہم نے سوچا کہ تھانے جانا چاہیے۔ ہائے رے قسمت، کوئی لاڑکانہ جاتا ہے، کوئی بنی گالہ، کوئی لندن اور ہماری قسمت میں لکھا ہے تھانہ۔ تھانے کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ تھی اور اس میں بہت سارے پولیس والے سادہ لباس میں بیٹھے 'پارٹی' کررہے تھے۔ کیونکہ انھیں بھی کہہ دیا گیا ہے کہ کون سی پارٹی کے جھنڈے کو نہیں روکنا ہے۔ گاڑی پارک کرکے دروازے کی جانب گئے تو ایک سپاہی بیٹھا ہوا تھا، اس نے ہم سے کچھ پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اور میں سوچنے لگا کہ شاید ہماری پولیس اب یہ سمجھنے لگ گئی ہے کہ اب شہر میں کوئی خطرہ نہیں ہے، نیا پاکستان بن چکا ہے۔ اندر داخل ہوئے تو کوئی اہلکار نظر نہیں آیا۔ رپورٹ سیکشن میں گئے تو ٹیبل پر ایک رجسٹر پڑا تھا اور چھ کرسیاں خالی تھیں۔
میں سمجھا کہ شاید کوئی اہلکار ٹیبل کے نیچے کسی VIP کی حفاظت کر رہا ہو۔ لیکن کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم بغیر روک ٹوک اندر چلے گئے اور ایک لمحے کے لیے خود کو چیف سمجھنے لگے۔ رپورٹنگ سیکشن سے گزر کر گئے تو ایک شخص سلاخوں کے پیچھے موجود تھا۔ بہت کوشش کے باوجود اس کا چہرہ کسی سیاستدان سے نہیں مل رہا تھا۔ اتنی دیر میں ایک سپاہی آتا ہوا دکھائی دیا۔ ہم نے پوچھا کہ SHO صاحب ہیں، تو کہنے لگا نہیں وہ تو نہیں۔ میں نے پوچھا کہ رپورٹنگ میں کوئی بھی نہیں۔ تو کہنے لگے کہ آپ بیٹھیں کہیں گئے ہوں گے۔ ایک ASI صاحب ٹہلتے ہوئے تشریف لائے۔ ہم نے پوچھا کہ جناب یہاں تو کوئی بھی نہیں، ہم رپورٹ کہاں درج کرائیں۔ انھوں نے کہا کہ میں کسی صاحب کو یہاں بٹھا کر گیا تھا، پتہ نہیں کہا گیا۔
خیر ہم نے ان صاحب سے کہا کہ کچھ دیر پہلے تھانے سے 20 قدم دور ہمیں لوٹ لیا گیا۔ انھوں نے پوچھا کہ سڑک کے کس طر ف ہوا۔ اگر سڑک کی دوسری طرف ہوا ہے تو ہماری حدود نہیں ہے۔ جب تک یہ کنفرم نہ ہوجائے کہ ہماری حدود ہے، ہم کوئی رپورٹ درج نہیں کرسکتے۔ اس کا حل یہ تلاش کیا گیا کہ پہلے وہ صاحب ہمارے ساتھ چل کر یہ دیکھیں گے کہ کارروائی ہماری حدود میں ہوئی ہے یا نہیں۔ اس کے بعد کوئی کارروائی ہوگی۔ صاحب آہستہ آہستہ کھڑے ہوئے اور چلنے لگے۔
انھیں تھانے سے نکلنے میں اتنی دیر لگی جتنی دیر میں ہم کوئی 20 اور موبائل دے چکے ہوتے۔ لگتا یوں تھا کہ تعارف کے بعد وہ شاید چلنے کے لیے تیار ہوئے، ورنہ ان کا پورا موڈ تھا کہ ہمیں چلتا کر دیتے۔ آہستہ آہستہ وہ چلتے ہوئے گاڑی تک آئے۔ اور ہم جائے وقوع پر پہنچ گئے۔ انھوں نے اوپر موجود کیمروں کی طرف دیکھا۔ ٹریفک پولیس والوں سے پوچھا اور کہا کہ بس چلیں۔ ہم بھی چپ چاپ اس کے ساتھ واپس تھانے آگئے۔ ایسے دھچکا لگا جیسے کسی نے تحریک انصاف کا ٹکٹ دے کر واپس لے لیا ہو۔
بڑی مشکل سے انھوں نے دو کاغذ تلاش کیے، اپنے ایک ساتھی سے کاربن پیپر لیا۔ پولیس والے کی رفتار اتنی ہی تیز تھی جتنی ہماری معیشت۔ اگر میرے ہاتھ میں ڈالر ہوتے تو شاید پولیس کو روپے کی قدر ہوتی، جو مجھے ہر سال موبائل پر لگانے پڑتے ہیں۔ اسی لیے تو ڈالر ہے کہ روکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اور پھر کاغذ میرے سامنے رکھ دیا گیا۔ کہا کہ اس میں وہ سب تحریر کردیجیے جو کچھ ہوا ہے۔ انھوں نے مجھے ریحام خان سمجھا ہوا تھا کہ میں وہ سب لکھ دوں جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے۔
اس سب میں ایک گھنٹہ گزر گیا اور پولیس والے نے یہ کہہ کر دل کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے کہ آپ نے ہمیں اطلاع دے دی اب ہم آیندہ خیال رکھیں گے۔ نہ ہی اس پورے میں کوئی کارروائی ہوئی، نہ ہی تلاش کرنے کی کوئی کوشش کی گئی۔ بلکہ پولیس والے نے ہر اس جگہ کے بارے میں مجھے بتا دیا جہاں جہاں اس نے پولیس والوں کو کھڑا کیا ہے۔
مگر جس جگہ میں لٹ گیا وہاں کسی کی ڈیوٹی نہیں لگائی۔ میری درخواست پر انھوں نے ایک مہر لگائی اور کہا کہ اگر DHA والوں نے ہمیں cctv کیمرے تک رسائی دے دی تو ہم دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ اب آپ خود سمجھدار ہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ پولیس وہاں سے CCTV فوٹیج نکال سکے؟ موبائل اتنی بار جاچکا ہے کہ سارا عمل یاد ہوگیا ہے۔ جتنی دیر FIR میں لگی، اس سے کم وقت میں موبائل کی سم آگئی۔ جس جگہ ایمولینس سے پہلے پیزا آجائے، جہاں پولیس سے پہلے سم آگئی، جہاں ووٹ لینے سے پہلے حکومت آجائے۔ وہاں تھانے لوٹ کر لے جانے والے نہیں، ہم جیسے لٹ جانے والے لوگ ہی جاتے ہیں۔ اگلی بار ووٹ بھی دینا ہے اور موبائل بھی، سوچ رہا ہوں سستا کون پڑے گا۔